جسٹس باقر پر حملے کی سازش سینٹرل جیل کراچی میں بنائے جانے کا انکشاف رینجرز کا آپریشن
جسٹس باقر پر حملے کے حوالے سے حساس اداروں نے ایک کال بھی ٹریس کی تھی، موبائل فونز کا ڈیٹا چیک ہورہا ہے۔
کراچی سینٹرل جیل میں رینجرز حکام نے جیل پولیس کو لاعلم رکھ کر 9 گھنٹے طویل سرچ آپریشن کیا، آپریشن کے دوران موبائل فون، ایم پی تھری پلیئر ، جہادی تنظیموں کا لٹریچر اور دیگر اشیا برآمد ہوئیں۔
ذرائع نے ایکسپریس کو مزید بتایا کہ جیل پولیس کو اگر پہلے سے مذکورہ آپریشن کے بارے میں بتادیا جاتا تو آپریشن کے ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہوسکتے تھے، آپریشن کو کامیاب اور بامقصد بنانے کی غرض سے ہی جیل پولیس کو لاعلم رکھا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن جسٹس مقبول باقر پر حملے کی تفتیش کی کڑی ہے۔ جیل کے اندر ایک مقام پر شک کی بنیاد پرکھدائی بھی کی گئی لیکن وہاں سے کچھ برآمد نہیں ہوا، بعض بیرکس میں قیدیوں نے مزاحمت بھی کی تاہم فوری طور پر صورتحال پر قابو پالیا گیا۔آپریشن ہفتے کی صبح 5 بجے شروع کیا گیا جوکہ دوپہر تقریباً 2 بجے اختتام پذیر ہوا، آپریشن میں رینجرز کے 200 جوانوں نے حصہ لیا۔ رینجرز حکام نے مختلف بیرکس کی تلاشی لی، اس دوران 6 موبائل فون، چھوٹی قینچیاں، ایم پی تھری پلیئرز ، چند گیس سلنڈر، جہادی تنظیموں کا لٹریچر اورہاتھ سے بنائے گئے تیز دھار چاقو برآمد ہوئے۔
ذرائع نے بتایا کہ جسٹس مقبول باقر کے قتل کی سازش جیل میں تیار کی گئی اور اس سلسلے میں ایک ٹیلی فون کال بھی حساس اداروں نے ٹریس کی تھی۔ 26 جون سے چند روز قبل کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والا ایک اہم ملزم جیل سے رہا ہوا تھا جوکہ اس سازش میں براہ راست ملوث ہے، ملزم کی تلاش میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے 2 قیدیوں کو الگ بیرکس میں منتقل کرکے ان سے تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر پر اس سے قبل حملے میں ملوث قیدی سے اندرون سندھ جیل میں بھی تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع نے ایکسپریس کو مزید بتایا کہ برآمد کیے گئے موبائل فونز کا ڈیٹا بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ چند موبائل فونز میں موجود نمبروں کے کوائف بھی حاصل کیے جارہے ہیں جس کے بعد جسٹس مقبول باقر کیس میں اہم پیش رفت متوقع ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس کو مزید بتایا کہ جیل پولیس کو اگر پہلے سے مذکورہ آپریشن کے بارے میں بتادیا جاتا تو آپریشن کے ٹھوس نتائج حاصل نہیں ہوسکتے تھے، آپریشن کو کامیاب اور بامقصد بنانے کی غرض سے ہی جیل پولیس کو لاعلم رکھا گیا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن جسٹس مقبول باقر پر حملے کی تفتیش کی کڑی ہے۔ جیل کے اندر ایک مقام پر شک کی بنیاد پرکھدائی بھی کی گئی لیکن وہاں سے کچھ برآمد نہیں ہوا، بعض بیرکس میں قیدیوں نے مزاحمت بھی کی تاہم فوری طور پر صورتحال پر قابو پالیا گیا۔آپریشن ہفتے کی صبح 5 بجے شروع کیا گیا جوکہ دوپہر تقریباً 2 بجے اختتام پذیر ہوا، آپریشن میں رینجرز کے 200 جوانوں نے حصہ لیا۔ رینجرز حکام نے مختلف بیرکس کی تلاشی لی، اس دوران 6 موبائل فون، چھوٹی قینچیاں، ایم پی تھری پلیئرز ، چند گیس سلنڈر، جہادی تنظیموں کا لٹریچر اورہاتھ سے بنائے گئے تیز دھار چاقو برآمد ہوئے۔
ذرائع نے بتایا کہ جسٹس مقبول باقر کے قتل کی سازش جیل میں تیار کی گئی اور اس سلسلے میں ایک ٹیلی فون کال بھی حساس اداروں نے ٹریس کی تھی۔ 26 جون سے چند روز قبل کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والا ایک اہم ملزم جیل سے رہا ہوا تھا جوکہ اس سازش میں براہ راست ملوث ہے، ملزم کی تلاش میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے 2 قیدیوں کو الگ بیرکس میں منتقل کرکے ان سے تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ جسٹس مقبول باقر پر اس سے قبل حملے میں ملوث قیدی سے اندرون سندھ جیل میں بھی تفتیش شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع نے ایکسپریس کو مزید بتایا کہ برآمد کیے گئے موبائل فونز کا ڈیٹا بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ چند موبائل فونز میں موجود نمبروں کے کوائف بھی حاصل کیے جارہے ہیں جس کے بعد جسٹس مقبول باقر کیس میں اہم پیش رفت متوقع ہے۔