سندھی ٹوپی اجرک ڈے

ہر سال 2 دسمبر کے موقع پر پورے صوبے میں سندھی ٹوپی اجرک ڈے کو ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے

سندھی ٹوپی سندھ کے کلچر میں شامل نہیں بلکہ یہ بلوچی کلچر میں شامل ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تاریخ اور ثقافت کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اسے حکومتی سطح پر، بلکہ عالمی سطح پر بھی محفوظ بنایا جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں اپنی گزری ہوئی تاریخ اور ثقافت سے آگاہی حاصل کرتی رہیں۔ مگر سندھ، جو تاریخ اور ثقافت کے معاملے میں دنیا بھر میں سب سے زرخیز علاقہ ہے اور یہاں پانچ ہزار سال قدیم شہر موئن جودڑو، ہڑپہ، مکلی کے قبرستان، رنی کورٹ کا قلعہ جیسی قدیم تاریخی ورثے تو موجود ہیں، مگر ہم نے ان کی حفاظت اور دیکھ بھال نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی وہ قدیم تہذیب جسے عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے، بلکہ اقوام متحدہ نے اسے دنیا کی قدیم ترین تاریخ جو کہ ایک مکمل تہذیب رکھتی تھی، کو دنیا کی قدیم تاریخ کا حصہ قرار دے کر عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔

عالمی سطح پر پانچ ہزار سال قدیم شہر موئن جودڑو کے بارے میں تسلیم کیا جاچکا ہے کہ یہ دنیا کا وہ قدیم ترین تہذیب سے آراستہ شہر تھا جہاں بسنے والے لوگ تعلیم، صنعت و حرفت اور ہنر میں یکتا تھے۔ بلکہ ہزاروں سال پہلے بھی انہوں نے ایسا شہر آباد کر رکھا تھا جہاں رہنے کےلیے مکا نات، پانی کی نکاسی کےلیے زیر زمین نالیاں، پانی اسٹور کرنے کےلیے حوض جبکہ نہانے دھونے کےلیے غسل خانوں کے ساتھ ساتھ مدارس، کا لج، وقت دیکھنے کےلیے گھڑیاں، بازار بنا رکھے تھے۔ یہ دنیا کے قدیم شہروں میں سے وہ منفرد شہر بھی تھا جہاں کے لوگ غذائی اجناس پکا کر کھانے کے ساتھ ساتھ ملبوسات استعمال کر تے تھے۔ اور یہاں چر خہ کاٹ کر سوتی کپڑا تیار کیا جا تا تھا اور یہاں کے مرد، خواتین اور بچے اسے ملبوسات کی شکل میں استعمال کرتے تھے۔لیکن ہم اپنے ان قدیم ورثوں سے غافل ہو کر اس کی صحیح طور پر دیکھ بھال نہیں کر رہے جس کے سبب نو جوان نسل اپنی قدیم تہذیبوں سے نا واقف ہوتی جا رہی ہے۔



وہ تو بھلا ہو سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا، کہ جو 2009 میں ایک غیر ملکی دورے پر سندھی ٹوپی پہن کر پہنچ گئے، جس کے بعد نجی ٹیلی ویژن کے ایک اینکر نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا جو سندھ میں بسنے والے لوگوں کو کچھ اچھا نہیں لگا، اور انہوں نے اس اینکر سے بدلا لینے کےلیے سندھی ٹوپی اور اجرک کا استعمال شروع کر دیا۔ اسی موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ سندھ میں بسنے والے ہر سال سندھ کی تاریخ و ثقافت کو زندہ رکھنے کےلیے سندھی ٹوپی اجرک ڈے منائیں گے۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ اب تک جا ری ہے جس کے تحت ہر سال 2 دسمبر کے موقع پر پورے صوبے میں سندھی ٹوپی اجرک ڈے کو ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر سندھ میں بسنے والے تمام لوگ نہ صرف سندھی ٹوپی اور اجرک پہنتے ہیں، بلکہ اس حوالے سے پورے سندھ میں جگہ جگہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

اس سلسلے میں شہر کراچی کے مختلف علاقوں سمیت کراچی پریس کلب پر سندھ کی ثقافتی تنظیموں کی جانب سے بھی رات گئے مچھ کچہری کے ذریعے تقریبات کا آغاز کر دیا جاتا ہے جس کے تحت اسٹیج کے سامنے اس کچہری کی مناسبت سے آگ جلائی جاتی ہے، اور سندھ بھر سے آئے ہوئے شعرائے کرام اپنے اشعار کے ذریعے سندھ کی قدیم تاریخ اور ثقافت کی بڑائی بیان کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے روز نجی چینلز اور ثقافتی تنظیموں کی جانب سے شہر میں جا بجا کنٹینر پر اسٹیج سجانے کے ساتھ ساتھ شہر کی اہم شاہراہوں پر بھی اسٹیج بنائے جاتے ہیں۔




ان اسٹیجز پر سندھ کے لوک فنکار جن میں شازیہ خشک، سمن میرانی و دیگر فنکار اپنی آواز کا جادو جگاتے ہوئے مختلف لوک گیت پیش کرتے ہیں۔ مگر ان گیتوں میں جئے سندھ جئے، سندھ وار جیئن، سندھی ٹوپی اجرک وار جیئن کو خصوصی مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ کم و بیش پورے سندھ میں سب سے زیادہ اس نغمے کی ریکارڈنگ کے ساتھ مختلف فنکار اسی گیت کو گا کر داد و تحسین حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر عوام کا جوش بھی دیدنی ہوتا ہے، اور مرد، خواتین، بچے جو رنگ برنگے کپڑوں، اجرک اور سندھی ٹوپی میں ملبوس ہوتے ہیں جا بجا رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سندھی ٹوپی اجرک ڈے ایک تہوار سے کم نہیں لگتا۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر فن کا مظاہرہ یا رقص کر رہے ہوتے ہیں، ان میں سے بھی بیشتر کو یہ معلوم نہیں کہ سندھی ٹوپی سندھ کے کلچر میں شامل نہیں بلکہ یہ بلوچی کلچر میں شامل ہے۔ اور کیونکہ سندھ کے اندر بلوچوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ان کی دیکھا دیکھی سندھ واسیوں نے بھی اسے پہننا شروع کر دیا ہے اور اسے سندھی ثقافت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ آج پورے سندھ میں جو اجرکیں 2 سے 3 سو روپے میں عام دستیاب ہیں، یہ سندھ کی ثقافت کا حصہ ہیں۔ مگر یہ بھی اصل اجرک نہیں، اصل اجرک وہ ہے جو موئن جودڑو سے کنگ پریسٹ کی مورتی پر کندہ ہے۔



یہ اجرک کوئی عام اجرک نہیں، بلکہ ماضی میں اسے کھڈیوں پر بنے کپڑوں پر بنایا جاتا تھا اور اسے 100 جڑی بوٹیوں سے رنگنے کے بعد انہیں جڑی بوٹیوں کے ذریعے خاص رنگ تیار کر کے ٹھپے لگا کر اجرکیں تیار کی جاتی تھیں جو سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رہتی تھیں۔ اسے استعمال کرنے والے لوگ سانس سمیت مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے تھے اور اس سے آنے والی جڑی بوٹیوں کی خوشبو صدا برقرار رہتی تھی۔ گو کہ ماضی میں بننے والی یہ قدیم اجرکیں ناپید ہو چکی ہیں، مگر اب بھی حیدر آباد، ہالا اور سن کے در میانی علاقوں میں بعض ہنرمند ایسی اجرکیں تیار کرنے کا کام کرتے ہیں۔

مگر کیونکہ ایک اجرک کی تیاری میں لگ بھگ 6 ماہ لگ جانے کے ساتھ ان پر اٹھنے والے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں، لہذا ان کی انتہائی کم تعداد صرف آرڈر پر تیار کی جاتی ہے۔ اس کے کاریگر جو اب لگ بھگ ختم ہو چکے ہیں، ان اجرکوں کی قیمت 20 سے 25 ہزار رو پے وصول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان اجرکوں کی قوت خرید نہ ہو نے کے سبب سندھ سمیت شہر کراچی میں بھی ریشمی کپڑوں پر مشینوں کے ذریعے چھپائی کرکے انہیں اجرکوں کا نام دیا جاتا ہے اور مرد، خواتین اور بچے اس کا استعمال کرتے ہوئے سندھ کی ثقافت کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اجرک اصلی ہو یا نقلی، اصل بات سندھ کی تاریخ اور ثقافت کو زندہ رکھنے کی ہے۔ لہذا سندھی ٹوپی اجرک ڈے پر اجرکوں اور سندھی ٹوپی کے استعمال سے سندھ کی قدیم تہذیب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story