پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی کمی
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تھوڑی کمی کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار اور وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ پٹرول اور ڈیزل قیمتوں میں فی لیٹر 2،2 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے لیٹر کمی کر دی گئی ہے، اس کمی کا اطلاق یکم دسمبر سے ہو گیا ہے۔ اب پٹرول پر سیلز ٹیکس8 فیصد ہو گیا ہے جب کہ ن لیگ کے دور حکومت میں پٹرول پر15 فیصد ٹیکس تھا لیکن ہم نے جی ایس ٹی15 فیصد سے کم کر کے ساڑھے چار فیصد کر دیا، ڈیزل پر لیویز ڈیوٹی 8 روپے سے کم کر کے 6.51 روپے کی۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ڈیزل پر سیلز ٹیکس ساڑھے27 فیصد جب کہ پٹرول پر 15 فیصد تھا۔
عوام کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کا تو کوئی علم نہیں ہے، انھیں تو صرف یہی پتہ چلا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت خاصی کم ہوئی ہے اور اس کی نسبت سے عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا۔ اصولی طو رپر تو عالمی منڈی میں جتنے فیصد کمی ہوئی، اتنی ہی پاکستان میں ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات سے ریونیو اکٹھا کرنے کو ترجیح دی ہے۔
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تیل کی قیمت میں جو ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا اور نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی واقع ہو گی۔ حکومت کی مالی مشکلات اپنی جگہ رہیں لیکن مارکیٹ اکانومی کے مطابق جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین یا ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے تو اس میں عالمی منڈی کی صورت حال کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
نئی حکومت کو جو عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ کرتی ہے، اسے اس حقیقت کا ضرور ادراک ہونا چاہیے تھا کہ کم ازکم عوام کو وہاں تو ریلیف فراہم کیا جائے جہاں اس کا حق بنتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل انتہائی سستا ہو رہا ہے، اس سستے تیل کا فائدہ حکومت کو نہیں بلکہ عوام کو ہونا چاہیے۔ اب دو روپے کا جو ریلیف دیا گیا ہے اس کا عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی نہیں ہو گی اور نہ ہی گڈز ٹرانسپورٹرز اپنے کرایوں میں کمی کریں گے۔ تیل کی قیمتوں میں اس ردوبدل کا سارے کا سارا فائدہ حکومت کو ہو گا۔
وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ پٹرول اور ڈیزل قیمتوں میں فی لیٹر 2،2 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے لیٹر کمی کر دی گئی ہے، اس کمی کا اطلاق یکم دسمبر سے ہو گیا ہے۔ اب پٹرول پر سیلز ٹیکس8 فیصد ہو گیا ہے جب کہ ن لیگ کے دور حکومت میں پٹرول پر15 فیصد ٹیکس تھا لیکن ہم نے جی ایس ٹی15 فیصد سے کم کر کے ساڑھے چار فیصد کر دیا، ڈیزل پر لیویز ڈیوٹی 8 روپے سے کم کر کے 6.51 روپے کی۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں ڈیزل پر سیلز ٹیکس ساڑھے27 فیصد جب کہ پٹرول پر 15 فیصد تھا۔
عوام کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کا تو کوئی علم نہیں ہے، انھیں تو صرف یہی پتہ چلا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت خاصی کم ہوئی ہے اور اس کی نسبت سے عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا۔ اصولی طو رپر تو عالمی منڈی میں جتنے فیصد کمی ہوئی، اتنی ہی پاکستان میں ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات سے ریونیو اکٹھا کرنے کو ترجیح دی ہے۔
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں سے مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تیل کی قیمت میں جو ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہے اس سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا اور نہ ہی مہنگائی میں کوئی کمی واقع ہو گی۔ حکومت کی مالی مشکلات اپنی جگہ رہیں لیکن مارکیٹ اکانومی کے مطابق جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین یا ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے تو اس میں عالمی منڈی کی صورت حال کو سامنے رکھا جاتا ہے۔
نئی حکومت کو جو عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ کرتی ہے، اسے اس حقیقت کا ضرور ادراک ہونا چاہیے تھا کہ کم ازکم عوام کو وہاں تو ریلیف فراہم کیا جائے جہاں اس کا حق بنتا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل انتہائی سستا ہو رہا ہے، اس سستے تیل کا فائدہ حکومت کو نہیں بلکہ عوام کو ہونا چاہیے۔ اب دو روپے کا جو ریلیف دیا گیا ہے اس کا عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی نہیں ہو گی اور نہ ہی گڈز ٹرانسپورٹرز اپنے کرایوں میں کمی کریں گے۔ تیل کی قیمتوں میں اس ردوبدل کا سارے کا سارا فائدہ حکومت کو ہو گا۔