بابری مسجد کا مقدمہ
جنونی ہندو اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے پر تلے ہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیہ میں بابری مسجدکی جگہ مندر قائم کرنے سے متعلق مقدمے کی نئی تاریخ جنوری 2019 تک بڑھادی ہے، اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جنوری میں بھی اس مقدمے سے متعلق کوئی پیش رفت ہو لیکن فی الحال اس مقدمے کو آگے کی جانب سرکا کر ایک بہت بڑے ایشوکو ٹھنڈا کرنے یا اپنے لیے مزید مہلت حاصل کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے، جس سے بھارتی سرکارکے محتاط رویے کا تاثر مل رہا ہے۔گو اس سے پہلے بی جے پی سرکار نے اپوزیشن کے روپ میں جو کھیل کھیلے اور جس بنیاد پر اعلیٰ عہدے حاصل کیے، اب وہی حکومت بہت کچھ چاہنے کے باوجود مجبوری میں سیاسی چالوں پر چل رہی ہے جب کہ ان کی اس کارروائی سے مخالف پارٹیوں کو ہوا مل رہی ہے لیکن حالات اس قدر پیچیدہ ہو رہے ہیں کہ اس بار نہ اگلتے بن رہی ہے اور نہ ہی نگلتے۔
اتر پردیش کے شہر ایودھیہ میں فیض آباد کی شہرت کوئی نئی نہیں ہے، یہ وہی فیض آباد ہے جسے مغلوں نے فتح کیا اور شاندار حکمرانی کے دور میں یہاں یہ مسجد بھی قائم کی، جسے بابری مسجد کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد کے حوالے سے 1528 کا سال سامنے آتا ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں پہلے کوئی مندر تھا اور ہندو مذہب کے خیال کے مطابق یہاں راما کی پیدائش ہوئی تھی جو ایودھیہ کا حکمران تھا، راما کو ہندو مت میں اوتار کا مقام حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو یا نہ ہو لیکن جنونی مذہبی ہندوؤں کی جماعت جس میں وشوا ہندو پرشاد اور شیوسینا شامل ہیں، عندیہ دے دیا ہے کہ انھیں اس مقام پر رام کا بت نصب کرنا ہے اس مقصد کے لیے ایک یوگی نے 221 میٹر لمبے رام کا بت بنوایا ہے اور اس مذہب رسم کے لیے ہندوؤں کی بڑی تعداد ایودھیہ میں جمع ہو رہی ہے جب کہ مسلمانوں نے اس علاقے سے ہجرت کرنا شروع کردی ہے۔
1992 میں ایودھیہ میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے عمل میں ہندوؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، جس سے ملک بھر میں شدید فسادات کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں، یہ ایک ایسا اذیت ناک واقعہ تھا جس سے دنیا بھر میں بھارت کے سیکولر ہونے کا دعویٰ ہوا ہوگیا تھا۔ خون کی اس ہولناک واردات نے لوگوں کے دل دہلا دیے تھے یہاں تک کہ روشن خیال اور پڑھے لکھے ہندو بھی اس شدت پسندی اور جنونی عمل کے خلاف چیخ پڑے تھے ۔
یہ وہی دور تھا جب مودی کا نام خون کی ان دل خراش داستانوں میں ابھرنے لگا ، گجرات اور اس میں ہونے والے واقعات اب بھی لوگوں کے دلوں میں اس کے زخم تازہ ہیں اسی شدت پسندی میں نریندر مودی آگے آگے تھے جو اس وقت بھی اعلیٰ کرسی پر بیٹھے جلتے روم کو بانسری بجاتے دیکھتے رہے تھے وہ وقت تو گزر گیا لیکن اس کی تلخیاں اور نتائج آنے والے انتخابات میں ان کا دل دہلا رہے ہیں کیونکہ اونچے مقام کا چسکا انھیں لگ چکا ہے اور اب اپنے درجے کی بقا کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کا رویہ ہندوؤں کے بارے میں متعصبانہ نہیں' وہ جانتے ہیں کہ وہ ہندوؤں سے بگاڑ کر ہندوستان میں نہیں رہ سکتے' مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں ہندوؤں کے ساتھ سیاسی ' معاشی اور دیگر معاملات میں تعاون کر رہی ہیں۔لیکن اس کے برعکس ہندو مسلمانوں کے بارے میں بہت زیاد تعصب رکھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک محدود طبقہ ہے سب ہندو ایسی سوچ نہیں رکھتے۔
بابری مسجد میں مسلمان 1949 سے نماز پڑھ رہے تھے تب کچھ ہندوؤں نے مسجد میں چند بت لاکر رکھ دیے تھے یہ مخالفت برسوں میں دونوں قوموں کے اندر پنپتی رہی تھی جسے ہوا دینے والے چند لوگ تھے۔ 1992 کے اس بدترین واقعے میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ان میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی ان بہت سے لوگوں میں سے کچھ لوگوں کے متعلق یو ٹیوب پر بھی دیکھا گیا کہ کس طرح ان کے دلوں کو رب العزت نے نفرت کے بجائے اپنی محبت سے بھر دیا۔ بابری مسجد کا واقعہ کیا محض عبادت کی جگہ کو حاصل کرنے کا مقصد ہے یا انسانی دلوں کو مسخر کرنے کی خوبصورتی۔
2010 میں الٰہ آباد کی ہائیکورٹ نے فیض آباد کے اس مقام سے متعلق ایک فیصلہ دیا تھا جس میں 2/3 حصہ ہندوؤں اور 1/3 حصہ مسلمانوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا لیکن اس دور حکومت میں شاید اس کا فیصلہ ممکن نہیں۔
ایودھیہ میں بابری مسجد کے مقام پر مندر بننا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تو ابھی ہونا باقی ہے لیکن بھیم آرمی چیف چندرا شیکھر کچھ اور ہی کہتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں رام مندر نہیں بلکہ بدھا کا مندر بننا چاہیے انھوں نے اس مقصد کے لیے اس مقام کا دورہ بھی کیا اور اپنے نیک خیالات کا اظہار کیا اس کے لیے ان کے ہمراہ ان کے حواری بھی موجود تھے ۔ چندرا شیکھر نے بی جے پی کو بے بھاؤکی سنائی، سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ مسلمانوں کے ایک فرقے نے ہندوؤں کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا ہے اب یہ واقعی سچ ہے یا سنی سنائی۔
بھارت میں انتخابات کے سلسلے میں مختلف جماعتیں سرگرم ہیں کون کس کو مات دیتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایودھیہ کے اس تاریخی مقام کی وجہ سے ہونے والے ایک بہت بڑے بلوے کو روکنے کی کوشش ضرور جاری ہے، کیونکہ مودی سرکار ابھی کوئی رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ مودی سرکار کی یہ کوشش بہت سے بے گناہ انسانوں کے لیے مثبت ثابت ہو رہی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ان کے سامنے اپوزیشن اپنے آپ کو مستحکم کرنے پر جٹی ہے۔ جنونی ہندو اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے پر تلے ہیں لیکن خدا کی قدرت کہ جنھوں نے یہ کھیل پچیس برس پہلے رچایا تھا آج انھیں ہی محافظ بننے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ بابری مسجد مستقبل میں اور کیا کیا راہیں بناتی ہے کون کون سے راز سناتی ہے کس کس کے دلوں پر پڑے قفل توڑتی ہے۔ بس یہ یاد رہے کہ اسلام محبت کا مذہب ہے تعصب و نفرت کا نہیں۔
اتر پردیش کے شہر ایودھیہ میں فیض آباد کی شہرت کوئی نئی نہیں ہے، یہ وہی فیض آباد ہے جسے مغلوں نے فتح کیا اور شاندار حکمرانی کے دور میں یہاں یہ مسجد بھی قائم کی، جسے بابری مسجد کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اس کی بنیاد کے حوالے سے 1528 کا سال سامنے آتا ہے، جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں پہلے کوئی مندر تھا اور ہندو مذہب کے خیال کے مطابق یہاں راما کی پیدائش ہوئی تھی جو ایودھیہ کا حکمران تھا، راما کو ہندو مت میں اوتار کا مقام حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو یا نہ ہو لیکن جنونی مذہبی ہندوؤں کی جماعت جس میں وشوا ہندو پرشاد اور شیوسینا شامل ہیں، عندیہ دے دیا ہے کہ انھیں اس مقام پر رام کا بت نصب کرنا ہے اس مقصد کے لیے ایک یوگی نے 221 میٹر لمبے رام کا بت بنوایا ہے اور اس مذہب رسم کے لیے ہندوؤں کی بڑی تعداد ایودھیہ میں جمع ہو رہی ہے جب کہ مسلمانوں نے اس علاقے سے ہجرت کرنا شروع کردی ہے۔
1992 میں ایودھیہ میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے عمل میں ہندوؤں کی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی، جس سے ملک بھر میں شدید فسادات کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں، یہ ایک ایسا اذیت ناک واقعہ تھا جس سے دنیا بھر میں بھارت کے سیکولر ہونے کا دعویٰ ہوا ہوگیا تھا۔ خون کی اس ہولناک واردات نے لوگوں کے دل دہلا دیے تھے یہاں تک کہ روشن خیال اور پڑھے لکھے ہندو بھی اس شدت پسندی اور جنونی عمل کے خلاف چیخ پڑے تھے ۔
یہ وہی دور تھا جب مودی کا نام خون کی ان دل خراش داستانوں میں ابھرنے لگا ، گجرات اور اس میں ہونے والے واقعات اب بھی لوگوں کے دلوں میں اس کے زخم تازہ ہیں اسی شدت پسندی میں نریندر مودی آگے آگے تھے جو اس وقت بھی اعلیٰ کرسی پر بیٹھے جلتے روم کو بانسری بجاتے دیکھتے رہے تھے وہ وقت تو گزر گیا لیکن اس کی تلخیاں اور نتائج آنے والے انتخابات میں ان کا دل دہلا رہے ہیں کیونکہ اونچے مقام کا چسکا انھیں لگ چکا ہے اور اب اپنے درجے کی بقا کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کا رویہ ہندوؤں کے بارے میں متعصبانہ نہیں' وہ جانتے ہیں کہ وہ ہندوؤں سے بگاڑ کر ہندوستان میں نہیں رہ سکتے' مسلمانوں کی بہت سی تنظیمیں ہندوؤں کے ساتھ سیاسی ' معاشی اور دیگر معاملات میں تعاون کر رہی ہیں۔لیکن اس کے برعکس ہندو مسلمانوں کے بارے میں بہت زیاد تعصب رکھتے ہیں اور انھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک محدود طبقہ ہے سب ہندو ایسی سوچ نہیں رکھتے۔
بابری مسجد میں مسلمان 1949 سے نماز پڑھ رہے تھے تب کچھ ہندوؤں نے مسجد میں چند بت لاکر رکھ دیے تھے یہ مخالفت برسوں میں دونوں قوموں کے اندر پنپتی رہی تھی جسے ہوا دینے والے چند لوگ تھے۔ 1992 کے اس بدترین واقعے میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ان میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے ہی ان بہت سے لوگوں میں سے کچھ لوگوں کے متعلق یو ٹیوب پر بھی دیکھا گیا کہ کس طرح ان کے دلوں کو رب العزت نے نفرت کے بجائے اپنی محبت سے بھر دیا۔ بابری مسجد کا واقعہ کیا محض عبادت کی جگہ کو حاصل کرنے کا مقصد ہے یا انسانی دلوں کو مسخر کرنے کی خوبصورتی۔
2010 میں الٰہ آباد کی ہائیکورٹ نے فیض آباد کے اس مقام سے متعلق ایک فیصلہ دیا تھا جس میں 2/3 حصہ ہندوؤں اور 1/3 حصہ مسلمانوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا لیکن اس دور حکومت میں شاید اس کا فیصلہ ممکن نہیں۔
ایودھیہ میں بابری مسجد کے مقام پر مندر بننا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ تو ابھی ہونا باقی ہے لیکن بھیم آرمی چیف چندرا شیکھر کچھ اور ہی کہتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں رام مندر نہیں بلکہ بدھا کا مندر بننا چاہیے انھوں نے اس مقصد کے لیے اس مقام کا دورہ بھی کیا اور اپنے نیک خیالات کا اظہار کیا اس کے لیے ان کے ہمراہ ان کے حواری بھی موجود تھے ۔ چندرا شیکھر نے بی جے پی کو بے بھاؤکی سنائی، سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ مسلمانوں کے ایک فرقے نے ہندوؤں کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا ہے اب یہ واقعی سچ ہے یا سنی سنائی۔
بھارت میں انتخابات کے سلسلے میں مختلف جماعتیں سرگرم ہیں کون کس کو مات دیتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایودھیہ کے اس تاریخی مقام کی وجہ سے ہونے والے ایک بہت بڑے بلوے کو روکنے کی کوشش ضرور جاری ہے، کیونکہ مودی سرکار ابھی کوئی رسک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ مودی سرکار کی یہ کوشش بہت سے بے گناہ انسانوں کے لیے مثبت ثابت ہو رہی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے اسے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں کیونکہ ان کے سامنے اپوزیشن اپنے آپ کو مستحکم کرنے پر جٹی ہے۔ جنونی ہندو اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے پر تلے ہیں لیکن خدا کی قدرت کہ جنھوں نے یہ کھیل پچیس برس پہلے رچایا تھا آج انھیں ہی محافظ بننے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ بابری مسجد مستقبل میں اور کیا کیا راہیں بناتی ہے کون کون سے راز سناتی ہے کس کس کے دلوں پر پڑے قفل توڑتی ہے۔ بس یہ یاد رہے کہ اسلام محبت کا مذہب ہے تعصب و نفرت کا نہیں۔