نئے پاکستان کی ریلوے کے سو روز
شیخ رشید نئے پاکستان کے وزیر ریلوے اس لیے ہیں کہ انھیں پہلے بھی وزیر ریلوے ہونے کا وسیع تجربہ ہے۔
عمران خان کے نئے پاکستان کے پہلے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اپنی سو روزہ کارکردگی کے دعوے میں کافی حد تک تو نہیں بلکہ کچھ حد تک ضرور کامیاب ہوئے ہیں اور سو روز میں پاکستان ریلوے کی آمدنی میں دو ارب روپے کا اضافہ بتایاگیا ہے۔
شیخ رشید نئے پاکستان کے وزیر ریلوے اس لیے ہیں کہ انھیں پہلے بھی وزیر ریلوے ہونے کا وسیع تجربہ ہے اور انھیں پہلے کی طرح اب بھی ریلوے انتہائی تباہ حالی کی صورت میں نہیں ملی جتنی تباہ حال ریلوے سابق وزیر ریلوے اور ریلوے معاملات میں ناتجربے کار خواجہ سعد رفیق کو 2013 میں ملی تھی اور بلا شبہ انھوں نے عملی طور پر ریلوے کو بحال کراکر بھاری نقصانات سے بچاکر آمدنی بڑھانے والا ادارہ بنایا تھا۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ شیخ رشید کی خواجہ سعد رفیق سے سیاسی مخاصمت میں لوگ 2008 کی ریلوے کی تباہی کو نہیں بھولے، جو شیخ رشید بھول چکے ہیں اور کبھی سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور کا نام تک نہیں لیتے جن کے دور میں 5 سال میں ریلوے مکمل طور پر تباہ کی گئی تھی ۔ مسافروں نے ریلوے سفر چھوڑدیا تھا، کیونکہ ریلوے کی آمد ورفت کا نظام ہی تباہ نہیں ہوا تھا بلکہ ٹرینوں کی گھنٹوں کی تاخیر، راستے میں آئل ختم ہوجانے سے انجن فیل ہوجانا معمول، ریلوے اسٹیشنوں کی بجلی کٹ جانے سے تاریکی عام ہوچکی تھی اور مسافر ریلوے کے آسان سفر کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کے مہنگے کرایوں کے باوجود تکلیف دہ اور غیر محفوظ سفر پر مجبور تھے۔
بے شمار ٹرینیں بند ہوچکی تھیں مگر خواجہ سعد رفیق نے کبھی ریلوے تباہ کرنے والے سابق وزیر ریلوے پر کبھی معمولی تنقید نہیں کی اپنے کام سے کام رکھا اور ریلوے کا رکا ہوا پہیہ چلاکر دکھایا۔ سعد رفیق کی کارکردگی کو شیخ رشید کے سوا سب مانتے ہیں، مگر سیاسی مخالفت تباہ ریلوے کی بہتری ماننے کو تیار توکیا خواجہ سعد رفیق کا نام سننے کو تیار نہیں ہے۔
شیخ رشید کے دور میں ریلوے میں بہتری آمر دور کیوزیر ریلوے کے دور سے بدرجہا بہتر تھی جنھوں نے ریلوے کے بجائے خود کو بنایا اور اب اپنی کرپشن بھگت رہے ہیں ۔ شیخ رشید کو ریلوے معاملات کا وسیع تجربہ ہے اور دس سال وزارت سے دور رہنے کے بعد وزیراعظم نے انھیں تجربے کار شیخ رشید کو وزارت ریلوے ترقی کے لیے دی ہے اور انھیں بحال ریلوے اچھی حالت میں ملی ہے جسے اب وہ مزید بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور انھوں نے سو روز میں متعدد نئی ٹرینیں چلانے کا اعلان پہلے تین ماہ میں اور بعد کے آخری ہفتے میں چار مزید ٹرینوں کا وزیراعظم سے افتتاح کرایا ہے۔
دو نئی چھوٹے سفرکی ٹرینیں جلد بازی کے باعث کامیاب نہ ہوسکیں اور غلط اوقات اور فیصلوں کے باعث میانوالی ایکسپریس اور دھابے جی ایکسپریس کو مسافر نہ ملنے سے نقصان ہوا مگر تجربہ ضرور ہوگیا اور 24 نومبر کو چار نئی ٹرینوں کی کامیابی کی قوی امید ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں ملک کے اہم تجارتی شہر سیالکوٹ کی چار ٹرینیں بند ہوئیں جہاں دس روز سے پہلے ریلوے میں بکنگ ناممکن اور مسافر پریشان ہیں ملک کے اہم ریلوے روٹس پر سابقہ گاڑیاں جلد بحال کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جس سے ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
بے شمار ٹرینیں بند ہیں جن کی بحالی پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جو وزیر ریلوے دے بھی رہے ہیں مگر اب اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ ملک میں جن روٹس پر ٹرینیں چل رہی ہیں ان میں بڑا روٹ کراچی تا پشاور ہے جہاں سفر طویل اور مسافر زیادہ ہیں۔ اس روٹ پر راولپنڈی، سیالکوٹ، لاہور، ملتان، روہڑی اورکوئٹہ روٹ بھی شامل ہیں۔ فیصل آباد اور سرگودھا کے لوگ بھی بڑی تعداد میں سفر کرتے ہیں اور گاڑیوں میں بے حد رش ہے۔ریلوے کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ مال گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
ریلوے کو جدید سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ریلوے حادثات پر قابو پانے کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جائے۔ریلوے کے غیر ضروری اخراجات پر قابو پانے کے علاوہ اس میں موجود کرپشن پر بھی قابو پایا جائے تو ریلوے کا نظام بہتر حالت میں آ سکتا ہے۔
ریلوے روٹس پر کماکر دینے والی بند گاڑیوں کی بحالی کی نئی گاڑیوں سے زیادہ ضرورت تو ہے ہی مگر چلنے والی موجودہ گاڑیوں کی بہتری پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ رش والی موجودہ اکثر ٹرینوں کی حالت بہت ہی خراب ہے جہاں پرانی بوگیاں معمولی تبدیلی کے بعد زیادہ استعمال کی جارہی ہیں۔ مسافروں کی اکثریت غریب ہے جو اکانومی کلاس میں زیادہ سفر کرتی ہے مگر سو روز میں کرائے غیر علانیہ بڑھا دیے گئے ہیں اور کراچی سے لاہور کے درمیان چلنے والی کراچی ایکسپریس کا کرایہ بھی ایک ہزار پانچ سو 75 روپے وصول کیا جا رہا ہے ۔
اکانومی کے بعد ریلوے نے اے سی بوگیوں کو بھی تین حصوں اے سی اسٹینڈرڈ، اے سی لوئر اور بزنس کلاس میں تبدیل کردیا ہے جن میں اے سی اسٹینڈرڈ پرانی خستہ حال بوگیاں لگائی جا رہی ہیں جہاں واش روم اکانومی جیسے ہیں اور لوگ اے سی کا کرایہ دے کر لوٹوں اور صفائی سے محروم رکھے جارہے ہیں۔ نئی بوگیاں بہتر اور با سہولت ہیں جن میں کچرے کے ڈبے لگے ہیں مگر پرانی بوگیوں میں کچرا دان ہیں نہ صفائی اور روشنی اور وہ اے سی اسٹینڈرڈ میں لگائی جارہی ہیں۔ بزرگ شہریوں کے لیے نصف کرائے کی سہولت بتدریج کم کی جا رہی ہے جو اکانومی میں نصف اور اے سی میں صرف 25 فی صد ہے اور یہ بھی غریب اور متوسط طبقے کے بزرگوں میں امتیاز پیدا کر رہا ہے۔
بزرگوں کے لیے سہولتیں بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں۔ شیخ رشید کے شہر راولپنڈی سے لاہور شام کو چلنے والی نان اسٹاپ ٹرینوں میں رش کے باعث 840 کا اے سی بزنس کا ٹکٹ0 85 روپے میں دیا جارہا ہے جو ٹکٹوں کے سلسلے میں اضافی رقم وصولی کا ثبوت ہے۔ہمارے تجربہ کار وزیر ریلوے کو ٹرینوں کی تاخیر، سہولیات کی نایابی اور اضافی رقم وصولی پر خصوصی توجہ دینے کی فوری ضرورت ہیتاکہ بگڑا ہوا نظام درست ہو سکے۔
شیخ رشید نئے پاکستان کے وزیر ریلوے اس لیے ہیں کہ انھیں پہلے بھی وزیر ریلوے ہونے کا وسیع تجربہ ہے اور انھیں پہلے کی طرح اب بھی ریلوے انتہائی تباہ حالی کی صورت میں نہیں ملی جتنی تباہ حال ریلوے سابق وزیر ریلوے اور ریلوے معاملات میں ناتجربے کار خواجہ سعد رفیق کو 2013 میں ملی تھی اور بلا شبہ انھوں نے عملی طور پر ریلوے کو بحال کراکر بھاری نقصانات سے بچاکر آمدنی بڑھانے والا ادارہ بنایا تھا۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ شیخ رشید کی خواجہ سعد رفیق سے سیاسی مخاصمت میں لوگ 2008 کی ریلوے کی تباہی کو نہیں بھولے، جو شیخ رشید بھول چکے ہیں اور کبھی سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور کا نام تک نہیں لیتے جن کے دور میں 5 سال میں ریلوے مکمل طور پر تباہ کی گئی تھی ۔ مسافروں نے ریلوے سفر چھوڑدیا تھا، کیونکہ ریلوے کی آمد ورفت کا نظام ہی تباہ نہیں ہوا تھا بلکہ ٹرینوں کی گھنٹوں کی تاخیر، راستے میں آئل ختم ہوجانے سے انجن فیل ہوجانا معمول، ریلوے اسٹیشنوں کی بجلی کٹ جانے سے تاریکی عام ہوچکی تھی اور مسافر ریلوے کے آسان سفر کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کے مہنگے کرایوں کے باوجود تکلیف دہ اور غیر محفوظ سفر پر مجبور تھے۔
بے شمار ٹرینیں بند ہوچکی تھیں مگر خواجہ سعد رفیق نے کبھی ریلوے تباہ کرنے والے سابق وزیر ریلوے پر کبھی معمولی تنقید نہیں کی اپنے کام سے کام رکھا اور ریلوے کا رکا ہوا پہیہ چلاکر دکھایا۔ سعد رفیق کی کارکردگی کو شیخ رشید کے سوا سب مانتے ہیں، مگر سیاسی مخالفت تباہ ریلوے کی بہتری ماننے کو تیار توکیا خواجہ سعد رفیق کا نام سننے کو تیار نہیں ہے۔
شیخ رشید کے دور میں ریلوے میں بہتری آمر دور کیوزیر ریلوے کے دور سے بدرجہا بہتر تھی جنھوں نے ریلوے کے بجائے خود کو بنایا اور اب اپنی کرپشن بھگت رہے ہیں ۔ شیخ رشید کو ریلوے معاملات کا وسیع تجربہ ہے اور دس سال وزارت سے دور رہنے کے بعد وزیراعظم نے انھیں تجربے کار شیخ رشید کو وزارت ریلوے ترقی کے لیے دی ہے اور انھیں بحال ریلوے اچھی حالت میں ملی ہے جسے اب وہ مزید بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور انھوں نے سو روز میں متعدد نئی ٹرینیں چلانے کا اعلان پہلے تین ماہ میں اور بعد کے آخری ہفتے میں چار مزید ٹرینوں کا وزیراعظم سے افتتاح کرایا ہے۔
دو نئی چھوٹے سفرکی ٹرینیں جلد بازی کے باعث کامیاب نہ ہوسکیں اور غلط اوقات اور فیصلوں کے باعث میانوالی ایکسپریس اور دھابے جی ایکسپریس کو مسافر نہ ملنے سے نقصان ہوا مگر تجربہ ضرور ہوگیا اور 24 نومبر کو چار نئی ٹرینوں کی کامیابی کی قوی امید ہے۔ گزشتہ 8 سالوں میں ملک کے اہم تجارتی شہر سیالکوٹ کی چار ٹرینیں بند ہوئیں جہاں دس روز سے پہلے ریلوے میں بکنگ ناممکن اور مسافر پریشان ہیں ملک کے اہم ریلوے روٹس پر سابقہ گاڑیاں جلد بحال کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے جس سے ریلوے کی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
بے شمار ٹرینیں بند ہیں جن کی بحالی پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے جو وزیر ریلوے دے بھی رہے ہیں مگر اب اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ ملک میں جن روٹس پر ٹرینیں چل رہی ہیں ان میں بڑا روٹ کراچی تا پشاور ہے جہاں سفر طویل اور مسافر زیادہ ہیں۔ اس روٹ پر راولپنڈی، سیالکوٹ، لاہور، ملتان، روہڑی اورکوئٹہ روٹ بھی شامل ہیں۔ فیصل آباد اور سرگودھا کے لوگ بھی بڑی تعداد میں سفر کرتے ہیں اور گاڑیوں میں بے حد رش ہے۔ریلوے کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے کہ مال گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
ریلوے کو جدید سسٹم سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ریلوے حادثات پر قابو پانے کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جائے۔ریلوے کے غیر ضروری اخراجات پر قابو پانے کے علاوہ اس میں موجود کرپشن پر بھی قابو پایا جائے تو ریلوے کا نظام بہتر حالت میں آ سکتا ہے۔
ریلوے روٹس پر کماکر دینے والی بند گاڑیوں کی بحالی کی نئی گاڑیوں سے زیادہ ضرورت تو ہے ہی مگر چلنے والی موجودہ گاڑیوں کی بہتری پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ رش والی موجودہ اکثر ٹرینوں کی حالت بہت ہی خراب ہے جہاں پرانی بوگیاں معمولی تبدیلی کے بعد زیادہ استعمال کی جارہی ہیں۔ مسافروں کی اکثریت غریب ہے جو اکانومی کلاس میں زیادہ سفر کرتی ہے مگر سو روز میں کرائے غیر علانیہ بڑھا دیے گئے ہیں اور کراچی سے لاہور کے درمیان چلنے والی کراچی ایکسپریس کا کرایہ بھی ایک ہزار پانچ سو 75 روپے وصول کیا جا رہا ہے ۔
اکانومی کے بعد ریلوے نے اے سی بوگیوں کو بھی تین حصوں اے سی اسٹینڈرڈ، اے سی لوئر اور بزنس کلاس میں تبدیل کردیا ہے جن میں اے سی اسٹینڈرڈ پرانی خستہ حال بوگیاں لگائی جا رہی ہیں جہاں واش روم اکانومی جیسے ہیں اور لوگ اے سی کا کرایہ دے کر لوٹوں اور صفائی سے محروم رکھے جارہے ہیں۔ نئی بوگیاں بہتر اور با سہولت ہیں جن میں کچرے کے ڈبے لگے ہیں مگر پرانی بوگیوں میں کچرا دان ہیں نہ صفائی اور روشنی اور وہ اے سی اسٹینڈرڈ میں لگائی جارہی ہیں۔ بزرگ شہریوں کے لیے نصف کرائے کی سہولت بتدریج کم کی جا رہی ہے جو اکانومی میں نصف اور اے سی میں صرف 25 فی صد ہے اور یہ بھی غریب اور متوسط طبقے کے بزرگوں میں امتیاز پیدا کر رہا ہے۔
بزرگوں کے لیے سہولتیں بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں۔ شیخ رشید کے شہر راولپنڈی سے لاہور شام کو چلنے والی نان اسٹاپ ٹرینوں میں رش کے باعث 840 کا اے سی بزنس کا ٹکٹ0 85 روپے میں دیا جارہا ہے جو ٹکٹوں کے سلسلے میں اضافی رقم وصولی کا ثبوت ہے۔ہمارے تجربہ کار وزیر ریلوے کو ٹرینوں کی تاخیر، سہولیات کی نایابی اور اضافی رقم وصولی پر خصوصی توجہ دینے کی فوری ضرورت ہیتاکہ بگڑا ہوا نظام درست ہو سکے۔