کہانی 100 دن کی

حکومت کا ایک اہم اور مثبت قدم 5ارب روپے اخوت فاؤنڈیشن کو دینا ہے۔

27نومبر 2018 کو پی ٹی آئی کی حکومت کے 100دن پورے ہوگئے۔ان سو دنوں سے متعلق خود حکومت نے عوام کو باور کرایا کہ یہ اس ملک کی تاریخ کے اہم ترین 100دن ثابت ہوں گے ۔ یہ ملک میں تبدیلی کے سنگ میل ، حکومتی کارکردگی اور معیاری طرز ِ حکمرانی کی علامت ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی بھی حکومت سب سے پہلے اپنے معاشی اہداف و پالیسی طے کرتی ہے ، جس کی بناء پر وہ باقی تمام داخلی و خارجہ پالیسیاں مرتب کر کے اُس پر عملی اقدامات کرتی ہے، جوکہ اُسے کامیابیوں سے ہمکنار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

اس لحاظ سے جب ہم پی ٹی آئی حکومت کے 100دن کے ایجنڈہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں ہمیں بڑے پیمانے پر پاپولرازم کی پیروی میں زبانی جمع خرچ تو نظر آتا ہے لیکن پالیسی سازی کی کمی بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ گذشتہ ہفتے امریکی تحقیقی ادارے بروکنگس انسٹی ٹیوٹ کے پینل Discussionمیں اس صورتحال کا واضح اظہار ان الفاظ میں کیا کہ : '' عمران خان کی حکومت کا 100دنوں میں کوئی رخ طے نہیں ہوسکا ہے ۔''

عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے قوم کو اپنے پہلے خطاب میں عوام سے ایسے وعدے کیے جو وہ پورے نہیں کرسکتے تھے ، یا شاید انھیں اندازہ ہی نہ تھا کہ یہ اقدامات ممکن ہیں یا نہیں ۔جیسے 100دنوں میں یقینی اور واضح تبدیلی ، کوئی بیرونی دورہ نہ کرنے اوردوروں میں خصوصی طیارہ استعمال نہ کرنے، پولیس میں مداخلت نہ کرنے ، آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لینے ، مختصر کابینہ رکھنے اور کرپٹ افراد کو حکومت میں شامل نہ کرنے و بجلی ، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے سمیت وزیر اعظم ہاؤس میں نہ رہنے ، پروٹوکول نہ لینے اور دیگر کئی باتیں کیں ،لیکن 100دن مکمل ہونے تک ان میں سے اکثر باتوں پر یوٹرن لے لیا ۔ جیسے نہ وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بن سکا ، نہ قومی ایکشن پلان پر عمل ہوا ، نہ ہی تھر سمیت ملک بھر کے 45%بچوںکو خوراک مہیا کی گئی۔

دوسری جانب وزیر اعظم کی جانب سے حکومت کے سادگی کے اعلان بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔ ایسے کئی اُمور پربارہایو ٹرن لینے کو قائدانہ صلاحیت قرار دینے والی ان کی منطق بھی بڑی عجیب ہے۔ حکومت کی جانب سے ان سو دنوں میں 34 اہداف میں سے 18مکمل کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں ۔ لیکن ان 100دنوں کی تکمیل پر ان کی کارکردگی کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ حکومت نے معاشی اصلاحات کے طور پر اپنے بنیادی اہداف دو طے کیے۔ ان میں سے پہلا تھا ملکی برآمدات میں 27بلین ڈالر تک اضافہ کرنا اور دوسرا ملک کی اشرافیہ یعنی (Elite class) کو مکمل طور پر ٹیکس دائرہ کار میں لاتے ہوئے ملک کی مجموعی ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرنا تھا ۔ جسے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کا ذریعہ بتایا گیا ۔

اب جہاں تک بات ہے ملکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی تو اس خسارے میں کمی نظر تو آئی ہے لیکن وہ ٹیکس نظام میں بہتری یا ملکی برآمدات میں اضافے کے باعث نہیں بلکہ سعودی عرب سے امدادی پیکیج کی صورت میں لیے گئے قرضے کی بدولت ہے ۔ جو کہ خود ایک بڑا یو ٹرن ہے کیونکہ انھوں نے بیرونی قرضے نہ لینے کے وعدے کے باوجود سعودی عرب سے قرضے لیے ہیں بلکہ دنیا بھر سے مزید لینے کے ارادے رکھتے ہیں ۔قرضوں پر یومیہ 6ارب کا سود دینے کے اعتراف کے باوجود IMF، سعودی عرب، امریکا اور چین سمیت دیگر ممالک سے بڑے پیمانے پر قرضے حاصل کرنے کے لیے پریشان دکھائی دینے سے بھی اُن کے پاس کوئی متبادل پالیسی نہ ہونا ثابت ہوتا ہے ۔

انھوں نے اپنے پہلے خطاب میں ملکی برآمدی پیداوار کا ہدف بڑھانے کے اعلان پر عمل درآمد کے لیے اس شعبے کو بجلی و گیس کے نرخوں میں چُھوٹ دی اور اس کا نزلہ گھریلوصارفین پر نرخوں میں اضافے کی صورت میں گرایا ۔ جب کہ ٹیکسز میں اضافہ بھی ملک کی اشرافیہ طبقے پر نہیں بلکہ پیٹرولیم مصنوعات سے اشیائے خور ونوش پر ٹیکس عائد کرکے کرایوں میں اضافہ ، سی این جی کو کلو گرام کے بجائے لیٹر میں فروخت کرنے کے فیصلے سے ملک کے غریب و نچلے طبقے کے افراد کی کمر توڑنے کی کوشش کی ہے ۔

جب کہ حکومت نے ٹیکس وصولی میں کارکردگی بہتر بنانے کے لیے FBRکو دو حصوں پالیسی ونگ اور ایڈمنسٹریشن میں تقسیم کردیا ہے لیکن یہ حکمت عملی بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ ماضی میں پولیس نظام کو بہتر کرنے کے لیے انویسٹی گیشن اور اطلاق کا یہی فارمولا آزمایا جاچکا ہے جو کہ بہتری کے بجائے اُلٹا معاملات پیچیدہ بنانے کا باعث ثابت ہواہے ، ویسے بھی بہتری کے لیے موجود قوانین پر عمل درآمد کی نیک نیتی ہونی چاہیے نہ کہ تجربوں میں وقت ضایع کرنا چاہیے ۔ شاید اسی وجہ سے ریوینیو کا مقرر کردہ ہدف 68بلین روپے بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے ۔

جب کہ پاکستان شماریات یعنی (بیورو آف اسٹیٹسٹکس) نے حکومت کے شروعاتی 2ماہ کے جو اعداد و شمار جاری کیے ان کے مطابق تجارتی خسارہ 6.17بلین ڈالرز تک جاپہنچاہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے IMFاور ادائیگیوں میں توازن سے متعلق بیانات سے ملک میں اسٹاک ایکسچینج کی شرح 41,000پوائنٹس تک گرگئی ۔ جس سے سرمایہ کاروں اور شیئرز ہولڈرزکو بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑا۔ دوسری جانب میڈیائی رپورٹس کیمطابق بیرونی سرمایہ کاری میں 55 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔جب کہ صرف چین ، برطانیہ اور سوئٹرز لینڈ کی بیرونی سرمایہ کاری میں 42%کا دھچکا لگ چکا ہے ۔


ملک میں مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 7فیصدتک پہنچ گئی ہے ۔ جب کہ کنزیومر پرائس انڈیکس کی سطح 13فیصد تک پہنچنا اور حکومتی اخراجات میں 17سے 19 فیصد اضافہ بھی تشویشناک ہے۔ دفاعی اخراجات میں 20.3%اضافہ ہوا ہے ۔ پھر وفاقی ترقیاتی بجٹ یعنی 725بلین روپوں کی حامل فیڈرل پی ایس ڈی پی میں 250ملین روپے کمی یعنی 25فیصد کمی جب کہ پنجاب میں 50فیصد تک کمی کردی گئی ہے جس سے بیروزگاری میں اضافے کا امکان ہے اور ریگولیٹری ڈیوٹی کی مد میں 900عام اشیاء پر اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ حکومت خود کو غریب پرور ثابت کرنے پر تُلی ہوئی ہے ۔

نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کی صورتحال بھی شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اور پی پی پی کی بے نظیر بہن بستی پروگرام کی طرح ناکام ہوتی نظر آرہی ہے۔ ویسے بھی رجسٹریشن اور ادائیگیوں کے شیڈول کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکومت کی جانب سے کنسٹرکشن کے شعبے میں شامل ہونے یا کاروبار کرنے کی نیت کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ اگر فٹ پاتھ پر رہنے والے ان غریب لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہوتے تو یہ اپنا گھر قسطوں میں پہلے ہی بُک کرا چکے ہوتے یا پھر کم از کم کرایہ پر ہی گھر حاصل کرچکے ہوتے۔موجودہ حکومت کے پاس کوئی مستقل پالیسی نہ ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ سابقہ وزیر اعظم کی بھارت سے دوستی پر آگ بگولہ ہونیوالے عمران خان کو آج بطور وزیر اعظم بھارت دوستی میں پاکستان کے عام آدمی کا فائدہ نظر آرہا ہے۔ جس کے لیے انھوں نے کرتارپور سرحد کھولنے کا کام بلا تاخیر کردیا ہے ۔

بہرحال پڑوسی ممالک کی سرحدیں کھولنا اچھی بات ہے لیکن بغیر ویزہ کے غیر ملکیوں کو ملک میں آنے جانے دینے میں کیا ملکی مفاد ہوسکتے ہیں ؟ اگر واقعی یہ ملکی مفاد میں ہے تو پھر اس کے ثمرات دیگر صوبوں بالخصوص تھر- سندھ سے لگنے والی بھارتی سرحد کھول کر پہنچانے چاہئیں کیونکہ تھر میں سرحد کے دونوں طرف رہنے والے افراد کو آپس میں ملنے ملانے اور بھارتی ہندو یاتریوں کو ہنگلاج جانے کے لیے وایا دہلی ہزاروں میل کی مسافت طے کرنی پڑتی ہے جوکہ یہ سرحد کھلنے سے ایک تہائی کم ہوجائے گی ۔

ایک حیران کُن بات یہ بھی ہے کہ ان 100دنوں میں کوئی قانون سازی بھی نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی کوئی قرارداد اسمبلی میں پیش ہوسکی ہے ۔ جب کہ حکومتی ٹیم پارلیمنٹ میں اُمور چلانے میں بھی ناتجربہ کار ثابت ہوئی ہے ۔ حکومتی اراکین خود کو آج بھی روڈ پر جاری رکھے گئے جارحانہ رویے سے باہر نہیں نکال پائے ہیں اور وہ پارلیمنٹ میں ساز گار ماحول کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں ۔

حکومتی کارکردگی کی ایک چھوٹی جھلک سپریم کورٹ میں ورکرز ویلفیئر فنڈ کیس میںعدالت کی جانب سے دیے گئے ریمارکس سے واضح ہوتی ہے جس میں کہا گیا کہ : ''لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کچھ کلرک چلا رہے ہیں ''۔ اپنی کارکردگی سے متعلق لگتا ہے کہ حکومت کوخود بھی تفصیلات معلوم نہیں ، شاید اسی لیے 100دنوں کی کامیابیوں کے حوالے سے اپنی اشتہاری مہم میں شواہد کے طور پر سرکاری دستاویزات و اقدامات کا ذکر کرنے کے بجائے اخباری بیانات کے تراشوں کا سہارا لیا گیا ۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت میں کسان ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جن کے لیے ان سو دنوں میں عملی و پالیسی سازی کی سطح تک ابھی تک کوئی اہم پیش رفت نظر نہیں آئی ہے ۔ وزیر اعظم 100دن کی حکومت کے بعد بھی ملکی اسپتالوں کی حالت کو درست کرنے کے اقدامات بتانے کے بجائے اسپتالوں کی ابتر حالت پراسی طرح روتے نظر آئے جس طرح وہ کنٹینرز پر نظر آتے تھے۔ وزیر اعظم کے 100دن کی تکمیل پر خطاب کے اسکرپٹ کا مواد ان کے پہلے قوم سے خطاب کا تسلسل اور 70فیصد اعلانات پر مبنی تھا جن پر 100دنوں میں کام نہیں کیا گیا اور نہ ہی اب ان سے متعلق کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی بتائی گئی۔

شیلٹر ہوم حکومت کا اچھا قدم ہے مگر ملکی ترقی و انصاف کے تقاضے حقدار کو حق دینے سے پورے ہوتے ہیں ناکہ خیرات کی تقسیم سے ، اس لیے ملک کے مستقل حقیقی باشندوں کو اولیتی بنیادوں پر ملکی وسائل میں حصہ داری کے تحت روزگار و سہولیات فراہم کرنا اور غیر قانونی بیرونی لوگوں کو اپنے اپنے ملک ڈی پورٹ کرنے وغیرہ کی پالیسی ہی ملکی مسائل کے حل کی جانب حقیقی پیش قدمی ہوگی ۔ ہاںالبتہ ایف آئی اے کی فعالیت کو بڑھانے سے ملک میں 375 ارب کے جعلی اکاؤنٹ پکڑے جانے اور پاکستانیوں کے بیرون ِ ملک 11ارب کی مالیت کے اثاثوں سے متعلق 26 ممالک سے معاہدے کرنا واقعی میں ایک اچھا کام ہے۔ لیکن ان اثاثوں کی قانونی و غیر قانونی حیثیت سے متعلق تحقیقات ابھی باقی ہے ،جس کے بعد پتا چلے گا کہ یہ ملک منتقل ہوسکتے ہیں یا نہیں ۔

حکومت کا ایک اہم اور مثبت قدم 5ارب روپے اخوت فاؤنڈیشن کو دینا ہے۔ جس سے ملک کے غریب و ہنر مند ضرورت مند افراد کو بلا سود قرضے میسر ہوں گے۔ لیکن یہ قرضے جن اسباب کے لیے دیے جاتے ہیں ان پر خرچ نہ کیے جانے سے متعلق غیر مؤثر مانیٹرنگ کی وجہ سے یہ ملک کی مجموعی معیشت میں کوئی خاص بہتری لانے کا ذریعہ نہیں ہوسکیں گے ۔حکومت بھلے ہی ملک میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لاسکی ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس نے 100دن کی کارکردگی کی بنیاد پر خودکو احتساب کے لیے پیش کرنے کی نئی روایت ضرور قائم کی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میںاقتدار پر موجود حکومت کا احتساب حقیقی معنوں میں ہوتا ہے یا اس پر بھی یو ٹرن لینے کو ہی لیڈرشپ کا اعزاز قرار دیا جاتا ہے ۔
Load Next Story