الطاف فاطمہ اور عطش درانی
عطش درانی علمی اور تحقیقی حوالوں سے ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا نام اور قد آور شخصیت تھے
زندگی کے اسٹیج سے اپنا اپنا رول مکمل کرنے کے بعد جانے والوں کا سلسلہ تو لگا ہی رہتا ہے مگر اس بار تو حد ہی ہوگئی ہے کہ یہ مسلسل چوتھا کالم ہے جو رفتگاں کے حوالے سے لکھا جا رہا ہے۔ کل رات کو الطاف فاطمہ کی رحلت کی خبر ملی اور آج صبح عطش درانی کے انتقال کا پتہ چلا۔ دونوں ہی اپنے اپنے میدان کے گنی لوگ تھے اور دونوں ہی سے تقریباً 40 برس کی رسم و راہ تھی۔
الطاف فاطمہ کا مکان ''کنج گلی'' حبیب اللہ روڈ پر تھا جس کے ہمسائے میں تقریباً دس برس میرا بھی قیام رہا لیکن اس نزدیکی کے باوجود ان سے زیادہ تر ملاقاتیں ان کی تحریروں ہی کی معرفت رہیں۔ کبھی کبھی وہ فون پر میرے کسی ڈرامے یا تحریر پر اپنے اظہار شفقت کے لیے رابطہ کرتیں تو ان کی خیر خیریت کا پتہ بھی چل جاتا اور ہر بار ایک لمحاتی قسم کی ندامت گھیر لیتی کہ ہم قلم شریک بھائی عملی طور پر ایک دوسرے سے کس قدر بے خبر رہتے ہیں۔
مگر دنیا کی اس بھیڑ میں یہ کہہ کر اپنے آپ کو دھوکہ دے لیا کہ اس کی ایک وجہ ان کا تنہا رہنا بھی ہو سکتا ہے جو ایک خوامخواہ کے حجاب کی شکل اختیار کر گیا تھا لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ادبی برادری نے اس مرحومہ کی اس طرح سے دیکھ بھال اور تعظیم و تحسین نہیں کی جو ان کا حق بنتا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کے کئی اجلاسوں میں ان کی زبانی اُن کی تحریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان کی کہانیوں اور ناولوں کی ڈرامائی تشکیلات بھی دیکھیں اور ان کو حسب توفیق پڑھا بھی لیکن ان کی شخصیت کا سب سے غالب تاثر وہ شفقت، نرمی اور بردباری ہے جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
میں نے ان کو کبھی کسی کی برائی یا گلہ کرتے نہیں سنا۔ وہ دوسروں کی تعریف کرنے کے ضمن میں بہت پرجوش اور کشادہ دل تھیں اور اپنی گوشہ نشینی کے باوجود معاصر ادب پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ تدریس میں گزرا اور اگرچہ ان کے معروف ناول کا نام ''دستک نہ دو'' تھا مگر پھر بھی وہ ہر اس دروازے پر دستک دیتی تھیں جس کے اردگرد صلاحیت اور Talent کی لہریں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوں۔
اس اعتبار سے وہ وسیع المطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی دیدہ ور اور دانشور بھی تھیں جو اپنے عہد سے مکمل طور پر ہم قدم اور ہم آہنگ ہو۔ ہر اچھے لکھنے والے کی طرح ان کے قارئین کا بھی ایک خصوصی حلقہ تھا لیکن انھیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ اردو ادب کے عمومی قارئین بھی ان کے نام اور کام سے آشنا رہے۔
ان کے سینئر ہم عصروں میں قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی جیسے بڑے نام اور ہم عصروں میں خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، بانو قدسیہ اور جیلانی بانو کے ساتھ ساتھ جونیئرز میں طاہرہ اقبال، فرحت پروین، نیلم احمد بشیر، نیلوفر اقبال اور بشریٰ رحمن جیسے اہم نام شامل رہے مگر انھوں نے ہمیشہ اپنی ایک الگ اور منفرد پہچان قائم رکھی جو اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ایسے باہنر اور بھلے مانس لوگوں کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا یقینا ایک بہت بڑا نقصان ہے کہ ان دنوں جانے والوں کی جگہ لینے والوں کی نسل ایک ایسے قحط الرجال کا شکار ہے جس کی نوعیت شیخ سعدی کے قحط دمشق سے بھی زیادہ سنگین اور تشویشناک ہے۔
عطش درانی علمی اور تحقیقی حوالوں سے ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا نام اور قد آور شخصیت تھے مگر بدقسمتی سے لسانیات، املا اور اردو رسم الخط کو درپیش جدید مسائل اور خطرات ایسے موضوعات ہیں جن پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے۔ فی زمانہ جس طرح زبانیں سکڑتی اور معدوم ہوتی جا رہی ہیں اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے ماضی کے تمام طریقوں کو ایک طرف رکھ کر اپنے دائرے کو وسیع کیا ہے اس کے ناکافی شعور کی وجہ سے اردو سمیت بعض بڑی اور باصلاحیت زبانیں بھی ایک بحرانی صورت سے دوچار ہوگئی ہیں۔
بھارت میں رشید حسن خان سمیت بہت سے اعلیٰ سطح کے ماہرین لسانیات نے اس طرف توجہ دی ہے مگر پاکستان کی حد تک میری معلومات کے مطابق کوئی بھی شخص عطش درانی مرحوم کے درجے کو نہیں پہنچتا۔ انھوں نے مختلف پلیٹ فارموں اور بالخصوص مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام اب کچھ اور رکھ دیا گیا ہے) کی معرفت اس میدان میں جو انقلابی کام کیا ہے اور جو بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
اردو کے ایک جدید اور بین الاقوامی معیارات کے درجے اور صلاحیت کی زبان بنانے کے سلسلے میں ان کا کام بے حد وقیع ہی نہیں مستقبل گیر اور سمت نما بھی ہے۔ وہ اپنے بھاری بھرکم جسمانی وجود کی طرح ایک غیر معمولی اور وسیع تر ذہن کے مالک تھے اور اردو رسم الخط کو کمپیوٹر کے بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق بنانے کے سلسلے میں ان کی تحقیق اور علمی اجتہادات یقینا ایک بہت قیمتی تحفہ ہیں اور ان کی خدمات کو صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر طریقہ بھی غالباً یہی ہے کہ ان کی جلائی ہوئی شمعوں کو روشن رکھا جائے اور ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے کہ زندگی کے ہر شعبے میں معیاری اور غیر معمولی تبدیلیاں کسی نہ کسی ''دیوانے'' کے ذریعے ہی رونما ہوتی ہیں۔ سو عطش درانی کی یہ دیوانگی بھی ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جس کی صحیح قدر آنے والے برسوں میں مزید روشن اور واضح ہو گی۔
الطاف فاطمہ کا مکان ''کنج گلی'' حبیب اللہ روڈ پر تھا جس کے ہمسائے میں تقریباً دس برس میرا بھی قیام رہا لیکن اس نزدیکی کے باوجود ان سے زیادہ تر ملاقاتیں ان کی تحریروں ہی کی معرفت رہیں۔ کبھی کبھی وہ فون پر میرے کسی ڈرامے یا تحریر پر اپنے اظہار شفقت کے لیے رابطہ کرتیں تو ان کی خیر خیریت کا پتہ بھی چل جاتا اور ہر بار ایک لمحاتی قسم کی ندامت گھیر لیتی کہ ہم قلم شریک بھائی عملی طور پر ایک دوسرے سے کس قدر بے خبر رہتے ہیں۔
مگر دنیا کی اس بھیڑ میں یہ کہہ کر اپنے آپ کو دھوکہ دے لیا کہ اس کی ایک وجہ ان کا تنہا رہنا بھی ہو سکتا ہے جو ایک خوامخواہ کے حجاب کی شکل اختیار کر گیا تھا لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ ادبی برادری نے اس مرحومہ کی اس طرح سے دیکھ بھال اور تعظیم و تحسین نہیں کی جو ان کا حق بنتا تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کے کئی اجلاسوں میں ان کی زبانی اُن کی تحریریں سننے کا اتفاق ہوا۔ ان کی کہانیوں اور ناولوں کی ڈرامائی تشکیلات بھی دیکھیں اور ان کو حسب توفیق پڑھا بھی لیکن ان کی شخصیت کا سب سے غالب تاثر وہ شفقت، نرمی اور بردباری ہے جو ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
میں نے ان کو کبھی کسی کی برائی یا گلہ کرتے نہیں سنا۔ وہ دوسروں کی تعریف کرنے کے ضمن میں بہت پرجوش اور کشادہ دل تھیں اور اپنی گوشہ نشینی کے باوجود معاصر ادب پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ تدریس میں گزرا اور اگرچہ ان کے معروف ناول کا نام ''دستک نہ دو'' تھا مگر پھر بھی وہ ہر اس دروازے پر دستک دیتی تھیں جس کے اردگرد صلاحیت اور Talent کی لہریں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوں۔
اس اعتبار سے وہ وسیع المطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی دیدہ ور اور دانشور بھی تھیں جو اپنے عہد سے مکمل طور پر ہم قدم اور ہم آہنگ ہو۔ ہر اچھے لکھنے والے کی طرح ان کے قارئین کا بھی ایک خصوصی حلقہ تھا لیکن انھیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ اردو ادب کے عمومی قارئین بھی ان کے نام اور کام سے آشنا رہے۔
ان کے سینئر ہم عصروں میں قرۃ العین حیدر اور عصمت چغتائی جیسے بڑے نام اور ہم عصروں میں خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور، بانو قدسیہ اور جیلانی بانو کے ساتھ ساتھ جونیئرز میں طاہرہ اقبال، فرحت پروین، نیلم احمد بشیر، نیلوفر اقبال اور بشریٰ رحمن جیسے اہم نام شامل رہے مگر انھوں نے ہمیشہ اپنی ایک الگ اور منفرد پہچان قائم رکھی جو اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ایسے باہنر اور بھلے مانس لوگوں کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا یقینا ایک بہت بڑا نقصان ہے کہ ان دنوں جانے والوں کی جگہ لینے والوں کی نسل ایک ایسے قحط الرجال کا شکار ہے جس کی نوعیت شیخ سعدی کے قحط دمشق سے بھی زیادہ سنگین اور تشویشناک ہے۔
عطش درانی علمی اور تحقیقی حوالوں سے ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا نام اور قد آور شخصیت تھے مگر بدقسمتی سے لسانیات، املا اور اردو رسم الخط کو درپیش جدید مسائل اور خطرات ایسے موضوعات ہیں جن پر بہت ہی کم توجہ دی جاتی ہے۔ فی زمانہ جس طرح زبانیں سکڑتی اور معدوم ہوتی جا رہی ہیں اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی نے ماضی کے تمام طریقوں کو ایک طرف رکھ کر اپنے دائرے کو وسیع کیا ہے اس کے ناکافی شعور کی وجہ سے اردو سمیت بعض بڑی اور باصلاحیت زبانیں بھی ایک بحرانی صورت سے دوچار ہوگئی ہیں۔
بھارت میں رشید حسن خان سمیت بہت سے اعلیٰ سطح کے ماہرین لسانیات نے اس طرف توجہ دی ہے مگر پاکستان کی حد تک میری معلومات کے مطابق کوئی بھی شخص عطش درانی مرحوم کے درجے کو نہیں پہنچتا۔ انھوں نے مختلف پلیٹ فارموں اور بالخصوص مقتدرہ قومی زبان (جس کا نام اب کچھ اور رکھ دیا گیا ہے) کی معرفت اس میدان میں جو انقلابی کام کیا ہے اور جو بیش بہا خدمات سرانجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
اردو کے ایک جدید اور بین الاقوامی معیارات کے درجے اور صلاحیت کی زبان بنانے کے سلسلے میں ان کا کام بے حد وقیع ہی نہیں مستقبل گیر اور سمت نما بھی ہے۔ وہ اپنے بھاری بھرکم جسمانی وجود کی طرح ایک غیر معمولی اور وسیع تر ذہن کے مالک تھے اور اردو رسم الخط کو کمپیوٹر کے بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق بنانے کے سلسلے میں ان کی تحقیق اور علمی اجتہادات یقینا ایک بہت قیمتی تحفہ ہیں اور ان کی خدمات کو صحیح معنوں میں خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہتر طریقہ بھی غالباً یہی ہے کہ ان کی جلائی ہوئی شمعوں کو روشن رکھا جائے اور ان کی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے کہ زندگی کے ہر شعبے میں معیاری اور غیر معمولی تبدیلیاں کسی نہ کسی ''دیوانے'' کے ذریعے ہی رونما ہوتی ہیں۔ سو عطش درانی کی یہ دیوانگی بھی ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جس کی صحیح قدر آنے والے برسوں میں مزید روشن اور واضح ہو گی۔