ہاکی ورلڈکپ گرین شرٹس پہلے امتحان میں ناکام

ورلڈ کپ میں فتح کا عزم لئے پاکستانی ٹیم ان دنوں ایک بار پھر بھارت میں موجود ہے۔

ورلڈ کپ میں فتح کا عزم لئے پاکستانی ٹیم ان دنوں ایک بار پھر بھارت میں موجود ہے۔ فوٹو: فائل

بھارتی سرزمین پر کھیلنا اور جیت کر واپس لوٹنا ہر پاکستانی کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے۔

چوہدری اختر رسول کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے 1982ء ورلڈکپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تو پورا ملک خوشی سے جھوم اٹھا، وطن واپسی پر کھلاڑیوں کا جہاں تاریخی استقبال ہوا وہاں اختر رسول بھی شائقین کی آنکھوں کا تارا بن گئے، اپنے اس کارنامے کی وجہ سے ماضی کے عظیم سنٹر فارورڈ 2 بار پاکستان ہاکی فیڈریشن کے نہ صرف صدر منتخب ہوئے بلکہ وزارت کا تاج بھی ان کے سر پر سجا، ایک تقریب میں اختر رسول کا کہنا تھا کہ اپنی 64 سالہ زندگی میں دنیا بھر کی سیر کی، وزارت کے عہدے پر بھی فائز رہا لیکن جو نشہ میچ میں کامیابی کے بعد آتا ہے اس کا موازنہ کسی اور کے ساتھ کیا ہی نہیں جا سکتا۔

اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہاکی وہ کھیل تھا جس نے اقوام عالم میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بار بار لہرایا، یہ سلسلہ پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہوا اور 1994 تک جاری رہا، پاکستان نے پہلی بار 1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کی اور چوتھی پوزیشن حاصل کی، 1960 کے روم اولمپکس میںگرین شرٹس نے روایتی حریف بھارت کو صفر کے مقابلے میں ایک گول سے شکست دے کر پہلی مرتبہ اولمپک چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

پاکستان اب تک 3 اولمپکس ، 4 عالمی کپ، 3 چیمپئنز ٹرافی، 7 ایشن گیمز ، 3 ایشیا کپ اور بڑی تعداد میں عالمی سطح کے ٹورنامنٹس اور سیریز جیت چکا ہے تاہم ماضی کی ہاکی فیڈریشنوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے 1960ء ، 1968ء اور 1984ء کے اولمپکس کی فاتح پاکستان کی ہاکی کا گراف نیچے چلا گیا۔ پاکستان کا آخری اولمپک ہاکی میں میڈل کانسی کا ہے، جو اس نے 1992ء میں حاصل کیا تھا۔

قومی کھیل کو اس کے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے کھوکھلے دعوے لئے پی ایچ ایف میں میوزیکل چیئر کی گیم جاری رہی، عہدیدار آتے اور حکومت سے کروڑوں اربوں کے فنڈز لیتے رہے، جائیدادیں بناتے ، بینک بیلنس بڑھاتے اور اپنوں کو نوازتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ ہاکی ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی چلی گئی، ایک وقت وہ بھی آیا جب گرین شرٹس نہ صرف ورلڈ کپ 2014ء بلکہ اولمپکس 2016ء کی دوڑ سے بھی باہر ہوئے بلکہ ایف آئی ایچ رینکنگ میںان کا نام ٹاپ ٹین میں بھی نہ رہا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ 1994ء کے ورلڈ کپ کا تاج سر پر سجانے کے بعد مستقبل کی تیاری کے لیے 10 سالہ تھیوری پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی جس کے بعد مایوسیاں اور ناکامیاں گرین شرٹس کا مقدر بن گئیں۔ عالمی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کے خلاف میدان میں اترنے سے قبل ہی ہمت ہارنے والی ٹیمیں آج ہمیں آنکھیں دکھاتی ہیں، ان کے مقابل کھیلتے ہوئے ہماری حکمت عملی اس طرح ناکام ہوتی ہے جیسے گرین شرٹس کھیلنے کا ہنر ہی بھول گئے ہوں۔


ورلڈ کپ میں فتح کا عزم لئے پاکستانی ٹیم ان دنوں ایک بار پھر بھارت میں موجود ہے۔ اگرچہ گرین شرٹس سے کوئی بڑی کامیابی کی امید تو نہیں کی جا رہی تاہم ٹیم مینجمنٹ پر امید ہیں کہ موجودہ ٹیم ماضی کی یادگار کارکردگی دکھانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے، ایک عہدیدار کے مطابق 1994ء کے ورلڈ کپ سے قبل کہا جا رہا تھا کہ یہ ٹیم تو چائے کا کپ نہیں جیت سکتی، ورلڈ کپ کیا جیتے گی تاہم شہباز سینئر کی قیادت میں قومی ٹیم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور عالمی کپ کا ٹائٹل چوتھی بار پاکستان کی جھولی میں ڈال دیا، ہمیں یہ حقائق بھی ہر گز فراموش نہیں کرنے چاہئیں کہ عالمی کپ کے لیے پاکستانی ٹیم کو بھارت بجھوانے کے لیے جو پاپڑ بیلنا پڑے، اس کی داستان بہت طویل اور دکھ بھری ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کا خزانہ خالی ہونے کے بعد آخری امید حکومتی امداد تھی تاہم پی ایچ ایف کوحکومتی ایوانوں سے مالی بحران کے حل کی تاحال خوشخبری نہیں مل سکی ہے۔ وہ تو بھلا ہو مخیر حضرات کا جن کے تعاون سے پاکستانی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں شرکت کے قابل ہوئی ورنہ تاریخ میں پہلی بار پاکستانی ٹیم میگا ایونٹ کی نمائندگی سے محروم ہو جاتی۔

اگر ورلڈکپ کی تاریخ کی بات کی جائے تو میگا ایونٹ کا آغاز 1971ء میں بارسلونا سے ہوا اور عالمی کپ کے اب تک 13 ایڈیشز ہو چکے ہیں پاکستان کو سب سے زیادہ 4 بار ولڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل ہے، گرین شرٹس نے یہ ٹائٹل 1971، 1978ء، 1982ء اور1994ء میں اپنے نام کئے، پاکستانی ٹیم 1975ء اور1990ء میں چاندی کے تمغے بھی جیت چکی ہے۔

آسٹریلیا اور ہالینڈ کو3،3 بار، جرمنی3جبکہ بھارت نے ایک بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے، ورلڈکپ کا باقاعدہ آغاز 28 نومبر سے بھارتی شہر بھوبنیشور سے ہو چکا ہے، شاہ رخ خان، مادھوری ڈکشت سمیت بالی ووڈ کے سٹارز پر مشتمل میگا ایونٹ کی پروقار تقریب بھی کالنگا سٹیڈیم میں سجائی جا چکی ہے، پہلی بار12کی بجائے 16 ٹیمیں شریک ہیں جن کو چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، پاکستانی ٹیم جس ڈی پول میں شامل ہیں، اس کو ڈیتھ آف پول بھی کہا جا رہا ہے، اس گروپ کو یہ نام دینے کی وجہ یہ سامنے آئی ہے کیونکہ عالمی کپ کا یہ واحد گروپ ہے جس میں شامل ٹیموں پاکستان، ہالینڈ اور جرمنی کو9 بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستانی ٹیم میگا ایونٹ کا پہلا میچ جرمنی کے خلاف کھیل چکی ہے، جس میں گرین شرٹس کو 1-0 سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اب گرین شرٹس 5 دسمبر کو ملائشیا جبکہ 9دسمبر کو ہالینڈ کے خلاف ایکشن میں دکھائی دیںگے۔ ہیڈ کوچ توقیر ڈار کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیم متحد اور ایک مقصد کے ساتھ بھارت میں موجود ہے، پلیئرز نے کئی مشکلات کا سامنا کیا ۔ جرمنی کے خلاف ہار کے باوجود ٹیم ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ کپ میں ہماری ٹیم کو کافی آسان لیا جا رہا ہے تاہم اپنے ہاکی تجربے کی بنیاد پر وثوق سے کہتا ہوں کہ ہماری ٹیم عالمی کپ میں شریک ٹیموں کو سرپرائز دے گی۔

کپتان محمد رضوان سینئر کا کہنا ہے کہ ہرکھلاڑی کی پوری خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی کارکردگی دکھائے جس سے اس کے ملک کا نام روشن ہو سکتا ہے کہ یہ میرا آخری ورلڈکپ ہو، اس لئے میگاایونٹ کا یادگار بنانے کی کوشش کروں گا، ان کے مطابق توقیر ڈار اور حسن سردار کی موجودگی کی وجہ سے کھلاڑیوں کا مورال خاصا بلند ہے، پلیئرز بھی کچھ کر دکھانے کے لیے پرعزم ہیں۔

 
Load Next Story