حکمرانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں
عظیم چینی فلسفی کنفیوشس کہ جس کے علم وفضل، تدبراوردانش سے دنیا صدیوں سے فیضیاب ہوتی چلی آرہی ہے۔یوں تو زندگی کے ہر۔۔۔
KARACHI:
عظیم چینی فلسفی کنفیوشس کہ جس کے علم وفضل، تدبراوردانش سے دنیا صدیوں سے فیضیاب ہوتی چلی آرہی ہے۔یوں تو زندگی کے ہر موضوع پر اپنی دانائی کے موتی بکھیرے ہیں،مگر نظم حکمرانی پر ان کے فرمودات آج بھی ماضی کی طرح اٹل حقیقت ہیں۔ یہاں موضوع کی مناسبت سے صرف دو واقعات نقل کررہے ہیں۔
ایک مرتبہ چین کے بادشاہ نے اس عظیم فلسفی کو شاہی محل میں مدعوکیا۔ پر تکلف ظہرانے کے بعد شہزادگان کو نوادرات دکھانے کا حکم صادر ہوا۔ شہزادوں کی معیت میں کنفیوشس پوری دنیا سے جمع کردہ نودرات کا معائنہ کررہاتھاکہ اس نے دیکھاکہ قیمتی اشیاء کے درمیان ایک چمڑے کاایک معمولی ساپانی نکالنے کا ڈول بھی رکھا ہوا تھا۔ کنفیوشس نے شہزادگان سے اس ڈول کی وہاں موجودگی کا سبب پوچھا۔ جب کوئی شہزادہ واضح جواب نہ دے سکا،تب اس نے کہاکہ اس ڈول کو حوض تک لے کر چلو۔
وہاں پہنچ کراس نے کہا کہ اسے پوری قوت سے پانی میں ڈبوئو۔ ڈول ڈوب کرحوض کی تہہ میں بیٹھ گیا۔ کہا نکال کر پانی کی سطح پر چھوڑ دو۔ ڈول حوض کی سطح پر پانی میں تیرنے لگا۔ پھر کہا کہ اس سے پانی نکالو۔ایک شہزادے نے ڈول سے پانی نکال دیا۔ اس پر کنفیوشس نے کہا کہ تمہارے اجداد بہت دانا لوگ تھے۔انھوں نے یہ ڈول علامتی طورپر نوادرات میں رکھا ہے۔ تم نے دیکھا کہ جب ڈول پر بہت زیادہ طاقت لگائی گئی تو یہ حوض کی تہہ میں بیٹھ گیا۔جب تم نے مکمل ڈھیل دی تو تیرنے لگا۔ مگر جب تم نے مناسب طاقت لگائی تو اس سے تم نے پانی نکال لیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام پر بہت زیادہ دبائو انھیں تباہ کردیتا ہے۔ بہت زیادہ نرمی قانون شکنی کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ جب کہ مناسب طاقت مملکت کے نظام کو متوازن رکھنے کا سبب بنتی ہے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کنفیوشس تبت کے پہاڑی علاقوں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ گذررہاتھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک مہ جبیں زاروقطار رورہی ہے۔ کنفیوشس اس کے قریب گیا اور پوچھا کہ اے حسین خاتون ایسی کون سی افتاد آن پڑی ہے کہ تو اس طرح بین کررہی ہے۔ خاتون نے کہا کہ اس علاقے میں ایک خونخوار شیر آگیا ہے،جو دوہفتے قبل میرے سسرکومار کرکھاگیا۔ گزشتہ ہفتے میرے شوہر کو مار دیا۔ آج اس نے میرے جواں سال بیٹے کو زخمی کردیا۔کنفیوشس نے خاتون سے کہا کہ اے نیک دل بی بی تم یہ علاقہ کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟ اس پر عورت نے جواب دیا کہ اس علاقے کا حکمران ظالم نہیں ہے۔یہ جواب سن کر کنفیوشس اپنے شاگردوں کی طرف پلٹااور بولاکہ سنا تم نے ظالم حکمران آدم خور شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میںحضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ کسی معاشرے میں کفر کی حکومت چل سکتی ہے،ظلم کی نہیں۔کنفیوشس کے حوالے سے بیان کردہ ان دوواقعات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکمران اگر نظم حکمرانی میں توازن قائم رکھنے میں ناکام رہتے ہیں، تو معاشرہ ہر دو صورت میں انتشار کا شکار ہوکر تباہی کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ہم نے پچھلے اظہاریے میں بھی لکھا تھا،پھر لکھ رہے ہیںاوربار بار لکھیں گے کہ قومی تعمیراور مسائل سے نمٹنے کے لیے قومی رہنمائوںکووسیع القلبی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔انھیں وسیع ترقومی ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا نے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنے ذاتی عناد اور پرخاشوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے جدید دنیا میں تحمل، برداشت اور مفاہمت کی سب سے بڑی مثال نیلسن منڈیلانے قائم کی۔جنوبی افریقہ جہاں اصل (Indigenous) باشندے ایک صدی تک تاریخ کے بد ترین نسلی امتیازات (Apartheid)کا شکار رہے۔خود نیلسن منڈیلانے اپنی زندگی کے27قیمتی برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارے۔
رہائی کے وقت جب کہ نسل پرست حکومت کی گرفت کمزور پڑرہی تھی ،نیلسن منڈیلا چاہتے توپورے ملک میں گوری چمڑی والوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاسکتے تھے۔ مگرانھوں نے آزادی کے بعد گوری چمڑی والی اقلیت کے خلاف انتقامی کاروائی کے بجائے قومی مفاہمتی پالیسی کے ذریعے انھیں قومی دھارے میں شریک کرکے اپنے ملک کوجمہوریت، انسانی حقوق اورکثیرالثقافتی معاشرتی اقدار کی مثال بنادیا۔ لیکن انھوں نے سب سے پہلے سچائی کمیشن قائم کرکے حقائق کو دستاویزی شکل دی ،تاکہ دنیا کے سامنے اصل حقائق آسکیں۔ اس کے بعدان تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا،جنہوں نے ان کے ملک اصل باشندوںپر صدیوں ظلم کے پہاڑ توڑے اور نسلی بنیادوںپر نفرتوں کو نسل در نسل منتقل کیاتھا۔ خود انھیں 27برس کی قید بامشقت کی سزا دی ۔مگر یہ اس عظیم انسان کی سیاسی بصیرت ،عزم اور حوصلہ تھا ۔ایسے دور رس فیصلوں کی کسی ایرے غیرے سے نہیں صرف نیلسن منڈیلا جیسے عظیم رہنماء ہی سے توقع کی جاسکتی ہے۔
ان مثالوں کی روشنی میں ذرا پاکستان پر نظر ڈالیں۔ ملک اس وقت بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کا کوئی علاقہ،کوئی کونااور کوئی ادارہ دہشت گردوں کی پہنچ سے باہر نہیں رہاہے۔امن و امان کی صورتحال پہلے ہی انتہائی مخدوش ہے۔معیشت کی چولیں اس حد تک ڈھیلی پڑچکی ہیں کہ قرضے کی ایک قسط کی ادائیگی کے لیے اگلے قرضے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ توانائی کا بحران اس مقام تک جا پہنچا ہے کہ صنعتیں تیزی سے بند ہورہی ہیں اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ تعلیم ،صحت اور سماجی ترقی کے شعبے انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ایک طرف ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمز اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔حالانکہ گزشتہ انتخابات میںمسلم لیگ(ن) سے پیپلز پارٹی تک۔تحریک انصاف سے متحدہ قومی موومنٹ تک ہر جماعت کوعوام نے درپیش مسائل کے حل کے لیے ووٹ دے کر کامیاب کرایا ہے۔مگر بجلی کا بحران حل کرنے، معیشت کو اس کے پائوںپر کھڑا کرکے مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ کرنے اور دہشت گردی پرقابوپانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمے کو اولین ترجیح بنابیٹھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا عوام نے گزشتہ انتخابات میں اسے معاشی مسائل حل کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا یا اپنی پچھلی کدورتوں کوانتقامی شکل دینے کا مینڈیٹ دیاتھا؟ یہ سوال بھی عوامی حلقوں میں گردش کررہا ہے کہ صرف جنرل پرویز مشرف ہی کیوں؟ جنرل ضیاء ،جس نے پورے معاشرے کا بنیادی Fabricتارتار کیا اورجس کے جرائم جنرل پرویز مشرف سے کہیں زیادہ ہیں،اس کے بارے میں خاموشی کیوں؟شاید حکومت کے لیے اس ملک میں اداروں کو تباہ کرنا اور ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانا،کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔جہاں تک3نومبر 2007ء کو نافذ ہونے والی ایمرجنسی کاتعلق ہے،تو اس کی دستاویز کا مطالعہ کیا جائے توان میںواضح طورپرتحریر ہے کہ اس کے نفاذ سے قبل چاروںصوبائی گورنروں، فوج کی اعلیٰ قیادت، سول بیوروکریسی اور سیاسی رہنماء سے مشاورت کی گئی۔اس لیے لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا موجود ہ حکومت جنرل کیانی سمیت دیگر ذمے داروں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے گی؟
مسلم لیگ(ن) میں شامل ان افراد کو بھی عدالت کے کٹہرے میںلانے کی جرأت کرے گی جو چندبرس قبل تک پرویز مشرف کے سرگرم حامی اور ان کی کابینہ میں وزارت کے مزے لوٹ رہے تھے اور آج مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یا صرف اکیلے پرویز مشرف کو نشانہ بناکرانصاف کا جھنڈا بلندکرنے کی کوشش کرے گی؟ آمروں کو ضرور کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، مگر اس سے پہلے ان عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، جو کسی آمر کو طالع آزمائی کاموقع فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں لگنے والے مارشل لائوں اور فوجی آمریتوں کا مطالعہ کیا جائے تو انھیں ہمیشہ ایک سے زائد سیاسی جماعتوںاوررہنمائوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ آج پاکستان میں جو سیاسی قیادت موجود ہے،اس میں عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کرسندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی شاید ہی کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہو جس کا کسی نہ کسی حوالے سے فوجی آمریتوں سے کوئی تعلق نہ رہاہو۔
پاکستان جن مسائل سے دو چار ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔یاد رہے کہ جمہوریت سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کی کارکردگی سے مستحکم ہوگی ،جرنیلوںکے خلاف انتقامی کاروائی نئے تنازعات کو جنم دینے کاسبب بنے گی۔اس لیے کوشش کی جائے کہ جنوبی افریقہ کی طرزپر ایک وسیع البنیاداورقطعی غیر جانبدار سچائی کمیشن قائم کیا جائے، جو ملک میں مختلف مواقع پر آئین شکنی اور انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ لینے کے بعد ذمے داروں کا تعین کرے۔ لیکن سزا دینے کے بجائے عام معافی کا اعلان کیا جائے تاکہ ایک طرف ادارہ جاتی ٹکر ائوسے بچاجاسکے اوردوسری طرف وہ مسائل جن کے حل کا وعدہ لے کر یہ جماعتیں اقتدار میں آئی ہیں،ان کا حل تاخیر کا شکار نہ ہوسکے۔بہرحال یہ طے ہے کہ حکمرانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
عظیم چینی فلسفی کنفیوشس کہ جس کے علم وفضل، تدبراوردانش سے دنیا صدیوں سے فیضیاب ہوتی چلی آرہی ہے۔یوں تو زندگی کے ہر موضوع پر اپنی دانائی کے موتی بکھیرے ہیں،مگر نظم حکمرانی پر ان کے فرمودات آج بھی ماضی کی طرح اٹل حقیقت ہیں۔ یہاں موضوع کی مناسبت سے صرف دو واقعات نقل کررہے ہیں۔
ایک مرتبہ چین کے بادشاہ نے اس عظیم فلسفی کو شاہی محل میں مدعوکیا۔ پر تکلف ظہرانے کے بعد شہزادگان کو نوادرات دکھانے کا حکم صادر ہوا۔ شہزادوں کی معیت میں کنفیوشس پوری دنیا سے جمع کردہ نودرات کا معائنہ کررہاتھاکہ اس نے دیکھاکہ قیمتی اشیاء کے درمیان ایک چمڑے کاایک معمولی ساپانی نکالنے کا ڈول بھی رکھا ہوا تھا۔ کنفیوشس نے شہزادگان سے اس ڈول کی وہاں موجودگی کا سبب پوچھا۔ جب کوئی شہزادہ واضح جواب نہ دے سکا،تب اس نے کہاکہ اس ڈول کو حوض تک لے کر چلو۔
وہاں پہنچ کراس نے کہا کہ اسے پوری قوت سے پانی میں ڈبوئو۔ ڈول ڈوب کرحوض کی تہہ میں بیٹھ گیا۔ کہا نکال کر پانی کی سطح پر چھوڑ دو۔ ڈول حوض کی سطح پر پانی میں تیرنے لگا۔ پھر کہا کہ اس سے پانی نکالو۔ایک شہزادے نے ڈول سے پانی نکال دیا۔ اس پر کنفیوشس نے کہا کہ تمہارے اجداد بہت دانا لوگ تھے۔انھوں نے یہ ڈول علامتی طورپر نوادرات میں رکھا ہے۔ تم نے دیکھا کہ جب ڈول پر بہت زیادہ طاقت لگائی گئی تو یہ حوض کی تہہ میں بیٹھ گیا۔جب تم نے مکمل ڈھیل دی تو تیرنے لگا۔ مگر جب تم نے مناسب طاقت لگائی تو اس سے تم نے پانی نکال لیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام پر بہت زیادہ دبائو انھیں تباہ کردیتا ہے۔ بہت زیادہ نرمی قانون شکنی کو پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ جب کہ مناسب طاقت مملکت کے نظام کو متوازن رکھنے کا سبب بنتی ہے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کنفیوشس تبت کے پہاڑی علاقوں میں اپنے شاگردوں کے ساتھ گذررہاتھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک مہ جبیں زاروقطار رورہی ہے۔ کنفیوشس اس کے قریب گیا اور پوچھا کہ اے حسین خاتون ایسی کون سی افتاد آن پڑی ہے کہ تو اس طرح بین کررہی ہے۔ خاتون نے کہا کہ اس علاقے میں ایک خونخوار شیر آگیا ہے،جو دوہفتے قبل میرے سسرکومار کرکھاگیا۔ گزشتہ ہفتے میرے شوہر کو مار دیا۔ آج اس نے میرے جواں سال بیٹے کو زخمی کردیا۔کنفیوشس نے خاتون سے کہا کہ اے نیک دل بی بی تم یہ علاقہ کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟ اس پر عورت نے جواب دیا کہ اس علاقے کا حکمران ظالم نہیں ہے۔یہ جواب سن کر کنفیوشس اپنے شاگردوں کی طرف پلٹااور بولاکہ سنا تم نے ظالم حکمران آدم خور شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
اس سلسلے میںحضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ کسی معاشرے میں کفر کی حکومت چل سکتی ہے،ظلم کی نہیں۔کنفیوشس کے حوالے سے بیان کردہ ان دوواقعات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حکمران اگر نظم حکمرانی میں توازن قائم رکھنے میں ناکام رہتے ہیں، تو معاشرہ ہر دو صورت میں انتشار کا شکار ہوکر تباہی کی جانب بڑھ جاتا ہے۔ہم نے پچھلے اظہاریے میں بھی لکھا تھا،پھر لکھ رہے ہیںاوربار بار لکھیں گے کہ قومی تعمیراور مسائل سے نمٹنے کے لیے قومی رہنمائوںکووسیع القلبی کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔انھیں وسیع ترقومی ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا نے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنے ذاتی عناد اور پرخاشوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے جدید دنیا میں تحمل، برداشت اور مفاہمت کی سب سے بڑی مثال نیلسن منڈیلانے قائم کی۔جنوبی افریقہ جہاں اصل (Indigenous) باشندے ایک صدی تک تاریخ کے بد ترین نسلی امتیازات (Apartheid)کا شکار رہے۔خود نیلسن منڈیلانے اپنی زندگی کے27قیمتی برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارے۔
رہائی کے وقت جب کہ نسل پرست حکومت کی گرفت کمزور پڑرہی تھی ،نیلسن منڈیلا چاہتے توپورے ملک میں گوری چمڑی والوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاسکتے تھے۔ مگرانھوں نے آزادی کے بعد گوری چمڑی والی اقلیت کے خلاف انتقامی کاروائی کے بجائے قومی مفاہمتی پالیسی کے ذریعے انھیں قومی دھارے میں شریک کرکے اپنے ملک کوجمہوریت، انسانی حقوق اورکثیرالثقافتی معاشرتی اقدار کی مثال بنادیا۔ لیکن انھوں نے سب سے پہلے سچائی کمیشن قائم کرکے حقائق کو دستاویزی شکل دی ،تاکہ دنیا کے سامنے اصل حقائق آسکیں۔ اس کے بعدان تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا،جنہوں نے ان کے ملک اصل باشندوںپر صدیوں ظلم کے پہاڑ توڑے اور نسلی بنیادوںپر نفرتوں کو نسل در نسل منتقل کیاتھا۔ خود انھیں 27برس کی قید بامشقت کی سزا دی ۔مگر یہ اس عظیم انسان کی سیاسی بصیرت ،عزم اور حوصلہ تھا ۔ایسے دور رس فیصلوں کی کسی ایرے غیرے سے نہیں صرف نیلسن منڈیلا جیسے عظیم رہنماء ہی سے توقع کی جاسکتی ہے۔
ان مثالوں کی روشنی میں ذرا پاکستان پر نظر ڈالیں۔ ملک اس وقت بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کا کوئی علاقہ،کوئی کونااور کوئی ادارہ دہشت گردوں کی پہنچ سے باہر نہیں رہاہے۔امن و امان کی صورتحال پہلے ہی انتہائی مخدوش ہے۔معیشت کی چولیں اس حد تک ڈھیلی پڑچکی ہیں کہ قرضے کی ایک قسط کی ادائیگی کے لیے اگلے قرضے کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ توانائی کا بحران اس مقام تک جا پہنچا ہے کہ صنعتیں تیزی سے بند ہورہی ہیں اور بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ تعلیم ،صحت اور سماجی ترقی کے شعبے انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں۔ایک طرف ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائمز اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔حالانکہ گزشتہ انتخابات میںمسلم لیگ(ن) سے پیپلز پارٹی تک۔تحریک انصاف سے متحدہ قومی موومنٹ تک ہر جماعت کوعوام نے درپیش مسائل کے حل کے لیے ووٹ دے کر کامیاب کرایا ہے۔مگر بجلی کا بحران حل کرنے، معیشت کو اس کے پائوںپر کھڑا کرکے مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ کرنے اور دہشت گردی پرقابوپانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے مسلم لیگ(ن) کی وفاقی حکومت جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت مقدمے کو اولین ترجیح بنابیٹھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا عوام نے گزشتہ انتخابات میں اسے معاشی مسائل حل کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا یا اپنی پچھلی کدورتوں کوانتقامی شکل دینے کا مینڈیٹ دیاتھا؟ یہ سوال بھی عوامی حلقوں میں گردش کررہا ہے کہ صرف جنرل پرویز مشرف ہی کیوں؟ جنرل ضیاء ،جس نے پورے معاشرے کا بنیادی Fabricتارتار کیا اورجس کے جرائم جنرل پرویز مشرف سے کہیں زیادہ ہیں،اس کے بارے میں خاموشی کیوں؟شاید حکومت کے لیے اس ملک میں اداروں کو تباہ کرنا اور ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانا،کوئی بڑا جرم نہیں ہے۔جہاں تک3نومبر 2007ء کو نافذ ہونے والی ایمرجنسی کاتعلق ہے،تو اس کی دستاویز کا مطالعہ کیا جائے توان میںواضح طورپرتحریر ہے کہ اس کے نفاذ سے قبل چاروںصوبائی گورنروں، فوج کی اعلیٰ قیادت، سول بیوروکریسی اور سیاسی رہنماء سے مشاورت کی گئی۔اس لیے لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ آیا موجود ہ حکومت جنرل کیانی سمیت دیگر ذمے داروں کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لائے گی؟
مسلم لیگ(ن) میں شامل ان افراد کو بھی عدالت کے کٹہرے میںلانے کی جرأت کرے گی جو چندبرس قبل تک پرویز مشرف کے سرگرم حامی اور ان کی کابینہ میں وزارت کے مزے لوٹ رہے تھے اور آج مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یا صرف اکیلے پرویز مشرف کو نشانہ بناکرانصاف کا جھنڈا بلندکرنے کی کوشش کرے گی؟ آمروں کو ضرور کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، مگر اس سے پہلے ان عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، جو کسی آمر کو طالع آزمائی کاموقع فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان میں لگنے والے مارشل لائوں اور فوجی آمریتوں کا مطالعہ کیا جائے تو انھیں ہمیشہ ایک سے زائد سیاسی جماعتوںاوررہنمائوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ آج پاکستان میں جو سیاسی قیادت موجود ہے،اس میں عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کرسندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی شاید ہی کوئی ایسی سیاسی شخصیت ہو جس کا کسی نہ کسی حوالے سے فوجی آمریتوں سے کوئی تعلق نہ رہاہو۔
پاکستان جن مسائل سے دو چار ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ انھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔یاد رہے کہ جمہوریت سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کی کارکردگی سے مستحکم ہوگی ،جرنیلوںکے خلاف انتقامی کاروائی نئے تنازعات کو جنم دینے کاسبب بنے گی۔اس لیے کوشش کی جائے کہ جنوبی افریقہ کی طرزپر ایک وسیع البنیاداورقطعی غیر جانبدار سچائی کمیشن قائم کیا جائے، جو ملک میں مختلف مواقع پر آئین شکنی اور انسانی حقوق کی پامالی کا جائزہ لینے کے بعد ذمے داروں کا تعین کرے۔ لیکن سزا دینے کے بجائے عام معافی کا اعلان کیا جائے تاکہ ایک طرف ادارہ جاتی ٹکر ائوسے بچاجاسکے اوردوسری طرف وہ مسائل جن کے حل کا وعدہ لے کر یہ جماعتیں اقتدار میں آئی ہیں،ان کا حل تاخیر کا شکار نہ ہوسکے۔بہرحال یہ طے ہے کہ حکمرانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔