اپوزیشن کو متحد ہو نا ہو گا
بجٹ کا پیغام صرف یہ ہے کہ اپوزیشن کو متحد ہونا ہو گا۔ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کے فیصلے پر قومی اسمبلی سے انگوٹھا۔۔۔
بجٹ کا پیغام صرف یہ ہے کہ اپوزیشن کو متحد ہونا ہو گا۔ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کے فیصلے پر قومی اسمبلی سے انگوٹھا لگوالیا گیا ہے'نتیجتاً جنرل سیلز ٹیکس13 جون سے ہی نافذالعمل قرار پایا، سپریم کورٹ کا فیصلہ منہ دیکھتا رہ گیا۔ عوام پر ایک اور بجلی کڑکی ہے۔ عدالت نے انٹرا کورٹ اپیل میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ چارجز کو غیر قانونی قرار دینے کا اپنا پہلا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ہے۔ اس طرح وہ عوامی ریلیف جو اکتوبر2012 ء میں عدلیہ نے دیا تھا، از خود واپس لے لیا ہے۔
مزید ستم یہ ہوا ہے کہ بجلی کمپنیوں کو یہ اجازت بھی مرحمت فرما دی گئی کہ وہ عوام سے پچھلا حساب بھی لیں۔ گویا، یہ ریلیف اب عوام کو بہر صورت واپس کرنا ہو گا۔ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی دور میں پانچ مرلہ کے گھروں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ متوسط طبقہ نے اس پر سکون کا سانس لیا تھا۔ 2008ء کے بعد پنجاب میں ن لیگ نے متعدد مرتبہ اس ریلیف کو ''ق لیگ کی باقیات'' قرار دیکر ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باعث کامیاب نہ ہو سکی تھی۔11 مئی کے بعد ن لیگ کے راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی تھی۔ لہٰذا، پہلے ہی ہلے میں پانچ مرلہ مکانات پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ عوام کی کمر پر بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کا جو بوجھ لادا گیاہے، یہ اقدام اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اپوزیشن اگر یوں ہی متذبذب، منتشر اور منقسم رہی تو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
11 مئی کے الیکشن میں ن لیگ کو قومی اسمبلی کی 272 میں سے صرف 124 سیٹیں ملی تھیں، یعنی حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد131 سے بھی7 کم۔ دو تہائی اکثریت کی تہہ ن لیگ پر بعد میں چڑھی۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ن لیگ کو معمولی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ ن لیگ کی حلیف پارٹیوں، (مسلم لیگ ف، مسلم لیگ ض، نیشنل پیپلز پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، اور عوامی نیشنل پارٹی) کو شامل نہ بھی کریں، تو بھی صرف پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ اور آزاد ارکان کی تعداد 123 تک پہنچ رہی تھی۔ بظاہر حکومت اور اپوزیشن میں برابر کا جوڑ تھا۔
لیکن جیسا کہ ہمارے یہاں سیاست کا چلن ہے کہ آزاد ارکان ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں، ایک کے بعد ایک آزاد رکن اسمبلی ن لیگ میں شامل ہوتا گیا؛ وہ ارکان بھی، جنہوں نے قبل ازیں ق لیگ کو شمولیت کی تحریری یقین دہانی کرائی تھی، اور وہ ارکان بھی، جنہوں نے ن لیگ کے امیدواروں ہی کو ہرایا تھا، تا آنکہ ن لیگ کو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد میسر ہو گئی۔ وفاق میں ن لیگ کی حکومت بنتے ہی جمعیت علمائے اسلام نے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے، نئی حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اپوزیشن کی حواس باختگی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے بعد جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی نوازشریف کو ووٹ دینے میں عافیت سمجھی۔ اس میں کلام نہیں کہ اپوزیشن نے نوازشریف کو بلا مقابلہ وزیر اعظم بننے نہیں دیا، لیکن اس مرحلہ پر اپوزیشن کی اندورنی کمزوری بھی عیاں ہو گئی۔ اپوزیشن، نواز شریف کے مقابلہ میں کوئی متفقہ امیدوار میدان میں نہ اتار سکی، حالانکہ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی نے سید خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر مقرر کیا ہے۔ عددی طور پر یہ پیپلز پارٹی ہی کا حق ہے کہ اپوزیشن لیڈر اس کا ہو۔ اس تناظر میں کہ ایم کیوایم جلد یا بدیر سندھ حکومت کا حصہ بن جائے گی، اپوزیشن لیڈر کے عہدہ پر پیپلز پارٹی کا حق مزید فائق ہو جاتا ہے۔ لیکن، پیپلز پارٹی کی طرف سے سید خورشید شاہ کا بطور اپوزیشن لیڈر تقرر یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی، اپوزیشن کا حقیقی کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سید خورشید شاہ مفاہمت کی سیاست کے لیے تو موزوں ہو سکتے ہیں، لیکن اپوزیشن کی سیاست کے لیے قطعاً غیر موزوں ہیں۔ اب تک شاہ صاحب کی کارگزاری دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ موصوف اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اس کے برعکس، عمران خان میں اپوزیشن لیڈر بننے کی صلاحیت بدرجہ اُتم موجود ہے۔ عمران خان کی مشکل لیکن وہی ہے، جو سید خورشید شاہ کی ہے۔ سید خورشید شاہ کی پارٹی، سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ عمران خان کی پارٹی، خیبر پختون خوا میں برسراقتدار ہے۔ اپوزیشن کے نقطۂ نظر سے جو اعتراض پیپلز پارٹی پر وارد ہوتا ہے، وہ تحریک انصاف پر بھی صادق آتا ہے۔
کل کلاں ایم کیو ایم، سندھ حکومت کا حصہ بن جاتی ہے، تو اس کی پوزیشن بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے مختلف نہیں ہو گی۔ ن لیگ کے '' ڈاربجٹ'' نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، لیکن اپوزیشن کی طرف سے کوئی ایک تقریر بھی ایسی نہیں تھی، جس میں بجٹ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہو، جس طرح کہ گزشتہ اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری نثار علی خان کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ حقیقتاً، اس پہلو سے موجودہ اپوزیشن کا معاملہ مایوس کن رہا۔ معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ ''اپوزیشن فری اسمبلی'' ہے۔
قومی اسمبلی میں جب تک اپوزیشن متحد نہیں ہو گی، حکومت کے خلاف کوئی بامعنی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریکوں کا جو حشر ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ سو سوالوں کا ایک سوال مگر یہ ہے کہ اپوزیشن متحد کیسے ہو۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف، بظاہر ایک دوسرے کا نام سننے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ ق ابھی ''دیکھو اور انتظار کرو''کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام میں علیک سلیک ختم ہو چکی۔ پیپلز پارٹی کو عددی طور پر اپوزیشن پارٹیوں میں برتری حاصل ہے، لیکن یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی قیادت تلے اپوزیشن متحد ہوسکتی ہے۔ نظر بظاہر یہ آ رہا ہے کہ اپوزیشن اگر متحد ہو گی تو تیسری پارٹی کے گرد ہی متحد ہو گی۔ ایک ایسی قیادت تلے، جس کے جماعتی مفادات پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے جماعتی مفادات سے بہت کم ٹکراتے ہوں۔ ''متحدہ اپوزیشن لیڈر'' کی معاونت کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین پر مشتمل مشاورتی کونسل بھی قائم ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ''متحدہ اپوزیشن لیڈر'' قومی اسمبلی میں باقاعدہ اپوزیشن لیڈر بھی ہو۔ اس کے برعکس اپوزیشن لیڈر کا اسمبلی عہدہ وقفہ وقفہ سے تینوں بڑی پارٹیوں کے درمیان گردش میں لایا جا سکتا ہے۔
غالباً، آصف علی زرداری کو اس پر کوئی اعتراض نہیں گا۔ شیخ رشید احمد، عمران خان کو اپوزیشن لیڈر منتخب کرانے کی کوشش کر چُکے ہیں۔ مشاہد حسین سید بھی یہ خواہش کرتے پائے گئے۔ یہ سعی ِ ناکام تھی، ناکام ہو گئی تو کوئی تعجب نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر پیپلز پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی حکمت عملی اپوزیشن کی طاقت کم تو کرسکتی ہے، اس میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ بعینہ، عمران خان کو بھی یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اپوزیشن کے طور پر ان کی پوزیشن دیکھنے میں وہی ہے، جو قبل ازیں متحدہ مجلس عمل اور ن لیگ کی تھی، ایک صوبہ میں حکومت اور وفاق میں اپوزیشن۔ عمران خان اس طرح کی اپوزیشن پر فضل الرحمٰن اور نواز شریف کی اس قدر مخالفت کر چکے ہیں کہ اب ان کے لیے اس طرح کی پوزیشن میں تحریک ِانصاف کو اپوزیشن کے طور پر منوانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ ایم کیوایم کا معاملہ بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے مختلف نہیں۔ میں نے گزشتہ سے پیوستہ کالم ''شیخ رشید کی فاتحانہ واپسی'' میں عرض کیا تھا کہ اپوزیشن کا بحران بڑا سنگین ہے۔ بجٹ پر بحث نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کے غیر موثر ہونے پر اپوزیشن کے اندر اور باہر بعض اہم شخصیات سر جوڑ کر بیٹھ چکی ہیں، دیکھیے ؎
کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
مزید ستم یہ ہوا ہے کہ بجلی کمپنیوں کو یہ اجازت بھی مرحمت فرما دی گئی کہ وہ عوام سے پچھلا حساب بھی لیں۔ گویا، یہ ریلیف اب عوام کو بہر صورت واپس کرنا ہو گا۔ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی دور میں پانچ مرلہ کے گھروں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ متوسط طبقہ نے اس پر سکون کا سانس لیا تھا۔ 2008ء کے بعد پنجاب میں ن لیگ نے متعدد مرتبہ اس ریلیف کو ''ق لیگ کی باقیات'' قرار دیکر ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن مطلوبہ اکثریت نہ ہونے کے باعث کامیاب نہ ہو سکی تھی۔11 مئی کے بعد ن لیگ کے راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی تھی۔ لہٰذا، پہلے ہی ہلے میں پانچ مرلہ مکانات پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ عوام کی کمر پر بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کا جو بوجھ لادا گیاہے، یہ اقدام اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ اپوزیشن اگر یوں ہی متذبذب، منتشر اور منقسم رہی تو پھر عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔
11 مئی کے الیکشن میں ن لیگ کو قومی اسمبلی کی 272 میں سے صرف 124 سیٹیں ملی تھیں، یعنی حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد131 سے بھی7 کم۔ دو تہائی اکثریت کی تہہ ن لیگ پر بعد میں چڑھی۔ اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ن لیگ کو معمولی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ ن لیگ کی حلیف پارٹیوں، (مسلم لیگ ف، مسلم لیگ ض، نیشنل پیپلز پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی، اور عوامی نیشنل پارٹی) کو شامل نہ بھی کریں، تو بھی صرف پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ اور آزاد ارکان کی تعداد 123 تک پہنچ رہی تھی۔ بظاہر حکومت اور اپوزیشن میں برابر کا جوڑ تھا۔
لیکن جیسا کہ ہمارے یہاں سیاست کا چلن ہے کہ آزاد ارکان ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں، ایک کے بعد ایک آزاد رکن اسمبلی ن لیگ میں شامل ہوتا گیا؛ وہ ارکان بھی، جنہوں نے قبل ازیں ق لیگ کو شمولیت کی تحریری یقین دہانی کرائی تھی، اور وہ ارکان بھی، جنہوں نے ن لیگ کے امیدواروں ہی کو ہرایا تھا، تا آنکہ ن لیگ کو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد میسر ہو گئی۔ وفاق میں ن لیگ کی حکومت بنتے ہی جمعیت علمائے اسلام نے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے، نئی حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اپوزیشن کی حواس باختگی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے بعد جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی نوازشریف کو ووٹ دینے میں عافیت سمجھی۔ اس میں کلام نہیں کہ اپوزیشن نے نوازشریف کو بلا مقابلہ وزیر اعظم بننے نہیں دیا، لیکن اس مرحلہ پر اپوزیشن کی اندورنی کمزوری بھی عیاں ہو گئی۔ اپوزیشن، نواز شریف کے مقابلہ میں کوئی متفقہ امیدوار میدان میں نہ اتار سکی، حالانکہ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
پیپلز پارٹی نے سید خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر مقرر کیا ہے۔ عددی طور پر یہ پیپلز پارٹی ہی کا حق ہے کہ اپوزیشن لیڈر اس کا ہو۔ اس تناظر میں کہ ایم کیوایم جلد یا بدیر سندھ حکومت کا حصہ بن جائے گی، اپوزیشن لیڈر کے عہدہ پر پیپلز پارٹی کا حق مزید فائق ہو جاتا ہے۔ لیکن، پیپلز پارٹی کی طرف سے سید خورشید شاہ کا بطور اپوزیشن لیڈر تقرر یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ پیپلز پارٹی، اپوزیشن کا حقیقی کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ سید خورشید شاہ مفاہمت کی سیاست کے لیے تو موزوں ہو سکتے ہیں، لیکن اپوزیشن کی سیاست کے لیے قطعاً غیر موزوں ہیں۔ اب تک شاہ صاحب کی کارگزاری دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ موصوف اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اس کے برعکس، عمران خان میں اپوزیشن لیڈر بننے کی صلاحیت بدرجہ اُتم موجود ہے۔ عمران خان کی مشکل لیکن وہی ہے، جو سید خورشید شاہ کی ہے۔ سید خورشید شاہ کی پارٹی، سندھ میں حکومت کر رہی ہے۔ عمران خان کی پارٹی، خیبر پختون خوا میں برسراقتدار ہے۔ اپوزیشن کے نقطۂ نظر سے جو اعتراض پیپلز پارٹی پر وارد ہوتا ہے، وہ تحریک انصاف پر بھی صادق آتا ہے۔
کل کلاں ایم کیو ایم، سندھ حکومت کا حصہ بن جاتی ہے، تو اس کی پوزیشن بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے مختلف نہیں ہو گی۔ ن لیگ کے '' ڈاربجٹ'' نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں، لیکن اپوزیشن کی طرف سے کوئی ایک تقریر بھی ایسی نہیں تھی، جس میں بجٹ کا پوسٹ مارٹم کیا گیا ہو، جس طرح کہ گزشتہ اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری نثار علی خان کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے۔ حقیقتاً، اس پہلو سے موجودہ اپوزیشن کا معاملہ مایوس کن رہا۔ معلوم ہوتا ہے، جیسے یہ ''اپوزیشن فری اسمبلی'' ہے۔
قومی اسمبلی میں جب تک اپوزیشن متحد نہیں ہو گی، حکومت کے خلاف کوئی بامعنی کردار ادا نہیں کر سکتی۔ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی کٹوتی کی تحریکوں کا جو حشر ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ سو سوالوں کا ایک سوال مگر یہ ہے کہ اپوزیشن متحد کیسے ہو۔ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف، بظاہر ایک دوسرے کا نام سننے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ ق ابھی ''دیکھو اور انتظار کرو''کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام میں علیک سلیک ختم ہو چکی۔ پیپلز پارٹی کو عددی طور پر اپوزیشن پارٹیوں میں برتری حاصل ہے، لیکن یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی قیادت تلے اپوزیشن متحد ہوسکتی ہے۔ نظر بظاہر یہ آ رہا ہے کہ اپوزیشن اگر متحد ہو گی تو تیسری پارٹی کے گرد ہی متحد ہو گی۔ ایک ایسی قیادت تلے، جس کے جماعتی مفادات پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے جماعتی مفادات سے بہت کم ٹکراتے ہوں۔ ''متحدہ اپوزیشن لیڈر'' کی معاونت کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین پر مشتمل مشاورتی کونسل بھی قائم ہو سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ''متحدہ اپوزیشن لیڈر'' قومی اسمبلی میں باقاعدہ اپوزیشن لیڈر بھی ہو۔ اس کے برعکس اپوزیشن لیڈر کا اسمبلی عہدہ وقفہ وقفہ سے تینوں بڑی پارٹیوں کے درمیان گردش میں لایا جا سکتا ہے۔
غالباً، آصف علی زرداری کو اس پر کوئی اعتراض نہیں گا۔ شیخ رشید احمد، عمران خان کو اپوزیشن لیڈر منتخب کرانے کی کوشش کر چُکے ہیں۔ مشاہد حسین سید بھی یہ خواہش کرتے پائے گئے۔ یہ سعی ِ ناکام تھی، ناکام ہو گئی تو کوئی تعجب نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر پیپلز پارٹی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی حکمت عملی اپوزیشن کی طاقت کم تو کرسکتی ہے، اس میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ بعینہ، عمران خان کو بھی یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اپوزیشن کے طور پر ان کی پوزیشن دیکھنے میں وہی ہے، جو قبل ازیں متحدہ مجلس عمل اور ن لیگ کی تھی، ایک صوبہ میں حکومت اور وفاق میں اپوزیشن۔ عمران خان اس طرح کی اپوزیشن پر فضل الرحمٰن اور نواز شریف کی اس قدر مخالفت کر چکے ہیں کہ اب ان کے لیے اس طرح کی پوزیشن میں تحریک ِانصاف کو اپوزیشن کے طور پر منوانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ ایم کیوایم کا معاملہ بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے مختلف نہیں۔ میں نے گزشتہ سے پیوستہ کالم ''شیخ رشید کی فاتحانہ واپسی'' میں عرض کیا تھا کہ اپوزیشن کا بحران بڑا سنگین ہے۔ بجٹ پر بحث نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کے غیر موثر ہونے پر اپوزیشن کے اندر اور باہر بعض اہم شخصیات سر جوڑ کر بیٹھ چکی ہیں، دیکھیے ؎
کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک