فیشن کی اندھی تقلید ہمیں مذاق بنا دیتی ہے
کسی فیشن کو ا پنانے سے پہلے اسے اپنی معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ کرلینا چاہیے
ISLAMABAD:
کسی قوم کے لباس، پہنائوے، زیورات، خوراک، رسوم و رواج، طرز زیست و دیگر اشیاء اس قوم کی تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں، جو کہ اسے دوسری اقوام سے منفرد و ممتاز بناتی ہیں۔
اس کے ساتھ وقت کے کسی خاص حصے میں کوئی مخصوص رجحان معاشرے میں نمایاں، مقبول یا غالب ہوتا ہے، جسے عام بول چال میں ہم فیشن کا نام دیتے ہیں۔ جب کوئی نیا رجحان معاشرے میں رواج پاتا ہے تو پرانا اسٹائل بتدریج ''آئوٹ آف فیشن'' ہونے لگتا ہے۔ فیشن وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں کسی قوم کا مجموعی تشخص، کلچر یا تہذیب ایک نسبتاً پائیدار اور مستحکم شئے ہے۔ اگرچہ عالمگیریت (Globalization) کے زیر اثر دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کے لباس، خوراک اور طرز زندگی میں یکسانیت آتی جا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ابھی تک علاقائی یا مقامی کلچر کے مظاہر بھی باقی ہیں۔
انفرادی سطح پر بھی ایک دوسرے سے بہتر اور منفرد نظر آنا ہر انسان کی خواہش ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو تبدیلی اور فیشن کی طرف مائل کرتی ہے۔ مگر اس خواہش کے حصول کے لیے آج کل کی نوجوان نسل فیشن کی اندھی تقلید کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اپنی جسمانی ساخت اور وضع قطع کو مکمل طور پر پس پشت ڈال دیتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ فیشن کی دنیا میں بہت نام رکھتا ہے۔ یہی نہیں فیشن کی دنیا میں روز بروز نت نئے ناموں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی فیشن انڈسٹری میں روز افزوں اضافہ خوش آئند ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کی پاکستانی فیشن انڈسڑی میں مغربی یا ہندوستانی کلچر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ پاکستان کے مختلف نمائندہ طبقات میں سے، مشرقی فیشن کا تعلق صرف مڈل کلاس طبقے سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے بھی کسی طور انکاری نہیں ہوا جا سکتا کہ فیشن اب ہر طبقے کے لیے لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔
دیکھا جائے تو معاشرے میں نت نئے فیشنوں کا چلن ایک طرح سے معاشرے کے زندہ ہونے کی علامت ہے، کیونکہ یکسانیت چاہے روز مرہ کے معمول میں ہو یا لباس میں، یہ آپ کی زندگی کو بوجھل بنا دیتی ہے جبکہ ایک خوشگوار تبدیلی سے آپ کی زندگی میں نیا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب آنے والی تبدیلی ''خوشگوار'' بھی ہو۔ بلا سوچے سمجھے ہر نئے فیشن کی تقلید کرنے میں سب سے بڑی برائی اپنے وقار اور ذاتی تشخص سے صرف نظرکرنا ہے۔ آج کل لڑکیوں کی بڑی تعداد مردانہ اسٹائل اپنانے کو فیشن کا نام دیتی ہے۔ اسی طرح لڑکوں میں زیورات اور میک اپ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کانوں اور بھنوئوں میں بالیاں اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے کپڑوں کے رنگ اور ڈیزائن ایک ہو چکے ہیں۔ ادھیڑ عمر حضرات بھی عمر کے برعکس چیختے چنگھاڑتے رنگوں کے لباس زیب تن کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
خواتین کے شلوار قمیض، لہنگے، شرارے، غرارے، چولی، گھاگھرا وغیرہ مشرقی تہذیب و ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ یہ روایتی ملبوسات شادی بیاہ کی تقریبات کے علاوہ کئی علاقوں میں روایتی لباس کے طور پر پہنے جاتے ہیں۔ ہر لباس اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
آج کل لمبی قمیضیں اور پیروں تک آتے فراک بہت عام ہیں۔ اور نہ صرف لڑکیوں بلکہ خواتین میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ آج سے تیس چالیس برس قبل فیشن کی دنیا پر نظر دوڑائی تو اس وقت بھی یہی فیشن عام تھا جو آج کل کی خواتین اور لڑکیوں میں مقبول ہے۔ طبقہ خواہ کوئی بھی ہو، ہر طبقے کی نمائندہ لڑکیاں اس کو اپنے اپنے انداز میں زیب تن کیے نظر آتی ہیں۔
خودنمائی کے اس دور میں مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آج سے کچھ عرصہ قبل مرد حضرات محدود ملبوسات جیسا کہ شلوار قمیض، جینز، ٹی شرٹ یا ڈریس پینٹ شرٹ میں نظر آتے تھے۔ اور ان کے ملبوسات کے رنگ بھی گنے چنے تھے۔ مگر آج کل مرد و خواتین کے کپڑوں اور ڈیزائن میں سوائے سائز کے کوئی بھی چیز مختلف نظر نہیں آتی۔ موجودہ صورتحال کی ترجمانی انور مسعود نے بہت خوبصورتی سے اپنے ان اشعار میں کی ہے:
طرز لباس تازہ ہے اک شکل احتجاج
فیشن کے اہتمام سے کیا کچھ عیاں نہیں
یہ لڑکیوں کو شکوہ ہے، کیوں لڑکیوں ہیں ہم
لڑکوں کو یہ گلہ ہے، وہ کیوں لڑکیاں نہیں
مرد حضرات کے فیشن میں سب سے نمایاں روز بروز بدلتے ہیر اسٹائلز کے نت نئے ڈیزائن ہیں۔ سر پر کلغی ہو یا فوجی کٹ، یا صاف چٹیل میدان کا نظارہ، بعض اوقات حد یہ کر دی جاتی ہے کہ سر کو کرکٹ یا فٹ بال کا میدان سمجھ کر کہیں کہیں گھاس کے قطعہ کے مثل بال رکھے یا ہٹائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد میں Tattosبنوانے کا رجحان بھی فروغ پا رہا ہے۔
نوجوانوں کے بدلتے فیشن رجحانات کے متعلق مختلف اداروں کے طلبا و طالبات نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا۔ MAO کالج کے محمد عثمان کے مطابق فیشن کا انتخاب اپنے کلچر کو مدنظر رکھ کر کیا جانا ہی شخصیت کو زیب دیتا ہے۔ایک نجی تعلیمی ادارے سے وابستہ سید محمد عمر کا کہنا تھا کہ فیشن دور حاضر کی ضرورت ہے۔ اویس علی کے مطابق وقت کے تقاضوں کو اپنانے اور ساتھ لے کر چلنے میں کوئی برائی نہیں۔ ربیعہ شفق کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ لباس میں تبدیلی اچھی لگتی ہے کیونکہ یکسانیت سے دل اکتا جاتا ہے۔ فریحہ مہوش کا کہنا تھا کہ مجھے لمبی قمیضوں کا فیشن سب سے زیادہ پسند ہے کیونکہ ابھی بھی ہمارے مڈل کلاس طبقے کے بہت سے گھرانوں میں لڑکیوں کو اونچی قمیض پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حرا مجاہد نے بتایا کہ آج کل چمک دمک کے بجائے منفرد سلائی کے کپڑے پسند کیے جاتے ہیں۔ صوفیہ مرزا کا کہنا تھا کہ لڑکیاں جینز شرٹ میں اسٹائلش لگتی ہیں۔
پاکستانی فیشن انڈسڑی میں ہندوستانی یا مغربی کلچر جتنا بھی نمایاں رہا ہو، مگر آج بھی پاکستان کی60 فیصد آبادی ایسے مڈل کلاس طبقے پر مشتمل ہے جو فیشن کو اسلامی معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اس کی اقدار سامنے رکھتے ہوئے اپناتے ہیں، اور فیشن کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے۔ ہمیں بحیثیت قوم خود کو منفرد دکھانا اور اپنا تشخص برقرار رکھنا ہو گا۔ کیونکہ نقل کے لیے بھی عقل لازم ہے۔ کسی بھی فیشن کی اندھی تقلید میں چلنے کے بجائے اگر اسے اپنی شخصیت کے مطابق ڈھال لیا جائے تو نہایت مناسب ہو۔ اس سے پہلے کے ہم ''مجنوں نظر آتی ہے، لیلی نظر آتا ہے'' کی عملی تفسیر بن جائیں۔n
کسی قوم کے لباس، پہنائوے، زیورات، خوراک، رسوم و رواج، طرز زیست و دیگر اشیاء اس قوم کی تہذیب اور ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں، جو کہ اسے دوسری اقوام سے منفرد و ممتاز بناتی ہیں۔
اس کے ساتھ وقت کے کسی خاص حصے میں کوئی مخصوص رجحان معاشرے میں نمایاں، مقبول یا غالب ہوتا ہے، جسے عام بول چال میں ہم فیشن کا نام دیتے ہیں۔ جب کوئی نیا رجحان معاشرے میں رواج پاتا ہے تو پرانا اسٹائل بتدریج ''آئوٹ آف فیشن'' ہونے لگتا ہے۔ فیشن وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں کسی قوم کا مجموعی تشخص، کلچر یا تہذیب ایک نسبتاً پائیدار اور مستحکم شئے ہے۔ اگرچہ عالمگیریت (Globalization) کے زیر اثر دنیا بھر میں بسنے والے لوگوں کے لباس، خوراک اور طرز زندگی میں یکسانیت آتی جا رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ابھی تک علاقائی یا مقامی کلچر کے مظاہر بھی باقی ہیں۔
انفرادی سطح پر بھی ایک دوسرے سے بہتر اور منفرد نظر آنا ہر انسان کی خواہش ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان کو تبدیلی اور فیشن کی طرف مائل کرتی ہے۔ مگر اس خواہش کے حصول کے لیے آج کل کی نوجوان نسل فیشن کی اندھی تقلید کرتی ہے، جس کے نتیجے میں اپنی جسمانی ساخت اور وضع قطع کو مکمل طور پر پس پشت ڈال دیتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ فیشن کی دنیا میں بہت نام رکھتا ہے۔ یہی نہیں فیشن کی دنیا میں روز بروز نت نئے ناموں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی فیشن انڈسٹری میں روز افزوں اضافہ خوش آئند ہے۔ مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج کی پاکستانی فیشن انڈسڑی میں مغربی یا ہندوستانی کلچر کی چھاپ نظر آتی ہے۔ پاکستان کے مختلف نمائندہ طبقات میں سے، مشرقی فیشن کا تعلق صرف مڈل کلاس طبقے سے ہی محسوس ہوتا ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے بھی کسی طور انکاری نہیں ہوا جا سکتا کہ فیشن اب ہر طبقے کے لیے لازم و ملزوم ہو چکا ہے۔
دیکھا جائے تو معاشرے میں نت نئے فیشنوں کا چلن ایک طرح سے معاشرے کے زندہ ہونے کی علامت ہے، کیونکہ یکسانیت چاہے روز مرہ کے معمول میں ہو یا لباس میں، یہ آپ کی زندگی کو بوجھل بنا دیتی ہے جبکہ ایک خوشگوار تبدیلی سے آپ کی زندگی میں نیا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب آنے والی تبدیلی ''خوشگوار'' بھی ہو۔ بلا سوچے سمجھے ہر نئے فیشن کی تقلید کرنے میں سب سے بڑی برائی اپنے وقار اور ذاتی تشخص سے صرف نظرکرنا ہے۔ آج کل لڑکیوں کی بڑی تعداد مردانہ اسٹائل اپنانے کو فیشن کا نام دیتی ہے۔ اسی طرح لڑکوں میں زیورات اور میک اپ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ کانوں اور بھنوئوں میں بالیاں اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے کپڑوں کے رنگ اور ڈیزائن ایک ہو چکے ہیں۔ ادھیڑ عمر حضرات بھی عمر کے برعکس چیختے چنگھاڑتے رنگوں کے لباس زیب تن کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
خواتین کے شلوار قمیض، لہنگے، شرارے، غرارے، چولی، گھاگھرا وغیرہ مشرقی تہذیب و ثقافت کا اہم حصہ ہیں۔ یہ روایتی ملبوسات شادی بیاہ کی تقریبات کے علاوہ کئی علاقوں میں روایتی لباس کے طور پر پہنے جاتے ہیں۔ ہر لباس اپنی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
آج کل لمبی قمیضیں اور پیروں تک آتے فراک بہت عام ہیں۔ اور نہ صرف لڑکیوں بلکہ خواتین میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ آج سے تیس چالیس برس قبل فیشن کی دنیا پر نظر دوڑائی تو اس وقت بھی یہی فیشن عام تھا جو آج کل کی خواتین اور لڑکیوں میں مقبول ہے۔ طبقہ خواہ کوئی بھی ہو، ہر طبقے کی نمائندہ لڑکیاں اس کو اپنے اپنے انداز میں زیب تن کیے نظر آتی ہیں۔
خودنمائی کے اس دور میں مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آج سے کچھ عرصہ قبل مرد حضرات محدود ملبوسات جیسا کہ شلوار قمیض، جینز، ٹی شرٹ یا ڈریس پینٹ شرٹ میں نظر آتے تھے۔ اور ان کے ملبوسات کے رنگ بھی گنے چنے تھے۔ مگر آج کل مرد و خواتین کے کپڑوں اور ڈیزائن میں سوائے سائز کے کوئی بھی چیز مختلف نظر نہیں آتی۔ موجودہ صورتحال کی ترجمانی انور مسعود نے بہت خوبصورتی سے اپنے ان اشعار میں کی ہے:
طرز لباس تازہ ہے اک شکل احتجاج
فیشن کے اہتمام سے کیا کچھ عیاں نہیں
یہ لڑکیوں کو شکوہ ہے، کیوں لڑکیوں ہیں ہم
لڑکوں کو یہ گلہ ہے، وہ کیوں لڑکیاں نہیں
مرد حضرات کے فیشن میں سب سے نمایاں روز بروز بدلتے ہیر اسٹائلز کے نت نئے ڈیزائن ہیں۔ سر پر کلغی ہو یا فوجی کٹ، یا صاف چٹیل میدان کا نظارہ، بعض اوقات حد یہ کر دی جاتی ہے کہ سر کو کرکٹ یا فٹ بال کا میدان سمجھ کر کہیں کہیں گھاس کے قطعہ کے مثل بال رکھے یا ہٹائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد میں Tattosبنوانے کا رجحان بھی فروغ پا رہا ہے۔
نوجوانوں کے بدلتے فیشن رجحانات کے متعلق مختلف اداروں کے طلبا و طالبات نے اپنی رائے کا اظہار اس طرح کیا۔ MAO کالج کے محمد عثمان کے مطابق فیشن کا انتخاب اپنے کلچر کو مدنظر رکھ کر کیا جانا ہی شخصیت کو زیب دیتا ہے۔ایک نجی تعلیمی ادارے سے وابستہ سید محمد عمر کا کہنا تھا کہ فیشن دور حاضر کی ضرورت ہے۔ اویس علی کے مطابق وقت کے تقاضوں کو اپنانے اور ساتھ لے کر چلنے میں کوئی برائی نہیں۔ ربیعہ شفق کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ لباس میں تبدیلی اچھی لگتی ہے کیونکہ یکسانیت سے دل اکتا جاتا ہے۔ فریحہ مہوش کا کہنا تھا کہ مجھے لمبی قمیضوں کا فیشن سب سے زیادہ پسند ہے کیونکہ ابھی بھی ہمارے مڈل کلاس طبقے کے بہت سے گھرانوں میں لڑکیوں کو اونچی قمیض پہننے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ حرا مجاہد نے بتایا کہ آج کل چمک دمک کے بجائے منفرد سلائی کے کپڑے پسند کیے جاتے ہیں۔ صوفیہ مرزا کا کہنا تھا کہ لڑکیاں جینز شرٹ میں اسٹائلش لگتی ہیں۔
پاکستانی فیشن انڈسڑی میں ہندوستانی یا مغربی کلچر جتنا بھی نمایاں رہا ہو، مگر آج بھی پاکستان کی60 فیصد آبادی ایسے مڈل کلاس طبقے پر مشتمل ہے جو فیشن کو اسلامی معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اس کی اقدار سامنے رکھتے ہوئے اپناتے ہیں، اور فیشن کا اصل مقصد بھی یہی ہونا چاہیے۔ ہمیں بحیثیت قوم خود کو منفرد دکھانا اور اپنا تشخص برقرار رکھنا ہو گا۔ کیونکہ نقل کے لیے بھی عقل لازم ہے۔ کسی بھی فیشن کی اندھی تقلید میں چلنے کے بجائے اگر اسے اپنی شخصیت کے مطابق ڈھال لیا جائے تو نہایت مناسب ہو۔ اس سے پہلے کے ہم ''مجنوں نظر آتی ہے، لیلی نظر آتا ہے'' کی عملی تفسیر بن جائیں۔n