نوجوانوں کی کامیابی کا فارمولا۔۔۔۔۔۔

صلاحیت کے ساتھ محنت اور مثبت سوچ بھی ضروری ہے

صلاحیت کے ساتھ محنت اور مثبت سوچ بھی ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

آج کے حالات پر نگاہ ڈالیں تو ایک طرف تو دل سے حسرت کی آہ نکلتی ہے مگر جب دوسری طرف اپنے نوجوانوں کا جوش وجذبہ اور کچھ کر گزرنے کی دھن پر نگاہ جاتی ہے تو بے ساختہ ہونٹوں سے واہ نکلتی ہے۔

روشنی کی معمولی سی کرن گہرے اندھیرے میں تبدیلی کی نوید سناتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہوائیں رک جاتی ہیں، جب ظلمت کی گہری تہیں روشنی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، جب حالات ہمارے خلاف ہو جاتے ہیں، جب ہمارے منصوبے ناکام اور ہر تدبیر الٹی ہو رہی ہوتی ہے تو یہی وہ درست وقت ہوتا ہے جب تبدیلی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جب سپرنگ کو آخری حد تک دبا دیا جائے تو وہ پوری قوت سے اچھلتا ہے۔

مشکلات میں ہی آسانی کے راستے نکلتے ہیں اور مایوس کن حالات میں ہی کامیابی کے نئے منصوبے جنم لیتے ہیں، یہ صرف میری رائے نہیں دانشوروں کا کہنا ہے، لیکن خالقِ کائنات نے ان حالات اور ان کے بعد آنے والے روشن دور کی مسرت بھری نوید خود سنائی اور پیغمبرِ خدا حضرت محمد ﷺ نے بھی یہی کچھ فرمایا ہے۔ آئیں ذرا تصورکی آنکھ سے جھانک کر دیکھیں۔

غزوۂ احزاب (غزوۂ خندق) کے موقع پرقرآن مجید کے الفاظ میں حالات کیا تھے ''جب خوف سے ان کے کلیجے منہ کو آ گئے'' اور اسی غزوہ میں جب نمازیں قضاء ہونے لگی تھیں اور مشکل ترین حالات میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: یمن تم فتح کرو گے، کسریٰ کا مال و دولت تمہیں ملے گا اور روم پر تم حکومت کرو گے'' اس پر منافقین اور یہود نے بڑا مذاق اڑایا تھا مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ یہ سب کچھ درست تھا۔

میں اپنے نوجوانوں سے عرض کروں گا آج حالات جیسے بھی ہیں آپ نے گھبرانا نہیں ہے آپ کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل خود سے تیار کرنا ہے اور اس سلسلے میں چند گزارشات درج ذیل ہیں۔

1- ہمیشہ مثبت سوچیں اور ناممکن کے لفظ کو اپنی زندگی کی ڈکشنری سے نکال دیں۔

2- مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لئے ممکنات کی سوچ اپنائیں اور اسی سوچ کی بنیاد پر اپنی زندگی کا مقصد طے کریں۔

3- اپنے اہداف بنائیں اور ان اہداف کے حصول کے لئے آپ کو بھرپور انداز میں منصوبہ بندی کرنی ہے، ہر ہر جزوی مسئلے پر غور کریں۔

4- منصوبہ بندی کرتے ہوئے حالات ، ماحول، وسائل، اثاثہ، اپنی قوت، صلاحیت اپنی ٹیم کی خوبیوں، خامیوں، راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا حقیقت پسندانہ انداز میں جائزہ لیں۔

5- منصوبہ بنانے کے بعد اب عمل کرنا ہے اور عمل کرنے میں ہر گز بھی کوتاہی نہیں کرنی، کسی شے کو معمولی سمجھ کر بالکل بھی نہیں چھوڑنا ... یاد رکھیں کوئی شے معمولی نہیں ہے۔

6- دورانِ عمل تجزیہ ضرور کریں کہ آپ کس قدر کامیاب ہو رہے ہیں اور جہاں پر کوئی خامی یا کمی نظر آئے اس کو دور کرنے کے لئے حکمت عملی بنائیں اور جہاں کامیابی کی رفتار سست ہے اس کو مزید بڑھانے اور مستقل رکھنے کی تدبیر اختیار کریں۔

7- منزل پر پہنچ کر آرام کرنے کا وقت نہیں ہے، فوراً نئے منصوبے، نئے اہداف، نئے مقاصد، نئی منزلیں طے کریں اور پھر سے جت جائیں۔

8- مایوس کبھی نہ ہوں کیونکہ اللہ نے اس کو کفر کہاہے ۔

9- اس سارے عمل میں ایک چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے جو کہ راکٹ میں ایندھن کی سی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ہے ''جوش'' ہاں ! جوش اگر آپ میں جوش نہیں تو یہ بہت خطرناک بات ہے، پُرجوش رہیں اور مثبت سوچ کے ساتھ ہمیشہ اچھے کی توقع کریں اور یہ بات بھی میری ذاتی رائے نہیں ہے، اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ اپنے اللہ ربّ العزت سے جو گمان رکھتا ہے اللہ اس کے ساتھ ویسا ہی کرتا ہے۔


10-آخر میں ایک بات اور کہنا چاہوں گا وہ ہے مستقل مزاجی کہ اس کے بغیر کامیابی کا حصول مشکل ہو جاتا ہے، اکثر لوگ اپنی غیر مستقل مزاجی کی وجہ سے منزل کے قریب ترین آ کر بھی بھٹک جاتے ہیں۔



نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، اپنی زندگی کو بڑے مقصد کے لئے تیار کریں یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے، اس کو مایوسی، غفلت، لا پرواہی اور فضول کاموں میں ضائع نہ کریں۔ آج بد قسمتی سے ہمارے نوجوان جن کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازرکھا ہے اپنی سوچ کے مثبت نہ ہونے کی وجہ سے غیر اخلاقی، غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ میں نے اپنے ایک استاد ڈاکٹر کازواناموری سے کامیابی کا فارمولا سیکھا جو کہ اپنی مثال آپ ہے۔

کامیابی =محنتxصلاحیتxمثبت سوچ

اس کے مطابق ہمیں زندگی میں متعدد بار مشاہدہ ہوتا ہے کہ ہمارے بہت سے دوست جن میں بڑی صلاحیت ہوتی ہے مگروہ زندگی میں اتنے کامیاب نہیں ہو پاتے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ محنت کم کرتے ہیں اور مثبت انداز میں وہ اس تک نہیں پہنچ پاتے۔ لیکن ان کے ساتھی جن میں صلاحیت کم ہوتی ہے اور وہ اپنی اس خامی کو بھی جانتے ہیں اس کو اپنی مثبت سوچ کے ذریعے دور کرنے کی خاطر بہت زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اور کامیابی کے اونچے تخت پر براجمان ہو جاتے ہیں۔اس فارمولے میں آپ

صلاحیت کو 0-100تک نمبر دیتے ہیں

محنت کو 0-100تک نمبر دیتے ہیں

اور مثبت سوچ کو100سے100تک نمبر دیتے ہیں

(1) اب دیکھیں ذرا زیادہ صلاحیت کا شخص کم مثبت سوچ کی وجہ سے صرف صلاحیت پر بھروسہ کرکے محنت کم کرتا ہے اور زیادہ کامیاب نہیں ہو پاتا۔

(2)کم محنتی اور کم صلاحیت کا شخص کم مثبت سوچ کی وجہ سے بالکل محنت نہیں کرتا اور ناکام ہو جاتا ہے۔

(3)کم محنتی،کم صلاحیت کا حامل شخص مثبت طرز فکر کی بدولت اپنی خامی کو دور کرنے کے عزم سے سرشار ہو کر سخت محنت کرتا ہے اور زندگی میں بہت آگے تک نکل جاتا ہے اور کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔اس کے برعکس بھر پور صلاحیت کا حامل سخت محنت کرنے والا شخص اگر منفی سوچ کو اپنالے تو کیا کامیاب ہو سکے گا؟

کیا وہ کم کامیاب ہو گا؟

کیا وہ ناکام ہو گا؟

نہیں!ناکام شخص کی ناکامی صرف اس کی ذات کی حد تک نہیں ہوتی، یہ شخص انسانیت اور معاشرے کا ناسور ہے، اس کو ہم مجرم کہتے ہیں۔ لہذا اپنی سوچ پر قابو پائیں، اس کو مثبت رکھیں اور منفی سوچ سے بچیں کیوں کی اسی میں آپ کی اور آپ کے ملک کی بہتری کا راز پوشیدہ ہے۔ قوموں کو بنتے اور ترقی کی منزلیں طے کرتے دہائیاں بیت جاتی ہیں لیکن ٹوٹنے اور بکھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اور قوموں کے بننے اور بکھرنے میں سب سے زیادہ ذمہ داری نوجوانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔n
Load Next Story