محبتوں کا لین دین

اپنے پیاروں کو وقت کا انمول تحفہ دیجیے

اپنے پیاروں کو وقت کا انمول تحفہ دیجیے۔ فوٹو: فائل

مادیت پسند زمانے میں ہر شخص افراتفری کا شکار ہے۔

اپنے اطراف نظر دوڑائیے! مصروفیت کے نام پر یہ عالم ہے کہ ایک ہی خاندان کے افراد بھی کئی کئی دن ایک دوسرے کے حالات اور معمولات سے ناواقف رہتے ہیں۔ ہر فرد پہلے سے زیادہ مصروف ہے۔ اس کے پاس دوسروں کے لیے وقت نہیں، حتیٰ کہ خاتونِ خانہ بھی وقت کی کمی کا شکار نظر آتی ہیں۔ کہیں اولاد ماں باپ کی طرف سے عدم توجہی کا شکار ہے، تو کہیں ماں باپ اولاد سے وقت نہ دینے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس نفسانفسی کی وجہ سے دلوں میں دوریاں بڑھتی ہیں اور رفتہ رفتہ خاندان بکھرا بکھرا سا نظر آتا ہے۔ یہی نفسا نفسی معاشرے کی اکائی یعنی فرد کی سوچ سے نکل کر پورے معاشرے میں بے حسی کی صورت حال پیدا کر رہی ہے۔

آج ہر شخص یہی کہتا نظر آتا ہے، ''جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں۔'' مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آخر اُس کا وقت گیا کہاں؟ اِس صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کچھ تو وقت کی درست تقسیم نہیں ہو پاتی، جب کہ کچھ ہم نے خود کو بے جا مصروفیات میں پھنسا رکھا ہے۔ جدید تیکنیکی مہارتوں کے اِس دور نے جہاں انسان کو بہت سی سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی ہیں، وہیں اسے بے شمار مسائل کا شکار بھی کر دیا ہے، جس کی بنا پر جو چیزیں پہلے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوا کرتی تھیں، وہ اب اتنی اہم نہیں رہیں۔ ہم ایک دوسرے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ لوگوں اور رشتوں کو وقت کی کمی کا کہہ کر پرے کرنے سے بے چینی اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے ایک جیتے جاگتے احساس اور جذبات رکھنے والے وجود کو ایک بے جان مشین بنا دیا ہے، جس سے ظاہر ہے ہماری طبیعت اور مزاج میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اہل خانہ کی مرکزیت کو نظر انداز کیے بغیر اپنے معمولات زندگی اور مصروفیات پر ازسرِ نو نظر دوڑائی جائے۔ اکثر خواتین صبح سویرے بے دار ہو جاتی ہیں۔ بچوں کو وقت پر اسکول بھیجنے کے لیے ان کا جلد اٹھنا ضروری ہوتا ہے، بچوں کی تعطیلات کے بعد بھی صبح شوہر کی کام پر روانگی کے باعث سویرے ہی اٹھا جاتا ہے۔ یوں ان کے دن کا آغاز ہوتا ہے۔ اِن کاموں کو نمٹانے کے بعد دیگر گھریلو ذمہ داریاں اور اگر مشترکہ خاندان ہو تو سسرال والوں کا خیال رکھنا، سب ہی ان کے دماغ میں ایک فہرست کی طرح مرتب ہوتا ہے۔ ایک کے بعد ایک کام وہ کرتی چلی جاتی ہیں اور یوں پورا دن گزر جاتا ہے۔


یہی حال مرد حضرات کا ہے۔ فکرِمعاش اور زندگی کی گہما گہمی دن چڑھتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور رات گئے اعصاب شل ہو جاتے ہیں۔ یوں دن بھر کی تھکن اور وقت کی کمی کے باعث رفتہ رفتہ ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے ایک دوسرے کے لیے کچھ اجنبی اجنبی سے ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بے پناہ مصروفیات کے عذر کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، تو ہمیں جلد احساس ہو جائے گا کہ درحقیقت نہ تو ہمارے پاس وقت کی کمی ہے اور نہ مصروفیت زیادہ، بلکہ ہم نے شاید اپنی زندگی کی ترجیحات میں اہم رشتوں کو سب سے آخر میں رکھ دیا ہے۔

دوسری طرف ہمارا طرز زندگی بھی رشتوں کے مابین فاصلے کھینچ رہا ہے، مثلاً خواب گاہوں میں ٹی وی رکھنے کا رواج عام ہو گیا ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد گھریلو ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد ٹی وی پر ڈرامے دیکھنے کو ترجیح دیتی ہے، جب کہ مرد اپنی فراغت کا وقت موبائل فون، انٹرنیٹ اور ٹی وی پر خبروں اور حالات حاضرہ سے جُڑے مذاکرے دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ یہ ساری چیزیں کیا اُن رشتوں سے زیادہ اہم ہیں جو ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں؟ زندگی کی مصروفیت کبھی ختم ہوں گی، اور نہ ہی گھریلو ذمہ داریوں کا کوئی اختتام ہے، لیکن جذبوں میں سرد مہری اور دلوں میں دوریاں، ایک دوسرے کے مسائل میں عدم دل چسپی آخر کار گھر کو مکان بنادیتی ہیں۔ رشتہ میاں بیوی کا ہو، ماں باپ اور اولاد کا ہو یا پھر ایک دوست کا دوسرے سے، ہم سب ہی کو ہمہ وقت اپنے جذبات کے اظہار کی ضرورت رہتی ہے، مگر بس وقت کی کمی کا رونا رورو کر ہم کچھ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے۔ رشتوں کی خوب صورتی اسی طرح قائم رہتی ہے، جب انہیں وہ توجہ پیار اور وقت دیا جائے، جس کے وہ حق دار ہیں اور یہ وقت ملتا نہیں نکالنا پڑتا ہے۔

رات گئے جاگنا اور علی الصبح بد حواسی کے عالم میں کاموں کی دوڑ لگا کر خود سے جُڑے لوگوں سے بے خبر ہو جانا عقل مندی نہیں۔ اس لیے کوشش کریں کہ روزانہ ناشتا سب ایک ساتھ کریں اور ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ مختلف امور پر گفتگو سے ہماری فطری جذبے کی تسکین ہوتی ہے، جو ہمیں اندرونی طور پر سکون پہنچاتی ہے، یہی اہتمام اگر رات کے کھانے کے وقت بھی کیا جائے اور دن بھر کے معمولات کے حوالے سے بات چیت کی جائے تو بہت اچھا لگتا ہے۔ ہمارے یہاں اکثر دونوں مواقع کا اہتمام نہیں ہوتا۔ اکثر کھانے پینے کے وقت بھی ٹی وی چلتا رہتا ہے اور اہل خانہ کی باہمی بات چیت کا یہ نہایت اہم وقت ضایع ہو جاتا ہے۔

ہم عموماً غیروں کے لیے، جن سے تعلق رکھنا ہمارے فایدے میں ہو، تو بہت منہگے تحفے تحائف خریدتے ہیں، لیکن گھر والوں کے لیے تحفتاً ایک عام سی چیز خریدنا بھی فراموش کر جاتے ہیں۔ بیوی اور شوہر کا ایک دوسرے کو، اولاد کا ماں باپ کو، بہن کا بھائی اور بھائی کا بہن کو تحفے دینا احساسات کو جگا دیتا ہے۔ معمولی تحائف بھی ایک عجیب خوشی سے سرشار کر دیتے ہیں۔ ایک ایسی خوشی جو شاید باہر والوں کے منہگے تحائف سے بھی حاصل نہ ہوتی ہو، کیوںکہ یہ محبتیں ہیں، جو روحانیت رکھتی ہیں اور یہ رشتے خدا نے بنائے ہیں۔ ان کا خیال رکھنا ہماری سب سے اہم مصروفیت اور ترجیح ہونی چاہیے۔

آج انسان کا سب سے بڑا رشتہ بس اپنے آپ سے ہے۔ وہ اپنے ہی جذبات اور خواہشات کے حصار میں ایسا قید ہوا کہ کسی دوسرے کے لیے سوچنا یا وقت نکالنا مشکل ہو گیا۔ چاہے وہ اس کا خون کا رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ وقت کی کمی کے باعث لوگ اپنے پیاروں کو توجہ نہیں دے پاتے۔ ان کے مسائل اور حال دل سے آگاہ نہیں رہ پاتے اور خدانخواستہ جب یہ رشتے بچھڑ جاتے ہیں تو وقت بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ سب سے خوب صورت تحفہ اپنی زندگی میں سے کچھ وقت اور توجہ اپنے پیاروں کو دینا ہے۔ اپنے پیاروں کو اپنے قیمتی وقت کا انمول تحفہ دیجیے۔ اپنے معمولات میں تبدیلی لائیے۔ غیر ضروری اُلجھنوں اور عادتوں سے چھٹکارا پائیں۔ وقت کو اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ اپنے پیاروں کو ساتھ لیتے ہوئے اپنی زندگی کو پریشانیوں کی ڈگر سے ہٹا کر حقیقی خوشیوں کے راستے پر ڈال دیجیے۔
Load Next Story