گھر کا ماحول اور بچوں کی شخصیت
اس تربیت اور کردار سازی میں بچوں کی ذہنی سطح اور دل چسپی کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
گھر کا ماحول، اہلِ خانہ کا آپس میں برتاؤ اور رویّے بچوں پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ خصوصاً والدین کی بات چیت، زندگی گزارنے کے طور طریقوں کا بچوں پر ضرور اثر پڑتا ہے اور وہ اس کا عملی زندگی میں اظہار بھی کرتے ہیں۔
چھوٹے بچے بہت جلدی کسی بھی چیز اور عمل سے متاثر ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ خود سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اس لیے وہی کرتے ہیں جو کچھ دیکھتے ہیں۔ اس لیے گھر کے ماحول کو بہتر بنائے رکھنا اور بچوں کے سامنے مثبت اور عمدہ سلوک ان کی تربیت اور کردار سازی کے لیے ضروری ہے۔ تاہم اس تربیت اور کردار سازی میں بچوں کی ذہنی سطح اور دل چسپی کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
یہ سب کھیل کھیل میں بھی ممکن ہے جس سے ایک طرف بچوں کی فکری تربیت ہو گی اور دوسری جانب ان میں صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کے لیے روایتی ماحول کے بجائے بچوں کو تھوڑی سی توجہ دے کر مختلف انداز سے سکھانے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس طرح نہ صرف انہیں مصروف اور صحت مند مشاغل میں الجھائے رکھا جاسکتا ہے بلکہ ایسی کوششیں آپ کے گھر میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں گی۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے بچہ کن باتوں اور چیزوں میں دل چسپی لیتا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے چیزیں توڑنے کے بعد جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ رنگ برنگی اشیا میں دل چسپی لیتے ہیں اور ایسے کام کرنا چاہتے ہیں جن سے آپ کا کام بڑھ سکتا ہے۔ مثلاً وہ کمرے کی ہر چیز الٹ پلٹ کر خوش ہوتے ہیں، وہ اپنے کھلونے پھیلا دیتے ہیں اور مٹی سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایک ماں ہیں تو یقیناً بچوں کو محفوظ تفریح فراہم کرنے کے ساتھ کمرہ سمیٹنا بھی آپ کی ذمہ داری ہو گی۔ بچے جب سمجھنے اور بات سننے کے قابل ہو جائیں تو مائیں ان کو مختلف رنگوں سے سجاوٹی اشیا بنانا سکھا سکتی ہیں۔ کوئی ایسا آئٹم تیار کرنے کے بعد اس پر بچے کی رائے لیں اور اسے اپنی بات کہنے کا بھرپور موقع دیں۔ یہ جانیں کہ وہ کسی چیز کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔
اسی دوران بچوں کو گھر میں برتاؤ، بہن، بھائیوں کے سلوک اور مختلف آداب سمجھائے جاسکتے ہیں۔ انھیں اس طرح تربیت دی جاسکتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو اپنی پریشانی سمجھیں۔ کھیل کود اور مشاغل کے دوران ہی انھیں اپنے کمرے کی صفائی اور اشیا کو ترتیب سے رکھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ اسی دوران آپ نہایت آسانی اور زیادہ مؤثر انداز سے یہ بتاسکتی ہیں کہ صفائی ان کی زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے۔ ہفتے میں ایک دن بچوں سے پوچھ کر ان کی پسند کا کھانا بنائیں۔
اس دن معمول سے ہٹ کر وقت گزاریں۔ بچے اسے محسوس کریں گے اور یہ آپ کو بھی اچھا لگے گا۔ ماں یا باپ دونوں میں سے کوئی روزانہ سوتے وقت سبق آموز کہانی یا کوئی ایسا واقعہ سنائے جس میں بچے نہ صرف دل چسپی لیں بلکہ یہ ان کی اخلاقی صحت پر بھی اثر انداز ہو۔ آپ ایک دن انھیں کسی تقریب میں شرکت، دسترخوان پر بیٹھنے آداب بتائیں اور اس کے بعد چند روز ان کے معمولات پر نظر رکھیں، یہ جائزہ لیں کہ آپ اپنی کوشش میں کس حد تک کام یاب ہوئے ہیں۔ بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ وہ اپنے کسی بھی عمل اور کام کو کوشش کرکے مزید بہتر بناسکتے ہیں اور وہ جتنا اچھا کریں گے سب ان کی اتنی ہی زیادہ تعریف کریں گے۔ یاد رکھیے بچوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ان کی باتیں اور رائے آپ کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے اور آپ اسے توجہ سے سنتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بعض بچے انتہائی ضدی، بدتمیز اور ڈھیٹ ہوتے ہیں، لیکن اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بے جا لاڈ پیار، ہر فرمائش فوراً پوری کرنا اور بسا اوقات یہ بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم چند باتوں کا آپ کو خیال رکھنا ہی چاہیے۔ یاد رکھیے بچے حساس اور زود رنج ہوتے ہیں اور اس وقت وہ ہتک اور بے عزتی محسوس کرتے ہیں جب آپ کسی مہمان یا اس کے ہم عمر بچے کے سامنے اسے کسی بات پر جھڑک دیں یا کسی کے سامنے اس کی برائیاں شروع کردیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ عمل انتہائی منفی رخ اختیار کر لیتا ہے اور جہاں بچے بہت زیادہ ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، وہیں ان کے دل میں والدین کے لیے عزت اور احترام بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے آپ کو صبر کے ساتھ بچے کے ساتھ دوستانہ روابط پیدا کرنے ہوں گے اور شخصی تعمیر کے مختلف پہلوؤوں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
بچے ماؤں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی اچھی بری عادات اور مزاج میں ماں کی شخصیت زیادہ جھلکتی ہے، لیکن باپ کا رویہ اور گھر میں اس کا برتاؤ بھی بچوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور وہ اسے اپنا سکتے ہیں۔ بچوں کے مثبت یا منفی رویے اور اچھی و خراب عادات میں والدین کے بعد دوست احباب کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ والدین کا کام ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بچے کے گھر سے باہر ماحول اور احباب و تعلقات پر بھی نظر رکھیں۔ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے اردگرد اور ماحول کا مشاہدہ ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے والدین کی ہر بات بہت توجہ سے سنتا اور محسوس کرتے ہوئے موقع ملتے ہی اس پر اپنے انداز سے ردعمل بھی ظاہر کرتا ہے۔
والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اور تلخ کلامی سے گھر کے ماحول پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں بچے تیزی سے سیکھتے ہیں۔ اس لیے والدین کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسا ماحول دینے کی کوشش کریں جس میں شائستگی، نرم گفتاری اور لحاظ و تمیز کے رنگ شامل ہوں۔ بچوں کو شروع ہی سے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ کھیل کود کے بعد کھلونے اکٹھا کر کے مخصوص جگہ پر رکھنے کو کہیں۔ اسی طرح بچوں کے لیے آسان اور چھوٹے چھوٹے کام کروانے سے ان میں بھی گھر اور اشیا کو ترتیب اور سلیقے سے رکھنے کی عادت پیدا ہو گی۔
اگر آپ گھر میں ذرا ذرا سی بات پر چیخ پکار کے عادی ہیں تو بچے بھی یہی کریں گے۔ وہ آپ سے ہی نہیں بلکہ گھر کے باہر لوگوں سے بھی اونچی آواز سے بات کرنے اور جھگڑنے کے عادی ہو جائیں گے۔ نرم گفتاری اور شائستگی سے کسی بھی معاملے پر ردعمل دیں تاکہ بچہ بھی اس کا عادی بنے۔
کچھ بچے اپنی الگ تھلگ دنیا بنا لیتے ہیں۔ والدین کی اس جانب توجہ دلائی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خاموش طبع ہے، لیکن کیا یہ سوچنے والی بات نہیں کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح ہنستا کھیلتا کیوں نہیں۔ اس کم گوئی اور الگ تھلگ رہنے کی کوئی وجہ بھی تو ہوگی۔ اسے تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے آپ اپنے بچے کو نظر انداز کررہے ہوں، اسے بھرپور توجہ نہیں مل رہی ہو اور وہ جذباتی طور پر متاثر ہو رہا ہو۔ یہ صورت حال اس وقت بھی دیکھنے میں آتی ہے جب متعدد بہن بھائیوں میں والدین کی جانب سے پیار اور توجہ میں توازن قائم نہیں رہتا۔ ایسے میں کوئی بچہ احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے اور سب سے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتا ہے یا لوگوں کے سامنے بات کرنے سے جھجکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں سے دوستانہ انداز سے بات کریں گے تو ایک بہتر اور سکھانے سمجھانے کے لیے سازگار ماحول جنم لے گا۔ ایسے بچے ضدی اور ہٹ دھرم نہیں بنیں گے بلکہ وہ آپ کی بات کو ہمیشہ اہمیت دیں گے۔ آپ کے رویے اور طرزِ تربیت میں یہ تبدیلی گھر کے ماحول کو تبدیل کرے گی۔ بنیادی تربیت کے ساتھ والدین کو ان کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اچھی تعلیمات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اسے ان کی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔
الغرض، اگر آپ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے ایک بہترین انسان دیکھنا چاہتے ہیں تو گھر میں ویسا ہی رویہ خود بھی اپنائیں۔ والدین بچوں کے رول ماڈل ہوتے ہیں اور گھر میں آپ کی گفتگو کا انداز، طریقہ سلیقہ اور دوسروں سے میل جول کے دوران آپ کا رویہ، سلوک اور اخلاقیات اس کی شخصیت کا تعین کرنے اور اسے بنانے سنوارنے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
چھوٹے بچے بہت جلدی کسی بھی چیز اور عمل سے متاثر ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ خود سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے، اس لیے وہی کرتے ہیں جو کچھ دیکھتے ہیں۔ اس لیے گھر کے ماحول کو بہتر بنائے رکھنا اور بچوں کے سامنے مثبت اور عمدہ سلوک ان کی تربیت اور کردار سازی کے لیے ضروری ہے۔ تاہم اس تربیت اور کردار سازی میں بچوں کی ذہنی سطح اور دل چسپی کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔
یہ سب کھیل کھیل میں بھی ممکن ہے جس سے ایک طرف بچوں کی فکری تربیت ہو گی اور دوسری جانب ان میں صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملے گا۔ اس کے لیے روایتی ماحول کے بجائے بچوں کو تھوڑی سی توجہ دے کر مختلف انداز سے سکھانے اور سمجھانے کی کوشش کریں۔ اس طرح نہ صرف انہیں مصروف اور صحت مند مشاغل میں الجھائے رکھا جاسکتا ہے بلکہ ایسی کوششیں آپ کے گھر میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنیں گی۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ آپ کے بچہ کن باتوں اور چیزوں میں دل چسپی لیتا ہے۔ ابتدائی عمر میں بچے چیزیں توڑنے کے بعد جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ رنگ برنگی اشیا میں دل چسپی لیتے ہیں اور ایسے کام کرنا چاہتے ہیں جن سے آپ کا کام بڑھ سکتا ہے۔ مثلاً وہ کمرے کی ہر چیز الٹ پلٹ کر خوش ہوتے ہیں، وہ اپنے کھلونے پھیلا دیتے ہیں اور مٹی سے کھیلنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایک ماں ہیں تو یقیناً بچوں کو محفوظ تفریح فراہم کرنے کے ساتھ کمرہ سمیٹنا بھی آپ کی ذمہ داری ہو گی۔ بچے جب سمجھنے اور بات سننے کے قابل ہو جائیں تو مائیں ان کو مختلف رنگوں سے سجاوٹی اشیا بنانا سکھا سکتی ہیں۔ کوئی ایسا آئٹم تیار کرنے کے بعد اس پر بچے کی رائے لیں اور اسے اپنی بات کہنے کا بھرپور موقع دیں۔ یہ جانیں کہ وہ کسی چیز کی طرف زیادہ راغب ہوتا ہے۔
اسی دوران بچوں کو گھر میں برتاؤ، بہن، بھائیوں کے سلوک اور مختلف آداب سمجھائے جاسکتے ہیں۔ انھیں اس طرح تربیت دی جاسکتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو اپنی پریشانی سمجھیں۔ کھیل کود اور مشاغل کے دوران ہی انھیں اپنے کمرے کی صفائی اور اشیا کو ترتیب سے رکھنا سکھایا جاسکتا ہے۔ اسی دوران آپ نہایت آسانی اور زیادہ مؤثر انداز سے یہ بتاسکتی ہیں کہ صفائی ان کی زندگی کے لیے کتنی ضروری ہے۔ ہفتے میں ایک دن بچوں سے پوچھ کر ان کی پسند کا کھانا بنائیں۔
اس دن معمول سے ہٹ کر وقت گزاریں۔ بچے اسے محسوس کریں گے اور یہ آپ کو بھی اچھا لگے گا۔ ماں یا باپ دونوں میں سے کوئی روزانہ سوتے وقت سبق آموز کہانی یا کوئی ایسا واقعہ سنائے جس میں بچے نہ صرف دل چسپی لیں بلکہ یہ ان کی اخلاقی صحت پر بھی اثر انداز ہو۔ آپ ایک دن انھیں کسی تقریب میں شرکت، دسترخوان پر بیٹھنے آداب بتائیں اور اس کے بعد چند روز ان کے معمولات پر نظر رکھیں، یہ جائزہ لیں کہ آپ اپنی کوشش میں کس حد تک کام یاب ہوئے ہیں۔ بچوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ وہ اپنے کسی بھی عمل اور کام کو کوشش کرکے مزید بہتر بناسکتے ہیں اور وہ جتنا اچھا کریں گے سب ان کی اتنی ہی زیادہ تعریف کریں گے۔ یاد رکھیے بچوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ان کی باتیں اور رائے آپ کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے اور آپ اسے توجہ سے سنتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ بعض بچے انتہائی ضدی، بدتمیز اور ڈھیٹ ہوتے ہیں، لیکن اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ بے جا لاڈ پیار، ہر فرمائش فوراً پوری کرنا اور بسا اوقات یہ بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم چند باتوں کا آپ کو خیال رکھنا ہی چاہیے۔ یاد رکھیے بچے حساس اور زود رنج ہوتے ہیں اور اس وقت وہ ہتک اور بے عزتی محسوس کرتے ہیں جب آپ کسی مہمان یا اس کے ہم عمر بچے کے سامنے اسے کسی بات پر جھڑک دیں یا کسی کے سامنے اس کی برائیاں شروع کردیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ عمل انتہائی منفی رخ اختیار کر لیتا ہے اور جہاں بچے بہت زیادہ ڈھیٹ ہوجاتے ہیں، وہیں ان کے دل میں والدین کے لیے عزت اور احترام بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے آپ کو صبر کے ساتھ بچے کے ساتھ دوستانہ روابط پیدا کرنے ہوں گے اور شخصی تعمیر کے مختلف پہلوؤوں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
بچے ماؤں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی اچھی بری عادات اور مزاج میں ماں کی شخصیت زیادہ جھلکتی ہے، لیکن باپ کا رویہ اور گھر میں اس کا برتاؤ بھی بچوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور وہ اسے اپنا سکتے ہیں۔ بچوں کے مثبت یا منفی رویے اور اچھی و خراب عادات میں والدین کے بعد دوست احباب کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ والدین کا کام ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بچے کے گھر سے باہر ماحول اور احباب و تعلقات پر بھی نظر رکھیں۔ بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے اردگرد اور ماحول کا مشاہدہ ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے والدین کی ہر بات بہت توجہ سے سنتا اور محسوس کرتے ہوئے موقع ملتے ہی اس پر اپنے انداز سے ردعمل بھی ظاہر کرتا ہے۔
والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اور تلخ کلامی سے گھر کے ماحول پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چھوٹی عمر میں بچے تیزی سے سیکھتے ہیں۔ اس لیے والدین کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسا ماحول دینے کی کوشش کریں جس میں شائستگی، نرم گفتاری اور لحاظ و تمیز کے رنگ شامل ہوں۔ بچوں کو شروع ہی سے چھوٹے موٹے کام کرنے کی عادت ڈالیں۔ کھیل کود کے بعد کھلونے اکٹھا کر کے مخصوص جگہ پر رکھنے کو کہیں۔ اسی طرح بچوں کے لیے آسان اور چھوٹے چھوٹے کام کروانے سے ان میں بھی گھر اور اشیا کو ترتیب اور سلیقے سے رکھنے کی عادت پیدا ہو گی۔
اگر آپ گھر میں ذرا ذرا سی بات پر چیخ پکار کے عادی ہیں تو بچے بھی یہی کریں گے۔ وہ آپ سے ہی نہیں بلکہ گھر کے باہر لوگوں سے بھی اونچی آواز سے بات کرنے اور جھگڑنے کے عادی ہو جائیں گے۔ نرم گفتاری اور شائستگی سے کسی بھی معاملے پر ردعمل دیں تاکہ بچہ بھی اس کا عادی بنے۔
کچھ بچے اپنی الگ تھلگ دنیا بنا لیتے ہیں۔ والدین کی اس جانب توجہ دلائی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ خاموش طبع ہے، لیکن کیا یہ سوچنے والی بات نہیں کہ وہ دوسرے بچوں کی طرح ہنستا کھیلتا کیوں نہیں۔ اس کم گوئی اور الگ تھلگ رہنے کی کوئی وجہ بھی تو ہوگی۔ اسے تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے آپ اپنے بچے کو نظر انداز کررہے ہوں، اسے بھرپور توجہ نہیں مل رہی ہو اور وہ جذباتی طور پر متاثر ہو رہا ہو۔ یہ صورت حال اس وقت بھی دیکھنے میں آتی ہے جب متعدد بہن بھائیوں میں والدین کی جانب سے پیار اور توجہ میں توازن قائم نہیں رہتا۔ ایسے میں کوئی بچہ احساس کمتری کا شکار ہوسکتا ہے اور سب سے الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتا ہے یا لوگوں کے سامنے بات کرنے سے جھجکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں سے دوستانہ انداز سے بات کریں گے تو ایک بہتر اور سکھانے سمجھانے کے لیے سازگار ماحول جنم لے گا۔ ایسے بچے ضدی اور ہٹ دھرم نہیں بنیں گے بلکہ وہ آپ کی بات کو ہمیشہ اہمیت دیں گے۔ آپ کے رویے اور طرزِ تربیت میں یہ تبدیلی گھر کے ماحول کو تبدیل کرے گی۔ بنیادی تربیت کے ساتھ والدین کو ان کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اچھی تعلیمات سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اسے ان کی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔
الغرض، اگر آپ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے ایک بہترین انسان دیکھنا چاہتے ہیں تو گھر میں ویسا ہی رویہ خود بھی اپنائیں۔ والدین بچوں کے رول ماڈل ہوتے ہیں اور گھر میں آپ کی گفتگو کا انداز، طریقہ سلیقہ اور دوسروں سے میل جول کے دوران آپ کا رویہ، سلوک اور اخلاقیات اس کی شخصیت کا تعین کرنے اور اسے بنانے سنوارنے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔