این سیلیوِن
جن کی بدولت ہیلن کیلر کا نام تاریخ میں زندہ ہے وہ ایک عظیم استاد، صبر اور استقامت روشن مثال ہیں۔
ہیلن کیلر کا نام تو آپ نے بھی سنا ہو گا۔ بصارت اور سماعت سے محروم اس خاتون نے اپنی ہمّت اور صلاحیتوں سے کام لے کر نہ صرف اپنی معذوری کو شکست دی بلکہ دوسروں کے لیے امید اور سہارا بن گئی۔
ہیلن کیلر کا تذکرہ ہو اور ان کی زندگی کے اوراق الٹے جائیں تو ایک اور خاتون کا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ مس این سیلیوِن ہیں جو ہیلن کیلر کی استاد تھیں۔ انہی کی محنت اور کوششوں سے ہیلن کیلر آج دنیا کی قابلِ قدر اور باکمال شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں۔
مس این سیلیوِن ایک ماہرِ تعلیم تھیں اور بینائی، قوتِ گویائی اور سماعت سے محروم ہیلن کیلر ان کی شاگرد۔ این سیلیوِن کی تاریخِ پیدائش 14اپریل 1866ہے۔ ان کے والدین نے قحط کے دوران آئرلینڈ سے ہجرت کی اور امریکا کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ این سیلیوِن اپنے والدین کی پہلی اولاد تھیں۔ وہ پانچ سال کی تھیں کہ آنکھوں کی ایک بیماری کے باعث ان کی بینائی شدید متاثر ہوئی۔ اس افتاد کو جھیلتی ہوئی اس ننھی بچی نے عمر کے آٹھویں برس والدہ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا صدمہ بھی اٹھایا۔ اس کے دو سال بعد ہی والد نے مالی پریشانیوں اور عسرت سے مجبور ہو کر اپنی بیٹی اور اس کے بھائی کو ایک خیراتی ادارے میں بھیج دیا۔
یہاں تین ماہ گزرے تھے کہ این سیلیوِن کا بھائی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گیا اور یوں وہ اس ادارے میں تنہا ہوگئی۔ یہاں ان کی آنکھوں کے متعدد آپریشن کیے گئے جس سے درد میں کچھ افاقہ ہوا، لیکن یہ راحت عارضی ثابت ہوئی اور وہ تکلیف میں مبتلا رہنے لگی۔ اسی ادرے این سیلیوِن نے نابینا افراد کی زندگی بہتر بنانے اور ان کو تعلیم دینے کے بارے میں سنا۔ این سیلیوِن نے سوچا کہ اگر وہ یہ تعلیم حاصل کریں تو یہ ان کے روزگار کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ان کی خوش قسمتی کہ ایک وفد اس ادارے کے دورے پر آیا جہاں این سیلیوِن نے انسپکٹر سے نابینا بچوں کے اسکول میں داخلے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ درخواست قبول کر لی گئی اور 1880 میں این سیلیوِن پرکنس اسکول کی طالبہ بن گئی۔ ابتدائی دن مشکل سے کٹے، کیوں کہ وہ ایک اکھڑ مزاج اور ضدی لڑکی تھی، مگر پھر اساتذہ کی مدد سے جہاں اپنے رویے کو درست کیا وہیں پڑھائی اور اپنی کارکردگی بھی بہتر بناتی چلی گئیں۔ جلد ہی مخصوص طریقے سے حروف کی پہچان اور دیگر باتیں سیکھ لیں۔ اس اسکول میں بھی ان کی آنکھوں کے متعدد آپریشن ہوئے جس نے ان کی بینائی پر مثبت اثر ڈالا۔ وہ پہلے کے مقابلے میں بہتر طریقے سے دیکھنے کے قابل ہو چکی تھیں۔ جون 1886میں این سیلیوِن نے گریجویشن مکمل کر لی۔ اس قت ان کی عمر بیس برس تھی اور اب وہ ملازمت کے حصول کے لیے کوشاں تھیں۔ ادھر
ہیلن کیلر کے والدین اپنی اس سات سالہ بچی کے لیے کسی استاد کی تلاش میں تھے۔ کسی طرح پرکنس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سے ان کا رابطہ ہوا جس نے بحیثیت استاد مس سیلیوِن کا نام تجویز کیا۔ اس طرح 1887میں وہ بصارت و سماعت سے محروم ہیلن کیلر سے ملیں۔ بہت جلد یہ تعلق ایک ایسے رشتے میں بدل گیا جس میں عزت و احترام اور وقار کے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ مس سیلیوِن آخری سانس تک ہیلن کیلر کی راہ نمائی کرتی رہیں۔ اسے سکھاتی، سمجھاتی اور اس کی کام یابیوں پر شاید سب سے زیادہ خوش ہونے والی این سیلیوِن ہی تھی۔
این سیلیوِن نے ابتدائی ملاقاتوں اور تدریس کے دوران دیکھا کہ ہیلن کیلر کو لفظوں کی پہچان میں دشواری پیش آرہی تھی۔ اسے مخصوص طریقۂ نصاب الجھا رہا تھا اور تب انھوں نے اسے ہتھیلی پر الفاظ کے ہجّے کروانا شروع کیا۔ یہ طریقہ نہایت کارگر ثابت ہوا۔ ہیلن نے چھے ماہ کے عرصے میں نہ صرف لگ بھگ چھے سو نئے الفاظ سیکھے بلکہ ٹیبل اور بریل سسٹم سے بھی واقف ہو گئی۔ بعد ازاں استانی کے کہنے پر ہیلن کیلر کے والدین نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بوسٹن کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا۔
مس سیلیوِن یہاں بھی اپنی شاگرد کی راہ نمائی کے لیے موجود تھیں۔ وہ اپنی کم بینائی اور مسلسل گرتی ہوئی صحت کے باوجود ہیلن کیلر کو لکھنے پڑھنے میں مدد دیتی رہیں۔ وہ ہیلن کیلر کو سبق یاد کرواتیں، اسے لیکچر سمجھنے اور لفظوں کا ہجا کرنے میں مدد دیتیں۔ ان کی اسی انتھک محنت اور خلوصِ نیت کا نتیجہ تھاکہ ہیلن کیلر اس کالج سے پہلی نابینا خاتون گریجویٹ بن کر نکلی۔ ہیلن کیلر نے اپنی اسی استاد کی مدد سے اپنی خودنوشت تحریر کی۔
اسی دوران یعنی 1905میں مس سیلیوِن نے شادی کر لی، لیکن ہیلن کا ساتھ نہ چھوڑا۔ دن گزرتے رہے اور کلینڈر پر 1920 نمودار ہو گیا۔ اس عرصے میں ہیلن نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اب اسے بھی ایک باہمّت اور بہادر لڑکی کے علاوہ ایک ماہرِ تعلیم اور مفکر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ اسی ہیلن کیلر کی استاد این سیلیوِن کی بینائی بہت کم ہوگئی تھی۔ ان کی دائیں آنکھ میں درد رہتا اور اس کا ان کے معمولاتِ زندگی پر برا اثر پڑ رہا تھا۔
مس سیلیوِن کی صحت گرتی چلی گئی اور 20 اکتوبر 1936کو ہیلن کیلر کی یہ استاد، راہ نما اور دوست اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ایک ضدی اور بصارت و سماعت سے محروم بچی کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے اور اسے راستہ سجھانے والی اس خاتون نے صبر، تحمل اور استقامت کی ایک مثال قائم کی اور بتایا کہ بچوں سے مناسب برتاؤ اور ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھانے اور سمجھانے کے ساتھ ان کی تربیت اور تعلیم بہترین انداز سے کی جاسکتی ہے۔
ہیلن کیلر کا تذکرہ ہو اور ان کی زندگی کے اوراق الٹے جائیں تو ایک اور خاتون کا نام ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہ مس این سیلیوِن ہیں جو ہیلن کیلر کی استاد تھیں۔ انہی کی محنت اور کوششوں سے ہیلن کیلر آج دنیا کی قابلِ قدر اور باکمال شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں۔
مس این سیلیوِن ایک ماہرِ تعلیم تھیں اور بینائی، قوتِ گویائی اور سماعت سے محروم ہیلن کیلر ان کی شاگرد۔ این سیلیوِن کی تاریخِ پیدائش 14اپریل 1866ہے۔ ان کے والدین نے قحط کے دوران آئرلینڈ سے ہجرت کی اور امریکا کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ این سیلیوِن اپنے والدین کی پہلی اولاد تھیں۔ وہ پانچ سال کی تھیں کہ آنکھوں کی ایک بیماری کے باعث ان کی بینائی شدید متاثر ہوئی۔ اس افتاد کو جھیلتی ہوئی اس ننھی بچی نے عمر کے آٹھویں برس والدہ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کا صدمہ بھی اٹھایا۔ اس کے دو سال بعد ہی والد نے مالی پریشانیوں اور عسرت سے مجبور ہو کر اپنی بیٹی اور اس کے بھائی کو ایک خیراتی ادارے میں بھیج دیا۔
یہاں تین ماہ گزرے تھے کہ این سیلیوِن کا بھائی ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو گیا اور یوں وہ اس ادارے میں تنہا ہوگئی۔ یہاں ان کی آنکھوں کے متعدد آپریشن کیے گئے جس سے درد میں کچھ افاقہ ہوا، لیکن یہ راحت عارضی ثابت ہوئی اور وہ تکلیف میں مبتلا رہنے لگی۔ اسی ادرے این سیلیوِن نے نابینا افراد کی زندگی بہتر بنانے اور ان کو تعلیم دینے کے بارے میں سنا۔ این سیلیوِن نے سوچا کہ اگر وہ یہ تعلیم حاصل کریں تو یہ ان کے روزگار کا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے۔
ان کی خوش قسمتی کہ ایک وفد اس ادارے کے دورے پر آیا جہاں این سیلیوِن نے انسپکٹر سے نابینا بچوں کے اسکول میں داخلے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ درخواست قبول کر لی گئی اور 1880 میں این سیلیوِن پرکنس اسکول کی طالبہ بن گئی۔ ابتدائی دن مشکل سے کٹے، کیوں کہ وہ ایک اکھڑ مزاج اور ضدی لڑکی تھی، مگر پھر اساتذہ کی مدد سے جہاں اپنے رویے کو درست کیا وہیں پڑھائی اور اپنی کارکردگی بھی بہتر بناتی چلی گئیں۔ جلد ہی مخصوص طریقے سے حروف کی پہچان اور دیگر باتیں سیکھ لیں۔ اس اسکول میں بھی ان کی آنکھوں کے متعدد آپریشن ہوئے جس نے ان کی بینائی پر مثبت اثر ڈالا۔ وہ پہلے کے مقابلے میں بہتر طریقے سے دیکھنے کے قابل ہو چکی تھیں۔ جون 1886میں این سیلیوِن نے گریجویشن مکمل کر لی۔ اس قت ان کی عمر بیس برس تھی اور اب وہ ملازمت کے حصول کے لیے کوشاں تھیں۔ ادھر
ہیلن کیلر کے والدین اپنی اس سات سالہ بچی کے لیے کسی استاد کی تلاش میں تھے۔ کسی طرح پرکنس انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر سے ان کا رابطہ ہوا جس نے بحیثیت استاد مس سیلیوِن کا نام تجویز کیا۔ اس طرح 1887میں وہ بصارت و سماعت سے محروم ہیلن کیلر سے ملیں۔ بہت جلد یہ تعلق ایک ایسے رشتے میں بدل گیا جس میں عزت و احترام اور وقار کے ساتھ دوستی اور بے تکلفی کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ مس سیلیوِن آخری سانس تک ہیلن کیلر کی راہ نمائی کرتی رہیں۔ اسے سکھاتی، سمجھاتی اور اس کی کام یابیوں پر شاید سب سے زیادہ خوش ہونے والی این سیلیوِن ہی تھی۔
این سیلیوِن نے ابتدائی ملاقاتوں اور تدریس کے دوران دیکھا کہ ہیلن کیلر کو لفظوں کی پہچان میں دشواری پیش آرہی تھی۔ اسے مخصوص طریقۂ نصاب الجھا رہا تھا اور تب انھوں نے اسے ہتھیلی پر الفاظ کے ہجّے کروانا شروع کیا۔ یہ طریقہ نہایت کارگر ثابت ہوا۔ ہیلن نے چھے ماہ کے عرصے میں نہ صرف لگ بھگ چھے سو نئے الفاظ سیکھے بلکہ ٹیبل اور بریل سسٹم سے بھی واقف ہو گئی۔ بعد ازاں استانی کے کہنے پر ہیلن کیلر کے والدین نے اپنی بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے بوسٹن کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا۔
مس سیلیوِن یہاں بھی اپنی شاگرد کی راہ نمائی کے لیے موجود تھیں۔ وہ اپنی کم بینائی اور مسلسل گرتی ہوئی صحت کے باوجود ہیلن کیلر کو لکھنے پڑھنے میں مدد دیتی رہیں۔ وہ ہیلن کیلر کو سبق یاد کرواتیں، اسے لیکچر سمجھنے اور لفظوں کا ہجا کرنے میں مدد دیتیں۔ ان کی اسی انتھک محنت اور خلوصِ نیت کا نتیجہ تھاکہ ہیلن کیلر اس کالج سے پہلی نابینا خاتون گریجویٹ بن کر نکلی۔ ہیلن کیلر نے اپنی اسی استاد کی مدد سے اپنی خودنوشت تحریر کی۔
اسی دوران یعنی 1905میں مس سیلیوِن نے شادی کر لی، لیکن ہیلن کا ساتھ نہ چھوڑا۔ دن گزرتے رہے اور کلینڈر پر 1920 نمودار ہو گیا۔ اس عرصے میں ہیلن نے بہت کچھ سیکھ لیا تھا اور اب اسے بھی ایک باہمّت اور بہادر لڑکی کے علاوہ ایک ماہرِ تعلیم اور مفکر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ اسی ہیلن کیلر کی استاد این سیلیوِن کی بینائی بہت کم ہوگئی تھی۔ ان کی دائیں آنکھ میں درد رہتا اور اس کا ان کے معمولاتِ زندگی پر برا اثر پڑ رہا تھا۔
مس سیلیوِن کی صحت گرتی چلی گئی اور 20 اکتوبر 1936کو ہیلن کیلر کی یہ استاد، راہ نما اور دوست اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ایک ضدی اور بصارت و سماعت سے محروم بچی کی زندگی میں خوشیاں بکھیرنے اور اسے راستہ سجھانے والی اس خاتون نے صبر، تحمل اور استقامت کی ایک مثال قائم کی اور بتایا کہ بچوں سے مناسب برتاؤ اور ان کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھانے اور سمجھانے کے ساتھ ان کی تربیت اور تعلیم بہترین انداز سے کی جاسکتی ہے۔