جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔
آج کل تو ملنگ لوگ بھی اپٹوڈیٹ ہوکر بوٹ سوٹ میں پھرتے ہیں اور کشکول کو بھی چھپائے رکھتے ہیں۔
کسی اور کالم میں ہم نے ایک جدید شاعر کا شعر بیان کرکے اس مکان ''پر بحث کی تھی جس کے لیے اب سب سے بڑا خطرہ ''مرمت،، اور مرمت کرنے والوں کی طرف سے ہے جو پیوند پر ''پیوند،، لگاتے لگاتے عبدالکریم کے جوتے بن چکا ہے ۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہو جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
آج کل تو ملنگ لوگ بھی اپٹوڈیٹ ہوکر بوٹ سوٹ میں پھرتے ہیں اور کشکول کو بھی چھپائے رکھتے ہیں لیکن اگلے زمانے کے فقیر اور بھکاری لوگ ایک خاص قسم کی ٹوپی اور ''گلیم،، رکھتے تھے جن میں ہر رنگ کے ٹکڑے بڑی فنکاری سے لگے ہوئے ہوتے تھے۔ ویسے اگر آج کل اس قسم کا گلیم بنانا ہو بلکہ بنانا کیا سامنے بنا بنایا موجود ہے صرف دیکھنے والی نظر چاہیے۔ ذرا ساری پارٹیوں کے جھنڈوں میں موجود رنگوں کو تصور میں لایے اور سب کے ٹکڑے لے کر گلیم بنائیے۔ کشکول بنانے کی ضرورت نہیں کہ اسی سے کچھ ٹکڑے لے کر ٹوپی بنا لیجیے، ٹوپی کی ٹوپی اور کشکول کا کشکول ۔
بات پھر دوسری طرف نکل گئی۔ آج ہم پرانے زمانے کے ایک شاعر استاد قمر جلالوی کا ایک شعر دہرانا چاہتے ہیں:
اب نزع کا عالم طاری ہے تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے سامان اتارا کرتے ہیں
استاد قمر جلالوی تو پرانے زمانے کے وضع دار بزرگ تھے جو گالی بھی نہایت ہی وضع داری سے اور مہذبانہ الفاظ میں دیا کرتے تھے۔ یعنی باز آیے ورنہ میرا پاپوش مبارک آپ کے سر اقدس کا بوسہ لینے پر مجبور ہو جائے گا۔ یا دیکھیے جناب ذرا حد میں رہیے ورنہ میں آپ کی والدہ محترمہ کے حضور گستاخی کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔ دیکھیے جناب عالی اتنی زیادہ پاکیٔ داماں کے قصیدے مت پڑھیے گا ورنہ مجھے وہ سب کچھ بتانا پڑے گا جو آپ کی دادی صاحبہ مرحومہ و مغفورہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ استاد نے بھی شعر میں سامان ''اتارا،، کرتے ہیں کے الفاظ استعمال کیے ہیں ورنہ اصل میں گرایا یا پھینکا کرتے ہیں ہونا چاہیے تھا۔ بلکہ زیادہ بہتر ''دفع دور کرنا،، یا لعنت بھیجنا ہوتا ہے۔
یہ کشتی سے فالتو سامان اتارنے یا پھینکنے کا جو سلسلہ ہے، پرانے زمانے میں ''کشتی،، سے مخصوص تھا، آج کے زمانے میں اسے ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے۔مثلاً اس سلسلے کی ایک کہانی یوں ہے کہ کچھ لوگ جہاز یا ہیلی کاپٹریا، چلیے کشتی میں سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ ہم نئے نئے زمانے ''کے ہیں ستر سال سے ایک ہی زمانے'' میں بلکہ زمان و مکان میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
ان کشتی سواروں میں ایک امریکی، ایک برطانوی، ایک چینی، ایک جاپانی اور ایک پاکستانی سوار تھے، پاکستانی اصل میں ایک نہیں دو تھے لیکن اس دوسرے پاکستانی کا تعارف بعد میں کرایں گے۔ کہانی کے مطابق پائلٹ یا ملاح نے کہا کہ سواری میں کچھ گڑ بڑ پیدا ہو گئی ہے اس لیے کچھ فالتو سامان جس کسی کے پاس ہو وہ پھینک دیں۔
امریکی نے تو کچھ کیمرے اور کمپیوٹر پھینکے، انگریز نے بھی کچھ بندوقیں اور ہتھیار پھینک دیئے، چینی نے کچھ چینی الیکٹرانک مصنوعات پھینکیں اور جاپانی نے کچھ کھلونے اور وی سی آر وغیرہ پھینک دیے۔ سواری پھر بھی ہلکی نہیں ہوئی تو پاکستانی نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے دوسرے ''پاکستانی،، کو اٹھا کر پھینک دیا کہ ہمارے ہاں یہ ''بہت ہیں،،
اب یہاں روایتیں دو ہو جاتی ہیں۔ کہانی کے پرانے ایڈیشن میں تو افغان مہاجر بیان کیا گیا کہ پاکستانی نے ا پنے ہاں ''بہت ہونے،، کی وجہ سے مہاجر کو پھینک دیا تھا۔ لیکن اب تو مہاجر جا چکے ہیں یا پھینکے جا چکے ہیں تو یہ سوال اپنی جگہ سوال ہی رہ جائے گا کہ پاکستانی نے ایسا کیا پھینکا تھا جو ان کے ہاں بہت ہیں۔یا یوں کہیے کہ اب اگر ایسی صورتحال پیش آئی اور اس بین الاقوامی کشتی یا ہیلی کاپٹر سے ''فالتو،، چیزیں گرانے کا مسئلہ پیدا ہو جائے تو پاکستانی کے پاس ایسا کیا ہو سکتا ہے جو پھینکنے کے لائق ہو اور پاکستان میں بہت بھی ہوں۔ہم نے جب اس سوال پر اپنی تحقیق کا ٹٹو چلایا اور لٹو گھمایا تو جواب بہت سے مل گئے لیکن ان میں سے زیادہ تر جواب ایسے ہیں جو ہم ہرگز نہیں بتا سکتے۔ کیونکہ نہ تو ہمیں اپنا ٹوٹا پھوٹا جسم کسی جگہ پھتروں اور اینٹوں تلے پسند ہے نہ کسی سنسان مقام پر کسی درخت سے اپنی لاش لٹکانا منظور ہے اور نہ ہی کسی برائیلر مرغی کی طرح ذبح ہو کر کسی ڈرم میں تڑپنے کا شوق ہے۔ اس لیے صحیح ہوتے ہوئے بھی ہم نے ان ''جوابات،، پر سیاہی گرا کر چھپا دیا کہ جس کو ہو جسم و جاں عزیز، ایسا جواب بتائے کیوں؟
خیر یہ جو جواب اب ہمارے پاس ہے وہ بھی کچھ کم ہارٹ فیورٹ نہیں۔ اس پاکستانی کے پہلو میں اس کا ''لیڈر،، بیٹھا ہوا تھا ،اس نے سوچا اور بہت صحیح سوچا کہ یہ تو ہمارے ہاں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اس لیے اﷲ اکبر کا نعرہ مار کر لیڈر کو پھینک دیا اور ساتھ ہی رونے بھی لگا۔ دوسرے مسافروں نے پوچھا کہ اگر اتنا ہی اپنا لیڈر عزیز تھا تو پھر پھینکا ہی کیوں؟ اور تم خود کہہ رہے ہو کہ تمہارے ہاں یہ آئٹم یا نگ بہت ہیں۔
پاکستانی نے اپنے دامن سے اپنے نا موجود آنسو یا خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ یہی تو میرے رونے کا سبب ہے کہ میں صرف ایک کو پھینکنے میں کامیاب ہوا ،کاش ہمارا پورا ملک بھی ایک کشتی یا ہیلی کاپٹر ہو اور مجھے یہ سعادت مل جائے کہ میں سارے لیڈروں کو اس سے باہر پھینک سکوں۔ لیکن میری اتنی قسمت کہاں؟ اور میرے ملک کی اتنی خوشی بختی کہاں؟ پھر اس نے فوراً کاروباری موڈ میں آتے ہوئے سیلز مین کا منصب سنبھالتے ہوئے کہا اگر تم چاروں کو ''مال ،، درکار ہ تو جتنا چاہو سپلائی کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ایک ایک بندے کے حصے میں تین تین لیڈر حاضر سٹاک میں موجود ہیں، یہ سن کر باقی مسافروں نے چیخ چیخ کر پہلے نا، نا کیا پھر توبہ اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے چھلانگ لگا دی ۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہو جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
آج کل تو ملنگ لوگ بھی اپٹوڈیٹ ہوکر بوٹ سوٹ میں پھرتے ہیں اور کشکول کو بھی چھپائے رکھتے ہیں لیکن اگلے زمانے کے فقیر اور بھکاری لوگ ایک خاص قسم کی ٹوپی اور ''گلیم،، رکھتے تھے جن میں ہر رنگ کے ٹکڑے بڑی فنکاری سے لگے ہوئے ہوتے تھے۔ ویسے اگر آج کل اس قسم کا گلیم بنانا ہو بلکہ بنانا کیا سامنے بنا بنایا موجود ہے صرف دیکھنے والی نظر چاہیے۔ ذرا ساری پارٹیوں کے جھنڈوں میں موجود رنگوں کو تصور میں لایے اور سب کے ٹکڑے لے کر گلیم بنائیے۔ کشکول بنانے کی ضرورت نہیں کہ اسی سے کچھ ٹکڑے لے کر ٹوپی بنا لیجیے، ٹوپی کی ٹوپی اور کشکول کا کشکول ۔
بات پھر دوسری طرف نکل گئی۔ آج ہم پرانے زمانے کے ایک شاعر استاد قمر جلالوی کا ایک شعر دہرانا چاہتے ہیں:
اب نزع کا عالم طاری ہے تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے سامان اتارا کرتے ہیں
استاد قمر جلالوی تو پرانے زمانے کے وضع دار بزرگ تھے جو گالی بھی نہایت ہی وضع داری سے اور مہذبانہ الفاظ میں دیا کرتے تھے۔ یعنی باز آیے ورنہ میرا پاپوش مبارک آپ کے سر اقدس کا بوسہ لینے پر مجبور ہو جائے گا۔ یا دیکھیے جناب ذرا حد میں رہیے ورنہ میں آپ کی والدہ محترمہ کے حضور گستاخی کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔ دیکھیے جناب عالی اتنی زیادہ پاکیٔ داماں کے قصیدے مت پڑھیے گا ورنہ مجھے وہ سب کچھ بتانا پڑے گا جو آپ کی دادی صاحبہ مرحومہ و مغفورہ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ استاد نے بھی شعر میں سامان ''اتارا،، کرتے ہیں کے الفاظ استعمال کیے ہیں ورنہ اصل میں گرایا یا پھینکا کرتے ہیں ہونا چاہیے تھا۔ بلکہ زیادہ بہتر ''دفع دور کرنا،، یا لعنت بھیجنا ہوتا ہے۔
یہ کشتی سے فالتو سامان اتارنے یا پھینکنے کا جو سلسلہ ہے، پرانے زمانے میں ''کشتی،، سے مخصوص تھا، آج کے زمانے میں اسے ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے۔مثلاً اس سلسلے کی ایک کہانی یوں ہے کہ کچھ لوگ جہاز یا ہیلی کاپٹریا، چلیے کشتی میں سمجھ لیتے ہیں، کیونکہ ہم نئے نئے زمانے ''کے ہیں ستر سال سے ایک ہی زمانے'' میں بلکہ زمان و مکان میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
ان کشتی سواروں میں ایک امریکی، ایک برطانوی، ایک چینی، ایک جاپانی اور ایک پاکستانی سوار تھے، پاکستانی اصل میں ایک نہیں دو تھے لیکن اس دوسرے پاکستانی کا تعارف بعد میں کرایں گے۔ کہانی کے مطابق پائلٹ یا ملاح نے کہا کہ سواری میں کچھ گڑ بڑ پیدا ہو گئی ہے اس لیے کچھ فالتو سامان جس کسی کے پاس ہو وہ پھینک دیں۔
امریکی نے تو کچھ کیمرے اور کمپیوٹر پھینکے، انگریز نے بھی کچھ بندوقیں اور ہتھیار پھینک دیئے، چینی نے کچھ چینی الیکٹرانک مصنوعات پھینکیں اور جاپانی نے کچھ کھلونے اور وی سی آر وغیرہ پھینک دیے۔ سواری پھر بھی ہلکی نہیں ہوئی تو پاکستانی نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے دوسرے ''پاکستانی،، کو اٹھا کر پھینک دیا کہ ہمارے ہاں یہ ''بہت ہیں،،
اب یہاں روایتیں دو ہو جاتی ہیں۔ کہانی کے پرانے ایڈیشن میں تو افغان مہاجر بیان کیا گیا کہ پاکستانی نے ا پنے ہاں ''بہت ہونے،، کی وجہ سے مہاجر کو پھینک دیا تھا۔ لیکن اب تو مہاجر جا چکے ہیں یا پھینکے جا چکے ہیں تو یہ سوال اپنی جگہ سوال ہی رہ جائے گا کہ پاکستانی نے ایسا کیا پھینکا تھا جو ان کے ہاں بہت ہیں۔یا یوں کہیے کہ اب اگر ایسی صورتحال پیش آئی اور اس بین الاقوامی کشتی یا ہیلی کاپٹر سے ''فالتو،، چیزیں گرانے کا مسئلہ پیدا ہو جائے تو پاکستانی کے پاس ایسا کیا ہو سکتا ہے جو پھینکنے کے لائق ہو اور پاکستان میں بہت بھی ہوں۔ہم نے جب اس سوال پر اپنی تحقیق کا ٹٹو چلایا اور لٹو گھمایا تو جواب بہت سے مل گئے لیکن ان میں سے زیادہ تر جواب ایسے ہیں جو ہم ہرگز نہیں بتا سکتے۔ کیونکہ نہ تو ہمیں اپنا ٹوٹا پھوٹا جسم کسی جگہ پھتروں اور اینٹوں تلے پسند ہے نہ کسی سنسان مقام پر کسی درخت سے اپنی لاش لٹکانا منظور ہے اور نہ ہی کسی برائیلر مرغی کی طرح ذبح ہو کر کسی ڈرم میں تڑپنے کا شوق ہے۔ اس لیے صحیح ہوتے ہوئے بھی ہم نے ان ''جوابات،، پر سیاہی گرا کر چھپا دیا کہ جس کو ہو جسم و جاں عزیز، ایسا جواب بتائے کیوں؟
خیر یہ جو جواب اب ہمارے پاس ہے وہ بھی کچھ کم ہارٹ فیورٹ نہیں۔ اس پاکستانی کے پہلو میں اس کا ''لیڈر،، بیٹھا ہوا تھا ،اس نے سوچا اور بہت صحیح سوچا کہ یہ تو ہمارے ہاں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں اس لیے اﷲ اکبر کا نعرہ مار کر لیڈر کو پھینک دیا اور ساتھ ہی رونے بھی لگا۔ دوسرے مسافروں نے پوچھا کہ اگر اتنا ہی اپنا لیڈر عزیز تھا تو پھر پھینکا ہی کیوں؟ اور تم خود کہہ رہے ہو کہ تمہارے ہاں یہ آئٹم یا نگ بہت ہیں۔
پاکستانی نے اپنے دامن سے اپنے نا موجود آنسو یا خوشی کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ یہی تو میرے رونے کا سبب ہے کہ میں صرف ایک کو پھینکنے میں کامیاب ہوا ،کاش ہمارا پورا ملک بھی ایک کشتی یا ہیلی کاپٹر ہو اور مجھے یہ سعادت مل جائے کہ میں سارے لیڈروں کو اس سے باہر پھینک سکوں۔ لیکن میری اتنی قسمت کہاں؟ اور میرے ملک کی اتنی خوشی بختی کہاں؟ پھر اس نے فوراً کاروباری موڈ میں آتے ہوئے سیلز مین کا منصب سنبھالتے ہوئے کہا اگر تم چاروں کو ''مال ،، درکار ہ تو جتنا چاہو سپلائی کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ایک ایک بندے کے حصے میں تین تین لیڈر حاضر سٹاک میں موجود ہیں، یہ سن کر باقی مسافروں نے چیخ چیخ کر پہلے نا، نا کیا پھر توبہ اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے چھلانگ لگا دی ۔