ابن خلدون کے مشورے
یوں لگتا ہے جیسے ابن خلدون نے آج کے کسی حکمران کے نام آج ہی کوئی خط لکھا ہے۔
کوئی چھ سو برس پہلے مسلمانوں میں ایک عالم پیدا ہوا تھا جس نے علم تاریخ کے فلسفے اور انسانی عمرانیات پر دنیا کی پہلی کتاب تصنیف کی۔ جہانبانی بھی اس کا خاص موضوع رہا، اپنی شہرہ آفاق تصنیف مقدمہ میں ابن خلدون نے حکمرانوں کو جو مشورے دیئے ہیں ان میں سے صرف ایک کااقتباس پاکستان کے حکمران عمران خان کی خدمت میں حاضر ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے ابن خلدون نے آج کے کسی حکمران کے نام آج ہی کوئی خط لکھا ہے۔ حکمرانوں کی عادات کی طرح بلند پایہ لوگوں کے خیالات بھی کبھی پرانے نہیں ہوتے، حقیقتیں زندہ رہتی ہیں ۔ میں نہایت اختصار کے ساتھ اور عام فہم انداز میں ابن خلدون کے خیالات پیش کر رہا ہوں ۔
جاننا چاہتے ہیں کہ لوگوں کے مال پر دست درازی ان کو آئندہ کے لئے اس کے حصول کی کوششوں کو روکتی ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ محنت اور جانفشانی سے مال پیدا کرنے کا نتیجہ کیا نکلا جب لوگوں کے اندر اپنے مال و منال کے لٹ جانے کا خیال پیدا ہوتا ہے تو اس کے حصول کا جذبہ دب جاتا ہے اور وہ کسی پیداواری کوشش سے رک جاتے ہیں ۔ جس قدر ظلم جائز رکھا جاتا ہے اسی قدر رعایا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ جب کسی کام سے فائدہ ہی نہیں ہوتا اور سب کچھ چھن جاتا ہے تو کس امید پر کوئی خون پسینہ ایک کرے۔
جب ظلم اور زیادتی کم ہوتی ہے تو رعایا خوش ہوتی ہے اور خوش دلی سے کام کرتی ہے۔ بازاروں کی چہل پہل کاروبار کی وجہ سے ہی ہوتی ہے، جب لوگ کسب معاش سے ہاتھ کھینچ لیں گے، کاروبار چھوڑ دیں گے، تو بازار بے رونق اور افسردہ ہوجائیں گے۔ ملک کی معاشی حالت بگڑے گی اور لوگ متنفر ہو کر رزق کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا رخ کریں گے۔ جب معاش پیدا کرنے والے نہ رہیں گے تو ملک ویران ہونے لگے گا۔ سلطنت اور سلطان پر بھی تباہی آئے گی کیونکہ کسی ملک کی شان و شوکت تو آبادی کی رونق اور خوشحالی پر ہوتی ہے جب وہی بگڑ جائے تو پھر کوئی مملکت اپنی حالت پر کیسے قائم رہے گی۔
دیکھئے ایک مورخ مسعودی نے کیا خوب قصہ لکھا ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ نے ایک دن الو کی آواز سنی تو موبز (وزیر) سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اس نے جواب دیا کہ عالی جاہ ایک الو کو عشق ہو گیا ہے اور اس کی محبوبہ اپنے مہر میں بیس ویران گائوں مانگتی ہے۔ الو نے اس شرط کو قبول کر لیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اسی بادشاہ کی حکومت قائم رہی تو میں تجھ کو بیس نہیں ایک ہزار گائوں انعام دے دوں گا۔ ملک کی جو حالت ہے اس کو دیکھتے ہوئے اتنا حق مہر میں آسانی کے ساتھ دے سکتا ہوں۔
بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو غفلت سے چونک کر وزیر کو خلوت میں بلایا اور پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو۔ وزیر نے عرض کیا کہ اے بادشاہ کسی بادشاہ کی عزت آئین و قانون کے ماننے میں ہوتی ہے۔ ملک کی عزت مردانِ کار سے ہوتی ہے، ایسے ماہر لوگ مال سے ملتے ہیں، مال آبادی اور خوشحال زندگی سے ملتا ہے، خوشحالی عدل و انصاف کے ساتھ ملتی ہے، عدل ایک ترازو ہے جس کی دیکھ بھال بادشاہ کے ہاتھ میں ہے۔
اے بادشاہ تو نے زمین اس کے مالکوں اور آباد کاروں سے چھین لی حالانکہ وہ لوگ خراج اور ٹیکس دیتے تھے۔ وہ زمین تم نے اپنے حاشیہ نشینوں خادموں اور لشکریوں کو دے دی جن کو نہ آبادی کی فکر ہے نہ اس کے انجام پر نظر ہے اور نہ زمین کی اصلاح اور کاشت کی فکر کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ تیرے پاس رہتے ہیں اس لئے ان سے خراج لینے میں درگزر کی جاتی ہے لیکن ظلم ان لوگوں پر کیا جاتاہے جو خراج ادا کرنے اور زمین کو کاشت کرنے والے ہیں۔ چنانچہ چارو ناچار انہوں نے کاشت کاری چھوڑ دی، ان کی آبادیاں خالی ہو گئیں، وہ ویرانوں میں رہنے لگے تاکہ ظلم سے بچ رہیں۔
اب آباد زمینیں کم، آبادی کم اور خراج کم رعیت تباہ حال اس ویرانی کے حال میں تمہارے آس پاس کے حکمران تمہاری سلطنت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ تیرے پاس وہ سازو سامان باقی نہیں کہ تو حکومت کی حفاظت کر سکے۔ یہ سن کر بادشاہ نے اصلاح پر کمر باندھ لی اور اپنے دربار یوں سے زمینیں چھین کر حقداروں کو واپس کر دیں۔ انصاف قائم کیا اور دیکھتے دیکھتے ملک کی حالت بدل گئی۔ دشمن مایوس ہو گئے ملک دوبارہ خوشحال ہو گیا۔
چھ سو برس سے زائد پہلے کا یہ مشورہ میں نے نہایت اختصار کے ساتھ پیش خدمت کیا ہے اور اس اندیشہ کے ساتھ کہ یہ ارباب حل وعقد تک نہیں پہنچے گا لیکن ابن خلدون نے آنے والے تمام حکمرانوں کے لئے یہ مشورہ کتاب میں لکھ دیا۔ یہ روشنی ان کی کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچی ہم نے اسے ذرا آگے کر دیا اس کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔
یوں لگتا ہے جیسے ابن خلدون نے آج کے کسی حکمران کے نام آج ہی کوئی خط لکھا ہے۔ حکمرانوں کی عادات کی طرح بلند پایہ لوگوں کے خیالات بھی کبھی پرانے نہیں ہوتے، حقیقتیں زندہ رہتی ہیں ۔ میں نہایت اختصار کے ساتھ اور عام فہم انداز میں ابن خلدون کے خیالات پیش کر رہا ہوں ۔
جاننا چاہتے ہیں کہ لوگوں کے مال پر دست درازی ان کو آئندہ کے لئے اس کے حصول کی کوششوں کو روکتی ہے۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ محنت اور جانفشانی سے مال پیدا کرنے کا نتیجہ کیا نکلا جب لوگوں کے اندر اپنے مال و منال کے لٹ جانے کا خیال پیدا ہوتا ہے تو اس کے حصول کا جذبہ دب جاتا ہے اور وہ کسی پیداواری کوشش سے رک جاتے ہیں ۔ جس قدر ظلم جائز رکھا جاتا ہے اسی قدر رعایا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتی ہے۔ کیونکہ جب کسی کام سے فائدہ ہی نہیں ہوتا اور سب کچھ چھن جاتا ہے تو کس امید پر کوئی خون پسینہ ایک کرے۔
جب ظلم اور زیادتی کم ہوتی ہے تو رعایا خوش ہوتی ہے اور خوش دلی سے کام کرتی ہے۔ بازاروں کی چہل پہل کاروبار کی وجہ سے ہی ہوتی ہے، جب لوگ کسب معاش سے ہاتھ کھینچ لیں گے، کاروبار چھوڑ دیں گے، تو بازار بے رونق اور افسردہ ہوجائیں گے۔ ملک کی معاشی حالت بگڑے گی اور لوگ متنفر ہو کر رزق کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا رخ کریں گے۔ جب معاش پیدا کرنے والے نہ رہیں گے تو ملک ویران ہونے لگے گا۔ سلطنت اور سلطان پر بھی تباہی آئے گی کیونکہ کسی ملک کی شان و شوکت تو آبادی کی رونق اور خوشحالی پر ہوتی ہے جب وہی بگڑ جائے تو پھر کوئی مملکت اپنی حالت پر کیسے قائم رہے گی۔
دیکھئے ایک مورخ مسعودی نے کیا خوب قصہ لکھا ہے۔ پرانے زمانے کے بادشاہ نے ایک دن الو کی آواز سنی تو موبز (وزیر) سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اس نے جواب دیا کہ عالی جاہ ایک الو کو عشق ہو گیا ہے اور اس کی محبوبہ اپنے مہر میں بیس ویران گائوں مانگتی ہے۔ الو نے اس شرط کو قبول کر لیا ہے اور کہا ہے کہ اگر اسی بادشاہ کی حکومت قائم رہی تو میں تجھ کو بیس نہیں ایک ہزار گائوں انعام دے دوں گا۔ ملک کی جو حالت ہے اس کو دیکھتے ہوئے اتنا حق مہر میں آسانی کے ساتھ دے سکتا ہوں۔
بادشاہ نے جب یہ بات سنی تو غفلت سے چونک کر وزیر کو خلوت میں بلایا اور پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو۔ وزیر نے عرض کیا کہ اے بادشاہ کسی بادشاہ کی عزت آئین و قانون کے ماننے میں ہوتی ہے۔ ملک کی عزت مردانِ کار سے ہوتی ہے، ایسے ماہر لوگ مال سے ملتے ہیں، مال آبادی اور خوشحال زندگی سے ملتا ہے، خوشحالی عدل و انصاف کے ساتھ ملتی ہے، عدل ایک ترازو ہے جس کی دیکھ بھال بادشاہ کے ہاتھ میں ہے۔
اے بادشاہ تو نے زمین اس کے مالکوں اور آباد کاروں سے چھین لی حالانکہ وہ لوگ خراج اور ٹیکس دیتے تھے۔ وہ زمین تم نے اپنے حاشیہ نشینوں خادموں اور لشکریوں کو دے دی جن کو نہ آبادی کی فکر ہے نہ اس کے انجام پر نظر ہے اور نہ زمین کی اصلاح اور کاشت کی فکر کرتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ تیرے پاس رہتے ہیں اس لئے ان سے خراج لینے میں درگزر کی جاتی ہے لیکن ظلم ان لوگوں پر کیا جاتاہے جو خراج ادا کرنے اور زمین کو کاشت کرنے والے ہیں۔ چنانچہ چارو ناچار انہوں نے کاشت کاری چھوڑ دی، ان کی آبادیاں خالی ہو گئیں، وہ ویرانوں میں رہنے لگے تاکہ ظلم سے بچ رہیں۔
اب آباد زمینیں کم، آبادی کم اور خراج کم رعیت تباہ حال اس ویرانی کے حال میں تمہارے آس پاس کے حکمران تمہاری سلطنت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے کہ تیرے پاس وہ سازو سامان باقی نہیں کہ تو حکومت کی حفاظت کر سکے۔ یہ سن کر بادشاہ نے اصلاح پر کمر باندھ لی اور اپنے دربار یوں سے زمینیں چھین کر حقداروں کو واپس کر دیں۔ انصاف قائم کیا اور دیکھتے دیکھتے ملک کی حالت بدل گئی۔ دشمن مایوس ہو گئے ملک دوبارہ خوشحال ہو گیا۔
چھ سو برس سے زائد پہلے کا یہ مشورہ میں نے نہایت اختصار کے ساتھ پیش خدمت کیا ہے اور اس اندیشہ کے ساتھ کہ یہ ارباب حل وعقد تک نہیں پہنچے گا لیکن ابن خلدون نے آنے والے تمام حکمرانوں کے لئے یہ مشورہ کتاب میں لکھ دیا۔ یہ روشنی ان کی کتاب کے ذریعے ہم تک پہنچی ہم نے اسے ذرا آگے کر دیا اس کے سوا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔