پیپلزپارٹی کا کامیاب سیاسی شو جلسے میں وفاقی حکومت نشانے پر رہی
سکھر میں پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے میں خطاب کرنے والے رہنماؤں کا ہدف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت رہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ جمعہ کو اپنے یوم تاسیس کے حوالے سے سکھر میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس موقع پر جلسہ عام منعقد ہوا، جس سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ جلسہ ان سیاسی حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری قرار دیا جا رہا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کو مستقبل قریب میں درپیش ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن میں گھروں کو نہ توڑنے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن دکانوں کو توڑا گیا ہے ، ان کے متاثرہ دکانداروں کی بحالی کے لیے بھی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں اتحادی متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم ) پاکستان کراچی کی موجودہ صورت حال میں نہ صرف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی بلکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات میں پہلے والی گرم جوشی بھی نہیں رہی۔
سکھر میں پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے میں خطاب کرنے والے رہنماؤں کا ہدف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت رہی۔ پیپلز پارٹی کے قائدین کے بیانیہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ مستقبل کی سیاست میں دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔ سندھ پیپلز پارٹی کا سیاسی مورچہ ہو گا ۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلے ایک لاڈلہ تھا ۔ اب دوسرا آ گیا ہے ، جو کہ انوکھا لاڈلہ ہے ۔ اس نے کھیلنے کو چاند مانگا تو اسے پورا ملک دے دیا گیا ۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 100 دن میں 100 یوٹرن کے علاوہ آپ نے کیا کیا ۔ قیمتیں نہ بڑھانے کا وعدہ کیا لیکن قیمتیں بڑھا دیں ۔ غربت مٹانے کا وعدہ کیا ، غریب کو مٹا دیا ۔ آئی ایم ایف پروٹوکول سمیت ہر معاملے پر یوٹرن لیا ۔ یوٹرن لینا اچھا ہے تو بجلی ، گیس کی بڑھائی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی پر لیں ۔ حکومت نے پاکستان کے عوام کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ۔
تجاوزات کے نام پر لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کر رہے ہیں ۔ کسانوں کا معاشی قتل عام کیا گیا ۔ کراچی کی ترقی کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔ جلسے میں آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں کا بیانیہ بھی اس طرح کا تھا ۔ یہ بیانیہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت آنے والے وقت کی تیاری کر رہی ہے۔آصف علی زرداری نے خود اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور وہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے دورے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی اور قانونی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن پر پہلے تو کوئی مزاحمت نہیں ہوئی لیکن بڑے پیمانے پر دکانیں مسمار ہونے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم یا متاثر ہوا۔ اس صورت حال نے کراچی میں بے چینی کو جنم دیا۔ عدالت کی طرف سے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر بھی تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ اس سے بھی بے چینی میں اضافہ ہوا کیونکہ ان زمینوں پر زیادہ تر رہائشی آبادیاں ہیں۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس میں اس صورت حال پر غور کیا گیا۔
وزیر اعلی سندھ نے آپریشن سے متاثرہ دکانداروں کو متبادل روزگار اور معاوضے کی ادائیگی کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ پارکس، فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے تجاوزات کو ہٹایا جائے لیکن گھروں کو مسمار کرنا ٹھیک نہیں ہے، میں کسی کو بے گھر اور بے روزگار ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کے روٹ پر تجاوزات ہٹائی جائیں گی اور حقیقی متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ حکومت سندھ نے گھروں کو مسمار نہ کرنے کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ عدالت اپنے حکم پر نظرثانی کر سکے۔ حکومت نے رہائشی علاقوں میں قائم کیے گئے پرائیویٹ اسکولز کو بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر لوگوں کو بیروزگار اور بے گھر نہ کرنے کے لیے یہ فیصلے کیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت ان فیصلوں پر کیا حکم صادر کرتی ہے لیکن کراچی کے موجودہ حالات میں ایم کیو ایم پاکستان اپنی اتحادی تحریک انصاف کے ساتھ پہلے والا گرم جوشی کا تعلق برقرار نہیں رکھ پا رہی ہے۔ کراچی کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے دونوں سیاسی جماعتوں کے گورنر ہاؤس میں کئی اجلاس ہوئے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی بہت اہمیت کی حامل ہو گی۔
یہ جلسہ ان سیاسی حالات کا مقابلہ کرنے کی تیاری قرار دیا جا رہا ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کو مستقبل قریب میں درپیش ہو سکتے ہیں۔دوسری طرف سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن میں گھروں کو نہ توڑنے اور اس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جن دکانوں کو توڑا گیا ہے ، ان کے متاثرہ دکانداروں کی بحالی کے لیے بھی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں اتحادی متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم ) پاکستان کراچی کی موجودہ صورت حال میں نہ صرف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہی بلکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان تعلقات میں پہلے والی گرم جوشی بھی نہیں رہی۔
سکھر میں پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے میں خطاب کرنے والے رہنماؤں کا ہدف تحریک انصاف کی وفاقی حکومت رہی۔ پیپلز پارٹی کے قائدین کے بیانیہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ مستقبل کی سیاست میں دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔ سندھ پیپلز پارٹی کا سیاسی مورچہ ہو گا ۔ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پہلے ایک لاڈلہ تھا ۔ اب دوسرا آ گیا ہے ، جو کہ انوکھا لاڈلہ ہے ۔ اس نے کھیلنے کو چاند مانگا تو اسے پورا ملک دے دیا گیا ۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 100 دن میں 100 یوٹرن کے علاوہ آپ نے کیا کیا ۔ قیمتیں نہ بڑھانے کا وعدہ کیا لیکن قیمتیں بڑھا دیں ۔ غربت مٹانے کا وعدہ کیا ، غریب کو مٹا دیا ۔ آئی ایم ایف پروٹوکول سمیت ہر معاملے پر یوٹرن لیا ۔ یوٹرن لینا اچھا ہے تو بجلی ، گیس کی بڑھائی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی پر لیں ۔ حکومت نے پاکستان کے عوام کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ۔
تجاوزات کے نام پر لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کر رہے ہیں ۔ کسانوں کا معاشی قتل عام کیا گیا ۔ کراچی کی ترقی کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا ۔ بلاول بھٹو نے بھی کہا کہ احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔ جلسے میں آصف علی زرداری اور دیگر رہنماؤں کا بیانیہ بھی اس طرح کا تھا ۔ یہ بیانیہ اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت آنے والے وقت کی تیاری کر رہی ہے۔آصف علی زرداری نے خود اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں اور وہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے دورے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی اور قانونی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن پر پہلے تو کوئی مزاحمت نہیں ہوئی لیکن بڑے پیمانے پر دکانیں مسمار ہونے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم یا متاثر ہوا۔ اس صورت حال نے کراچی میں بے چینی کو جنم دیا۔ عدالت کی طرف سے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کی زمینوں پر بھی تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ اس سے بھی بے چینی میں اضافہ ہوا کیونکہ ان زمینوں پر زیادہ تر رہائشی آبادیاں ہیں۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس میں اس صورت حال پر غور کیا گیا۔
وزیر اعلی سندھ نے آپریشن سے متاثرہ دکانداروں کو متبادل روزگار اور معاوضے کی ادائیگی کے لیے کمیٹی بنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ پارکس، فٹ پاتھوں اور سڑکوں سے تجاوزات کو ہٹایا جائے لیکن گھروں کو مسمار کرنا ٹھیک نہیں ہے، میں کسی کو بے گھر اور بے روزگار ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ کراچی سرکلر ریلوے کے روٹ پر تجاوزات ہٹائی جائیں گی اور حقیقی متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ حکومت سندھ نے گھروں کو مسمار نہ کرنے کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ عدالت اپنے حکم پر نظرثانی کر سکے۔ حکومت نے رہائشی علاقوں میں قائم کیے گئے پرائیویٹ اسکولز کو بھی ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر لوگوں کو بیروزگار اور بے گھر نہ کرنے کے لیے یہ فیصلے کیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت ان فیصلوں پر کیا حکم صادر کرتی ہے لیکن کراچی کے موجودہ حالات میں ایم کیو ایم پاکستان اپنی اتحادی تحریک انصاف کے ساتھ پہلے والا گرم جوشی کا تعلق برقرار نہیں رکھ پا رہی ہے۔ کراچی کے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے دونوں سیاسی جماعتوں کے گورنر ہاؤس میں کئی اجلاس ہوئے لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کی آئندہ کی سیاسی حکمت عملی بہت اہمیت کی حامل ہو گی۔