حکومتی کامیابی کیلئے پوری کابینہ کو کارکردگی دکھانا ہو گی
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاشی جمود کی وجوہات کو دور کرنا ناگزیر ہے۔
عوام کی جانب سے توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جس درست سمت کا تعین کیا ہے اسکے آثار نمودار ہونا شروع ہونگے اور معاملات میں ٹھہراؤ آئے گا اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ٹھہراؤ بتدریج بہتری کی جانب بڑھے گا مگر حکومت کے پہلے سو دن پورے ہوتے ہی حکومت کیلئے داخلی و خارجی چیلنجز کم ہونے کی بجائے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔
داخلی سطح پر جس تیزی سے اقتصادی، سیاسی و مالی مسائل نے سر اٹھایا ہے اس نے عوامی امیدوں کو گہنا کر رکھ دیا ہے جس تیزی کے ساتھ ڈالر اڑان بھر رہا ہے، ملک کی کیپیٹل مارکیٹ تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، مہنگائی کا جن بے قابو ہو رہا ہے جبکہ اقتصادی اعشاریئے مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں تو دوسری جانب عالمی سطح پر رونما ہونیوالے واقعات حالات مزید خرابی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ، ٹیکس ریونیو میں نوے ارب روپے سے زائد کے شارٹ فال، ڈالر کی قدر میں اضافہ،کیپیٹل مارکیٹ میں تنزلی، افراط زر میں اضافہ، بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ نے جہاں کاروباری و پیداری لاگت کو بڑھایا ہے وہیں بے یقینی و خوف کی صورتحال نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاشی جمود کی وجوہات کو دور کرنا ناگزیر ہے کیونکہ انہیں دور کئے بغیر اقتصادی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ حکومتی ٹیم کے کپتان عمران خان کچھ کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں لیکن اس کیلئے باتوں کے ساتھ عملی نمونے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے خوف کی فضاء ختم کرنا ہوگی، احتساب کے نام پر خوف پھیلانے والوں کی راہ روکنا ہوگی، اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے کیونکہ تنہاء کپتان کافی نہیں ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیم بھی کارکردگی دکھائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ادارے فعال کردار ادا کریں۔
ایف بی آر جیسا اہم ادارہ ریونیو بڑھانے کی بجائے معمول کی گروتھ سے بھی نیچے چلا گیا اور پہلے چار ماہ کے دوران نوے ارب روپے سے زیادہ کا ریونیو شارٹ فال ہو چکا ہے جو کہ حکومتی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اداروں کو غیر جانبدار آزاد و خودمختار کرنے کی بجائے مداخلت کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ پہلے وزارت داخلہ وزیراعظم کے پاس تھی اب ایف بی آر کو بھی اصلاحات کے نام پر وزیراعظم کے ماتحت کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف حکومتی پارلیمانی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان منی لانڈرنگ کے قوانین کو مزید سخت کرنے کا کہہ چکے ہیں، یہی نہیں حکومت کچھ نئے قوانین لانے اور موجودہ قوانین میں اہم ترامیم کی باتیں کر رہی ہے مگر معاملات بات چیت سے آگے بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے جبکہ ایف اے ٹی ایف کی جائزہ ٹیم حتمی جائزہ کیلئے آئندہ ماہ پاکستان پہنچ رہی ہے جو کہ انتہائی اہم دورہ ہے اس کے ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونا ہیں لیکن ابھی تک معاملات باتوں سے آگے نہیں بڑھ رہے اور قانون سازی کرنا تو دور کی بات ہے وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سو دن پورے ہوچکے ہیں، لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اب تک نہیں بن پائی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی اور پارلیمانی قائمہ کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکی یعنی اب تک کوئی قانون سازی بھی نہیں ہو سکی ہے کیونکہ پارلیمانی طرز حکومت میں کسی بھی قائمہ کمیٹی کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے اور پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کا کام وزرا کی کارکردگی کی نگرانی کرنا اور قانون سازی کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور قانون کے مطابق حکومت بننے کے بعد سے اب تک کم از کم دو درجن کے قریب پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں بنا دی جانی چاہیے تھیں، لیکن اب تک ایک بھی قائمہ کمیٹی نہیں بنائی جا سکی ہے جس کی وجہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا تنازعہ ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پیر کو اہم اجلاس ہوا ہے جس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کے نام پر غور کیا کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف بھی اختلافات کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے اور وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفیٰ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈالر، مہنگائی و معیشت کے بے قابو ہونے سے وزیر خزانہ اسد عمرکے مستعفی ہونے کی خبروں کو تقویت ملی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم آفس نے ان خبروں کی تردید کی ہے مگر ساتھ ہی میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم عمران خان نے آئندہ 10 دنوں میں وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو سکتے ہیں۔ قابل حیرت بات ہے کہ ٹیم کے کپتان بھی ڈالر کی اڑان سے بے خبر تھے اور اس کا اعتراف خود کپتان نے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں کرتے ہوئے کیا، انہیں روپے کی گرتی ہوئی قدر کا میڈیا سے پتہ چلا، پہلے بھی ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ ہوا تو میڈیا سے پتہ چلا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ پر سخت قانون لارہے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کے نام سامنے آنے سے ڈر رہے ہیں، شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے اس سے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ آنیوالے دنوں میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی۔ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں زیرسماعت کیس بھی حتمی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ کے خلاف بھی کیس اہم موڑ پر ہیں جبکہ خود کپتان عمران خان اور ان کی ٹیم کے سینئر کھلاڑی کئی مزید گرفتاریوں کے اشارے دے چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومتی رٹ چیلنج کرنے والے تحریک لبیک کے رہنماؤں کے خلاف سنگین الزام میں مقدمات درج ہو چکے ہیں جس کو بنیاد بنا کر اپوزیشن کی جانب سے حکومت اور حکومتی رہنماوں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کی دھرنا سیاست میں سول نافرمانی، ہنڈی کے ذریعے پیسے بھجوانے کی ترغیب، بجلی،گیس بل پھاڑنے اور ریاستی اداروں پر حملوں کے واقعات میں بھی اسی قسم کی کاروائی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو خط کی صورت میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اور یہ پیشرفت پاکستان و امریکی قیادت کے درمیان ہونیوالی حالیہ لفظی گولہ باری کے بعد سامنے آئی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کا یہ ریکارڈ ہے کہ جو بھی امریکہ کے سامنے کھڑا ہوا ہے امریکہ اس کے سامنے دفاعی پوزیشن میں آجاتا ہے اور تجزیہ کار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس پریم پتر کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اس پریم پتر کی خبر خود وزیراعظم عمران خان نے اپنی گفتگو میں میڈیا کو دی اور بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک خط بھیجا جس میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور امن کے لیے کوششوں پر زور دیا جب کہ خط میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون مانگا گیا اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم نے بھارت کے نفرت پھیلانے کا منصوبہ ناکام بنادیا اور اس نفرت آمیز منصوبے کو روکنے کے لیے ہی کرتار پور کھولا، کرتارپور کھولنے کا مقصد کسی کو دھوکا دینا نہیں تھا جبکہ کرتار پور راہداری گُگلی نہیں ایک سیدھا سادہ فیصلہ ہے ۔ تجزیہ کاروںکا خیال ہے کہ بھارتی انتخابات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی حالات میں سدھار آناشروع ہوگا۔ دوسری جانب قطر نے بھی آئل کی پیداوار کرنے والے پندرہ ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک) سے نکلنے کا اعلان کردیا ہے اور اوپیک تنظیم کی رکنیت سے دستبرداری کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ قطر نیچرل گیس کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے اور قطرآنیوالے دنوں میں نیچرل گیس کی پروڈکشن 77 ملین ٹن سے بڑھا کر 110 ملین ٹن کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس اقدام کے بھی یقینی طور پر عالمی اقتصادی صورتحال پر اثرات مرتب ہوں گے۔
داخلی سطح پر جس تیزی سے اقتصادی، سیاسی و مالی مسائل نے سر اٹھایا ہے اس نے عوامی امیدوں کو گہنا کر رکھ دیا ہے جس تیزی کے ساتھ ڈالر اڑان بھر رہا ہے، ملک کی کیپیٹل مارکیٹ تنزلی کا شکار ہو رہی ہے، مہنگائی کا جن بے قابو ہو رہا ہے جبکہ اقتصادی اعشاریئے مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں تو دوسری جانب عالمی سطح پر رونما ہونیوالے واقعات حالات مزید خرابی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ، ٹیکس ریونیو میں نوے ارب روپے سے زائد کے شارٹ فال، ڈالر کی قدر میں اضافہ،کیپیٹل مارکیٹ میں تنزلی، افراط زر میں اضافہ، بجلی،گیس کی قیمتوں میں اضافہ نے جہاں کاروباری و پیداری لاگت کو بڑھایا ہے وہیں بے یقینی و خوف کی صورتحال نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ معاشی جمود کی وجوہات کو دور کرنا ناگزیر ہے کیونکہ انہیں دور کئے بغیر اقتصادی استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ حکومتی ٹیم کے کپتان عمران خان کچھ کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں لیکن اس کیلئے باتوں کے ساتھ عملی نمونے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے خوف کی فضاء ختم کرنا ہوگی، احتساب کے نام پر خوف پھیلانے والوں کی راہ روکنا ہوگی، اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے کیونکہ تنہاء کپتان کافی نہیں ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیم بھی کارکردگی دکھائے جس کیلئے ضروری ہے کہ ادارے فعال کردار ادا کریں۔
ایف بی آر جیسا اہم ادارہ ریونیو بڑھانے کی بجائے معمول کی گروتھ سے بھی نیچے چلا گیا اور پہلے چار ماہ کے دوران نوے ارب روپے سے زیادہ کا ریونیو شارٹ فال ہو چکا ہے جو کہ حکومتی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اداروں کو غیر جانبدار آزاد و خودمختار کرنے کی بجائے مداخلت کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ پہلے وزارت داخلہ وزیراعظم کے پاس تھی اب ایف بی آر کو بھی اصلاحات کے نام پر وزیراعظم کے ماتحت کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
دوسری طرف حکومتی پارلیمانی کارکردگی پر بھی سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان منی لانڈرنگ کے قوانین کو مزید سخت کرنے کا کہہ چکے ہیں، یہی نہیں حکومت کچھ نئے قوانین لانے اور موجودہ قوانین میں اہم ترامیم کی باتیں کر رہی ہے مگر معاملات بات چیت سے آگے بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے جبکہ ایف اے ٹی ایف کی جائزہ ٹیم حتمی جائزہ کیلئے آئندہ ماہ پاکستان پہنچ رہی ہے جو کہ انتہائی اہم دورہ ہے اس کے ملکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہونا ہیں لیکن ابھی تک معاملات باتوں سے آگے نہیں بڑھ رہے اور قانون سازی کرنا تو دور کی بات ہے وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی سو دن پورے ہوچکے ہیں، لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اب تک نہیں بن پائی ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی اور پارلیمانی قائمہ کمیٹی تشکیل نہیں دی جا سکی یعنی اب تک کوئی قانون سازی بھی نہیں ہو سکی ہے کیونکہ پارلیمانی طرز حکومت میں کسی بھی قائمہ کمیٹی کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے اور پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کا کام وزرا کی کارکردگی کی نگرانی کرنا اور قانون سازی کا جائزہ لینا ہوتا ہے اور قانون کے مطابق حکومت بننے کے بعد سے اب تک کم از کم دو درجن کے قریب پارلیمانی قائمہ کمیٹیاں بنا دی جانی چاہیے تھیں، لیکن اب تک ایک بھی قائمہ کمیٹی نہیں بنائی جا سکی ہے جس کی وجہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا تنازعہ ہے جس کیلئے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں پیر کو اہم اجلاس ہوا ہے جس میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ کے نام پر غور کیا کیا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف بھی اختلافات کا شکار ہوتی نظر آرہی ہے اور وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفیٰ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ڈالر، مہنگائی و معیشت کے بے قابو ہونے سے وزیر خزانہ اسد عمرکے مستعفی ہونے کی خبروں کو تقویت ملی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم آفس نے ان خبروں کی تردید کی ہے مگر ساتھ ہی میڈیا سے گفتگو میں وزیراعظم عمران خان نے آئندہ 10 دنوں میں وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو سکتے ہیں۔ قابل حیرت بات ہے کہ ٹیم کے کپتان بھی ڈالر کی اڑان سے بے خبر تھے اور اس کا اعتراف خود کپتان نے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں کرتے ہوئے کیا، انہیں روپے کی گرتی ہوئی قدر کا میڈیا سے پتہ چلا، پہلے بھی ڈالر کی قیمت میں اچانک اضافہ ہوا تو میڈیا سے پتہ چلا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ منی لانڈرنگ پر سخت قانون لارہے ہیں، بڑے بڑے لوگوں کے نام سامنے آنے سے ڈر رہے ہیں، شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنائیں گے اس سے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ آنیوالے دنوں میں سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی۔ شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں زیرسماعت کیس بھی حتمی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ کے خلاف بھی کیس اہم موڑ پر ہیں جبکہ خود کپتان عمران خان اور ان کی ٹیم کے سینئر کھلاڑی کئی مزید گرفتاریوں کے اشارے دے چکے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حکومتی رٹ چیلنج کرنے والے تحریک لبیک کے رہنماؤں کے خلاف سنگین الزام میں مقدمات درج ہو چکے ہیں جس کو بنیاد بنا کر اپوزیشن کی جانب سے حکومت اور حکومتی رہنماوں کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور تحریک انصاف کی دھرنا سیاست میں سول نافرمانی، ہنڈی کے ذریعے پیسے بھجوانے کی ترغیب، بجلی،گیس بل پھاڑنے اور ریاستی اداروں پر حملوں کے واقعات میں بھی اسی قسم کی کاروائی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو خط کی صورت میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے اور یہ پیشرفت پاکستان و امریکی قیادت کے درمیان ہونیوالی حالیہ لفظی گولہ باری کے بعد سامنے آئی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کا یہ ریکارڈ ہے کہ جو بھی امریکہ کے سامنے کھڑا ہوا ہے امریکہ اس کے سامنے دفاعی پوزیشن میں آجاتا ہے اور تجزیہ کار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس پریم پتر کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اس پریم پتر کی خبر خود وزیراعظم عمران خان نے اپنی گفتگو میں میڈیا کو دی اور بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک خط بھیجا جس میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور امن کے لیے کوششوں پر زور دیا جب کہ خط میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے تعاون مانگا گیا اور امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لیے ہر ممکن کردار ادا کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم نے بھارت کے نفرت پھیلانے کا منصوبہ ناکام بنادیا اور اس نفرت آمیز منصوبے کو روکنے کے لیے ہی کرتار پور کھولا، کرتارپور کھولنے کا مقصد کسی کو دھوکا دینا نہیں تھا جبکہ کرتار پور راہداری گُگلی نہیں ایک سیدھا سادہ فیصلہ ہے ۔ تجزیہ کاروںکا خیال ہے کہ بھارتی انتخابات کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی حالات میں سدھار آناشروع ہوگا۔ دوسری جانب قطر نے بھی آئل کی پیداوار کرنے والے پندرہ ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک) سے نکلنے کا اعلان کردیا ہے اور اوپیک تنظیم کی رکنیت سے دستبرداری کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ قطر نیچرل گیس کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے اور قطرآنیوالے دنوں میں نیچرل گیس کی پروڈکشن 77 ملین ٹن سے بڑھا کر 110 ملین ٹن کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس اقدام کے بھی یقینی طور پر عالمی اقتصادی صورتحال پر اثرات مرتب ہوں گے۔