سیاسی اتحادوں کے مقاصد

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک جتنے سیاسی اور حکومتی اتحاد بنے ان میں سے ایک بھی اتحاد ایسا نظر نہیں آتا جو۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک جتنے سیاسی اور حکومتی اتحاد بنے ان میں سے ایک بھی اتحاد ایسا نظر نہیں آتا جو عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک و قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے تشکیل پایا ہو ہر سیاسی اور حکومتی اتحاد کا عمومی مقصد ذاتی اور جماعتی مفادات رہا ہے۔ ایوب خان کے خلاف اور بھٹو کے خلاف بننے والے اتحاد اتحادوں کی تاریخ میں سب سے مشہور اتحاد رہے ہیں چونکہ یہ اتحاد ایوب خان اور بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے بنائے گئے تھے لہٰذا جیسے ہی ایوب خان اور بھٹوکو اقتدار سے ہٹایا گیا یہ مشہور اتحاد دم توڑ گئے۔

حکومتی اتحادوں کی بھی ہماری سیاسی تاریخ میں بھرمار رہی ہے اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد ہماری حالیہ تاریخ کا معروف اتحاد رہا ہے لیکن اس اتحاد کا مقصد بھی چونکہ ذاتی اور جماعتی مفادات تھے عوامی مفادات کا اس اتحاد میں بھی کوئی پہلو نہ تھا لہٰذا دوگام چلنے کے بعد اس اتحاد کا شیرازہ بھی بکھر گیا۔ صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی اور متحدہ کا حکومتی اتحاد بھی بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے لیکن حکمرانی کے پانچ سالہ دور میں یہ اتحاد بھی بار بار بنتا اور بگڑتا رہا اس کی بڑی وجہ بھی یہی نظر آتی ہے کہ اس اتحاد میں بھی عوام اور صوبے کے بہتر مستقبل کا کوئی پہلو نہ تھا۔

بعض سیاسی اتحادوں کے ٹوٹنے کی ایک وجہ نظریاتی تضادات رہے ہیں مذہبی جماعتوں کی تاریخ میں ایم ایم اے سب سے مشہور اتحاد کی حیثیت رکھتی ہے اس اتحاد ہی کے سلسلے میں ایم ایم اے خیبرپختونخوا میں بلا شرکت غیرے حکومت بنانے میں کامیاب رہی اور بلوچستان میں حکومت کا طاقتور حصہ رہی۔ مذہبی جماعتیں 65 سال سے ملک میں شرعی نظام نافذ کرنے کی دعویدار رہی ہیں اگر وہ چاہتیں تو پختونخوا میں اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں اپنا مبینہ نظام نافذ کرسکتی تھیں لیکن یہ مقدس اتحاد اپنا یہ مقدس فریضہ انجام نہ دے سکا اور آخر کار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر رہ گیا۔ عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ اہل سیاست پر تو مفاد پرستی کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی ناکامی کی وجہ کیا ہے،کیا خیبرپختونخوا کی پانچ سالہ حکومت کے دوران کسی نے اس صوبے میں ایم ایم اے کو اپنا مبینہ نظام نافذ کرنے سے روکا تھا؟

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک اور اتحاد سب سے زیادہ مشہور رہا ہے اور آج تک اس کی شہرت کے ڈنکے بجتے رہتے ہیں اس اتحاد کا نام آئی جے آئی رکھا گیا یعنی اس اتحاد کے ساتھ جس میں مختلف الخیال پارٹیاں شامل تھیں اسلام کا نام استعمال کیا گیا۔ اس اتحاد کی سب سے بڑی خصوصیت یہ رہی کہ خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اس اتحاد کے اتحادیوں میں کروڑوں روپے بانٹے گئے۔ یہ اتحاد جنرل اسلم بیگ کی سرپرستی میں تشکیل دیا گیا۔ اس اتحاد کے کرپٹ پہلو کے خلاف اصغر خان نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا 16 سال تک اصغر خان کیس فیصلے کا منتظر رہا آخرکار اس مشہور زمانہ کیس کا فیصلہ تو ہوگیا لیکن بہت سارے دوسرے فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی عملدرآمد کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اگر اس فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو بہت سارے ''سیاسی شرفاء'' اس کی زد میں آجاتے ہیں اور اس قسم کی گستاخی ہمارے سیاسی کلچر میں رائج نہیں ہے۔

11 مئی کے الیکشن سے پہلے پارٹی بدلیوں چھوٹی پارٹیوں کا بڑی پارٹی میں ضم ہونے اور آزاد امیدواروں کا تھوک کے حساب سے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا ایک سیلاب آگیا تھا۔ کیا کوئی پارٹی بدلی، کسی انضمام، کسی شمولیت، کسی اتحاد میں اس ملک کے 18 کروڑ ننگے بھوکے عوام کے مسائل کے حل کا کوئی پہلو موجود رہا ہے؟ این آر او سے جس ''مفاہمتی سیاست'' کا آغاز ہوا یہ سیاست تو یقینا کامیاب رہی اور اسی سیاست کی وجہ سے پیپلز پارٹی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 5 سالہ حکومت کا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب رہی جس کا ذکر کرتے کرتے ہمارے دانشوروں کی زبان خشک ہوجاتی ہے۔


کیا اس مفاہمتی سیاست بلکہ کامیاب ترین سیاست میں بھوکے ننگے، تعلیم، علاج اور دو وقت کی روٹی سے محتاج عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی پہلو دکھائی دیتا ہے؟ کیا اس مفاہمتی پالیسی کے چرندگان میں عوام کہیں دکھائی دیتے ہیں؟ اس مفاہمتی پالیسی کی برکات سے فائدہ حاصل کرنے والوں میں کوئی مزدور، کوئی کسان، کوئی ایماندار صحافی، کوئی ادیب، کوئی شاعر، کوئی سبزی فروش، کوئی اڈے کا مزدور شامل ہیں؟

ہمارے محترم وزیر اعظم نے عوام کے سامنے مفاہمتی پالیسی کا ایک آئیڈیا ''سب کو ساتھ لے کر چلیں گے'' کے نام سے پیش کیا ہے۔ ہمیں میاں صاحب کے خلوص، ان کی نیک نیتی، عوام سے ان کی محبت پر ہرگز کوئی شک نہیں۔ لیکن بے چارے اہل خرد فطری طور پر یہ سوال کرنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں کہ میاں صاحب کے ''سب'' میں کیا اس ملک کی مزدور قیادت، اس ملک کی کسان قیادت، اس ملک کے ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور پیشہ ورانہ تنظیموں کے نمایندے شامل ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو پھر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی پر تبرا بھیجنے کا کوئی جواز باقی رہ جاتا ہے؟

کیا میاں صاحب اس قدر سادہ لوح ہیں کہ پارٹی بدلنے والوں، اپنی پارٹیوں کو ضم کرنے والوں، آزاد امیدواروں کے مقاصدو اہداف کو نہیں سمجھ سکتے؟ ان سارے سوالوں کا جواب میاں صاحب سوال کرنے والے گستاخوں کے منہ پر یوں مارسکتے ہیں کہ میاں سوال پر سوال کیے جارہے ہو، میرے ایک سوال کا جواب دو کہ کیا ''ان سب'' کو عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب نہیں کیا؟ سوال کرنیو الوں کے منہ پر یہ جواب بلاشبہ ایک ضرب کاری ہے لیکن سوال کرنے والا یا والے یہ ایک اور سوال کرسکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر، وزراء عوام کے منتخب نمایندے نہیں تھے؟ اگر تھے تو انھیں علی بابا چالیس چور اور پی پی کی حکومت کو پاکستان کی تاریخ کی ''کرپٹ ترین حکومت'' کا خطاب دینے کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ 65 سال سے جو سیاسی ڈرامے پاکستان میں کھیلے جارہے ہیں ان کے تمام کردار اسی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور نہ صرف ان کے مرنے تک سونے کے یہ چمچے ان کے منہ میں رہتے ہیں بلکہ یہ چمچے اپنی آنے والی نسلوں کے منہ میں تھماکر جاتے ہیں۔ میاں صاحب! بلاشبہ آج آپ کو ملک کی صنعتی ایمپائر کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے لیکن ایلیٹ کے مقابلے میں آپ کو یہ امتیاز بھی دیا جاتا ہے کہ آپ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی ہیں جسے محنت کشوں کا گھرانہ کہا جاتا ہے کیا اس اعزاز کی لاج رکھنا آپ کی ذمے داری نہیں؟

سب کو ساتھ لے کر چلنا بھی ایک سیاسی اتحاد ہی ہے ہم نے پاکستان کی تاریخ کے سیاسی اور حکومتی اتحادوں کے مقاصد کا ذکر کردیا ہے۔ سیاسی یا حکومتی اتحاد ہوں، مفاہتمی پالیسی یا سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش، اگر اس خواہش کو بامعنی بامقصد بنانا ہوتو پھر اسے عوام کے مسائل کے حل اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی بنیادوں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ اس ایجنڈے کے ساتھ اگر کوئی اتحاد بنے، کوئی مفاہمتی پالیسی بنے یا پارٹی بدلی ہو تو بلاشبہ ایسے اتحاد خواہ وہ سیاسی ہوں یا حکومتی کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں اور عوام بھی ایسے اتحادوں ایسی مفاہمتوں اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش کے پیچھے کھڑے نظر آئیں گے،

اگر ان سارے تماشوں کا مقصد لوٹ مار ہو تو پھر ایسی تمام خواہشوں کا انجام پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ عوام نے اپنی ناراضگی کا اظہار 11 مئی کو کیا ہے لیکن یہ ناراضگی یہ شعور ابھی ناپختہ ہے اس سے پہلے کہ عوامی شعور پختہ ہوجائے یہ 65 سالہ تماشے ختم ہونے چاہئیں ورنہ ناراض عوام کی حالیہ تاریخ مشرق وسطیٰ کی شکل میں ہمارے سامنے کھڑے ہے اب مشرق وسطیٰ کے ناراض عوام اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ رہے ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ وہ دوبارہ ایسی غلطیاں نہیں کریں گے اور یہی امید پاکستان کے 18 کروڑ عوام سے کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی دوبارہ وہ غلطیاں نہیں کریں گے جو 25 سال سے کرتے آرہے ہیں۔
Load Next Story