جھگڑا کیا ہے
گھریلو جھگڑے کئی قسم کے ہوتے ہیں، مثلاً میاں بیوی کا جھگڑا، باپ بیٹے کا جھگڑا، بہن بھائی کا جھگڑا، بہنوں...
گھریلو جھگڑے کئی قسم کے ہوتے ہیں، مثلاً میاں بیوی کا جھگڑا، باپ بیٹے کا جھگڑا، بہن بھائی کا جھگڑا، بہنوں کا آپس میں جھگڑا، ساس بہو کا جھگڑا، نند بھاوج کا جھگڑا، جیھٹانی دیورانی کا جھگڑا، دیور بھابھی کا جھگڑا، دیورانی جیٹ کا جھگڑا، باپ بیٹی کا جھگڑا۔ اگر ہم بات کریں میاں بیوی کے جھگڑے کی تو ان کے درمیان زیادہ تر جھگڑے کسی ڈیمانڈ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ مثلاً بیوی کہتی ہے ''مجھے الگ رہنا ہے، میں اپنا کھانا الگ پکاؤں گی، میری آپ کی فیملی کے ساتھ بنتی نہیں وغیرہ وغیرہ''
یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس کی اپنی سوچ اور کچھ خواب ہوتے ہیں جس کی تکمیل کے لیے وہ کوششیں کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس کے گھر والے اس کو اپنی باتوں کے ذریعے اس قدر مرعوب کرتے ہیں کہ وہ لڑکی جو سنہرے خواب دیکھ کر آتی ہے اس کا جینا دو بھر کردیتی ہے۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے تو ایسے خالہ خیرن (کان بھرنے والی خاتون) جیسے لوگوں سے چھٹکارا پانا پڑے گا جو لگائی بجھائی میں لگی رہتی ہیں، تب جاکر گھر آباد ہوگا۔
باپ بیٹے کا جھگڑا زیادہ تر عارضی ہوتا ہے اور اس میں بھی کسی نہ کسی عورت کا کردار قابل غور ہوتا ہے۔ لیکن اکثر یہ جھگڑے بہت آگے نکل جاتے ہیں اور مجبوراً باپ اپنے بیٹے کو جائیداد سے ''عاق'' کردیتاہے اور بیٹا ہمیشہ ندامت کے آنسو روتارہتاہے۔
بہن بھائی کا جھگڑا، میرے دوستو! یہ رشتہ ایسا ہے کہ جتنا آپس میں لڑتے ہیں اتنا ہی پیار بڑھتاہے (اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس لڑائی کو فروغ دیاجائے) یہ لڑائی عارضی ہوتی ہے، وقت جب دونوں میں سے کسی کا بھی پڑتا ہے تو یہ دونوں ہی کبھی منع نہیں کرتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ زیادہ تر بہنیں پیش قدمی کرتی ہوئی یہ کام سرانجام دیتی ہیں۔
بھائی بھائی کا جھگڑا، یہ جھگڑا ہمیشہ دونوں بھائیوں کی شادی کے بعد ہی ہوتا نظر آئے گا۔ زیادہ تر ایسے جھگڑے کی پیٹھ پیچھے بھی اکثر عورت کا کردار ہوتاہے اور اگر بھائی آپس میں اتفاق کرلیں کہ ہمیں کسی قیمت پر نہیں الجھنا تو عورت پریشان رہتی ہے اور تعویذ گنڈے کی طرف راغب ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی بات منوانی ہوتی ہے۔ بہنوں کا آپس میں جھگڑا، یہ جھگڑا زیادہ تر ان گھروں میں نظر آئے گا جہاں بیٹیوں کے رشتے نہیں آرہے ہوتے اور ایسی لڑکیاں عمر کے بڑھتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ چڑچڑی اور بد زبان ہوتی جاتی ہیں اور فوبیا جیسی بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں۔ چاہے وہ صحت اور صفائی کی بات ہو، چاہے وہ شادی بیاہ یا گھر کے روز مرہ کاموں کی بات ہو، ہر ایک نے اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا ہوتاہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کو کوسنا اور گالی گلوچ تک نوبت آجاتی ہے۔ ہر گھر اس مسئلہ سے محفوظ رہے، بہت کڑا امتحان ہوتاہے، ماں باپ کا اگر ایسا ہو۔
ساس بہو کا جھگڑا، نند بھاوج، جیٹھانی دیورانی، دیور بھابھی، جیٹ دیورانی کا جھگڑا یہ تو ایسے جھگڑے ہیں اگر پڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ایسے لوگ سراسر بے وقوف ہیں اور اپنی زندگی کے مزے ضایع کررہے ہیں۔ یہ وہ رشتے ہیں کہ اگر ان میں آپس میں اتفاق ہو تو نئی نسل ایسی پروان چڑھے کہ لوگ مثال دیں۔
باپ بیٹی کا جھگڑا، یہ جھگڑا بہت ہی کم دیکھنے کو ملتاہے۔ اکثر جگہوں پر نظر آئے گا جہاں ماں باپ کی عزت نہیں کی جاتی ہوگی۔ ویسے آج کل تو لوگ عزت کے لفظ ہی بھول گئے ہیں۔ لہٰذا میرے دوستو! اپنے گھروں پر توجہ دو اور نئی آنے والی نسل کو ایسا ماحول فراہم کرو کہ وہ ایک اچھے انسان بن کر آپ سب کا نام روشن کرسکیں۔ کیا خیال ہے مذکورہ بالا جھگڑوں کے علاوہ بھی کوئی آفت ہوتی ہوگی گھروں میں؟
دعا ہے ہم سب کے تمام مسئلے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پا جائیں اور آپس میں محبت قائم رہے اور خاندان خوشحال رہے اور جن بیٹے، بیٹیوں کے رشتے کے لیے ان کے ماں باپ پریشان ہیں ان کی یہ مشکل آسان ہوجائے۔
خیال رہے کہ گھریلو جھگڑوں کے اثرات کمسن بچے خاموشی سے جذب کرتے ہیں۔ اگرچہ جھگڑے کمسن بچوں کی سمجھ میں نہیں آتے لیکن اس سے ان کی شخصیت پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ عمر بھر ان سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ لڑائی جھگڑے گھریلو چپقلش، نا اتفاقیاں، بچوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑدیتی ہیں۔ جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے درمیان کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں ہوا۔ اگر بچوں کے سامنے یا انھیں بٹھاکر گھریلو اختلافی مسئلے پر بحث اچھی طرح کی جائے تو بچے یہ سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ گھریلو تنازعہ کو کیسے اور کس طرح حل کیاجاتاہے۔
ماہرین نفسیات کا کہناہے کہ در اصل بچہ کم عمری میں گھریلو ماحول سے یہ سیکھ لیتاہے کہ اختلافی معاملات کو کس طرح سلجھایاجاسکتاہے۔ اگر بچوں کے سامنے تشدد، گالی گلوچ، چیخ وپکار، گھر کی اشیاء کو پھینکاجائے اس طرح بچہ اپنے گھریلو ماحول سے یہ سیکھ لیتاہے کہ اپنے مطالبات کے لیے چیزوں کو پھینکے یا چیخ وپکار کرکے منواسکتے ہیں۔ اس عادت کا اثر نہ صرف اس کی سماجی زندگی بلکہ شادی کے بعد بھی خانگی زندگی پر بھی پڑتاہے۔ ماہرین نفسیات کا کہناہے کہ گھریلو اختلافات کو بچوں کے سامنے مثبت انداز سے حل کرنا در اصل بچوں کی بہترین تربیت ہوتی ہے۔ ان ماہرین کا کہناہے کہ خوش گوار زندگی گزارنے والے افراد کے بچوں کی زندگیاں بھی خوشگوار گزرتی ہیں۔ کوشش کی جائے کہ زندگی بہتر طریقے سے گزاری جائے تاکہ بچوں کے ذہنوں میں منفی اثرات مرتب نہ ہوسکیں۔ بلاشبہ بچوں کی پہلی تربیت گاہ اس کا گھر اور گھریلو ماحول ہوتاہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کی بہتر تربیت کے لیے اپنے گھر اور گھریلو ماحول کو مثبت رکھیں۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس کی اپنی سوچ اور کچھ خواب ہوتے ہیں جس کی تکمیل کے لیے وہ کوششیں کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس کے گھر والے اس کو اپنی باتوں کے ذریعے اس قدر مرعوب کرتے ہیں کہ وہ لڑکی جو سنہرے خواب دیکھ کر آتی ہے اس کا جینا دو بھر کردیتی ہے۔ اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے سب سے پہلے تو ایسے خالہ خیرن (کان بھرنے والی خاتون) جیسے لوگوں سے چھٹکارا پانا پڑے گا جو لگائی بجھائی میں لگی رہتی ہیں، تب جاکر گھر آباد ہوگا۔
باپ بیٹے کا جھگڑا زیادہ تر عارضی ہوتا ہے اور اس میں بھی کسی نہ کسی عورت کا کردار قابل غور ہوتا ہے۔ لیکن اکثر یہ جھگڑے بہت آگے نکل جاتے ہیں اور مجبوراً باپ اپنے بیٹے کو جائیداد سے ''عاق'' کردیتاہے اور بیٹا ہمیشہ ندامت کے آنسو روتارہتاہے۔
بہن بھائی کا جھگڑا، میرے دوستو! یہ رشتہ ایسا ہے کہ جتنا آپس میں لڑتے ہیں اتنا ہی پیار بڑھتاہے (اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس لڑائی کو فروغ دیاجائے) یہ لڑائی عارضی ہوتی ہے، وقت جب دونوں میں سے کسی کا بھی پڑتا ہے تو یہ دونوں ہی کبھی منع نہیں کرتے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔ زیادہ تر بہنیں پیش قدمی کرتی ہوئی یہ کام سرانجام دیتی ہیں۔
بھائی بھائی کا جھگڑا، یہ جھگڑا ہمیشہ دونوں بھائیوں کی شادی کے بعد ہی ہوتا نظر آئے گا۔ زیادہ تر ایسے جھگڑے کی پیٹھ پیچھے بھی اکثر عورت کا کردار ہوتاہے اور اگر بھائی آپس میں اتفاق کرلیں کہ ہمیں کسی قیمت پر نہیں الجھنا تو عورت پریشان رہتی ہے اور تعویذ گنڈے کی طرف راغب ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی بات منوانی ہوتی ہے۔ بہنوں کا آپس میں جھگڑا، یہ جھگڑا زیادہ تر ان گھروں میں نظر آئے گا جہاں بیٹیوں کے رشتے نہیں آرہے ہوتے اور ایسی لڑکیاں عمر کے بڑھتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ چڑچڑی اور بد زبان ہوتی جاتی ہیں اور فوبیا جیسی بیماری کا شکار ہوجاتی ہیں۔ چاہے وہ صحت اور صفائی کی بات ہو، چاہے وہ شادی بیاہ یا گھر کے روز مرہ کاموں کی بات ہو، ہر ایک نے اپنے آپ کو برتر ثابت کرنا ہوتاہے۔ بعض اوقات ایک دوسرے کو کوسنا اور گالی گلوچ تک نوبت آجاتی ہے۔ ہر گھر اس مسئلہ سے محفوظ رہے، بہت کڑا امتحان ہوتاہے، ماں باپ کا اگر ایسا ہو۔
ساس بہو کا جھگڑا، نند بھاوج، جیٹھانی دیورانی، دیور بھابھی، جیٹ دیورانی کا جھگڑا یہ تو ایسے جھگڑے ہیں اگر پڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ایسے لوگ سراسر بے وقوف ہیں اور اپنی زندگی کے مزے ضایع کررہے ہیں۔ یہ وہ رشتے ہیں کہ اگر ان میں آپس میں اتفاق ہو تو نئی نسل ایسی پروان چڑھے کہ لوگ مثال دیں۔
باپ بیٹی کا جھگڑا، یہ جھگڑا بہت ہی کم دیکھنے کو ملتاہے۔ اکثر جگہوں پر نظر آئے گا جہاں ماں باپ کی عزت نہیں کی جاتی ہوگی۔ ویسے آج کل تو لوگ عزت کے لفظ ہی بھول گئے ہیں۔ لہٰذا میرے دوستو! اپنے گھروں پر توجہ دو اور نئی آنے والی نسل کو ایسا ماحول فراہم کرو کہ وہ ایک اچھے انسان بن کر آپ سب کا نام روشن کرسکیں۔ کیا خیال ہے مذکورہ بالا جھگڑوں کے علاوہ بھی کوئی آفت ہوتی ہوگی گھروں میں؟
دعا ہے ہم سب کے تمام مسئلے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پا جائیں اور آپس میں محبت قائم رہے اور خاندان خوشحال رہے اور جن بیٹے، بیٹیوں کے رشتے کے لیے ان کے ماں باپ پریشان ہیں ان کی یہ مشکل آسان ہوجائے۔
خیال رہے کہ گھریلو جھگڑوں کے اثرات کمسن بچے خاموشی سے جذب کرتے ہیں۔ اگرچہ جھگڑے کمسن بچوں کی سمجھ میں نہیں آتے لیکن اس سے ان کی شخصیت پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ عمر بھر ان سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ لڑائی جھگڑے گھریلو چپقلش، نا اتفاقیاں، بچوں کے ذہنوں پر انمٹ نقوش چھوڑدیتی ہیں۔ جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے درمیان کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں ہوا۔ اگر بچوں کے سامنے یا انھیں بٹھاکر گھریلو اختلافی مسئلے پر بحث اچھی طرح کی جائے تو بچے یہ سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ گھریلو تنازعہ کو کیسے اور کس طرح حل کیاجاتاہے۔
ماہرین نفسیات کا کہناہے کہ در اصل بچہ کم عمری میں گھریلو ماحول سے یہ سیکھ لیتاہے کہ اختلافی معاملات کو کس طرح سلجھایاجاسکتاہے۔ اگر بچوں کے سامنے تشدد، گالی گلوچ، چیخ وپکار، گھر کی اشیاء کو پھینکاجائے اس طرح بچہ اپنے گھریلو ماحول سے یہ سیکھ لیتاہے کہ اپنے مطالبات کے لیے چیزوں کو پھینکے یا چیخ وپکار کرکے منواسکتے ہیں۔ اس عادت کا اثر نہ صرف اس کی سماجی زندگی بلکہ شادی کے بعد بھی خانگی زندگی پر بھی پڑتاہے۔ ماہرین نفسیات کا کہناہے کہ گھریلو اختلافات کو بچوں کے سامنے مثبت انداز سے حل کرنا در اصل بچوں کی بہترین تربیت ہوتی ہے۔ ان ماہرین کا کہناہے کہ خوش گوار زندگی گزارنے والے افراد کے بچوں کی زندگیاں بھی خوشگوار گزرتی ہیں۔ کوشش کی جائے کہ زندگی بہتر طریقے سے گزاری جائے تاکہ بچوں کے ذہنوں میں منفی اثرات مرتب نہ ہوسکیں۔ بلاشبہ بچوں کی پہلی تربیت گاہ اس کا گھر اور گھریلو ماحول ہوتاہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بچوں کی بہتر تربیت کے لیے اپنے گھر اور گھریلو ماحول کو مثبت رکھیں۔