اسی نوے پورے سو بلکہ 200
ہم بھی پڑھ رہے ہیں اورآپ بھی سن اور پڑھ رہے ہوں گے کہ ہر طرف ’’ سو سو ‘‘ کا سو سو ہو رہا ہے۔
ISTANBUL:
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہم کچھ زیادہ تو کیا کچھ کم بھی نہیں جانتے، سقراط نے کم از کم یہ تو جان لیا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور ہم یہ بھی نہیں جانتے بلکہ دوسرے لوگ بتا دیتے ہیں کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
اب ظاہر ہے کہ جو لوگ جانتے ہیں اور پاکستان میں تو لوگ اور بھی زیادہ جانکار، دانا، دانشور اور دانا بینا بلکہ دور اندیش ،خیر اندیش اوراندیشۂ اندیش ہیں اس لیے اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اپنی بات کو شروع کیسے کریں اسے گھمائیں پھرائیں کیسے اورپھر اسے اپنے کیفر کردار تک کیسے پہنچائیں کیونکہ آج جس بات کاہمیں سامنا ہے اس میں کچھ ہندسوں اوراعداد و شمار کا ہیر پھیر بھی ہے اور اگر اعداد و شمار کے ماہر ہوتے یا '' ہندسوں '' کے ماہر ہوتے تو کالم گھسیٹی میں جھک کیوں مارتے ، کہیں وزیر کبیر سفیر نہ سہی مشیر وغیرہ تو ہوتے جن کی تنخواہیں سنا ہے ایک مرتبہ پھر دو سو فیصد بڑھا دی گئیں کہ نئے پاکستان کی تعمیر کا کام تیزی سے چل رہا ہے اور وہ لوگ شاید ڈبل ڈبل شفٹ لگا رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو پرانے حساب کے مطابق (100) سو سمجھتے ہیں اس لیے سو (100)والے محاورے بھی پرانے طریقے پر سمجھیں گے لیکن اخبارات وغیرہ سے کچھ یوں لگتا ہے کہ یہ جو (100)ہے یہ نہ جانے کیا ہے مگر سو (100) تو بالکل نہیں ہے ۔
ہم بھی پڑھ رہے ہیں اورآپ بھی سن اور پڑھ رہے ہوں گے کہ ہر طرف '' سو سو '' کا سو سو ہو رہا ہے اوربعض لوگ لاعلمی میں سو سو پر پیش بھی ڈال دیتے ہیں حالانکہ پرانے زمانے میں ہم سنتے تھے کہ جب جب جو جو ہوتا تھا وہ سب سب سو سو ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ سو سو (100) تو ہو رہا ہے لیکن '' جو جو '' کر دیا ہوا ہے ۔
اوپر سے جب '' نیا نو دن اور پرانا سو دن '' کا محاورہ یاد آتا ہے تو اور بھی کنفیوز ہوجاتے ہیں '' کیونکہ '' '' پرانا '' تو '' سو دن '' چلا تھا یاچلتا تھا ۔ لیکن یہاں تو '' نیا ''ہے اور نئے کے ساتھ سو دن کا جوڑ بالکل نہیں بنتا۔
اس مسئلے کا حل تو ہمارے ایک دانا دانشور کالم نگار دوست نے بتا دیا ہے کہ اصل میں یہ (100)دن لکھے اور کہے گئے یا ہو سکتا ہے کہ آج کل موسم کے مطابق '' دن '' بہت چھوٹے بھی ہو گئے ہیں ۔ اس لیے حساب دانوں نے نوے دن کر لیا ہو ۔ گویا چونکہ اب سب کچھ نیا نویلا ہو رہا ہے اس لیے کہاوت کو بھی ری کنڈیشن کرکے نیا نوے دن اورپرانا سو دن کرنا پڑے گا ۔ لیکن مسئلہ پر نالہ پھر بھی اپنی جگہ ہی نصب ہے کہ دوسری طرف سے ایک اور '' سو'' بھی سو سو ہو رہا ہے وہی سنار کے سو اور لوہار کا ایک ۔ اور جب روپیہ پر '' ڈالر '' کا ایک دیکھتے ہیں تو لوہار اور سنار دونوں غائب ہو جاتے ہیں ۔
اس ظالم لوہار ڈالر نے ہمارے دھان پان روپے کو ایسی ضرب لگائی کہ بیچارے کا وہ سارا کھایا پیا ناک کے راستے گیا جو اس نے بڑے جتن کرکے اور بہت سارے چرخے جلا کر '' چین و عرب '' میں کیا تھا ۔
ویسے یہاں پر کئی کہانیاں دم ہلانے لگی ہیں لیکن ان سے پہلے یہ بات خاصی فکر مندی کی ہے کہ ہمیں تو باور کرایا گیا تھا کہ لوہار سے اس کا ہتھوڑا ایک دوسرے ہتھوڑے نے چھین لیا اور اب لوہار کے ظالم ہتھوڑے کی جگہ لکڑی کا نرم ہتھوڑا چلے گا جو سنار کے ہتھوڑے سے بھی نرم ضرب لگاتا ہے ۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ قسمت میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ مل کر ہی رہتا ہے ہمیں کیا معلوم تھا کہ لوہے کے ہتھوڑے کو دور پرے کرکے آرام آرام سے کرکٹ کھیلیں گے اور سو سو کی سنچریاں بناتے رہیں گے لیکن اس کم بخت ڈالر لوہار کے ہتھوڑے سے بھی زیادہ بھاری ضرب لگا کر ہمارے بیچارے روپے کا بھر کس ہی نکال ڈالا ۔ اتنی بے عزتی تو اس کی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سنا ہے فقیر اوربچے بھی اس کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے اگر راستے میں کہیں '' پڑا '' ہوا مل جائے،یہ ہم نے محض فرض کرلیا ورنہ وہ بیچارا تو مکمل طور پر شہروں بازاروں دکانوں اور بچوں بھکاریوں سے بھی منہ چھپا کر کہیں فرار ہو چکا ہے کسی ایسی جگہ جہاں سے کسی اور کو تو کیا اس کو بھی اپنی خبر نہیں آتی ۔ اس وقت کم سے کم نو (9)اور زیادہ سے زیادہ سو (100)کہانیاں ہمارے سامنے اپنی دمیں ہلا رہی ہیں بعض کی دمیں بھی نو نو ہیں یعنی میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں ۔ لیکن ذرا ٹھہرو سجن مجبوریاں ہیں ۔
یہ جو سو دن گذر گئے اس میں سنا ہے کہ بہت بڑے بڑے کارنامے ہو گئے ہیں اور اس کی تفصیل ہم اپنے ایک دوست کے حوالے سے سنائیں ۔ بلکہ دو دوست تھے آپس میں نہایت بے تکلف تھے ایک بہت ہی چھوٹا منخی اور دبلا پتلا تھا جب کہ دوسرا ساڑھے چھ فٹ اور چار فٹ چوڑائی والا دیوقامت ہیں۔ ایک دن دونوں میں بحث ہوئی تو گرانڈیل نے دوسرے کے بارے میں کہا کہ اسے تو ماں نے '' جنا '' نہیں ہے بلکہ ایک جب اس نے تھوکا تو تھوک میں کلبلا رہا تھا ۔
اب جوابی طور پر دوسرا کیوں پیچھے رہتا ، بولا اور اس کی پیدائش پورے سات دن میں مکمل ہوئی پھر وہ فی البدیہ ان تبدیلیوں کا ذکر کرنے لگا کہ پہلے دن سخت آندھی آئی دوسرے دن اولے پڑے تیسرے دن سارے مرغوں نے انڈے اور مرغیوں نے بانگیں دیں تیسرے دن سارے مویشی رسے تڑا کر کہیں بھاگ گئے چوتھے دن سارے کتے ایک ساتھ بھونکنے لگے پانچویں دن کے لیے بھی اس نے کوئی انہونی ماردی لیکن چھٹے اور ساتویں دن کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ بچا جلدی سے چھٹے دن آسمان سرخ ہو گیا اور ساتویں دن ۔ ساتویں دن ۔ ساتویں دن شاہ فیصل نے داڑھی رکھ لی حالانکہ جس کی پیدائش کا ذکر ہو رہا تھا وہ شاہ فیصل سے اگر زیادہ نہیں تو کم عمر کا بھی نہ تھا ۔
ہم بھی اگر نئے پاکستان کی ڈلیوری کا حساب (100 )دنوں پر تقسیم کریں گے تو یقیناً مسٔلہ پیدا ہوگا ۔ کیونکہ ایک ایک دن میں اتنی تبدیلیاں آرہی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کونسی تبدیلی کس دن کس نمبر پر آئی ۔
البتہ دو تبدیلیاں ہمیں یاد رہ گئی ہیں لیکن ان کی پیدائش کا دن یاد نہیں وہ آپ ایڈجسٹ کریں ایک تبدیلی تو اس کم بخت لوہار پیشہ لوہار زادہ اور لوہار پتر ڈالر کا ضرب ہے جو اس نے ہمارے پہلے ہی سے نحیف و نزار روپے کے سر پر دے ماری ہے اور بچارا روپیہ کھل کر رو بھی نہیں سکا بس ہونٹوں ہی ہونٹوں میں پھس پھسا کر رہ گیا ہے
نحیف و زار ہیں کیا زور باغباں پہ چلے
جہاں اٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح
آخری اطلاعات کے مطابق اسے خون کی شدید ضرورت ہے لیکن عرب و چین سے خون کے آتے آتے ۔
تاتریاق از عراق آوردہ شود
مارگزیدہ مردہ شود
لیکن بہر حال ان سو دنوں میں ۔ باقی تو سارے سنار کے کہے جاسکتے ہیں لیکن ایک اور بھی '' لوہار کی '' ۔ یایوں کہیے کہ ساتویں دن شاہ فیصل نے داڑھی رکھی اور یہ لوہار کی یوں ہے کہ خیبر پختون خوا میں صوبائی وزرا کی تنخواہوں میں 200فیصد کا اضافہ ۔ سو دن میں دو سو فیصد اضافہ بہت اچھا اسکور ہے ۔گویا ایک گیند پر دو رنز کا اسکور، ساتھ ہی ایم این اے ایز، ایم پی ایز، مشیروں معاونوں اور معاونوں کے '' تعاون '' کی مراعات بھی اسی حساب سے بڑھیں گی، وزراء کو اب 5لاکھ ماہانہ کے بجائے 15لاکھ ماہانہ ملیں گے۔
ظاہر ہے کہ ساتھ ہی ساتھ جو دوسرے '' باغ '' ہیں یا بڑا باغ تو وہاں کے '' خربوزے '' بھی یہی رنگ پکڑیں گے ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100دن میں200فیصد کا اضافہ۔ اس پر اگر کوئی شاباش نہیں کہے گا تو وہ یقیناً نئے پاکستان ملک و قوم اور دین و ملت بلکہ انصاف و قانون کا بھی دشمن اور منفی تنقیدیا ہوگا ۔ اکڑم بکڑم بمبے بو ۔ اسی نوے پورے سو بلکہ دوسو ۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ہم کچھ زیادہ تو کیا کچھ کم بھی نہیں جانتے، سقراط نے کم از کم یہ تو جان لیا تھا کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور ہم یہ بھی نہیں جانتے بلکہ دوسرے لوگ بتا دیتے ہیں کہ تم کچھ بھی نہیں جانتے۔
اب ظاہر ہے کہ جو لوگ جانتے ہیں اور پاکستان میں تو لوگ اور بھی زیادہ جانکار، دانا، دانشور اور دانا بینا بلکہ دور اندیش ،خیر اندیش اوراندیشۂ اندیش ہیں اس لیے اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اپنی بات کو شروع کیسے کریں اسے گھمائیں پھرائیں کیسے اورپھر اسے اپنے کیفر کردار تک کیسے پہنچائیں کیونکہ آج جس بات کاہمیں سامنا ہے اس میں کچھ ہندسوں اوراعداد و شمار کا ہیر پھیر بھی ہے اور اگر اعداد و شمار کے ماہر ہوتے یا '' ہندسوں '' کے ماہر ہوتے تو کالم گھسیٹی میں جھک کیوں مارتے ، کہیں وزیر کبیر سفیر نہ سہی مشیر وغیرہ تو ہوتے جن کی تنخواہیں سنا ہے ایک مرتبہ پھر دو سو فیصد بڑھا دی گئیں کہ نئے پاکستان کی تعمیر کا کام تیزی سے چل رہا ہے اور وہ لوگ شاید ڈبل ڈبل شفٹ لگا رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو پرانے حساب کے مطابق (100) سو سمجھتے ہیں اس لیے سو (100)والے محاورے بھی پرانے طریقے پر سمجھیں گے لیکن اخبارات وغیرہ سے کچھ یوں لگتا ہے کہ یہ جو (100)ہے یہ نہ جانے کیا ہے مگر سو (100) تو بالکل نہیں ہے ۔
ہم بھی پڑھ رہے ہیں اورآپ بھی سن اور پڑھ رہے ہوں گے کہ ہر طرف '' سو سو '' کا سو سو ہو رہا ہے اوربعض لوگ لاعلمی میں سو سو پر پیش بھی ڈال دیتے ہیں حالانکہ پرانے زمانے میں ہم سنتے تھے کہ جب جب جو جو ہوتا تھا وہ سب سب سو سو ہوتا ہے لیکن اس مرتبہ سو سو (100) تو ہو رہا ہے لیکن '' جو جو '' کر دیا ہوا ہے ۔
اوپر سے جب '' نیا نو دن اور پرانا سو دن '' کا محاورہ یاد آتا ہے تو اور بھی کنفیوز ہوجاتے ہیں '' کیونکہ '' '' پرانا '' تو '' سو دن '' چلا تھا یاچلتا تھا ۔ لیکن یہاں تو '' نیا ''ہے اور نئے کے ساتھ سو دن کا جوڑ بالکل نہیں بنتا۔
اس مسئلے کا حل تو ہمارے ایک دانا دانشور کالم نگار دوست نے بتا دیا ہے کہ اصل میں یہ (100)دن لکھے اور کہے گئے یا ہو سکتا ہے کہ آج کل موسم کے مطابق '' دن '' بہت چھوٹے بھی ہو گئے ہیں ۔ اس لیے حساب دانوں نے نوے دن کر لیا ہو ۔ گویا چونکہ اب سب کچھ نیا نویلا ہو رہا ہے اس لیے کہاوت کو بھی ری کنڈیشن کرکے نیا نوے دن اورپرانا سو دن کرنا پڑے گا ۔ لیکن مسئلہ پر نالہ پھر بھی اپنی جگہ ہی نصب ہے کہ دوسری طرف سے ایک اور '' سو'' بھی سو سو ہو رہا ہے وہی سنار کے سو اور لوہار کا ایک ۔ اور جب روپیہ پر '' ڈالر '' کا ایک دیکھتے ہیں تو لوہار اور سنار دونوں غائب ہو جاتے ہیں ۔
اس ظالم لوہار ڈالر نے ہمارے دھان پان روپے کو ایسی ضرب لگائی کہ بیچارے کا وہ سارا کھایا پیا ناک کے راستے گیا جو اس نے بڑے جتن کرکے اور بہت سارے چرخے جلا کر '' چین و عرب '' میں کیا تھا ۔
ویسے یہاں پر کئی کہانیاں دم ہلانے لگی ہیں لیکن ان سے پہلے یہ بات خاصی فکر مندی کی ہے کہ ہمیں تو باور کرایا گیا تھا کہ لوہار سے اس کا ہتھوڑا ایک دوسرے ہتھوڑے نے چھین لیا اور اب لوہار کے ظالم ہتھوڑے کی جگہ لکڑی کا نرم ہتھوڑا چلے گا جو سنار کے ہتھوڑے سے بھی نرم ضرب لگاتا ہے ۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ قسمت میں جو کچھ لکھا ہوتا ہے وہ مل کر ہی رہتا ہے ہمیں کیا معلوم تھا کہ لوہے کے ہتھوڑے کو دور پرے کرکے آرام آرام سے کرکٹ کھیلیں گے اور سو سو کی سنچریاں بناتے رہیں گے لیکن اس کم بخت ڈالر لوہار کے ہتھوڑے سے بھی زیادہ بھاری ضرب لگا کر ہمارے بیچارے روپے کا بھر کس ہی نکال ڈالا ۔ اتنی بے عزتی تو اس کی زندگی میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔ سنا ہے فقیر اوربچے بھی اس کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے اگر راستے میں کہیں '' پڑا '' ہوا مل جائے،یہ ہم نے محض فرض کرلیا ورنہ وہ بیچارا تو مکمل طور پر شہروں بازاروں دکانوں اور بچوں بھکاریوں سے بھی منہ چھپا کر کہیں فرار ہو چکا ہے کسی ایسی جگہ جہاں سے کسی اور کو تو کیا اس کو بھی اپنی خبر نہیں آتی ۔ اس وقت کم سے کم نو (9)اور زیادہ سے زیادہ سو (100)کہانیاں ہمارے سامنے اپنی دمیں ہلا رہی ہیں بعض کی دمیں بھی نو نو ہیں یعنی میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں ۔ لیکن ذرا ٹھہرو سجن مجبوریاں ہیں ۔
یہ جو سو دن گذر گئے اس میں سنا ہے کہ بہت بڑے بڑے کارنامے ہو گئے ہیں اور اس کی تفصیل ہم اپنے ایک دوست کے حوالے سے سنائیں ۔ بلکہ دو دوست تھے آپس میں نہایت بے تکلف تھے ایک بہت ہی چھوٹا منخی اور دبلا پتلا تھا جب کہ دوسرا ساڑھے چھ فٹ اور چار فٹ چوڑائی والا دیوقامت ہیں۔ ایک دن دونوں میں بحث ہوئی تو گرانڈیل نے دوسرے کے بارے میں کہا کہ اسے تو ماں نے '' جنا '' نہیں ہے بلکہ ایک جب اس نے تھوکا تو تھوک میں کلبلا رہا تھا ۔
اب جوابی طور پر دوسرا کیوں پیچھے رہتا ، بولا اور اس کی پیدائش پورے سات دن میں مکمل ہوئی پھر وہ فی البدیہ ان تبدیلیوں کا ذکر کرنے لگا کہ پہلے دن سخت آندھی آئی دوسرے دن اولے پڑے تیسرے دن سارے مرغوں نے انڈے اور مرغیوں نے بانگیں دیں تیسرے دن سارے مویشی رسے تڑا کر کہیں بھاگ گئے چوتھے دن سارے کتے ایک ساتھ بھونکنے لگے پانچویں دن کے لیے بھی اس نے کوئی انہونی ماردی لیکن چھٹے اور ساتویں دن کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہ بچا جلدی سے چھٹے دن آسمان سرخ ہو گیا اور ساتویں دن ۔ ساتویں دن ۔ ساتویں دن شاہ فیصل نے داڑھی رکھ لی حالانکہ جس کی پیدائش کا ذکر ہو رہا تھا وہ شاہ فیصل سے اگر زیادہ نہیں تو کم عمر کا بھی نہ تھا ۔
ہم بھی اگر نئے پاکستان کی ڈلیوری کا حساب (100 )دنوں پر تقسیم کریں گے تو یقیناً مسٔلہ پیدا ہوگا ۔ کیونکہ ایک ایک دن میں اتنی تبدیلیاں آرہی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کونسی تبدیلی کس دن کس نمبر پر آئی ۔
البتہ دو تبدیلیاں ہمیں یاد رہ گئی ہیں لیکن ان کی پیدائش کا دن یاد نہیں وہ آپ ایڈجسٹ کریں ایک تبدیلی تو اس کم بخت لوہار پیشہ لوہار زادہ اور لوہار پتر ڈالر کا ضرب ہے جو اس نے ہمارے پہلے ہی سے نحیف و نزار روپے کے سر پر دے ماری ہے اور بچارا روپیہ کھل کر رو بھی نہیں سکا بس ہونٹوں ہی ہونٹوں میں پھس پھسا کر رہ گیا ہے
نحیف و زار ہیں کیا زور باغباں پہ چلے
جہاں اٹھا دیا بس رہ گئے شجر کی طرح
آخری اطلاعات کے مطابق اسے خون کی شدید ضرورت ہے لیکن عرب و چین سے خون کے آتے آتے ۔
تاتریاق از عراق آوردہ شود
مارگزیدہ مردہ شود
لیکن بہر حال ان سو دنوں میں ۔ باقی تو سارے سنار کے کہے جاسکتے ہیں لیکن ایک اور بھی '' لوہار کی '' ۔ یایوں کہیے کہ ساتویں دن شاہ فیصل نے داڑھی رکھی اور یہ لوہار کی یوں ہے کہ خیبر پختون خوا میں صوبائی وزرا کی تنخواہوں میں 200فیصد کا اضافہ ۔ سو دن میں دو سو فیصد اضافہ بہت اچھا اسکور ہے ۔گویا ایک گیند پر دو رنز کا اسکور، ساتھ ہی ایم این اے ایز، ایم پی ایز، مشیروں معاونوں اور معاونوں کے '' تعاون '' کی مراعات بھی اسی حساب سے بڑھیں گی، وزراء کو اب 5لاکھ ماہانہ کے بجائے 15لاکھ ماہانہ ملیں گے۔
ظاہر ہے کہ ساتھ ہی ساتھ جو دوسرے '' باغ '' ہیں یا بڑا باغ تو وہاں کے '' خربوزے '' بھی یہی رنگ پکڑیں گے ۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100دن میں200فیصد کا اضافہ۔ اس پر اگر کوئی شاباش نہیں کہے گا تو وہ یقیناً نئے پاکستان ملک و قوم اور دین و ملت بلکہ انصاف و قانون کا بھی دشمن اور منفی تنقیدیا ہوگا ۔ اکڑم بکڑم بمبے بو ۔ اسی نوے پورے سو بلکہ دوسو ۔