عمران خان ٹرمپ کی درخواست اور حکیم صاحب
ابھی پچھلے ماہ بھی ٹرمپ ’’صاحب‘‘ نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے ایک بارپھرپاکستان پرالزامات بھی لگادیے تھے۔
''فارن پالیسی'' امریکا کا ممتاز ترین جریدہ ہے۔ اِس کی تحقیقات اور تجزیات امریکی پنٹاگان اور امریکی خارجہ پالیسیوں پر یکساں اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ محض ایک جریدہ ہی نہیں، ایک تھنک ٹینک بھی ہے۔پچھلے 50 سال سے اِس نے اپنی انفرادیت کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔
مذکورہ میگزین نے اپنی تازہ اشاعت کے ایک آرٹیکل میں افغانستان میں جنگجو افغان طالبان کے ہاتھوں پے درپے امریکی شکستوں ، پسپائیوں اور ہزیمتوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اِس مفصل مضمون کاعنوان یہ ہے:Inside Trump,s Tortured Search for a Winning Strategy in Afghanistanاِس چشم کشا آرٹیکل کی اہمیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کے پانچ مشہور ماہرینِ سیاسیات و تجزیہ نگاروں نے مل کر اِسے قلمبند کیا ہے ۔
گویا یہ آرٹیکل پانچ شہ دماغوں کی مشترکہ کاوش ہے۔آرٹیکل لکھنے والے پانچوں دانشوروں کے نام یہ ہیں:ڈین ڈی لیوس، ایلیاس گرول، جینا میک لافلن، جانا ونٹر، پال میک لیری۔ پانچوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکا کامل شکست کھا چکا ہے ۔ اور یہ کہ اب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نہایت سنجیدگی سے سوچ بچار کررہے ہیں کہ مزید ندامت، شکست اور جانی و مالی نقصانات سے بچنے کاواحدراستہ یہ رہ گیا ہے کہ افغانستان میں ہر قسم کی امریکی موجودگی کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے۔
سوال مگر یہ ہے کہ آیا ایسا جَلد از جَلد کرنا امریکا کے لیے ممکن بھی ہے یا نہیں؟راستہ آسان ، باعزت اور محفوظ بنانے کے لیے ٹرمپ صاحب نے افغان نژاد امریکی سفارتکار ، زلمے خلیل زاد، کو درمیان میں ڈالا ہُوا ہے۔ زلمے صاحب، جو کبھی افغانستان میں امریکی سفیر بھی رہے ہیں، اپنے متعینہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان شٹل بنے ہُوئے ہیں۔ بھاگم بھاگ کبھی ایک عرب ملک میں جنگجو افغان طالبان کے چنیدہ نمایندگان سے ملتے ہیں اور کبھی پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے ۔گزشتہ روز بھی پاکستان میں تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں اپنی فیس سیونگ کے لیے پاکستان اور وزیر اعظم ، عمران خان، کو تڑی لگائی تو تھی لیکن لگتا ہے تڑی نے مطلوبہ کام نہیں دکھایا، اس لیے اب وزیر اعظم پاکستان سے سفارتکاری کے نرم اور شستہ لہجے میں بات چیت کی جا رہی ہے۔ اِس کی ایک جھلک حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان صاحب کے اُس مکالمے میں بھی دکھائی دی گئی ہے جو 3دسمبر کو نصف درجن سے زائد اینکرز کے ساتھ ہُوا ہے۔
پی ٹی وی سمیت کئی نجی ٹی ویوں کے لیے یہ اجتماعی اور مشترکہ مکالمہ اپنی طرز کا نیا اور منفرد تجربہ ہے ۔ اگر اِس کے آرکیٹیکٹ وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری صاحب ہیں تو انھیں شاباش ملنی چاہیے۔ راقم کے نزدیک اس ڈائیلاگ کی تین چار اہم خبروں میں افغانستان کے حوالے سے نکلنے والی خبر اہم ترین تھی۔ جناب وزیر اعظم نے مکالمے کے دوران یہ انکشاف کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے انھیں ایک خط لکھا ہے جس میں افغان طالبان کومذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے تعاون مانگا گیا ہے۔
اِس خط کی اہمیت قابلِ ذکر ہے۔امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، لفظی اور عملی میدان میں پچھلے ایک سال سے پاکستان سے کچھ زیادہ ہی زیادتیاں کرتے آرہے ہیں۔ بھارت سے اُن کا قرب بڑھا ہے اور پاکستان سے فاصلے۔ رواں سال کے آغاز میں انھوں نے پاکستان کے خلاف ایک نہایت بیہودہ اور دل آزار ٹویٹ کی تھی۔ وہ کروڑوں ڈالر کا پاکستان کا کولیشن سپورٹ فنڈ بھی روک چکے ہیں، حالانکہ یہ فنڈز امریکی امداد واحسان نہیں تھے بلکہ یہ اخلاقی و عالمی امریکی ذمے تھا۔
ابھی پچھلے ماہ بھی ٹرمپ ''صاحب'' نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے ایک بار پھر پاکستان پر الزامات بھی لگا دیے تھے اور پاکستان کو بے وفا بھی کہہ ڈالا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امریکی صدر کی تہمتوں کا بھرپور اور ترنت جواب بھی دیا۔ یوں پاک، امریکا کشیدگی میں مزید اضافہ ہُوا۔ یہ کشیدگی پاکستان کے لیے مفید نہیں ہے۔ اگرچہ امریکا جس بُری طرح افغانستان میں پھنسا ہُوا ہے،فقط پاکستان کا تعاون ہی اُسے اِن مصیبتوں سے نجات دلا سکتا ہے۔
یہ مصیبتیں امریکا نے خود خریدی ہیں۔ افغانستان میں بھارتی موجودگی کو مستحکم کرکے امریکا نے کچھ اور ہی سوچا تھا لیکن یہ امریکی اسٹرٹیجی اُس کے گلے پڑ گئی ۔ امریکیوں کا بے شمار خون بھی افغانستان میں بہہ چکا ہے اور کھربوں ڈالر بھی بھسم ہو گئے ہیں۔ نتیجہ مگر صفر نکلا ہے۔ اب اگر امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان سے تعاون مانگا ہے تو عمران خان اور ہماری عسکری قیادت کو یہ کارڈ دانشمندی اور حکمت سے کھیلنا چاہیے۔
رُوس اور چین سے ہمارے تعلقات بہترین اسلوب میں آگے بڑھ تو رہے ہیں لیکن ہمیں امریکی ناراضی اور کشیدگی کو مزید طول نہیں دینا چاہیے۔ افغان طالبان پرپاکستان کا کنٹرول تو نہیں ہے لیکن بھارت اور امریکا کے مقابلے میں افغان طالبان قائدین پاکستان کا زیادہ احترام کرتے ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ امریکا بے وفا اور جفا جُو ہے۔ افغانستان میں پاکستانی تعاون حاصل کرنے کے بعد وہ پھر پاکستان سے دغا کر سکتا ہے لیکن اس کے باوصف پاکستان کو امریکا کی دست گیری کرنی چاہیے۔پاک، امریکا کشیدگی کی موجودگی میں بھارت ہر روز جو فائدے اُٹھارہا ہے،امریکی تعاونی درخواست کا مثبت جواب دے کر بھارتی راستے کامل طور پر مسدود نہیں تو کم از کم محدود ضرور کیے جا سکتے ہیں۔
حکیم صاحب کی عظیم یادیں: دسمبر کا دوسرا ہفتہ وطنِ عزیز کے نامور طبیب حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ سے وابستہ یادوں سے مملو ہے۔ سر سید احمد خان علیہ رحمہ کے خونِ جگر سے بنائی گئی جامعہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کے فارغ التحصیل عنایت اللہ محض حکیم ہی نہیں تھے، ایک نامور دانشور، طرحدار شاعر، مصنف، سیاستدان اورذہن ساز شخصیت بھی تھے۔ تعلق تو بنیادی طور پر اُن کا سوہدرہ سے تھا جو وزیر آباد کے مضافات میں پڑنے والا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن وہ لاہور کی تہذیبی ، سیاسی اور ادبی زندگی کے روحِ رواں بھی تھے۔ حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب سوہدروی اُن مخلص ، بے ریا اور کمٹڈ شخصیات میں نمایاں ترین تھے جن کی شب وروز کی محنتوں اور مساعیِ جمیلہ کی بدولت آج ہم ایک آزاد اور باوقار مملکت کے آزاد شہری ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جسے قائد اعظم علیہ رحمہ نے ''مسلم لیگ کا اسلحہ خانہ'' بھی کہا تھا، میں طالبعلمی کے دوران ہی عنایت اللہ نسیم صاحب نے تحریکِ پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ اُن خوش بخت افراد میں سے ایک تھے جنہیں بانیِ پاکستان سے ملنے، اُن کے دیدار کرنے اور اُن کی دست بوسی کا شرف حاصل رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو ہر اُس شخص سے پیار ہے جس نے ہمارے قائد اعظم سے پیار کیا، اُن کا احترام واکرام کیا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب نے علی گڑھ یونیورسٹی میں حصولِ علم کے دوران برِ صغیر میں اُٹھنے والے ہر قسم کے اسلام دشمن فتنوں اور مسلمان دشمن شخصیات کا مقابلہ کیا۔ انھیں علی گڑھ بھیجنے والوں میں عاشقِ اسلام مولانا ظفر علی خان تھے۔
ظفر علی خان علیہ رحمہ عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بھی تھے، محسنینِ پاکستان کی فہرست میں صفِ اوّل بھی، قائد اعظم کے فدائی بھی اور برِ صغیر کی اُردو صحافت کا ایک تابندہ ستارہ بھی۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی صاحب کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ مولانا ظفر علی خان کے معتمد بھی تھے اور اُن کے رفیق بھی ۔ ایسے شخص کی صحافت، سیاست اور شاعری میں دراصل ظفر علی خان ہی کی تعلیم و تربیت کا عکس نظر آتا ہے۔
وہ لاہور میں بروئے کاراُن معزز اور ادب پیشہ حکیموں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے طبّ کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب، نظریہ پاکستان ، شاعری اور مہذب سیاست کی بھی بے پناہ خدمت کی ۔ جن کے اسمائے گرامی سے لاہور کی تہذیبی زندگی ممتاز اور منفرد رہی ۔ مثال کے طور پر: حکیم محمد حسن قرشی، حکیم حبیب اشعر ، حکیم یوسف حسن، حکیم نیر واسطی،حکیم عبدالصمد صارم۔ اب یہ سب ستارے پیوندِ خاک ہو چکے ہیں لیکن اُن کی چھوڑی گئی روشنی اب بھی لَو دے رہی ہے۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرری مرحوم بھی ایسے ہی انمول لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ 9دسمبر2018ء کو ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک بار پھر اہلِ علم و دانش اُن کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔
مذکورہ میگزین نے اپنی تازہ اشاعت کے ایک آرٹیکل میں افغانستان میں جنگجو افغان طالبان کے ہاتھوں پے درپے امریکی شکستوں ، پسپائیوں اور ہزیمتوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اِس مفصل مضمون کاعنوان یہ ہے:Inside Trump,s Tortured Search for a Winning Strategy in Afghanistanاِس چشم کشا آرٹیکل کی اہمیت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کے پانچ مشہور ماہرینِ سیاسیات و تجزیہ نگاروں نے مل کر اِسے قلمبند کیا ہے ۔
گویا یہ آرٹیکل پانچ شہ دماغوں کی مشترکہ کاوش ہے۔آرٹیکل لکھنے والے پانچوں دانشوروں کے نام یہ ہیں:ڈین ڈی لیوس، ایلیاس گرول، جینا میک لافلن، جانا ونٹر، پال میک لیری۔ پانچوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکا کامل شکست کھا چکا ہے ۔ اور یہ کہ اب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نہایت سنجیدگی سے سوچ بچار کررہے ہیں کہ مزید ندامت، شکست اور جانی و مالی نقصانات سے بچنے کاواحدراستہ یہ رہ گیا ہے کہ افغانستان میں ہر قسم کی امریکی موجودگی کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے۔
سوال مگر یہ ہے کہ آیا ایسا جَلد از جَلد کرنا امریکا کے لیے ممکن بھی ہے یا نہیں؟راستہ آسان ، باعزت اور محفوظ بنانے کے لیے ٹرمپ صاحب نے افغان نژاد امریکی سفارتکار ، زلمے خلیل زاد، کو درمیان میں ڈالا ہُوا ہے۔ زلمے صاحب، جو کبھی افغانستان میں امریکی سفیر بھی رہے ہیں، اپنے متعینہ مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان اور امریکا کے درمیان شٹل بنے ہُوئے ہیں۔ بھاگم بھاگ کبھی ایک عرب ملک میں جنگجو افغان طالبان کے چنیدہ نمایندگان سے ملتے ہیں اور کبھی پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے ۔گزشتہ روز بھی پاکستان میں تھے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان میں اپنی فیس سیونگ کے لیے پاکستان اور وزیر اعظم ، عمران خان، کو تڑی لگائی تو تھی لیکن لگتا ہے تڑی نے مطلوبہ کام نہیں دکھایا، اس لیے اب وزیر اعظم پاکستان سے سفارتکاری کے نرم اور شستہ لہجے میں بات چیت کی جا رہی ہے۔ اِس کی ایک جھلک حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان صاحب کے اُس مکالمے میں بھی دکھائی دی گئی ہے جو 3دسمبر کو نصف درجن سے زائد اینکرز کے ساتھ ہُوا ہے۔
پی ٹی وی سمیت کئی نجی ٹی ویوں کے لیے یہ اجتماعی اور مشترکہ مکالمہ اپنی طرز کا نیا اور منفرد تجربہ ہے ۔ اگر اِس کے آرکیٹیکٹ وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری صاحب ہیں تو انھیں شاباش ملنی چاہیے۔ راقم کے نزدیک اس ڈائیلاگ کی تین چار اہم خبروں میں افغانستان کے حوالے سے نکلنے والی خبر اہم ترین تھی۔ جناب وزیر اعظم نے مکالمے کے دوران یہ انکشاف کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے انھیں ایک خط لکھا ہے جس میں افغان طالبان کومذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے تعاون مانگا گیا ہے۔
اِس خط کی اہمیت قابلِ ذکر ہے۔امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ، لفظی اور عملی میدان میں پچھلے ایک سال سے پاکستان سے کچھ زیادہ ہی زیادتیاں کرتے آرہے ہیں۔ بھارت سے اُن کا قرب بڑھا ہے اور پاکستان سے فاصلے۔ رواں سال کے آغاز میں انھوں نے پاکستان کے خلاف ایک نہایت بیہودہ اور دل آزار ٹویٹ کی تھی۔ وہ کروڑوں ڈالر کا پاکستان کا کولیشن سپورٹ فنڈ بھی روک چکے ہیں، حالانکہ یہ فنڈز امریکی امداد واحسان نہیں تھے بلکہ یہ اخلاقی و عالمی امریکی ذمے تھا۔
ابھی پچھلے ماہ بھی ٹرمپ ''صاحب'' نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے ایک بار پھر پاکستان پر الزامات بھی لگا دیے تھے اور پاکستان کو بے وفا بھی کہہ ڈالا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امریکی صدر کی تہمتوں کا بھرپور اور ترنت جواب بھی دیا۔ یوں پاک، امریکا کشیدگی میں مزید اضافہ ہُوا۔ یہ کشیدگی پاکستان کے لیے مفید نہیں ہے۔ اگرچہ امریکا جس بُری طرح افغانستان میں پھنسا ہُوا ہے،فقط پاکستان کا تعاون ہی اُسے اِن مصیبتوں سے نجات دلا سکتا ہے۔
یہ مصیبتیں امریکا نے خود خریدی ہیں۔ افغانستان میں بھارتی موجودگی کو مستحکم کرکے امریکا نے کچھ اور ہی سوچا تھا لیکن یہ امریکی اسٹرٹیجی اُس کے گلے پڑ گئی ۔ امریکیوں کا بے شمار خون بھی افغانستان میں بہہ چکا ہے اور کھربوں ڈالر بھی بھسم ہو گئے ہیں۔ نتیجہ مگر صفر نکلا ہے۔ اب اگر امریکی صدر نے افغانستان کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان سے تعاون مانگا ہے تو عمران خان اور ہماری عسکری قیادت کو یہ کارڈ دانشمندی اور حکمت سے کھیلنا چاہیے۔
رُوس اور چین سے ہمارے تعلقات بہترین اسلوب میں آگے بڑھ تو رہے ہیں لیکن ہمیں امریکی ناراضی اور کشیدگی کو مزید طول نہیں دینا چاہیے۔ افغان طالبان پرپاکستان کا کنٹرول تو نہیں ہے لیکن بھارت اور امریکا کے مقابلے میں افغان طالبان قائدین پاکستان کا زیادہ احترام کرتے ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ امریکا بے وفا اور جفا جُو ہے۔ افغانستان میں پاکستانی تعاون حاصل کرنے کے بعد وہ پھر پاکستان سے دغا کر سکتا ہے لیکن اس کے باوصف پاکستان کو امریکا کی دست گیری کرنی چاہیے۔پاک، امریکا کشیدگی کی موجودگی میں بھارت ہر روز جو فائدے اُٹھارہا ہے،امریکی تعاونی درخواست کا مثبت جواب دے کر بھارتی راستے کامل طور پر مسدود نہیں تو کم از کم محدود ضرور کیے جا سکتے ہیں۔
حکیم صاحب کی عظیم یادیں: دسمبر کا دوسرا ہفتہ وطنِ عزیز کے نامور طبیب حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی علیگ سے وابستہ یادوں سے مملو ہے۔ سر سید احمد خان علیہ رحمہ کے خونِ جگر سے بنائی گئی جامعہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، کے فارغ التحصیل عنایت اللہ محض حکیم ہی نہیں تھے، ایک نامور دانشور، طرحدار شاعر، مصنف، سیاستدان اورذہن ساز شخصیت بھی تھے۔ تعلق تو بنیادی طور پر اُن کا سوہدرہ سے تھا جو وزیر آباد کے مضافات میں پڑنے والا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن وہ لاہور کی تہذیبی ، سیاسی اور ادبی زندگی کے روحِ رواں بھی تھے۔ حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب سوہدروی اُن مخلص ، بے ریا اور کمٹڈ شخصیات میں نمایاں ترین تھے جن کی شب وروز کی محنتوں اور مساعیِ جمیلہ کی بدولت آج ہم ایک آزاد اور باوقار مملکت کے آزاد شہری ہیں۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جسے قائد اعظم علیہ رحمہ نے ''مسلم لیگ کا اسلحہ خانہ'' بھی کہا تھا، میں طالبعلمی کے دوران ہی عنایت اللہ نسیم صاحب نے تحریکِ پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وہ اُن خوش بخت افراد میں سے ایک تھے جنہیں بانیِ پاکستان سے ملنے، اُن کے دیدار کرنے اور اُن کی دست بوسی کا شرف حاصل رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں تو ہر اُس شخص سے پیار ہے جس نے ہمارے قائد اعظم سے پیار کیا، اُن کا احترام واکرام کیا۔ حکیم عنایت اللہ نسیم صاحب نے علی گڑھ یونیورسٹی میں حصولِ علم کے دوران برِ صغیر میں اُٹھنے والے ہر قسم کے اسلام دشمن فتنوں اور مسلمان دشمن شخصیات کا مقابلہ کیا۔ انھیں علی گڑھ بھیجنے والوں میں عاشقِ اسلام مولانا ظفر علی خان تھے۔
ظفر علی خان علیہ رحمہ عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بھی تھے، محسنینِ پاکستان کی فہرست میں صفِ اوّل بھی، قائد اعظم کے فدائی بھی اور برِ صغیر کی اُردو صحافت کا ایک تابندہ ستارہ بھی۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی صاحب کو یہ اعزاز حاصل رہا کہ وہ مولانا ظفر علی خان کے معتمد بھی تھے اور اُن کے رفیق بھی ۔ ایسے شخص کی صحافت، سیاست اور شاعری میں دراصل ظفر علی خان ہی کی تعلیم و تربیت کا عکس نظر آتا ہے۔
وہ لاہور میں بروئے کاراُن معزز اور ادب پیشہ حکیموں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے طبّ کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب، نظریہ پاکستان ، شاعری اور مہذب سیاست کی بھی بے پناہ خدمت کی ۔ جن کے اسمائے گرامی سے لاہور کی تہذیبی زندگی ممتاز اور منفرد رہی ۔ مثال کے طور پر: حکیم محمد حسن قرشی، حکیم حبیب اشعر ، حکیم یوسف حسن، حکیم نیر واسطی،حکیم عبدالصمد صارم۔ اب یہ سب ستارے پیوندِ خاک ہو چکے ہیں لیکن اُن کی چھوڑی گئی روشنی اب بھی لَو دے رہی ہے۔ حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدرری مرحوم بھی ایسے ہی انمول لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ 9دسمبر2018ء کو ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک بار پھر اہلِ علم و دانش اُن کی یادیں تازہ کررہے ہیں۔