کوئٹہ کی فضاء میں پھر بارود کی بوپھیل گئی

30جون کی شام بلوچستان کا درالحکومت کوئٹہ ایک بار پھر فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔

30جون کی شام بلوچستان کا درالحکومت کوئٹہ ایک بار پھر فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ فوٹو: اے ایف پی

30جون کی شام بلوچستان کا درالحکومت کوئٹہ ایک بار پھر فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ایک بار پھر یہاں کی پر امن ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ کوئٹہ منگل کو بھی سوگوار رہا' وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ہزارہ ٹاؤن پہنچے اور ہزارہ کمیونٹی کے عمائدین سے ملاقات کی' اس موقعے پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ریاست عوام کے تحفظ کی ذمے داریاں پوری کرے گی' ادھر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھی بلوچستان پہنچ چکے ہیں۔

پاکستان کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکارہے اور بدقسمتی سے کوئی ایسی صورت دکھائی نہیں دے رہی جس سے حالات میں بہتری کی امید پیدا ہوا۔ جس روز کوئٹہ میں بے گناہوں کو قتل کیا گیا' اسی روز پشاور میں بھی دہشت گردوں نے بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے گروپ موجود ہیں اور ان کی ترجیحات میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانا شامل ہوتا ہے۔اس کے علاوہ وہ دیگر مقامات پر خود کش حملے کرتے ہیں۔

یوں تو پورے ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے'پنجاب میں بھی خود کش حملے ہوتے ہیں 'کراچی میں آئے روز خون ریزی ہوتی رہتی ہے لیکن بلوچستان کا معاملہ مختلف ہے۔ بلوچستان دو طرح کی دہشت گردی کے گرداب میں ہے، ایک جانب بلوچ قوم پرستوں کے جتھے مختلف اوقات میں مسلح کارروائیاںکرتے ہیں'ان کی کارروائیوں میں سیکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں۔ جب کہ کوئٹہ شہر میں چند سالوں سے ہزارہ کمیونٹی دہشت گردی کا ہدف بنی ہوئی ہے۔ اتوار کی شام کا واقعہ اسی بحرانی صورتحال کا تسلسل ہے جسے وویمن یونیورسٹی کے سانحے سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔


ہزارہ کمیونٹی کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے اس میں فرقہ واریت کا عنصر بھی شامل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست جتھے بھی کارروائی کر رہے ہیں اور فرقہ پرست گروہ بھی اپنے مخالفین کو خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں مار رہے ہیں۔اس صورت حال میں بلوچستان میں خوف و ہراس اور غیر یقینی سی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں حکومتی مشینری' انتظامی اور امن وامان کے قیام کے ذمے دار ادارے شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کے لیے کیا کررہے ہیں؟ ہر سانحے کے بعد حکومتی ذمے داران مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے ملزمان کو کیفرکردارتک پہنچانے کا عہد کرتے ہیں اور پھر اپنے عزم کوبھلادیتے ہیں۔ماضی میں اب تک جتنے بھی سانحے گزرے ہیں ان پر ایسا ہی حکومتی ردعمل سامنے آیا ہے۔ حالیہ سانحے کے پس منظر میں حکومتی کردار میں مثبت تبدیلی کا مشاہدہ امیدافزاہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے جو عزم ظاہر کیا ہے اس سے نظر آتا ہے کہ وہ ماضی کی روایت توڑنا چاہتے ہیں۔ حکومت کے ترجمان نے مدلل طورپر واقعے کے اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاصوبے کی موجودہ حکومت سیاسی بصیرت اور جراتمندانہ فیصلوں کے ذریعے حالات کی سنگینی پر قابو پائے گی' اس مقصد کے لیے مرکزی حکومت، سیکیورٹی ادارے اور صوبائی حکومت کے درمیان مکمل یکجہتی اور اتحاد عمل کے ساتھ پیشقدمی ہی واحد موثر طریقہ ہے جس سے مشترکہ طورپر فرقہ واریت کے عفریت پرقابو پایاجاسکتاہے۔ایسا لگتا ہے کہ محض لفاظی کے بجائے صوبائی حکومت عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔

صوبائی ترجمان کے خیالات اور عزم میں موجود توانائی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ بلوچستان حکومت مشکلات پر قابو پالے گی ملک بھر کے اہل الرائے افراد کو ان حالات میں بلوچستان کے عوام اور حکومت کی مدد کرنی چاہیے۔وزیراعظم نواز شریف بھی چونکہ بلوچستان میں ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مرکزی حکومت بھی صوبائی حکومت کو ہر ممکن مدد اور وسائل فراہم کرے تاکہ بلوچستان میں بد امنی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
Load Next Story