اہل مغرب اور دین
اہل یورپ میں عرصہ دراز سے مذہب پر تحقیق ہو رہی ہے اور ہر بار امن کی سوچ کا محور فقط اسی جگہ نظر آتا ہے کہ۔۔۔
اہل یورپ میں عرصہ دراز سے مذہب پر تحقیق ہو رہی ہے اور ہر بار امن کی سوچ کا محور فقط اسی جگہ نظر آتا ہے کہ مذہب اپنی سوچ میں تبدیلی کیسے لاتا ہے؟ مذہب کیسے بدلتا ہے؟ اور سب سے اہم امر کہ جن مذاہب میں زندہ نبی نہیں ہوتے تو وہ کیسے بدلتے ہیں؟ مسلمانوں کے آخری نبیؐ اب سے چودہ سو برس قبل وفات پا گئے ہیں لیکن مسلمان اس کے باوجود بھی اپنی زندگی ان قوانین پر کس طرح سے گزار رہے ہیں؟
سب سے پہلے ان تصورات حیات کا جسے مغربی تہذیب و تمدن نے اپنے اندر جذب کر لیا ہے اور جو ایک مغربی باشندے میں اثر انداز ہوئے ہیں۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی کے مفکرین اور فلسفیوں کے نزدیک مذہب وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے دور تہذیب کی خوبیاں جو مفادات کے عین مطابق ہوں انھیں محفوظ رکھ کر باقی تمام چیزیں رد کر دی جاتی ہیں۔ 1889میں ولفرڈ وڈرف مارمن چرچ کے سربراہ بنے۔ انھیں صدر کے طور پر نبی مانا جاتا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ مسیح (عیسیٰ ؑ) سے وحی کے ذریعے براہ راست رہنمائی لیتے ہیں۔
چالیس سال تک چرچ اور کانگریس میں ازواج کی تعداد پر لڑائی چلتی رہی۔ حکومت اسے غیر قانونی قرار دیتی رہی اور اس کے دفاع میں دیے گئے دلائل کو درست نہیں سمجھتی تھی۔ وڈرف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس وجہ سے روپوش ہو کر مشتبہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور 1890 میں بالآخر حکومت نے چرچ کی تمام جائیداد ضبط کر لی۔ حکومت کے اس طرز عمل پر وڈرف نے ازواج کی مخالفت کیے بغیر وقتی طور پر پابندی عائد کر دی۔ ویلندڈر یونیورسٹی امریکا کی پروفیسر کیتھلین فلک کہتی ہیں کہ جو مذہب تبدیل نہیں ہوتا ختم ہو جاتا ہے۔
مذہب کو بدلنے پر مجبور کرنے والی قوتوں میں ایک آسائش بھی ہے۔ اوند شرما موازنہ مذہب کے استاد کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں کرم کا ذکر ہے جس میں ہندوؤں کو ان کے اعمال کی سزا اور جزا دی جاتی ہے۔ شرع کے مطابق مذہب میں تبدیلی ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کرم کو اچھوت جواز بنا کر پیش کیا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں کہا جاتا ہے کہ اچھوت اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ پچھلے جنم میں کیے گئے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔
امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے حوالے سے زیر بحث موضوع یہ ہے کہ ساتویں صدی کے دنیا پر اطلاق کیے گئے قوانین کس طرح اکیسویں صدی پر لاگو ہو سکتے ہیں۔ اسلام پر تحقیقات کرنے والے مختلف علمائے کرام کہتے ہیں کہ اسلام ایک عالمگیر دعوت ہے اور ایک تحریک کی صورت میں دنیا پر غالب ہے۔ ہماری دنیا میں مادی اور اخلاقی تہذیبیں تحریک کی شکل میں ابھرتی ہیں۔ مادی تحریکوں کے محرکات انسان کے مادی مسائل پر مبنی ہوتے ہیں جب کہ اخلاقی اقدار پر مبنی تحریکیں انسانی روح کی اصلاح کرتی ہیں۔
ساتویں صدی عیسویں سے قبل دنیا اخلاقی زوال پذیر حالت میں تھی۔ خود غرضی بڑھ کر اس نہج کو پہنچ چکی تھی کہ حسن سلوک اور غم خواری کا تصور ناپید ہو گیا تھا۔ اقوام کے مابین فرق کیا جا رہا تھا اور لوگ گروہوں میں تقسیم ہو کر پستی میں دھنس رہے تھے۔ باطل کو باطل مانتے اور دوسروں پر ا س کا اطلاق کرتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان تمام خرابیوں کا جامع حل اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے اسلام کی صورت میں نکالا اور انھیں مبعوث کیا۔ انسان جب سے روئے زمین پر آیا ہے اﷲ کے ضابطے میں تبدیلی نہیں آئی۔ جب جب اس کے احکامات سے روگردانی کی گئی ناکامی و نامرادی مقدر ٹھہری۔ نبیؐ کے وصال کے بعد علمائے کرام اسلامی شرع کی رو سے کام کرتے ہیں۔
اسلامی شرعی قوانین کی بنیاد قرآن کریم اور سنت پیغمبرؐ کی تعلیمات ہیں۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے چار بنیادی ستون بنائے گئے اور ان کی روشنی سے دنیا ہر صدی میں اسلام کو زندہ دیکھ سکتی ہے۔ ان چار ستونوں میں قرآن، سنت نبویؐ، فقہ اور اجماع ہیں اور ان کی بدولت دین اسلام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ دنیا میں اپنا وجود رکھتا ہے۔
قرآن کریم خود رب کائنات کی حفاظت میں تاقیامت زندہ ہے۔ نبیؐ کے وصال کے بعد فقہ کی صورت میں ہدایات موجود ہیں جو دراصل سنت نبیؐ ہی ہیں البتہ حالات کے پیش نظر اسلام کی تعلیمات کے عمل پیرا ہونے کے لیے علمائے دین اسلام اجماع کے ذریعے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ علما کرام دین میں تبدیلی ہرگز نہیں کرتے بلکہ مسائل کے حل کے لیے زمانہ حاضر کے وسائل اور مشکلات کے ٹکراؤ کو بچاتے ہوئے دین اسلام کے قوانین کو لاگو کرتے ہیں، لہٰذا یہ طے ہو گیا کہ اسلام میں تبدیلی ممکن نہیں اور نبیؐ کی تعلیمات ان کی موجودگی ہے۔
تاریخ و مذہب پر بے شمار کتابوں کی مصنفہ کیرن کہتی ہیں کہ لوگ سوچتے ہیں کہ مذہب آسان ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کے لیے بہت زیادہ شعوری، عقلی، روحانی اور تصوراتی کوششوں کی ضرورت ہے اور یہ ایک لازوال نہ رکنے والی جدوجہد ہے۔
مغربی دنیا دراصل دین کی پابندیوں سے بھاگتی ہے اسی وجہ سے افراد دین میں تحقیق کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی چاہتے ہیں جب کہ دین اسلام ایک آسان اور سیدھا سادا حکم الٰہی کے تابع مذہب ہے جس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ اس میں رواداری اور صلہ رحمی ہے، خاندان سے لے کر ریاست کے ہر شعبے کو عدل و انصاف کی بنیاد پر استوار کرتا ہے، اس لیے دین میں تبدیلی دیگر میں ممکن ہے، اسلام میں ہرگز نہیں۔
سب سے پہلے ان تصورات حیات کا جسے مغربی تہذیب و تمدن نے اپنے اندر جذب کر لیا ہے اور جو ایک مغربی باشندے میں اثر انداز ہوئے ہیں۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی کے مفکرین اور فلسفیوں کے نزدیک مذہب وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے دور تہذیب کی خوبیاں جو مفادات کے عین مطابق ہوں انھیں محفوظ رکھ کر باقی تمام چیزیں رد کر دی جاتی ہیں۔ 1889میں ولفرڈ وڈرف مارمن چرچ کے سربراہ بنے۔ انھیں صدر کے طور پر نبی مانا جاتا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ مسیح (عیسیٰ ؑ) سے وحی کے ذریعے براہ راست رہنمائی لیتے ہیں۔
چالیس سال تک چرچ اور کانگریس میں ازواج کی تعداد پر لڑائی چلتی رہی۔ حکومت اسے غیر قانونی قرار دیتی رہی اور اس کے دفاع میں دیے گئے دلائل کو درست نہیں سمجھتی تھی۔ وڈرف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس وجہ سے روپوش ہو کر مشتبہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور 1890 میں بالآخر حکومت نے چرچ کی تمام جائیداد ضبط کر لی۔ حکومت کے اس طرز عمل پر وڈرف نے ازواج کی مخالفت کیے بغیر وقتی طور پر پابندی عائد کر دی۔ ویلندڈر یونیورسٹی امریکا کی پروفیسر کیتھلین فلک کہتی ہیں کہ جو مذہب تبدیل نہیں ہوتا ختم ہو جاتا ہے۔
مذہب کو بدلنے پر مجبور کرنے والی قوتوں میں ایک آسائش بھی ہے۔ اوند شرما موازنہ مذہب کے استاد کہتے ہیں کہ ہندو مذہب میں کرم کا ذکر ہے جس میں ہندوؤں کو ان کے اعمال کی سزا اور جزا دی جاتی ہے۔ شرع کے مطابق مذہب میں تبدیلی ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں کرم کو اچھوت جواز بنا کر پیش کیا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں کہا جاتا ہے کہ اچھوت اس لیے پیدا ہوتا ہے کیونکہ وہ پچھلے جنم میں کیے گئے گناہوں کا کفارہ ادا کر رہا ہوتا ہے۔
امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے حوالے سے زیر بحث موضوع یہ ہے کہ ساتویں صدی کے دنیا پر اطلاق کیے گئے قوانین کس طرح اکیسویں صدی پر لاگو ہو سکتے ہیں۔ اسلام پر تحقیقات کرنے والے مختلف علمائے کرام کہتے ہیں کہ اسلام ایک عالمگیر دعوت ہے اور ایک تحریک کی صورت میں دنیا پر غالب ہے۔ ہماری دنیا میں مادی اور اخلاقی تہذیبیں تحریک کی شکل میں ابھرتی ہیں۔ مادی تحریکوں کے محرکات انسان کے مادی مسائل پر مبنی ہوتے ہیں جب کہ اخلاقی اقدار پر مبنی تحریکیں انسانی روح کی اصلاح کرتی ہیں۔
ساتویں صدی عیسویں سے قبل دنیا اخلاقی زوال پذیر حالت میں تھی۔ خود غرضی بڑھ کر اس نہج کو پہنچ چکی تھی کہ حسن سلوک اور غم خواری کا تصور ناپید ہو گیا تھا۔ اقوام کے مابین فرق کیا جا رہا تھا اور لوگ گروہوں میں تقسیم ہو کر پستی میں دھنس رہے تھے۔ باطل کو باطل مانتے اور دوسروں پر ا س کا اطلاق کرتے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان تمام خرابیوں کا جامع حل اپنے آخری نبیؐ کے ذریعے اسلام کی صورت میں نکالا اور انھیں مبعوث کیا۔ انسان جب سے روئے زمین پر آیا ہے اﷲ کے ضابطے میں تبدیلی نہیں آئی۔ جب جب اس کے احکامات سے روگردانی کی گئی ناکامی و نامرادی مقدر ٹھہری۔ نبیؐ کے وصال کے بعد علمائے کرام اسلامی شرع کی رو سے کام کرتے ہیں۔
اسلامی شرعی قوانین کی بنیاد قرآن کریم اور سنت پیغمبرؐ کی تعلیمات ہیں۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے چار بنیادی ستون بنائے گئے اور ان کی روشنی سے دنیا ہر صدی میں اسلام کو زندہ دیکھ سکتی ہے۔ ان چار ستونوں میں قرآن، سنت نبویؐ، فقہ اور اجماع ہیں اور ان کی بدولت دین اسلام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ دنیا میں اپنا وجود رکھتا ہے۔
قرآن کریم خود رب کائنات کی حفاظت میں تاقیامت زندہ ہے۔ نبیؐ کے وصال کے بعد فقہ کی صورت میں ہدایات موجود ہیں جو دراصل سنت نبیؐ ہی ہیں البتہ حالات کے پیش نظر اسلام کی تعلیمات کے عمل پیرا ہونے کے لیے علمائے دین اسلام اجماع کے ذریعے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ علما کرام دین میں تبدیلی ہرگز نہیں کرتے بلکہ مسائل کے حل کے لیے زمانہ حاضر کے وسائل اور مشکلات کے ٹکراؤ کو بچاتے ہوئے دین اسلام کے قوانین کو لاگو کرتے ہیں، لہٰذا یہ طے ہو گیا کہ اسلام میں تبدیلی ممکن نہیں اور نبیؐ کی تعلیمات ان کی موجودگی ہے۔
تاریخ و مذہب پر بے شمار کتابوں کی مصنفہ کیرن کہتی ہیں کہ لوگ سوچتے ہیں کہ مذہب آسان ہوتا ہے لیکن درحقیقت اس کے لیے بہت زیادہ شعوری، عقلی، روحانی اور تصوراتی کوششوں کی ضرورت ہے اور یہ ایک لازوال نہ رکنے والی جدوجہد ہے۔
مغربی دنیا دراصل دین کی پابندیوں سے بھاگتی ہے اسی وجہ سے افراد دین میں تحقیق کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی چاہتے ہیں جب کہ دین اسلام ایک آسان اور سیدھا سادا حکم الٰہی کے تابع مذہب ہے جس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ اس میں رواداری اور صلہ رحمی ہے، خاندان سے لے کر ریاست کے ہر شعبے کو عدل و انصاف کی بنیاد پر استوار کرتا ہے، اس لیے دین میں تبدیلی دیگر میں ممکن ہے، اسلام میں ہرگز نہیں۔