’اسپیس سیٹیلائٹ‘ غریب ملک ایتھوپیا کی عیاشی
ایتھوپیا کے چوالیس فی صد باشندے خطِ غربت سے بھی کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ISLAMABAD:
یہ بات تواب دنیا کا ہر فرد جانتا ہے کہ ایتھوپیا افریقا کا غریب ترین ملک ہے لیکن یہ جان کر آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ وہ اس مفلسی میں بھی سال بھر کے اندر اندر خلا میں سیٹیلائٹ لانچ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکا ہے۔
اس بڑے منصوبے کی تکمیل کے لیے چین اس کا مددگار ہے۔ چین کی افریقا میں مستحکم پوزیشن اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ افریقا میں نہ صرف معاشی میدان کا بے تاج بادشاہ ہے بلکہ سمندر، دریا اور خلا سب تیزی سے مسخر کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس نے مضبوط عالمی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ صحراؤں کی ہواؤں سے لے کر سفید برف سے ڈھکے نیلے پانیوں تک چین کی رسائی اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں، لیکن ایتھوپیا جیسے غریب ملک کے لیے خلاء میں جانا ایک ایسی عیاشی ہے جس کی قیمت غریب ایتھوپین عوام جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔
ایتھوپیا کے چوالیس فی صد باشندے خطِ غربت سے بھی کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غربت میں جتنا ہاتھ قدرتی آفات کا ہے اس سے کہیں زیادہ خود انسانی غفلتوں کا بھی ہے۔ صنعتی اور سائنسی ترقی کے حیرت انگیز دور میں یہاں کے اسی فی صد لوگوں کا پیشہ اب بھی زراعت ہی ہے۔ بنیادی انفرااسٹرکچر کے نہ ہونے کے باعث ایتھوپیا کے کسان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ فصلوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کے پاس جدید آلات تک موجود نہیں۔ پے درپے آنے والے قحط نے ان کی زندگیوں کا عذاب مزید بڑھا دیا ہے۔ یوں ایک ایسا معاشرہ جس میں معاشی، طبی اور تعلیمی ضروریات منہ پھاڑے کھڑی ہوں وہاں آنکھیں بند کرکے خلا کی طرف دوڑ لگا دینا بھلا کہاں کی دانش مندی ہے؟
صرف غربت اور قدرتی آفات ہی نہیں بلکہ جنگوں نے بھی ایتھوپیا کو بدحالی کے گڑھے میں اوندھے منہ گرا رکھا ہے۔ بیس سال سے اریٹیریا کے ساتھ ایتھوپیا حالتِ جنگ میں رہا۔ رواں ماہ امن کے ایک معاہدے کے تحت یہ جنگ رک تو چکی لیکن اس کے منفی اثرات سے خلا میں پہنچ کر بھی فرار ممکن نہیں۔ دورانِ جنگ ایتھوپیا اقوام متحدہ کی عائدکردہ پابندیوں کی مسلسل زد میں رہ کر مزید بدحال ہوگیا۔ اس جنگ میں دونوں طرف کے ہزاروں سپاہی اور ایک لاکھ عام افراد جان سے گئے اور نہ جانے کتنے بلین ڈالر اسلحے کی خرید میں جھونک دیے گئے۔ ماہرین نے پہلی جنگ عظیم کی طرح اس جنگ کو بھی ایک بلاجواز جنگ قرار دیا لیکن برا انسانی خون سے پیاس بجھانے والے ان چنگیزیوں کا جنہیں کسی جواز کی ضرورت پڑتی بھی کب ہے؟
جیسے اریٹیریا سے جنگ لڑتے وقت بھی ایتھوپیا کو اندازہ نہ تھا کہ اس نے بلاجواز اپنی لٹیا آپ ڈبو لی ہے، اسی طرح اب بھی اس کو یہ اندازہ نہیں کہ اس وقت ایتھوپیا کی اصل ضرورت ہے کیا؟ انفرااسٹرکچر کی بحالی اور عوام کی بنیادی ضروریات سے سر پھوڑنا اہم ہے یا پھر خلا سر کرنا؟ لیکن جناب شوق کا کوئی مول نہیں۔ اس بلاجواز شوق کو بڑھاوا دینے والا چین ہے، جو اس خلائی سفر میں ایتھوپیا کے ساتھ نہیں بلکہ اس سے دو قدم آگے کھڑا ہے اور اس کے پیچھے چلنے والی ایتھوپین حکومت کی نظروں سے اپنے عوام کی ضرورتیں اور ان کی بے بسی یکسر اوجھل ہو چکی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق اس سیٹیلائٹ پر کل خرچ آٹھ ملین ڈالر آیا ہے جس میں سے چھے ملین ڈالر چین نے فراہم کیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس بڑی سرمایہ کاری کے بعد چین نے اپنا حق سمجھتے ہوئے اس سیٹیلائٹ کو چینی سرزمین سے ہی لانچ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ، جس سے روگردانی کی مجال ایتھوپیا حکومت میں کہاں؟ ''جس کا کھاؤ اسی کا گاؤ'' کی عالمی پالیسی پر ایتھوپیا دھڑلے سے عمل پیرا ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اسپیس سائنس اور ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ سیٹیلائٹ لانچ چین سے ہوگا لیکن اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ایتھوپیا میں ہوگا۔ چلیے جناب! چین نے اتنی مہربانی بھی کی تو یہ بڑی بات ہے لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اس کنٹرول سینٹر میں چینی ہی کام کریں گے یا ایتھوپین عوام کو بھی کوئی حق سونپا جائے گا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ سیٹیلائٹ کی تیاری میں چینی انجنیئرز کے ساتھ ایتھوپیا کے بھی بیس انجنیئرز کام کر رہے ہیں، یعنی چین اس بار اپنی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے کے موڈ میں ہے۔
چین جو افریقا میں سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کر چکا ہے اب یہاں خلائی سیکٹر کو بھی فتح کرنا چاہتا ہے۔ جنوری میں چین نے نائیجیریا کو ساڑھے پانچ سو ملین ڈالر سیٹیلائٹ مشن کے لیے دیے اور یہ شرط رکھی کہ نائیجیریا اس رقم سے صرف چین کے بنے ہوئے دو سیٹیلائٹ خریدے گا۔ یوں چین کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے اور نائیجیریا چین کی مہربانی سے اگلے دو سال میں خلا میں سیٹیلائٹ لانچ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ گھانا، جنوبی افریقا، نائیجیریا، مصر، مراکش، الجزائر، انگولا اور کینیا وہ افریقی ممالک ہیں جو پہلے ہی خلا میں سیٹیلائٹ بھیج چکے ہیں۔
ایتھوپیا کے سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سیٹیلائٹ ان کی معاشی ترقی میں نہایت معاون ثابت ہوگا اور اس سے غریب خطوں کی تصاویر لینا اور قدرتی آفات کی پیش گوئی کرنا آسان ہو جائے گا۔ بجا، لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو افریقی ممالک خلاء کی طرف سفر کر چکے ان کے حالات میں کیا کوئی قابل ذکر تبدیلی آئی ہے؟ کیا ان کی معاشی حالت واضح طور پر بدل سکی؟ کیا وہ معاشی میدان میں غیروں کے تسلط سے آزاد ہوئے؟ کیا قدرتی آفات کی وقت سے کہیں پہلے پیش گوئی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ممکنہ نقصانات کا ازالہ کرنے کی تیاریاں کیں؟ ان سب سوالات کے جواب یقیناً نفی میں ہیں۔
بھارت افریقی ممالک سے قدرے بہتر معاشی حالت میں ہے لیکن اس کے اسپیس پروگرام کو بھی اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جب دیس کی سڑکوں پر غربت کا برہنہ رقص ہو رہا ہو، ملک کے آدھے سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوں ، عوام کی مفلسی کا حال یہ ہو کہ وہ بیت الخلا کی سہولت سے بھی محروم ہوں، ایسے میں خلاء تک پہنچنے کے لیے ملکی سرمایہ جھونکنا اور بیرونی قرضوں تلے پہلے سے بدحال لوگوں کو اَور دبا دینا صرف بے وقوفی ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے ساتھ بے ایمانی بھی ہے۔ اسپیس پروگرام کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور غریب ممالک کے تو بس کی بات ہی نہیں کہ وہ تنہا اتنے بڑے مشن کو سرانجام دیں۔ اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ چین افریقا کو جتنا فائدہ پہنچا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ خود اٹھا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اسپیس ٹیکنالوجی ملک اور قوم کے مفاد میں ہے لیکن یہ ذرا آگے کا قدم ہے۔ پہلا قدم زمین پر بسنے والوں کے لیے امن کا قیام، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ، ضرورتوں کا ادراک اور انہیں حل کرنے کی جامع منصوبہ بندی کرنا ہے۔ پہلا قدم اٹھائے بنا اگر خلاء کی باتیں ہوں گی، تو وہ قبل از وقت ہوں گی اور آخرکار خلاء سر کر کے بھی مسائل جوں کے توں پڑے رہ جائیں گے، جیسے افریقا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہوا ہے۔
یہ بات تواب دنیا کا ہر فرد جانتا ہے کہ ایتھوپیا افریقا کا غریب ترین ملک ہے لیکن یہ جان کر آپ کو یقیناً حیرت ہوگی کہ وہ اس مفلسی میں بھی سال بھر کے اندر اندر خلا میں سیٹیلائٹ لانچ کرنے کا مصمم ارادہ کرچکا ہے۔
اس بڑے منصوبے کی تکمیل کے لیے چین اس کا مددگار ہے۔ چین کی افریقا میں مستحکم پوزیشن اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ افریقا میں نہ صرف معاشی میدان کا بے تاج بادشاہ ہے بلکہ سمندر، دریا اور خلا سب تیزی سے مسخر کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس نے مضبوط عالمی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔ صحراؤں کی ہواؤں سے لے کر سفید برف سے ڈھکے نیلے پانیوں تک چین کی رسائی اب کوئی اچھنبے کی بات نہیں، لیکن ایتھوپیا جیسے غریب ملک کے لیے خلاء میں جانا ایک ایسی عیاشی ہے جس کی قیمت غریب ایتھوپین عوام جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔
ایتھوپیا کے چوالیس فی صد باشندے خطِ غربت سے بھی کہیں نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس غربت میں جتنا ہاتھ قدرتی آفات کا ہے اس سے کہیں زیادہ خود انسانی غفلتوں کا بھی ہے۔ صنعتی اور سائنسی ترقی کے حیرت انگیز دور میں یہاں کے اسی فی صد لوگوں کا پیشہ اب بھی زراعت ہی ہے۔ بنیادی انفرااسٹرکچر کے نہ ہونے کے باعث ایتھوپیا کے کسان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ فصلوں کو بہتر بنانے کے لیے ان کے پاس جدید آلات تک موجود نہیں۔ پے درپے آنے والے قحط نے ان کی زندگیوں کا عذاب مزید بڑھا دیا ہے۔ یوں ایک ایسا معاشرہ جس میں معاشی، طبی اور تعلیمی ضروریات منہ پھاڑے کھڑی ہوں وہاں آنکھیں بند کرکے خلا کی طرف دوڑ لگا دینا بھلا کہاں کی دانش مندی ہے؟
صرف غربت اور قدرتی آفات ہی نہیں بلکہ جنگوں نے بھی ایتھوپیا کو بدحالی کے گڑھے میں اوندھے منہ گرا رکھا ہے۔ بیس سال سے اریٹیریا کے ساتھ ایتھوپیا حالتِ جنگ میں رہا۔ رواں ماہ امن کے ایک معاہدے کے تحت یہ جنگ رک تو چکی لیکن اس کے منفی اثرات سے خلا میں پہنچ کر بھی فرار ممکن نہیں۔ دورانِ جنگ ایتھوپیا اقوام متحدہ کی عائدکردہ پابندیوں کی مسلسل زد میں رہ کر مزید بدحال ہوگیا۔ اس جنگ میں دونوں طرف کے ہزاروں سپاہی اور ایک لاکھ عام افراد جان سے گئے اور نہ جانے کتنے بلین ڈالر اسلحے کی خرید میں جھونک دیے گئے۔ ماہرین نے پہلی جنگ عظیم کی طرح اس جنگ کو بھی ایک بلاجواز جنگ قرار دیا لیکن برا انسانی خون سے پیاس بجھانے والے ان چنگیزیوں کا جنہیں کسی جواز کی ضرورت پڑتی بھی کب ہے؟
جیسے اریٹیریا سے جنگ لڑتے وقت بھی ایتھوپیا کو اندازہ نہ تھا کہ اس نے بلاجواز اپنی لٹیا آپ ڈبو لی ہے، اسی طرح اب بھی اس کو یہ اندازہ نہیں کہ اس وقت ایتھوپیا کی اصل ضرورت ہے کیا؟ انفرااسٹرکچر کی بحالی اور عوام کی بنیادی ضروریات سے سر پھوڑنا اہم ہے یا پھر خلا سر کرنا؟ لیکن جناب شوق کا کوئی مول نہیں۔ اس بلاجواز شوق کو بڑھاوا دینے والا چین ہے، جو اس خلائی سفر میں ایتھوپیا کے ساتھ نہیں بلکہ اس سے دو قدم آگے کھڑا ہے اور اس کے پیچھے چلنے والی ایتھوپین حکومت کی نظروں سے اپنے عوام کی ضرورتیں اور ان کی بے بسی یکسر اوجھل ہو چکی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق اس سیٹیلائٹ پر کل خرچ آٹھ ملین ڈالر آیا ہے جس میں سے چھے ملین ڈالر چین نے فراہم کیے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس بڑی سرمایہ کاری کے بعد چین نے اپنا حق سمجھتے ہوئے اس سیٹیلائٹ کو چینی سرزمین سے ہی لانچ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ، جس سے روگردانی کی مجال ایتھوپیا حکومت میں کہاں؟ ''جس کا کھاؤ اسی کا گاؤ'' کی عالمی پالیسی پر ایتھوپیا دھڑلے سے عمل پیرا ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اسپیس سائنس اور ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ سیٹیلائٹ لانچ چین سے ہوگا لیکن اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر ایتھوپیا میں ہوگا۔ چلیے جناب! چین نے اتنی مہربانی بھی کی تو یہ بڑی بات ہے لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ اس کنٹرول سینٹر میں چینی ہی کام کریں گے یا ایتھوپین عوام کو بھی کوئی حق سونپا جائے گا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ سیٹیلائٹ کی تیاری میں چینی انجنیئرز کے ساتھ ایتھوپیا کے بھی بیس انجنیئرز کام کر رہے ہیں، یعنی چین اس بار اپنی ٹیکنالوجی بھی منتقل کرنے کے موڈ میں ہے۔
چین جو افریقا میں سیاسی اور معاشی تسلط حاصل کر چکا ہے اب یہاں خلائی سیکٹر کو بھی فتح کرنا چاہتا ہے۔ جنوری میں چین نے نائیجیریا کو ساڑھے پانچ سو ملین ڈالر سیٹیلائٹ مشن کے لیے دیے اور یہ شرط رکھی کہ نائیجیریا اس رقم سے صرف چین کے بنے ہوئے دو سیٹیلائٹ خریدے گا۔ یوں چین کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے اور نائیجیریا چین کی مہربانی سے اگلے دو سال میں خلا میں سیٹیلائٹ لانچ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ گھانا، جنوبی افریقا، نائیجیریا، مصر، مراکش، الجزائر، انگولا اور کینیا وہ افریقی ممالک ہیں جو پہلے ہی خلا میں سیٹیلائٹ بھیج چکے ہیں۔
ایتھوپیا کے سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ سیٹیلائٹ ان کی معاشی ترقی میں نہایت معاون ثابت ہوگا اور اس سے غریب خطوں کی تصاویر لینا اور قدرتی آفات کی پیش گوئی کرنا آسان ہو جائے گا۔ بجا، لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو افریقی ممالک خلاء کی طرف سفر کر چکے ان کے حالات میں کیا کوئی قابل ذکر تبدیلی آئی ہے؟ کیا ان کی معاشی حالت واضح طور پر بدل سکی؟ کیا وہ معاشی میدان میں غیروں کے تسلط سے آزاد ہوئے؟ کیا قدرتی آفات کی وقت سے کہیں پہلے پیش گوئی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ممکنہ نقصانات کا ازالہ کرنے کی تیاریاں کیں؟ ان سب سوالات کے جواب یقیناً نفی میں ہیں۔
بھارت افریقی ممالک سے قدرے بہتر معاشی حالت میں ہے لیکن اس کے اسپیس پروگرام کو بھی اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ جب دیس کی سڑکوں پر غربت کا برہنہ رقص ہو رہا ہو، ملک کے آدھے سے زیادہ بچے خوراک کی کمی کا شکار ہوں ، عوام کی مفلسی کا حال یہ ہو کہ وہ بیت الخلا کی سہولت سے بھی محروم ہوں، ایسے میں خلاء تک پہنچنے کے لیے ملکی سرمایہ جھونکنا اور بیرونی قرضوں تلے پہلے سے بدحال لوگوں کو اَور دبا دینا صرف بے وقوفی ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کے ساتھ بے ایمانی بھی ہے۔ اسپیس پروگرام کوئی بچوں کا کھیل نہیں اور غریب ممالک کے تو بس کی بات ہی نہیں کہ وہ تنہا اتنے بڑے مشن کو سرانجام دیں۔ اس لیے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ چین افریقا کو جتنا فائدہ پہنچا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ خود اٹھا رہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اسپیس ٹیکنالوجی ملک اور قوم کے مفاد میں ہے لیکن یہ ذرا آگے کا قدم ہے۔ پہلا قدم زمین پر بسنے والوں کے لیے امن کا قیام، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ، ضرورتوں کا ادراک اور انہیں حل کرنے کی جامع منصوبہ بندی کرنا ہے۔ پہلا قدم اٹھائے بنا اگر خلاء کی باتیں ہوں گی، تو وہ قبل از وقت ہوں گی اور آخرکار خلاء سر کر کے بھی مسائل جوں کے توں پڑے رہ جائیں گے، جیسے افریقا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہوا ہے۔