پانی پولیس بجلی اور آبادی
چیف صاحب نے پانی کی کمی کے حوالے سے جو مہم شروع کی وہ انتہائی قابل قدر و ستائش ہے۔
ان دنوں اخبار اور ٹیلیویژن ملکی خبروں میں پرائم منسٹر اور چیف منسٹرز کے بیانات، پالیسی اور کارکردگی کا احوال بعد میں بتاتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ، نیب اور خاص طور پر جناب چیف جسٹس کے دوران سماعت مقدمات میں دیے گئے ریمارکس اور احکامات کی کوریج شہ سرخیوں میں اور لمحہ بہ لمحہ کرتے اور دہراتے پائے جاتے ہیں۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے جو مفاد عامہ اور انتظامی امور میں اقدام اٹھاتے ہوئے حکومت وقت کی کوتاہیوں پر دامے، درمے، قدمے، سخنے دلچسپی لینے کے علاوہ کرپٹ مافیا پر برہمی اور سرزنش کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کی عوام نے زبردست پذیرائی کی ہے۔
چیف جسٹس نے البتہ کمرۂ عدالت کے باہر پائی جانے والی خرابیوں، کوتاہیوں، نالائقیوں اور بدمعاشیوں کا نوٹس اپنی مدت ملازمت کے آخری سال میں لینا شروع کیا ہے یہ الگ بات کہ ملکی عدلیہ اور عدالتوں کے اندر بھی بہت سی چیزیں توجہ طلب اور بہتری کے اقدام لیے جانے کی متقاضی ہیں۔ ہوا کے علاوہ پانی انسانی و حیوانی بقاء کے لیے اشد ضروری ہیں۔
چیف صاحب نے پانی کی کمی کے حوالے سے جو مہم شروع کی وہ انتہائی قابل قدر و ستائش ہے۔ ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم پاکستانی یقینا اس میں چیف جسٹس کے ساتھ قدم ملا کر مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
اچھا کیا کہ حکومت نے بھی اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان نے پانی کی کمیابی اور بجلی پانی کی ضرورت کے پیش نظر چیف جسٹس کی آواز میں آواز ملائی ہے اور اب ہر پاکستانی دس روپے ہوں یا دس لاکھ، اپنا حصہ ڈال کر ڈیم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
ملک کے سب سے بڑے اور ساحل سمندر پر واقع فارن ایکسچینج کمانے میں سر فہرست شہر کراچی کے شہریوں کی پیاس بجھانے کی ذمے دار صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت پر جو احتجاج ہر روز ٹیلیویژن کی اسکرین پر دیکھنے کو ملتا ہے، زمانۂ حال کی کہانی نہیں، جب میں پچاس سال قبل موسم گرما کی چھٹیاں گزارنے طالب علم کی حیثیت سے پہلی بار کراچی گیا تھا تب بھی پانی کے کنٹینر فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ سمندر سے پیاسوں کو جو شبنم ملتی تھی وہ بخیلی آج بھی روز اول کی طرح قائم ہے۔ شکر خدا کہ ہواؤں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ورنہ پیاسوں کو سانس لینے کے لیے بھی غبارے یا سلنڈر خریدنے پڑتے۔
پولیس کا ماٹو ہے ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' پہلے یہ Motto کسی کسی پولیس افسر کے دفتر میں لکھا ہوا نظر آتا تھا پھر یہ آہستہ آہستہ غائب ہو گیا اور مدت سے کسی جگہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ شاید اب کسی پولیس افسر یا اہلکار کو بھی یاد نہ ہو کہ ان کا فرض اولین شہریوں کی حفاظت اور مدد ہے۔ اب پولیس کا پسندیدہ اور فیورٹ شہری وہ ہے جو Criminal ہسٹری رکھتا ہو کیونکہ معصوم اور مظلوم تو خود مدد کا طالب ہوتا ہے، وہ بیچارہ پولیس کی کیا مالی مدد کر سکتا ہے۔
گزشتہ پندرہ بیس سال کے عرصہ میں ماسوائے PSP افسروں کے حکمرانوں نے نچلی سطح کی اکثر بھرتیاں سفارشیوں اور بدشہرتوں کی کی ہیں یا پھر رشوت کی بنیاد پر۔ لہٰذا شہری یاد رکھیں کہ ایسے پولیس اہلکاروں سے معصوم و مظلوم شہریوں کی بے لوث مدد کی توقع عبث ہے۔ ہماری موجودہ پولیس کی اکثریت اصول قانون اور ضمیر کے بجائے صرف حکمرانوں کے احکامات کی پابند ہے۔ اس کی مثال کی تلاش کے لیے کسی روز ماڈل ٹاؤن لاہور میں تجاوزات گرانے پر مامور درجن بھر تھانوں کی پولیس کی فائرنگ کے مناظر ٹیلیویژن پر نشر مکرر (Telecast) ہوتے دیکھ لیں اور دیکھ چکیں تو آنسو بھری آنکھیں لیے:
یا رو پڑیں یا ہاتھ اٹھا کر دعا کریں
پولیس فورس جس کے ذمے شہریوں کی مدد اور حفاظت ہوتی ہے ان کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتل عام کو تو سب نے TV پر دیکھا لیکن اب اس سرکاری محکمے کی بابت جانئے جو صارفین کو بجلی فراہم کرتا ہے لیکن اس کا میٹر ریڈر میٹروں کی ریڈنگ کو Reverse کرنے کے فن کی مہارت سے فیض عام کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میں خود ان کے کمالِ فن کا شاہد ہوں۔ بیس سال قبل مجھے سرکاری مکان الاٹ ہوا۔
سابق الاٹی قبلہ قاسم صاحب ایک روز تشریف لائے اور خوش ہوئے کہ میں اس میں شفٹ ہو گیا ہوں۔ فرمانے لگے کہ ایک تحفہ پیش کرنے آیا ہوں۔ ان کے ہمراہ ایک شخص تھا، مجھے بتایا کہ یہ میٹر ریڈر ہے۔ گرمیوں کا موسم تھا، قاسم صاحب نے اسے اشارہ کر کے کہا کہ میاں اپنا کام دکھاؤ۔ اس نے کچھ پرزے اور تاریں بجلی کے میٹر میں لگا کر چلائے اور کہا ''سر دو دن کے بعد میٹر ریڈنگ ہونی ہے، میں نے اس کی موجودہ ریڈنگ 90 فیصد Reverse کر دی ہے۔''
وہ چائے پی کر چلے گئے اور جاتے ہوئے کہا یہ ہر ماہ آیا کرے گا، اسے چائے پانی کے لیے کچھ دے دیا کیجیے گا۔ میں نے اسے اگلے ماہ آنے پر آئندہ کے لیے منع کر دیا۔ پولیس کی ماڈل ٹاؤن تجاوزات ختم کرنے والی کارکردگی تحریر کرنے کے بعد اخبار میں بجلی میٹر ریڈنگ Reverse کرنے والے ایک گینگ کی گرفتاری کی خبر پڑھی تو بیس سال پرانی آپ بیتی یاد آئی اور سرکاری ملازموں کی تعمیل حکم حاکم اور ناجائز شکم پروری کی بہت سی جگ بیتیاں بھی ذہن میں گھومنے لگیں۔ بجلی چوری سے فیض یاب ہونے والے فیکٹریوں کے مالکان نے محکمہ کے افسروں اور چھوٹے اہلکاروں کے بھی وارے نیارے کر دیے ہیں۔
گزشتہ ماہ میرے ایک کالم کا موضوع آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں نمبر پر آنے والی طاقت تھا۔ شکر ہے اگرچہ دیر آید لیکن درست آید کہ پاکستان کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی بے ہنر، بیمار، ان پڑھ اور جاہل آبادی پر اسلام آباد میں مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے ایک بھرپور اور کامیاب سمپوزیم کا انعقاد ہوا جس میں متعدد ماہرین، وزیراعظم اور چیف جسٹس نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ہر بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے، اس لیے پاپولیشن کنٹرول ملک کی خوشحالی، ترقی اور مضبوطی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ وزیراعظم نے اس سلسلہ میں ابتدائی اقدام کیے ہیں لیکن اس ضروری جہاد کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت اقدام کی ضرورت ہو گی۔
چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے جو مفاد عامہ اور انتظامی امور میں اقدام اٹھاتے ہوئے حکومت وقت کی کوتاہیوں پر دامے، درمے، قدمے، سخنے دلچسپی لینے کے علاوہ کرپٹ مافیا پر برہمی اور سرزنش کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کی عوام نے زبردست پذیرائی کی ہے۔
چیف جسٹس نے البتہ کمرۂ عدالت کے باہر پائی جانے والی خرابیوں، کوتاہیوں، نالائقیوں اور بدمعاشیوں کا نوٹس اپنی مدت ملازمت کے آخری سال میں لینا شروع کیا ہے یہ الگ بات کہ ملکی عدلیہ اور عدالتوں کے اندر بھی بہت سی چیزیں توجہ طلب اور بہتری کے اقدام لیے جانے کی متقاضی ہیں۔ ہوا کے علاوہ پانی انسانی و حیوانی بقاء کے لیے اشد ضروری ہیں۔
چیف صاحب نے پانی کی کمی کے حوالے سے جو مہم شروع کی وہ انتہائی قابل قدر و ستائش ہے۔ ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم پاکستانی یقینا اس میں چیف جسٹس کے ساتھ قدم ملا کر مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
اچھا کیا کہ حکومت نے بھی اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان نے پانی کی کمیابی اور بجلی پانی کی ضرورت کے پیش نظر چیف جسٹس کی آواز میں آواز ملائی ہے اور اب ہر پاکستانی دس روپے ہوں یا دس لاکھ، اپنا حصہ ڈال کر ڈیم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
ملک کے سب سے بڑے اور ساحل سمندر پر واقع فارن ایکسچینج کمانے میں سر فہرست شہر کراچی کے شہریوں کی پیاس بجھانے کی ذمے دار صوبائی حکومت کی مجرمانہ غفلت پر جو احتجاج ہر روز ٹیلیویژن کی اسکرین پر دیکھنے کو ملتا ہے، زمانۂ حال کی کہانی نہیں، جب میں پچاس سال قبل موسم گرما کی چھٹیاں گزارنے طالب علم کی حیثیت سے پہلی بار کراچی گیا تھا تب بھی پانی کے کنٹینر فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ سمندر سے پیاسوں کو جو شبنم ملتی تھی وہ بخیلی آج بھی روز اول کی طرح قائم ہے۔ شکر خدا کہ ہواؤں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ورنہ پیاسوں کو سانس لینے کے لیے بھی غبارے یا سلنڈر خریدنے پڑتے۔
پولیس کا ماٹو ہے ''پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی'' پہلے یہ Motto کسی کسی پولیس افسر کے دفتر میں لکھا ہوا نظر آتا تھا پھر یہ آہستہ آہستہ غائب ہو گیا اور مدت سے کسی جگہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ شاید اب کسی پولیس افسر یا اہلکار کو بھی یاد نہ ہو کہ ان کا فرض اولین شہریوں کی حفاظت اور مدد ہے۔ اب پولیس کا پسندیدہ اور فیورٹ شہری وہ ہے جو Criminal ہسٹری رکھتا ہو کیونکہ معصوم اور مظلوم تو خود مدد کا طالب ہوتا ہے، وہ بیچارہ پولیس کی کیا مالی مدد کر سکتا ہے۔
گزشتہ پندرہ بیس سال کے عرصہ میں ماسوائے PSP افسروں کے حکمرانوں نے نچلی سطح کی اکثر بھرتیاں سفارشیوں اور بدشہرتوں کی کی ہیں یا پھر رشوت کی بنیاد پر۔ لہٰذا شہری یاد رکھیں کہ ایسے پولیس اہلکاروں سے معصوم و مظلوم شہریوں کی بے لوث مدد کی توقع عبث ہے۔ ہماری موجودہ پولیس کی اکثریت اصول قانون اور ضمیر کے بجائے صرف حکمرانوں کے احکامات کی پابند ہے۔ اس کی مثال کی تلاش کے لیے کسی روز ماڈل ٹاؤن لاہور میں تجاوزات گرانے پر مامور درجن بھر تھانوں کی پولیس کی فائرنگ کے مناظر ٹیلیویژن پر نشر مکرر (Telecast) ہوتے دیکھ لیں اور دیکھ چکیں تو آنسو بھری آنکھیں لیے:
یا رو پڑیں یا ہاتھ اٹھا کر دعا کریں
پولیس فورس جس کے ذمے شہریوں کی مدد اور حفاظت ہوتی ہے ان کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتل عام کو تو سب نے TV پر دیکھا لیکن اب اس سرکاری محکمے کی بابت جانئے جو صارفین کو بجلی فراہم کرتا ہے لیکن اس کا میٹر ریڈر میٹروں کی ریڈنگ کو Reverse کرنے کے فن کی مہارت سے فیض عام کا مظاہرہ کرتا ہے۔ میں خود ان کے کمالِ فن کا شاہد ہوں۔ بیس سال قبل مجھے سرکاری مکان الاٹ ہوا۔
سابق الاٹی قبلہ قاسم صاحب ایک روز تشریف لائے اور خوش ہوئے کہ میں اس میں شفٹ ہو گیا ہوں۔ فرمانے لگے کہ ایک تحفہ پیش کرنے آیا ہوں۔ ان کے ہمراہ ایک شخص تھا، مجھے بتایا کہ یہ میٹر ریڈر ہے۔ گرمیوں کا موسم تھا، قاسم صاحب نے اسے اشارہ کر کے کہا کہ میاں اپنا کام دکھاؤ۔ اس نے کچھ پرزے اور تاریں بجلی کے میٹر میں لگا کر چلائے اور کہا ''سر دو دن کے بعد میٹر ریڈنگ ہونی ہے، میں نے اس کی موجودہ ریڈنگ 90 فیصد Reverse کر دی ہے۔''
وہ چائے پی کر چلے گئے اور جاتے ہوئے کہا یہ ہر ماہ آیا کرے گا، اسے چائے پانی کے لیے کچھ دے دیا کیجیے گا۔ میں نے اسے اگلے ماہ آنے پر آئندہ کے لیے منع کر دیا۔ پولیس کی ماڈل ٹاؤن تجاوزات ختم کرنے والی کارکردگی تحریر کرنے کے بعد اخبار میں بجلی میٹر ریڈنگ Reverse کرنے والے ایک گینگ کی گرفتاری کی خبر پڑھی تو بیس سال پرانی آپ بیتی یاد آئی اور سرکاری ملازموں کی تعمیل حکم حاکم اور ناجائز شکم پروری کی بہت سی جگ بیتیاں بھی ذہن میں گھومنے لگیں۔ بجلی چوری سے فیض یاب ہونے والے فیکٹریوں کے مالکان نے محکمہ کے افسروں اور چھوٹے اہلکاروں کے بھی وارے نیارے کر دیے ہیں۔
گزشتہ ماہ میرے ایک کالم کا موضوع آبادی کے لحاظ سے دنیا کی پانچویں نمبر پر آنے والی طاقت تھا۔ شکر ہے اگرچہ دیر آید لیکن درست آید کہ پاکستان کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی بے ہنر، بیمار، ان پڑھ اور جاہل آبادی پر اسلام آباد میں مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کے لیے ایک بھرپور اور کامیاب سمپوزیم کا انعقاد ہوا جس میں متعدد ماہرین، وزیراعظم اور چیف جسٹس نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ہر بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض پیدا ہو رہا ہے، اس لیے پاپولیشن کنٹرول ملک کی خوشحالی، ترقی اور مضبوطی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ وزیراعظم نے اس سلسلہ میں ابتدائی اقدام کیے ہیں لیکن اس ضروری جہاد کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف سخت اقدام کی ضرورت ہو گی۔