ہاکی ورلڈکپ قومی کھلاڑی میدان میں ٹھنڈے باہر سرگرم
سابق اولمپئن کی باتوں پر غور کیا تو ان میں خاصی صداقت دکھائی دی۔
ایک سابق ہاکی اولمپئن کی کال موصول ہوئی اور انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں بولنا شروع کیا کہ پاکستانی ٹیم بھارت میں کر کیا رہی ہے؟
قومی کپتان ورلڈ کپ سے باہر ہو چکا ہے، ٹیم کے کھلاڑی اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کی بجائے بھارتی گانوں پر رقص وسرود کی محفلوں میں مصروف ہیں، ہلا گلہ اس وقت اچھا لگتا ہے جب ٹیم کی گراؤنڈ کے اندر بھی پرفارمنس غیر معمولی ہو اور وہ کوئی ہدف حاصل کرچکی ہو، پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ میں جرمنی کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو چکی، ملائیشیا کے خلاف بھی بڑی مشکل سے میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو سکی، خوش قسمتی سے ایونٹ کی صورتحال ایسی ہے کہ مایوس کن کارکردگی کے باوجود گرین شرٹس ابھی تک ورلڈ کپ کی ٹائٹل کی دوڑ میں شامل ہیں۔
سابق اولمپئن کی باتوں پر غور کیا تو ان میں خاصی صداقت دکھائی دی، اس بار ورلڈ کپ کا فارمیٹ ایسا ہے کہ ابتدائی میچوں میں اچھا کھیل نہ پیش کرنے والی ٹیمیں بھی ٹائٹل کی دوڑ میں شامل ہیں۔ فارمیٹ کے مطابق ہر گروپ کی فاتح ٹیم کوارٹرفائنل میں جگہ بنائے گی جبکہ ہر گروپ کی دوسرے اور تیسرے نمبر کی ٹیمیں دوسرے راؤنڈ میں کھیلیں گی جہاں سے 4 کوارٹرفائنل میں پہلے سے موجود 4ٹیموں کے ساتھ شامل ہوجائیں گی۔ اسی فارمولے کے تحت ارجنٹائن، آسٹریلیا، بھارت اور جرمنی کی ٹیمیں اپنے گروپس میں پہلے نمبر پر آنے کی وجہ سے ٹاپ 8میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔
پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے گروپ ''ڈی'' میں شامل ہے، اس میں جرمنی تو اپنے پول میں ٹاپ کرنے کے بعد کوارٹرفائنل کے لیے کوالیفائی کر چکا ہے، پاکستان اور ہالینڈ میں سے کسی ایک کو پیش قدمی جاری رکھنے کا موقع ملے گا، دونوں ٹیموں کے درمیان آج اہم میچ ہے، پاکستانی ٹیم کیلیے بری خبر یہ ہے کہ اس اہم میچ کے لیے کپتان رضوان سینئر دستیاب نہیں، وہ ملائیشیا کے خلاف میچ کے دوران پاؤں کی انگلی زخمی ہونے کی وجہ سے ورلڈ کپ سے باہر ہو چکے ہیں۔
نائب کپتان عماد شکیل بٹ پر بھی ایک میچ کی پابندی عائد کر دی گئی تھی، پاکستانی ٹیم کے منیجر حسن سردار نے فیصلے کو ڈچ جج کی تعصب پسندی قرار دیا جو بخوبی جانتا تھا کہ پاکستان اور ہالینڈ کی ٹیموں کے درمیان کرو یا مرو والا میچ ہوگا، گرین شرٹس کی طاقت کو کم کرنے کے لیے ڈچ ریفری نے فیصلہ دیا ہے، پاکستان ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کئے جانے کے بعد یہ پابندی تو ختم کر دی گئی، تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا گرین شرٹس اب بھی مضبوط حریف کو زیر کرنے کے قابل ہیں؟
سابق اولمپئن کی بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ تفریح میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن یہ چیزیں بھی اسی وقت اچھی لگتی ہیں جب آپ کی گراؤنڈز کے اندر بھی پرفارمنس غیر معمولی ہو، پاکستان ہاکی ٹیم کی کارکردگی کی جو موجودہ صورت حال ہے، وہ سب کے سامنے ہے، خدانخواستہ اگر گرین شرٹس ورلڈ کپ میں کوارٹرفائنل کی دوڑ سے بھی باہر ہو گئے تو نہ صرف پاکستانی ٹیم کی عالمی سطح پر سبکی ہوگی بلکہ سپانسرز بھی قومی کھیل سے منہ موڑ لیں گے۔
قومی کپتان ورلڈ کپ سے باہر ہو چکا ہے، ٹیم کے کھلاڑی اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کی بجائے بھارتی گانوں پر رقص وسرود کی محفلوں میں مصروف ہیں، ہلا گلہ اس وقت اچھا لگتا ہے جب ٹیم کی گراؤنڈ کے اندر بھی پرفارمنس غیر معمولی ہو اور وہ کوئی ہدف حاصل کرچکی ہو، پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے ابتدائی میچ میں جرمنی کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو چکی، ملائیشیا کے خلاف بھی بڑی مشکل سے میچ ڈرا کرنے میں کامیاب ہو سکی، خوش قسمتی سے ایونٹ کی صورتحال ایسی ہے کہ مایوس کن کارکردگی کے باوجود گرین شرٹس ابھی تک ورلڈ کپ کی ٹائٹل کی دوڑ میں شامل ہیں۔
سابق اولمپئن کی باتوں پر غور کیا تو ان میں خاصی صداقت دکھائی دی، اس بار ورلڈ کپ کا فارمیٹ ایسا ہے کہ ابتدائی میچوں میں اچھا کھیل نہ پیش کرنے والی ٹیمیں بھی ٹائٹل کی دوڑ میں شامل ہیں۔ فارمیٹ کے مطابق ہر گروپ کی فاتح ٹیم کوارٹرفائنل میں جگہ بنائے گی جبکہ ہر گروپ کی دوسرے اور تیسرے نمبر کی ٹیمیں دوسرے راؤنڈ میں کھیلیں گی جہاں سے 4 کوارٹرفائنل میں پہلے سے موجود 4ٹیموں کے ساتھ شامل ہوجائیں گی۔ اسی فارمولے کے تحت ارجنٹائن، آسٹریلیا، بھارت اور جرمنی کی ٹیمیں اپنے گروپس میں پہلے نمبر پر آنے کی وجہ سے ٹاپ 8میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔
پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے گروپ ''ڈی'' میں شامل ہے، اس میں جرمنی تو اپنے پول میں ٹاپ کرنے کے بعد کوارٹرفائنل کے لیے کوالیفائی کر چکا ہے، پاکستان اور ہالینڈ میں سے کسی ایک کو پیش قدمی جاری رکھنے کا موقع ملے گا، دونوں ٹیموں کے درمیان آج اہم میچ ہے، پاکستانی ٹیم کیلیے بری خبر یہ ہے کہ اس اہم میچ کے لیے کپتان رضوان سینئر دستیاب نہیں، وہ ملائیشیا کے خلاف میچ کے دوران پاؤں کی انگلی زخمی ہونے کی وجہ سے ورلڈ کپ سے باہر ہو چکے ہیں۔
نائب کپتان عماد شکیل بٹ پر بھی ایک میچ کی پابندی عائد کر دی گئی تھی، پاکستانی ٹیم کے منیجر حسن سردار نے فیصلے کو ڈچ جج کی تعصب پسندی قرار دیا جو بخوبی جانتا تھا کہ پاکستان اور ہالینڈ کی ٹیموں کے درمیان کرو یا مرو والا میچ ہوگا، گرین شرٹس کی طاقت کو کم کرنے کے لیے ڈچ ریفری نے فیصلہ دیا ہے، پاکستان ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے سخت ردعمل ظاہر کئے جانے کے بعد یہ پابندی تو ختم کر دی گئی، تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا گرین شرٹس اب بھی مضبوط حریف کو زیر کرنے کے قابل ہیں؟
سابق اولمپئن کی بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ تفریح میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن یہ چیزیں بھی اسی وقت اچھی لگتی ہیں جب آپ کی گراؤنڈز کے اندر بھی پرفارمنس غیر معمولی ہو، پاکستان ہاکی ٹیم کی کارکردگی کی جو موجودہ صورت حال ہے، وہ سب کے سامنے ہے، خدانخواستہ اگر گرین شرٹس ورلڈ کپ میں کوارٹرفائنل کی دوڑ سے بھی باہر ہو گئے تو نہ صرف پاکستانی ٹیم کی عالمی سطح پر سبکی ہوگی بلکہ سپانسرز بھی قومی کھیل سے منہ موڑ لیں گے۔