اہلکار صرف گولیاں کھاتے ہیں افسران پلاٹوں کا کاروبار کر رہے ہیں چیف جسٹس
ایس پی سے آئی جی تک افسران نے خاندانوں سمیت بہتی گنگامیں ہاتھ دھوئے، افتخار محمد چوہدری کے ریمارکس
پولیس فائونڈیشن ہائوسنگ سوسائٹی میں بے قاعدگیوں کے مقدمے میں سپریم کورٹ کوبتایاگیاہے کہ 88 فیصد پلاٹ پرائیویٹ افراد اور22فیصد پولیس ملازمین کو ملے۔
پلاٹ حاصل کرنے والوں میں56کا تعلق مسلح افواج سے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصل حق تو چھوٹے پولیس اہلکاروں کا تھا مگر ان کوکچھ بھی نہیں ملا ، یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ پلاٹوں کی فروخت میں شفافیت نہیں تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منگل کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہا پلاٹوں کے اصل حقدار غریب پولیس ملازمین تھے ۔ آئی جی، ڈی آئی جی، ایس ایس پی سطح کے افسران نے اس بہتی گنگا میں خاندان سمیت ہاتھ دھوئے اور پھر بھی ان کو ذرا برابر افسوس نہیں۔
غریب پولیس اہلکار صرف سینوں پر گولیاں کھانے کیلیے ہیں، افسران نے ملی بھگت سے تمام پلاٹ خریدکرکاروبار شروع کردیے ہیں۔ غریب پولیس ملازم آج بھی اپنی چھت کیلیے پریشانیوںکا شکار ہیں،کسی قسم کی شفافیت نہیں۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا پولیس افسران کی اتنی تنخواہ اور ذرائع آمدن نہیں تھے کہ وہ اس طرح کے پلاٹس خریدتے، چور دروازے سے پولیس افسران نے پلاٹوں کی بندر بانٹ کی، دوسروںکو قانون کا درس دینے والے خود قانون شکنی کرتے رہے۔ سیکریٹری فائونڈیشن طارق جوئیہ نے پلاٹوں کی فہرست دی جس کے مطابق 166سرکاری افسران، 54 آرمی افسران، انجم عقیل239پلاٹس، این پی ایف 36کو پلاٹس، پولیس افسران کو 285 پلاٹ دیے گئے ۔
فہرست کے مطابق آخری پلاٹ 2009میںالاٹ کیاگیا، ڈاکٹر اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دو ماہ قبل گرین ایریا ختم کرکے10 پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ جسٹس اعجاز نے سیکریٹری کوکہا کہ اگر آپ نے جھوٹی فہرستیں بنا کردی ہیں تو اپنا بندوبست کرلیں ہم معاف نہیں کرینگے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ایک سے زائد پلاٹ حاصل کرنے والے 17پولیس افسران کی جانب سے علی ظفر ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔عدالت نے پوچھا کہ آپ کے موکلان نے ایک سے زائد پلاٹ حاصل کیے، عدالت کو مطمئن کریں کہ اس میں شفافیت تھی یا نہیں ؟۔چیف جسٹس نے کہا کیا اہلخانہ کے نام پلاٹ حاصل کیے جا سکتے تھے اورکیا ایک تنخواہ دار آدمی کے پاس اتنے پلاٹ خریدنے کیلیے سرمایہ موجود تھا ؟ عدالت کو ان افرادکے ذرائع آمدن کو بھی دیکھنا ہوگا۔
علی ظفر نے کہاکہ شفافیت کا جواب فائونڈیشن کی انتظامیہ دے سکتی ہے، ان کا کیس یہ ہے کہ انھوں نے ساڑھے 11لاکھ فی پلاٹ ادائیگی کرکے حاصل کیے ۔جسٹس چوہدری اعجاز نے پوچھا کہ آپ کوکیسے پتہ چلا کہ ایسی کوئی اسکیم ہے اور پلاٹ برائے فروخت ہیں؟کیا اس سلسلے میں میڈیا میںکوئی اشتہار دیا گیا تھا ؟۔علی ظفر نے تسلیم کیا کہ ایسا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا تھا ۔جسٹس اعجاز چوہدری نے کہاکہ پالیسی اوپن نہیں تھی، افسران کو اندرون خانہ آگاہ کر دیا گیا اور انھوں نے 5,5 پلاٹ لے لیے۔بعد ازاں عدالت پولیس فائونڈیشن اور خداداد ہائیٹس کے بعض متاثرین کو فرداً فرداً بھی سنا جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ۔
پلاٹ حاصل کرنے والوں میں56کا تعلق مسلح افواج سے ہے ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اصل حق تو چھوٹے پولیس اہلکاروں کا تھا مگر ان کوکچھ بھی نہیں ملا ، یہ بات صاف نظر آرہی ہے کہ پلاٹوں کی فروخت میں شفافیت نہیں تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے منگل کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہا پلاٹوں کے اصل حقدار غریب پولیس ملازمین تھے ۔ آئی جی، ڈی آئی جی، ایس ایس پی سطح کے افسران نے اس بہتی گنگا میں خاندان سمیت ہاتھ دھوئے اور پھر بھی ان کو ذرا برابر افسوس نہیں۔
غریب پولیس اہلکار صرف سینوں پر گولیاں کھانے کیلیے ہیں، افسران نے ملی بھگت سے تمام پلاٹ خریدکرکاروبار شروع کردیے ہیں۔ غریب پولیس ملازم آج بھی اپنی چھت کیلیے پریشانیوںکا شکار ہیں،کسی قسم کی شفافیت نہیں۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے کہا پولیس افسران کی اتنی تنخواہ اور ذرائع آمدن نہیں تھے کہ وہ اس طرح کے پلاٹس خریدتے، چور دروازے سے پولیس افسران نے پلاٹوں کی بندر بانٹ کی، دوسروںکو قانون کا درس دینے والے خود قانون شکنی کرتے رہے۔ سیکریٹری فائونڈیشن طارق جوئیہ نے پلاٹوں کی فہرست دی جس کے مطابق 166سرکاری افسران، 54 آرمی افسران، انجم عقیل239پلاٹس، این پی ایف 36کو پلاٹس، پولیس افسران کو 285 پلاٹ دیے گئے ۔
فہرست کے مطابق آخری پلاٹ 2009میںالاٹ کیاگیا، ڈاکٹر اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ دو ماہ قبل گرین ایریا ختم کرکے10 پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ جسٹس اعجاز نے سیکریٹری کوکہا کہ اگر آپ نے جھوٹی فہرستیں بنا کردی ہیں تو اپنا بندوبست کرلیں ہم معاف نہیں کرینگے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ایک سے زائد پلاٹ حاصل کرنے والے 17پولیس افسران کی جانب سے علی ظفر ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔عدالت نے پوچھا کہ آپ کے موکلان نے ایک سے زائد پلاٹ حاصل کیے، عدالت کو مطمئن کریں کہ اس میں شفافیت تھی یا نہیں ؟۔چیف جسٹس نے کہا کیا اہلخانہ کے نام پلاٹ حاصل کیے جا سکتے تھے اورکیا ایک تنخواہ دار آدمی کے پاس اتنے پلاٹ خریدنے کیلیے سرمایہ موجود تھا ؟ عدالت کو ان افرادکے ذرائع آمدن کو بھی دیکھنا ہوگا۔
علی ظفر نے کہاکہ شفافیت کا جواب فائونڈیشن کی انتظامیہ دے سکتی ہے، ان کا کیس یہ ہے کہ انھوں نے ساڑھے 11لاکھ فی پلاٹ ادائیگی کرکے حاصل کیے ۔جسٹس چوہدری اعجاز نے پوچھا کہ آپ کوکیسے پتہ چلا کہ ایسی کوئی اسکیم ہے اور پلاٹ برائے فروخت ہیں؟کیا اس سلسلے میں میڈیا میںکوئی اشتہار دیا گیا تھا ؟۔علی ظفر نے تسلیم کیا کہ ایسا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا تھا ۔جسٹس اعجاز چوہدری نے کہاکہ پالیسی اوپن نہیں تھی، افسران کو اندرون خانہ آگاہ کر دیا گیا اور انھوں نے 5,5 پلاٹ لے لیے۔بعد ازاں عدالت پولیس فائونڈیشن اور خداداد ہائیٹس کے بعض متاثرین کو فرداً فرداً بھی سنا جس کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ۔