پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئر کی ڈیمانڈ کم ہے صدر مملکت
ربوٹکس میں ابھی سے کام کرنا ہو گا، یورپ میں 80 فیصد لوگ ایسے چاہئیں جو ڈیجیٹل معلومات رکھتے ہوں
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مصنوعی ذہانت کو چوتھا انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ الیکشن کی تیاری میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ پاکستان میں سافٹ ویئر انجینئرکی کھپت بہت کم ہے۔
جس کی اہم وجہ جامعات میں طلبہ کودی جانے والی تربیت میں کمی رہ جانا ہے جوایک تشویشناک بات ہے جبکہ ربوٹکس میں پاکستان کوابھی سے کام کرنا ہوگا کیونکہ یورپ میں 80 فیصد لوگ ایسے چاہئیں جو ڈیجیٹل معلومات رکھتے ہوں، ان خیالات کا اظہار انھوں نے اقرا یونیورسٹی کے زیر اہتمام پریزیڈینشیل انیشیٹیو برائے آرٹیفیشل انٹیلی جنس اینڈ کمپیوٹنگ کے افتتاح کے موقع پرکیا، تقریب میں چیئرمین اقرا یونیورسٹی حنید حسین لاکھانی ، چیئرمین پاکستان اسٹاک ایکسچینج سلیمان مہدی، صدر سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ ، سی ای او پینا کلاؤڈ پرائیویٹ ضیا اللہ خان بھی موجود تھے۔
صدر مملکت عارف علوی نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سائنس میرا پرانا اور پسندیدہ مضمون ہے دواران تعلیم میں نے بائیالوجی کا انتخاب کیا تھا جبکہ میں فزکس میں بہت اچھا تھا میرے والد صاحب کو پرنسپل نے بلایا اور کہا کہ بائیولوجی کو چھوڑکر فزکس اور ریاضی پڑھوں جبکہ میری ضد تھی کہ مجھے بائیولوجی ہی پڑھنی ہے، بائیو میڈیکل سائنس میں جانے کے باوجود بھی سائنس اور فزکس کا شوق برقرار رہا ،انھوں نے کہا کہ موجودہ الیکشن کی تیاری ہو رہی تھی تو کئی سافٹ ویئر انجینئرز نے مجھ سے ملاقاتیں کیں اور شکایت کی کہ اس وقت پاکستان کے اندرآئی ٹی کے زیادہ ماہر لوگ نہیں ہیں جس کی اہم وجہ یونیورسٹی کے اندرکچھ کمی ہے جو ایک تشویشناک بات ہے۔
جنوری میں تمام جامعات کے وائس چانسلرکی کانفرنس بلاؤںگا اوروائس چانسلرز کواس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں کہ مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ کمپیوٹنگ ہی مشکلات سے نکلنے کا راستہ ہے، مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ ڈیڑھ ملین ڈالر ہے مگر توقع ہے کہ 2020تک دواور 2025 تک اس کی قیمت تین ٹریلین ڈالر تک جاپہنچے گی ضروری نہیں کہ کمیونی کیشن کے زمانے میں عمارتیں بنائی جائیں بلکہ دانشورانہ (انٹی لیکچول) اینٹ رکھنا ضروری ہے طلبہ اس کی مدد سے فری لانس کام کرکے کمائی کرسکتے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر امیگریشن پالیسی سخت ہوتی جا رہی ہیں بہترین موقع یہی ہے کہ ہمارے نوجوان ملک میں رہ کرکام کریں۔
جس کی اہم وجہ جامعات میں طلبہ کودی جانے والی تربیت میں کمی رہ جانا ہے جوایک تشویشناک بات ہے جبکہ ربوٹکس میں پاکستان کوابھی سے کام کرنا ہوگا کیونکہ یورپ میں 80 فیصد لوگ ایسے چاہئیں جو ڈیجیٹل معلومات رکھتے ہوں، ان خیالات کا اظہار انھوں نے اقرا یونیورسٹی کے زیر اہتمام پریزیڈینشیل انیشیٹیو برائے آرٹیفیشل انٹیلی جنس اینڈ کمپیوٹنگ کے افتتاح کے موقع پرکیا، تقریب میں چیئرمین اقرا یونیورسٹی حنید حسین لاکھانی ، چیئرمین پاکستان اسٹاک ایکسچینج سلیمان مہدی، صدر سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ ، سی ای او پینا کلاؤڈ پرائیویٹ ضیا اللہ خان بھی موجود تھے۔
صدر مملکت عارف علوی نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ سائنس میرا پرانا اور پسندیدہ مضمون ہے دواران تعلیم میں نے بائیالوجی کا انتخاب کیا تھا جبکہ میں فزکس میں بہت اچھا تھا میرے والد صاحب کو پرنسپل نے بلایا اور کہا کہ بائیولوجی کو چھوڑکر فزکس اور ریاضی پڑھوں جبکہ میری ضد تھی کہ مجھے بائیولوجی ہی پڑھنی ہے، بائیو میڈیکل سائنس میں جانے کے باوجود بھی سائنس اور فزکس کا شوق برقرار رہا ،انھوں نے کہا کہ موجودہ الیکشن کی تیاری ہو رہی تھی تو کئی سافٹ ویئر انجینئرز نے مجھ سے ملاقاتیں کیں اور شکایت کی کہ اس وقت پاکستان کے اندرآئی ٹی کے زیادہ ماہر لوگ نہیں ہیں جس کی اہم وجہ یونیورسٹی کے اندرکچھ کمی ہے جو ایک تشویشناک بات ہے۔
جنوری میں تمام جامعات کے وائس چانسلرکی کانفرنس بلاؤںگا اوروائس چانسلرز کواس بات کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں کہ مصنوعی ذہانت، کلاؤڈ کمپیوٹنگ ہی مشکلات سے نکلنے کا راستہ ہے، مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ ڈیڑھ ملین ڈالر ہے مگر توقع ہے کہ 2020تک دواور 2025 تک اس کی قیمت تین ٹریلین ڈالر تک جاپہنچے گی ضروری نہیں کہ کمیونی کیشن کے زمانے میں عمارتیں بنائی جائیں بلکہ دانشورانہ (انٹی لیکچول) اینٹ رکھنا ضروری ہے طلبہ اس کی مدد سے فری لانس کام کرکے کمائی کرسکتے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر امیگریشن پالیسی سخت ہوتی جا رہی ہیں بہترین موقع یہی ہے کہ ہمارے نوجوان ملک میں رہ کرکام کریں۔