عید مبارک انعام مبارک

اگر بم دھماکا نہیں ہوا تو عید کی خوشی میں یہ ایک اور خوشی شامل ہو گی

rvmsyndlcate@gmail.com

اب سے پہلے تو ہمارے یہاں بقول شاعر بنام احمد مشتاق ''کئی چاند تھے سر آسماں'' بلکہ بارہ ہجری مہینوں کے بارہ چاند۔ ہر چاند اپنی دید کے لیے الگ شرائط لے کر طلوع ہوتا تھا۔ اب لے دے کے ایک چاند رہ گیا ہے۔ عید کا چاند۔ اس ایک چاند کی دید کے لیے 29 رمضان کی شام کو کتنی مشتاق نگاہیں آسمان پر لگی ہوتی ہیں اور کتنے ارمان کتنی تمنائیں اس چاند سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اس چاند سے ہمارے دو بڑے شاعروں نے مکالمہ کیا ہے۔ ایک نے براہ راست دوسرے نے بالواسطہ۔ پہلا شاعر ہے غالب۔ عید کے چاند سے اس کا مکالمہ سنیے:

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام
دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح
یہی انداز اور یہی اندام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز ہے گردشِ ایام
اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام

اب سنیے اقبال کا مکالمہ عید کے چاند سے۔ شاعر نے جانے اس چاند سے کیا کہا تھا جو ادھر سے یہ جلا کٹا جواب آیا:

یہ شالامار میں اک برگِ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسم گل جس کی یادگار ہوں میں
خزاں میں مجھکو رلاتی ہے یادِ فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے مے خانے
گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں
پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

ہماری ہنسی اڑاتے اڑاتے خود غائب ہو گیا۔ پیچھے چاند رات کو چھوڑ گیا۔ چاند رات کی اپنی بہار ہے۔ مہندی سے رچتی ہتھیلیوں کو دیکھو۔ کلائیوں پر چڑھتی رنگارنگ چوڑیوں کو دیکھو۔ روا روی میں سلتے عید کے جوڑوں کو دیکھو اور صبح عید کا انتظار کرو۔


جب صبح عید نمودار ہو گی تو نمازی مسجدوں کی طرف لپک جھپک جاتے نظر آئیں گے مگر یہ تو اب کا نقشہ ہے۔ گئے زمانوں میں مسجدوں میں نماز عید کون ادا کرتا تھا۔ سنت یہ بتائی جاتی تھی کہ شہر سے نکل کر کسی کھلے میدان میں صفیں بناؤ اور عید کا دوگانہ پڑھو۔ جب کھلے میدانوں میں نماز عید کی ریت پڑی تو اسے عیدگاہ کا نام دیا گیا اور اس کی شناخت اس طرح مقرر کی کہ ایک لمبی سی دیوار کھڑی کی۔ اس کے دائیں بائیں دو بلند وبالا مینار۔ درمیان میں گنبد۔ باقی دیوار میں طاق طاقچے اور ایک محراب۔ احاطہ کھنچ گیا تو فبہا نہیں ہے تو کوئی بھی مضائقہ نہیں۔ کھلے میدان میں آسمان تلے جانماز کے نام جاجم یا دری بچھائی جائے۔ ہاں وضو کے لیے پانی کا انتظام ہونا چاہیے اور مٹی کے بدھنوں کا۔

عیدگاہ کا ایک منظر تو یہ ہوا۔ دوسرا منظر نظیر اکبر آبادی کی زبانی سنیے:

کچھ بھیڑ سی ہے بھیڑ کہ بے حد و بے شمار
خلقت کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ہیں بندھے ہر طرف ہزار
ہاتھی و گھوڑے بیل و رتھ و اونٹ کی قطار
غل شور بالے بھولے کھلونوں کی ہے قطار
کیا کیا مزے ہیں عید کے آج عیدگاہ میں

یہ تھا عید کا میلہ جو عید گاہ میں نمازیوں کی صفوں سے تھوڑا ہٹ کر امنڈتا نظر آتا تھا اور وہاں سب سے بڑھ کر بچے اپنے بڑوں کی انگلی پکڑ کر پہنچتے تھے اور کھلونے خریدتے تھے۔ مٹی کے ہاتھی' گھوڑے' غبارے' پیپنیاں' تاشہ بجاتی مٹی کی چھوٹی سی گاڑی۔

عیدگاہ سے جب ہم بیگانہ ہوئے تو پھر عید میلہ کی گہما گہمی سے بھی گئے۔ اب شہر ہی کے اندر مسجدوں میں نماز عید ادا کرتے ہیں اور شان یہ ہے کہ پولیس کے پہرے میں ادا کرتے ہیں۔ بھلا ان نمازیوں کو کس کا خوف ہے۔ کسی غیر کا نہیں' مرد مسلمان کو اب مرد مسلمان ہی کا خوف رہتا ہے۔ خیر اگر بم دھماکا نہیں ہوا تو عید کی خوشی میں یہ ایک اور خوشی شامل ہو گئی۔ اور عید کی مبارک باد اب ڈبل ہو گئی۔ ایک عید کی مبارکباد۔ ایک مبارک باد اس پر کہ نماز عید ادا کر کے خیریت سے گھر آ گئے۔ علامہ صاحب نے ٹھیک کہا:

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

ایک مبارک باد ہم پر اور بھی واجب ہے۔ ارے عید سے پہلے ایک قومی تیوہار بھی تو ہوا تھا۔ 14 اگست ابھی ابھی تو گزری ہے۔ اس روز منتخب شخصیتوں کے لیے قومی ایوارڈوں کا اعلان ہوا۔ ویسے تو ہر سال یہ رسم ادا ہوتی ہے اور ایوارڈ یافتگان کے ناموں کا اعلان ہوتا ہے۔ سول ایوارڈ پانے والوں میں کچھ منتخب ادیب' صحافی اور آرٹسٹ بھی ہوتے ہیں۔ وہ مبارک باد کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ اس سال اس رسم کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ گئی بالخصوص پڑھے لکھے لوگوں کے حلقہ میں کہ ایسے افسانہ نگار کو ایوارڈ دیا گیا جس کی ان دنوں اس کی پیدائش کے سو سال پورے ہونے پر یادگار منائی جا رہی ہے۔ سمجھ لیجیے کہ یہ سال منٹو سے منسوب ہے۔ پاکستان میں ہندوستان میں اور اس برصغیر سے باہر یونیورسٹیوں میں ادبی اداروں میں اس ذیل میں سیمینار ہو رہے ہیں۔ اپنے وقت میں وہ اپنے ملک میں معتوب تھا۔ کیوں۔ اس لیے کہ بقول اقبال:

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ادھر حکومت ناخوش تھی۔ ادھر ترقی پسند تحریک کا بھی نزلہ اس پر گر رہا تھا۔

باغیانہ سوچ رکھنے والے ادیبوں کے ساتھ یہ ہوتی آئی ہے مگر جب وہ وقت گزر جاتا ہے تو سارے الزامات کافور ہو جاتے ہیں اور لکھنے والے کے فن کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سو پچھلی حکومتوں کا رویہ کچھ بھی رہا ہو اس دور حکومت میں یہ ہوا کہ میاں رضا ربانی نے بطور خاص صدر مملکت کو خط لکھا اور منٹو صاحب کے ادبی مقام و مرتبہ کا احساس دلاتے ہوئے حکومت کی طرف سے ایوارڈ کی سفارش کی۔ لیجیے منٹو صاحب کو نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ ادبی حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا گیا۔

ہاں ایک ایوارڈ مرحومین میں سے جوش ملیح آبادی کو بھی ملا۔ وہ بھی تو حکومت کے معتوبین ہی کی صف میں شمار ہوتے تھے۔ اب وہ ہلال امتیاز سے نوازے گئے۔

اور ہاں ایک ایوارڈ کے لیے ہمیں مبارکباد ہندوستان کی طرف بھیجنی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بھی تو ستارہ امتیاز نام کا ایوارڈ عطا ہوا ہے۔ اس ایوارڈ کی اپنی اہمیت اور معنویت ہے بلکہ اس ایوارڈ کو تو اس قومی پالیسی کے تحت دیکھنا چاہیے جس کا اعلان قائداعظم نے اپنی 11 اگست 1947 والی تقریر میں کیا تھا کہ جب قومی سطح پر سوچ رہے ہوں تو سوچنے والوں کو مذہبی تعریف وامتیاز سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے۔ سو اس سے پہلے جب شمس الرحمن فاروقی کو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس کی اپنی اہمیت تھی۔ اس ایوارڈ کی اس سے الگ اپنی اہمیت اور معنویت ہے۔ پاکستان کے ادبی حلقوں میں اس ایوارڈ کا بھی بہت خیر مقدم ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جا رہا ہے کہ سرکاری سوچ میں اب پہلے کی نسبت کتنی وسعت پیدا ہو چلی ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story