ہوش کے ناخن نہ لیے تو……
شمالی وزیرستان میں آخر کار آپریشن ہوگا اور اس کے بروئے کار آنے میں صرف ’’موزوں وقت‘‘ کا انتظار ہے
پاکستان نے واشنگٹن کو آگاہ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں کسی بھی کارروائی کی صورت میں امریکی فوج کو افغان سرحد بند کرنا ہوگی ۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایک عرب ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ ''ہمسایہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی تقدیر افغانستان سے جڑی ہوئی ہے۔ ہمارے لیے واشنگٹن سے زیادہ کابل اہم ہے۔ پڑوس میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی ''واپسی'' نہیں چاہتے۔ اب فیصلے ''مقبولیت'' کی بنا پر نہیں بہتر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوں گے۔''
دوسری طرف ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے پاکستانی سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے ایک خبر دی کہ قبل ازیں بھی ''دومرتبہ'' شمالی وزیرستان میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی لیکن سرحدوں کی بندش کے حوالے سے امریکیوں نے حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے دورہ امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ کسی بھی عسکری کارروائی کے لیے امریکی فوجیوں کو پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو وہ ہم خود کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن حکومت کو بتا دیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فی الوقت کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
ان خبروں کے پس منظر میں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کا انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ پاکستان افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں فوجی کارروائی شروع کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے جب کہ ''امریکا اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی امید ہی چھوڑ چکا تھا ''۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فوجی کارروائی کب شروع ہوگی لیکن انھوں نے کہا کہ وہ ''سمجھتے ہیں'' کہ ایسا جلد ہی ہوگا لیکن اس کا ہدف حقانی نیٹ ورک کے بجائے پاکستانی طالبان ہوں گے۔
یاد رہے کہ اس وقت یہ جنگجو پاکستانی علاقوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور پاک فوج کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ (پاک فوج پر مسلسل حملوں کے بعد پاکستانی رائے عامہ کی بڑی اکثریت میں یہ تاثر تقویب پکڑ چکا ہے کہ انھیں غیر ملکی قوتوں کی مدد حاصل ہے۔) امریکی وزیر دفاع کے اس انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیںپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جو اشارہ ملا اسے انھوں نے اپنی سمجھ کے مطابق یہ سمجھا کہ پاکستان ایک تو شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے گا دوئم انھوں نے اس سے اپنی سمجھ کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ آپریشن جلد اور مستقبل قریب میں ہوگا۔
بقول ان کے اس سے پہلے امریکا نے شمالی وزیرستان آپریشن کی امید ہی چھوڑ دی تھی۔ امریکی دفاع نے اس حوالے سے اپنی بے خبری بھی تسلیم کی کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فوجی کارروائی کب شروع ہوگی۔ اپنے اس اہم ترین انٹرویو میں امریکی وزیر دفاع نے کہیں نہیں کہا کہ جنرل کیانی نے کہا ہے کہ یہ فوجی آپریشن امریکا اور پاکستان کا مشترکہ ہوگا۔ کیونکہ اس سے پہلے اعلیٰ امریکی عسکری اہلکار بھی اس بات کی تصدیق کرچکے تھے کہ امریکی فوجی بوٹ پاک سرزمین پر نہیں آئیں گے۔
اسی بات کی تصدیق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایساف کے کمانڈر جنرل ایلن سے یہ کہہ کر کی کہ یہ کہنا غلط ہے کہ شمالی وزیرستان میں پاک امریکا مشترکہ آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کا مزید کہنا تھا کہ ہم جب ضروری سمجھیں گے شمالی وزیرستان میں کارروائی کریں گے لیکن اس کے لیے وقت کا انتخاب اپنی فوجی اور سیاسی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا اور کسی بھی صورت میں بیرونی دبائو قبول نہیں کیا جائے گا۔ امریکی جنرل سے ملاقات میں دونوں طرف سے فوجی تعاون پر اظہار اطمینان اور مستقبل میں تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ امریکی وزیر دفاع اور آرمی چیف کے بیان سے یہ تو واضح ہوگیا کہ شمالی وزیرستان میں آخر کار آپریشن ہوگا اور اس کے بروئے کار آنے میں صرف ''موزوں وقت'' کا انتظار ہے۔
ادھر وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان درد سر بنے ہوئے ہیں، اب ان کے متعلق کچھ نہ کچھ سوچنا پڑے گا۔ بے نظیر کے قاتلوں کا تعلق بھی اسی علاقہ سے تھا۔ پوری قوم کو جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان علاقوں میں چھپے ہوئے شدت پسندوں سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ رحمن ملک نے کہا کہ دہشت گردی کی ہر کارروائی کا تعلی شمالی وزیرستان سے ہے۔ ملک بھر کے مجرموں کو طالبان نے پناہ دے رکھی ہے۔ وزیرستان میں آپریشن کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں بلکہ خود پاکستانی فورسز کریں گی۔
دہشت گرد کتنے منظم اور ان کا نیٹ ورک کتنا وسیع ہے کہ ہر دفعہ انھوں نے اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کیا اور ان کو اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے سے نہ روکا جاسکا۔ دہشت گرد کسی طرح اندر تک سرایت کیے ہوئے ہیں۔حساس مقامات پر ہونے والے حملوں میں اندر کے لوگ ملوث تھے۔ اسی طرح حالیہ حملے میںبھی زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اندرکے لوگ ملوث ہوں۔ ہر محب وطن باشعور پاکستانی کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو مسلسل دنیا کی بہترین فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اس گروہ کے ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں۔
جدید ترین قیمتی اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ خوراک اور تنخواہ کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں۔ اسی سے آپ ان کی طاقت اور قوت کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور حکومتی اداروں کی بے بسی کا۔ ان کے معاون و مددگار پاکستان کے اندرکی قوتیںہیں کہ سیکڑوں حملوں میں ملوث ان دہشت گردوں کو نہ تو آج تک پکڑا جاسکا ہے اور نہ ہی سزا مل سکی ہے۔ کسی ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس ملک کے اپنے ہی شہری ان دہشت گردوںکے معاون و مددگار ہوں۔
اصل مسئلہ پاکستان پر قبضے کا ہے، وہ قوتیں جنہوں نے پاکستان کو وجود میں آنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ،آج پاکستان پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی ہیں ، چاہے خدانخواستہ پاکستان کے وجود کا ہی خاتمہ ہوجائے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اگر پاکستانی قوم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پاکستان پر طالبان کا قبضہ مکمل ہونے والا ہے۔
شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالے سے پہلا اہم وقت ستمبر کا مہینہ ہے۔
انتخابات کے حوالے سے اہم مہینہ اکتوبر ہے۔
اوقات رابطہ پیر تا جمعہ دوپہر 2 بجے تا شام 6 بجے
سیل فون نمبر:0346-4527997
دوسری طرف ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے پاکستانی سیکیورٹی اہلکار کے حوالے سے ایک خبر دی کہ قبل ازیں بھی ''دومرتبہ'' شمالی وزیرستان میں آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی لیکن سرحدوں کی بندش کے حوالے سے امریکیوں نے حوصلہ افزا جواب نہ دیا۔ اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے دورہ امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ کسی بھی عسکری کارروائی کے لیے امریکی فوجیوں کو پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو وہ ہم خود کریں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن حکومت کو بتا دیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فی الوقت کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔
ان خبروں کے پس منظر میں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کا انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ پاکستان افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں فوجی کارروائی شروع کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے جب کہ ''امریکا اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی امید ہی چھوڑ چکا تھا ''۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فوجی کارروائی کب شروع ہوگی لیکن انھوں نے کہا کہ وہ ''سمجھتے ہیں'' کہ ایسا جلد ہی ہوگا لیکن اس کا ہدف حقانی نیٹ ورک کے بجائے پاکستانی طالبان ہوں گے۔
یاد رہے کہ اس وقت یہ جنگجو پاکستانی علاقوں پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور پاک فوج کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔ (پاک فوج پر مسلسل حملوں کے بعد پاکستانی رائے عامہ کی بڑی اکثریت میں یہ تاثر تقویب پکڑ چکا ہے کہ انھیں غیر ملکی قوتوں کی مدد حاصل ہے۔) امریکی وزیر دفاع کے اس انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیںپاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جو اشارہ ملا اسے انھوں نے اپنی سمجھ کے مطابق یہ سمجھا کہ پاکستان ایک تو شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے گا دوئم انھوں نے اس سے اپنی سمجھ کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ آپریشن جلد اور مستقبل قریب میں ہوگا۔
بقول ان کے اس سے پہلے امریکا نے شمالی وزیرستان آپریشن کی امید ہی چھوڑ دی تھی۔ امریکی دفاع نے اس حوالے سے اپنی بے خبری بھی تسلیم کی کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فوجی کارروائی کب شروع ہوگی۔ اپنے اس اہم ترین انٹرویو میں امریکی وزیر دفاع نے کہیں نہیں کہا کہ جنرل کیانی نے کہا ہے کہ یہ فوجی آپریشن امریکا اور پاکستان کا مشترکہ ہوگا۔ کیونکہ اس سے پہلے اعلیٰ امریکی عسکری اہلکار بھی اس بات کی تصدیق کرچکے تھے کہ امریکی فوجی بوٹ پاک سرزمین پر نہیں آئیں گے۔
اسی بات کی تصدیق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایساف کے کمانڈر جنرل ایلن سے یہ کہہ کر کی کہ یہ کہنا غلط ہے کہ شمالی وزیرستان میں پاک امریکا مشترکہ آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف کا مزید کہنا تھا کہ ہم جب ضروری سمجھیں گے شمالی وزیرستان میں کارروائی کریں گے لیکن اس کے لیے وقت کا انتخاب اپنی فوجی اور سیاسی ضروریات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا اور کسی بھی صورت میں بیرونی دبائو قبول نہیں کیا جائے گا۔ امریکی جنرل سے ملاقات میں دونوں طرف سے فوجی تعاون پر اظہار اطمینان اور مستقبل میں تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ امریکی وزیر دفاع اور آرمی چیف کے بیان سے یہ تو واضح ہوگیا کہ شمالی وزیرستان میں آخر کار آپریشن ہوگا اور اس کے بروئے کار آنے میں صرف ''موزوں وقت'' کا انتظار ہے۔
ادھر وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان درد سر بنے ہوئے ہیں، اب ان کے متعلق کچھ نہ کچھ سوچنا پڑے گا۔ بے نظیر کے قاتلوں کا تعلق بھی اسی علاقہ سے تھا۔ پوری قوم کو جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان علاقوں میں چھپے ہوئے شدت پسندوں سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔ رحمن ملک نے کہا کہ دہشت گردی کی ہر کارروائی کا تعلی شمالی وزیرستان سے ہے۔ ملک بھر کے مجرموں کو طالبان نے پناہ دے رکھی ہے۔ وزیرستان میں آپریشن کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں بلکہ خود پاکستانی فورسز کریں گی۔
دہشت گرد کتنے منظم اور ان کا نیٹ ورک کتنا وسیع ہے کہ ہر دفعہ انھوں نے اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کیا اور ان کو اپنے ٹارگٹ پر پہنچنے سے نہ روکا جاسکا۔ دہشت گرد کسی طرح اندر تک سرایت کیے ہوئے ہیں۔حساس مقامات پر ہونے والے حملوں میں اندر کے لوگ ملوث تھے۔ اسی طرح حالیہ حملے میںبھی زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اندرکے لوگ ملوث ہوں۔ ہر محب وطن باشعور پاکستانی کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو مسلسل دنیا کی بہترین فوج کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اس گروہ کے ماہانہ کروڑوں روپے کے اخراجات کہاں سے آتے ہیں۔
جدید ترین قیمتی اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ خوراک اور تنخواہ کے اخراجات کہاں سے پورے ہوتے ہیں۔ اسی سے آپ ان کی طاقت اور قوت کا اندازہ لگاسکتے ہیں اور حکومتی اداروں کی بے بسی کا۔ ان کے معاون و مددگار پاکستان کے اندرکی قوتیںہیں کہ سیکڑوں حملوں میں ملوث ان دہشت گردوں کو نہ تو آج تک پکڑا جاسکا ہے اور نہ ہی سزا مل سکی ہے۔ کسی ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس ملک کے اپنے ہی شہری ان دہشت گردوںکے معاون و مددگار ہوں۔
اصل مسئلہ پاکستان پر قبضے کا ہے، وہ قوتیں جنہوں نے پاکستان کو وجود میں آنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ،آج پاکستان پر قبضہ کرنے کی سرتوڑ کوششیں کررہی ہیں ، چاہے خدانخواستہ پاکستان کے وجود کا ہی خاتمہ ہوجائے۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ اگر پاکستانی قوم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پاکستان پر طالبان کا قبضہ مکمل ہونے والا ہے۔
شمالی وزیرستان آپریشن کے حوالے سے پہلا اہم وقت ستمبر کا مہینہ ہے۔
انتخابات کے حوالے سے اہم مہینہ اکتوبر ہے۔
اوقات رابطہ پیر تا جمعہ دوپہر 2 بجے تا شام 6 بجے
سیل فون نمبر:0346-4527997