وزیر اعظم کی تاجروں سے ملاقات
وزیراعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہنڈی اور دیگر غیرقانونی ذرایع سے ملکی سرمایہ بڑے پیمانے پر باہر جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اتوار کو دورہ کراچی کے موقعے پر تاجر برادری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہر قائد کو دوبارہ معاشی ترقی کی طرف گامزن کرنا ہے، حکومت نے کاروباری سہولتوں کی زیادہ سے زیادہ فراہمی اور طریقہ کار کو آسان بنانے کے ذریعے ملک کو دنیا کے پہلے 100 ممالک میں شامل کرنے کا ہدف مقررکر رکھا ہے، جب سے حکومت قائم ہوئی ہے اسے گرانے کی سازشیں جاری ہیں۔
معاشی پالیسی کے قیام میں تاجروںکی تجاویزکو بھی شامل کیا جائے گا، بیرونی سرمایہ کاری سے کراچی کا مثبت امیج اجاگر ہوگا، حکومت تاجر اور صنعت کار برادری کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے گی، وفاق کے تعاون سے جاری منصوبے جلد مکمل کیے جائیںگے، صوبے اور وفاق میں ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا اور تاجروںکے خدشات و مسائل دور کیے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ کراچی کے موقع پر ان سے کراچی چیمبر آف کامرس' ایف پی سی سی آئی کے وفد اور صنعتکاروں نے ملاقات کے دوران تاجر برادری کو درپیش مسائل سے آگاہ کرنے کے علاوہ معاشی پالیسی کے قیام میں تاجروں کی تجاویز کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے تاجر برادری کو یقین دلایا کہ حکومت تاجروں سے کیے گئے تمام وعدوں کی تکمیل یقینی بنائے گی اور معیشت سے متعلق ہر فیصلے پر ان کی مشاورت کو شامل کیا جائے گا۔
کراچی میں جاری تجاوزات کے خلاف آپریشن جہاں قانونی طور پر جائز اور صائب عمل ہے وہاں اس کے مضمرات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، اس آپریشن کے دوران ہزاروں افراد کا روز گار زد میں آیا ' انتہائی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے افراد تو شدید متاثر ہوئے ہیں' ان کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ ازسرنو اپنا کاروبار شروع کر سکیں' دکانوں کی مالیت اور کرائے ان افراد کی پہنچ سے باہر ہیں اور وہ لوگ اس آپریشن کے خلاف اپنے غم و غصے کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی وزیراعظم سے ملاقات میں انھیں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن ضرور ہونا چاہیے مگر اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے سے قبل حکومت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت متاثرین کے لیے متبادل جگہ کا انتظام کرنا چاہیے تھا' جلد بازی اور بغیر منصوبہ بندی کے شروع کیے گئے اس آپریشن نے حکومت کی عوام میں مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے جس کا احساس اب حکمرانوں کو بھی ہو رہا ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے غلط قدم اٹھا بیٹھے اور اب اپنی اس غلطی کی تلافی کے لیے وزیراعظم متاثرین کی مدد کا عندیہ دے رہے ہیں۔
جن سرکاری افسروں اور سرکاری اہلکاروں نے تجاوزات قائم کرانے میں کردار ادا کیا، وہ اور ان کی اولادیں مزے میں ہیں لیکن جو آج قابض ہیں، انھیں بردباد کردیا گیا۔ وزیراعظم تاجر برادری کو ہر فیصلے میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں اگر وہ تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پیشتر تاجر برادری سے مشورہ کر لیتے تو یہ کام زیادہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا تھا اور کسی کا نقصان بھی نہ ہوتا۔
حکمران اشرافیہ بار بار بلند بانگ دعوے کر رہی ہے کہ وہ ملک کو ترقی دیں گے اور ان کی معاشی پالیسیوں کے باعث غیرملکی سرمایہ کار اس طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دعوے ہی دعوے ہیں ابھی تک غیرملکی تو کیا ملکی سرمایہ کار بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔
حکومت ابھی تک ٹھوس اور واضح معاشی ایجنڈا پیش نہیں کر سکی جس سے بے یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہو سکے' بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وزیراعظم بے یقینی کی اس کیفیت کے خاتمے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ انھیں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس بھارت اور دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ زرعی پیداواری لاگت زیادہ ہونے سے کاشتکار اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔
توانائی کا بحران ابھی تک حل طلب ہے' جو پٹرول گیس اور بجلی مہیا کی جا رہی ہے وہ بھی اتنی مہنگی کر دی گئی کہ صنعتکار پیداواری لاگت بڑھنے سے پریشان ہے۔ حکومت نے پٹرول گیس اور بجلی مہنگی کرتے وقت نہ تو تاجروں سے مشاورت کی اور نہ عوام کو اعتماد میں لیا۔ حکومت کرپشن کا خاتمہ ضرور کرے کیونکہ یہ پورے ملک کے نظام کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے مگر اپنی معاشی پالیسیاں بھی بہتر بنائے تاکہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔
ملک بھر میں کاروباری طبقے میں مایوسی چھائی ہوئی اور معاشی سرگرمیاں سست پڑنے سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث پراپرٹی کا کام بھی مندے کا شکار ہے جس کے باعث تعمیراتی شعبہ بھی متاثر ہونے سے بیروز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تعمیراتی شعبہ مضبوط ہو تو اس سے متعلقہ صنعتوں کو فروغ ملنے کے علاوہ وسیع پیمانے پر روز گار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں مگر حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی اور صرف بلند بانگ دعوؤں اور اوٹ پٹانگ پالیسیوں سے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔
آئے دن وزراء کی جانب سے مالیاتی نظام بہتر بنانے کے لیے دیے گئے دھمکی آمیز بیانات سے سرمایہ کاروں اور تاجروں میں خوف و ہراس پیدا ہو رہا ہے۔ وزیراعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہنڈی اور دیگر غیرقانونی ذرایع سے ملکی سرمایہ بڑے پیمانے پر باہر جا رہا ہے لیکن جب وزراء چیک اینڈ بیلنس کے نام پر ایسے بیانات دیں گے تو سرمایہ کار مایوس اور خوف زدہ ہو کر قانونی ذرایع استعمال کرنے کے بجائے غیرقانونی ذرایع ہی میں اپنا تحفظ تصور کرے گا۔
غیرقانونی دولت کمانے والوں کا احتساب ضرور کیا جائے مگر دانشمندی اور حکمت سے نہ کہ ہر طرف خوف و ہراس اور افراتفری پھیلا کر سرمایہ دار طبقے کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔ جب احتساب کے نام پر ہر سرمایہ کار کو جوابدہ بنا دیا جائے گا تو پھر ایسی صورت میں ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا۔
اگر حکومت سرمایہ کاری کو فروغ اور تحفظ دینا اور مارکیٹ میں معاشی استحکام لانا چاہتی ہے تو اسے تاجر دوست پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی۔ کرپشن ضرور ختم کی جائے مگر حکومتیں ملک کے معاشی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بعض اوقات بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کرنے کی اجازت دینے کے نا پسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو مضبوط بنانا چاہتی ہے تو اسے ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جس سے سرمایہ کار کو تحفظ محسوس ہو' اگر سرمایہ کار کو اپنی کمائی اور ترقیاتی منصوبوں کے ایک ایک پہلو کا حساب دینے پر مجبور کیا جائے گا تو ایسی صورت میں پرائیویٹ سیکٹر مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتا چلا جائے گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں بلیک منی وائٹ منی سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے اس بلیک منی کو ملکی ترقی کے سرکل میں شامل کرنے کے لیے حکومتوں کو مختلف سہولتوں کا اعلان کرنا پڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہت پوٹینشل ہے لیکن حکومت کو اپنی مالیاتی پالیسیوں پر سرمایہ کاروں اور تاجروں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔
معاشی پالیسی کے قیام میں تاجروںکی تجاویزکو بھی شامل کیا جائے گا، بیرونی سرمایہ کاری سے کراچی کا مثبت امیج اجاگر ہوگا، حکومت تاجر اور صنعت کار برادری کو ہر ممکن سہولتیں فراہم کرے گی، وفاق کے تعاون سے جاری منصوبے جلد مکمل کیے جائیںگے، صوبے اور وفاق میں ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا اور تاجروںکے خدشات و مسائل دور کیے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کے دورہ کراچی کے موقع پر ان سے کراچی چیمبر آف کامرس' ایف پی سی سی آئی کے وفد اور صنعتکاروں نے ملاقات کے دوران تاجر برادری کو درپیش مسائل سے آگاہ کرنے کے علاوہ معاشی پالیسی کے قیام میں تاجروں کی تجاویز کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم نے تاجر برادری کو یقین دلایا کہ حکومت تاجروں سے کیے گئے تمام وعدوں کی تکمیل یقینی بنائے گی اور معیشت سے متعلق ہر فیصلے پر ان کی مشاورت کو شامل کیا جائے گا۔
کراچی میں جاری تجاوزات کے خلاف آپریشن جہاں قانونی طور پر جائز اور صائب عمل ہے وہاں اس کے مضمرات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، اس آپریشن کے دوران ہزاروں افراد کا روز گار زد میں آیا ' انتہائی چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے افراد تو شدید متاثر ہوئے ہیں' ان کے پاس اتنا سرمایہ نہیں کہ وہ ازسرنو اپنا کاروبار شروع کر سکیں' دکانوں کی مالیت اور کرائے ان افراد کی پہنچ سے باہر ہیں اور وہ لوگ اس آپریشن کے خلاف اپنے غم و غصے کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی وزیراعظم سے ملاقات میں انھیں تجاوزات کے خلاف آپریشن کے مضمرات سے آگاہ کیا۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن ضرور ہونا چاہیے مگر اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے سے قبل حکومت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت متاثرین کے لیے متبادل جگہ کا انتظام کرنا چاہیے تھا' جلد بازی اور بغیر منصوبہ بندی کے شروع کیے گئے اس آپریشن نے حکومت کی عوام میں مقبولیت کو نقصان پہنچایا ہے جس کا احساس اب حکمرانوں کو بھی ہو رہا ہے کہ وہ بلاسوچے سمجھے غلط قدم اٹھا بیٹھے اور اب اپنی اس غلطی کی تلافی کے لیے وزیراعظم متاثرین کی مدد کا عندیہ دے رہے ہیں۔
جن سرکاری افسروں اور سرکاری اہلکاروں نے تجاوزات قائم کرانے میں کردار ادا کیا، وہ اور ان کی اولادیں مزے میں ہیں لیکن جو آج قابض ہیں، انھیں بردباد کردیا گیا۔ وزیراعظم تاجر برادری کو ہر فیصلے میں شامل کرنے کی یقین دہانی کرا رہے ہیں اگر وہ تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کرنے سے پیشتر تاجر برادری سے مشورہ کر لیتے تو یہ کام زیادہ بہتر انداز میں کیا جا سکتا تھا اور کسی کا نقصان بھی نہ ہوتا۔
حکمران اشرافیہ بار بار بلند بانگ دعوے کر رہی ہے کہ وہ ملک کو ترقی دیں گے اور ان کی معاشی پالیسیوں کے باعث غیرملکی سرمایہ کار اس طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب دعوے ہی دعوے ہیں ابھی تک غیرملکی تو کیا ملکی سرمایہ کار بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہے۔
حکومت ابھی تک ٹھوس اور واضح معاشی ایجنڈا پیش نہیں کر سکی جس سے بے یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہو سکے' بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وزیراعظم بے یقینی کی اس کیفیت کے خاتمے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ انھیں تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس بھارت اور دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ زرعی پیداواری لاگت زیادہ ہونے سے کاشتکار اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔
توانائی کا بحران ابھی تک حل طلب ہے' جو پٹرول گیس اور بجلی مہیا کی جا رہی ہے وہ بھی اتنی مہنگی کر دی گئی کہ صنعتکار پیداواری لاگت بڑھنے سے پریشان ہے۔ حکومت نے پٹرول گیس اور بجلی مہنگی کرتے وقت نہ تو تاجروں سے مشاورت کی اور نہ عوام کو اعتماد میں لیا۔ حکومت کرپشن کا خاتمہ ضرور کرے کیونکہ یہ پورے ملک کے نظام کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے مگر اپنی معاشی پالیسیاں بھی بہتر بنائے تاکہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہو سکے۔
ملک بھر میں کاروباری طبقے میں مایوسی چھائی ہوئی اور معاشی سرگرمیاں سست پڑنے سے ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث پراپرٹی کا کام بھی مندے کا شکار ہے جس کے باعث تعمیراتی شعبہ بھی متاثر ہونے سے بیروز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تعمیراتی شعبہ مضبوط ہو تو اس سے متعلقہ صنعتوں کو فروغ ملنے کے علاوہ وسیع پیمانے پر روز گار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں مگر حکومت اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی اور صرف بلند بانگ دعوؤں اور اوٹ پٹانگ پالیسیوں سے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔
آئے دن وزراء کی جانب سے مالیاتی نظام بہتر بنانے کے لیے دیے گئے دھمکی آمیز بیانات سے سرمایہ کاروں اور تاجروں میں خوف و ہراس پیدا ہو رہا ہے۔ وزیراعظم بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہنڈی اور دیگر غیرقانونی ذرایع سے ملکی سرمایہ بڑے پیمانے پر باہر جا رہا ہے لیکن جب وزراء چیک اینڈ بیلنس کے نام پر ایسے بیانات دیں گے تو سرمایہ کار مایوس اور خوف زدہ ہو کر قانونی ذرایع استعمال کرنے کے بجائے غیرقانونی ذرایع ہی میں اپنا تحفظ تصور کرے گا۔
غیرقانونی دولت کمانے والوں کا احتساب ضرور کیا جائے مگر دانشمندی اور حکمت سے نہ کہ ہر طرف خوف و ہراس اور افراتفری پھیلا کر سرمایہ دار طبقے کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے۔ جب احتساب کے نام پر ہر سرمایہ کار کو جوابدہ بنا دیا جائے گا تو پھر ایسی صورت میں ملک میں کون سرمایہ کاری کرے گا۔
اگر حکومت سرمایہ کاری کو فروغ اور تحفظ دینا اور مارکیٹ میں معاشی استحکام لانا چاہتی ہے تو اسے تاجر دوست پالیسیاں وضع کرنی ہوں گی۔ کرپشن ضرور ختم کی جائے مگر حکومتیں ملک کے معاشی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بعض اوقات بلیک منی کو وائٹ منی میں تبدیل کرنے کی اجازت دینے کے نا پسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو مضبوط بنانا چاہتی ہے تو اسے ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی جس سے سرمایہ کار کو تحفظ محسوس ہو' اگر سرمایہ کار کو اپنی کمائی اور ترقیاتی منصوبوں کے ایک ایک پہلو کا حساب دینے پر مجبور کیا جائے گا تو ایسی صورت میں پرائیویٹ سیکٹر مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتا چلا جائے گا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں بلیک منی وائٹ منی سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے اس بلیک منی کو ملکی ترقی کے سرکل میں شامل کرنے کے لیے حکومتوں کو مختلف سہولتوں کا اعلان کرنا پڑ جاتا ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہت پوٹینشل ہے لیکن حکومت کو اپنی مالیاتی پالیسیوں پر سرمایہ کاروں اور تاجروں کا اعتماد بحال کرنا ہو گا۔