کراچی تجاوزات کیس ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا چیف جسٹس

متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ کا انتظام حکومت خود کرے، چیف جسٹس

ہمیں ہرحال میں قانون کی بالا دستی چاہیے، چیف جسٹس فوٹو: فائل

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگ گئی ہے، آپ کو اندازہ نہیں میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے، ہمیں ہرحال میں قانون کی بالادستی چاہیے۔ ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے۔ ہمیں ہرحال میں قانون کی بالا دستی چاہیے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ہم کراچی والے ہیں ہم بھی بہتری چاہتے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کے دوران ریمارکس دیئے کہ کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، گورنر صاحب نے کال کرکے کہا کہ یہاں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑدیں ؟، لوگ احتجاج شروع کردیں اور ہم ریاست کی رٹ ختم کردیں، کیا قبضہ مافیا کے سامنے سرجھکا دیں؟ کراچی کو اسی طرح چھوڑدیں ؟، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کارروائی روک دیں گے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ کا انتظام حکومت خود کرے،ایڈوکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ چار ہفتے کا وقت دے دیں مسئلے کا حل نکالیں گے۔

میئر کراچی نے کہا کہ ہم عمل درآمد کررہے ہیں بس گھروں کو نہ توڑا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم تو نہیں دیا، آپ خود کررہے ہیں تو ہمارا مسئلہ نہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے دیکھا تھا نالے پر عمارت بنی ہوئی ہے، اس کا کیا ہوا؟، ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ نہرِ خیام پر ایک عمارت بنی ہوئی ہے، میئر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ باغ ابنِ قاسم میں ایک عمارت ہے، وہاں مسلح لوگ بیٹھے ہیں اور شاید معاملہ ہائی کورٹ میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میئر صاحب آپ کو کسی نے نہیں روکا کام جاری رکھیں، کون ہے قبضہ کرنے والا بتائیں ، ابھی ہائی کورٹ سے فائل منگواتے ہیں، اچھی طرح سن لیں غیر قانونی عمارت اور قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔


عدالت میں ایڈوکیٹ جنرل اور میئر کراچی کے درمیان اس وقت سخت جملوں کا تبادلہ ہوا جب ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ میئر کراچی کو فٹ پاتھوں اور پارکوں کا ٹاسک ملا ہے لیکن دکانوں سے کہیں آگے جا چکے ہیں۔ پہلے متبادل کا سوچنا ہوگا دو ہفتے میں منصوبہ بنالیں گے، آپ مئیر کراچی کو 4 ہفتوں کے لیے آپریشن سے روکیں۔ جس پر وسیم اختر نے کہا کہ میں خود مانیٹر کررہا ہوں کوئی ایک مکان بتا دیں جو توڑا گیا ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیوں روکیں، آپ مل کر بیٹھیں اور خود طے کریں، میئر کہہ رہے ہیں انہوں نے کوئی گھر نہیں توڑا، وہ چھجے اور غیرقانونی دکانیں توڑ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے وفاقی و صوبائی حکومت اور مئیر کراچی کو مل بیٹھ کر جائزہ لینے کا حکم دے دیا، انہوں نے ریمارکس دیئے کہ کل صبح ہم تھر جا رہے ہیں، ہم رات یہیں بیٹھے ہیں، آج رات12 بجے یہاں آجائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ کارروائی جاری رہنی چاہیے، اگر تسلسل ٹوٹ گیا تو پھر کام ہونا مشکل ہے، تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرکے آئیں۔

عدالت میں 'اویس ٹپی' کی گونج

دوران سماعت ایک شہری نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر اویس مظفر ٹپی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا کہ شاہ لطیف ٹاؤن میں بڑے پیمانے پر ناجائز قبضہ ہے، بیوائیں روتی ہیں، اور یہ قبضے اویس مظفر ٹپی نے کرائے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ہے یہ ٹپی ؟ کہاں ہے یہ ٹپی؟ اسے کل پیش کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈوکیٹ جنرل صاحب کی حکومت یا کسی وزیر نے کہیں قبضہ کیا ہوا ہے تو فوری خالی کریں، میئر صاحب آپ بھی کان کھول کرسن لیں دو دن میں کسی رہنما یا کسی نے قبضہ کیا ہے تو خالی کردے، آپ صفائی گھر سے شروع کریں اور لوگوں کیلئے مثال بنائیں، کسی کے قبضے کی نشاندہی ہوگئی تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔
Load Next Story