زیارت ریذیڈینسی میں ایک شام
اس نظم کے تو ابھی اتنے ہی یعنی تین مزید بند بھی ہیں مگر فی الوقت میں خود میں اس آخری بند سے آگے جانے کی ہمت نہیں پا...
KARACHI:
یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے
ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا
یہیں کہیں تھا وہ بادل کہ جس کے سائے میں
نجانے کتنی ہی صدیوں کے دُھوپ کھائے ہوئے
ہر ایک دل کو ہر اک جان کو قرار آیا
..................
یہیں کہیں کسی دالان میں رُکی ہوگی
سَمے کے رُخ کو بدلتی وہ خوش خبر آواز
کہ جس نے چاروں طرف روشنی سی کردی تھی
کہ جس کو سُن کے ہُوا تھا یہ گُل سفرآغاز
.....................
یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سِلوٹ
گماں میں رینگتے خدشوں کی اک گواہی تھی
وہ دیکھتا تھا انھی کھڑکیوں کے شیشوں سے
سنہری دھوپ کے آنگن میں جو سیاہی تھی
اس نظم کے تو ابھی اتنے ہی یعنی تین مزید بند بھی ہیں مگر فی الوقت میں خود میں اس آخری بند سے آگے جانے کی ہمت نہیں پارہا کہ یہاں تک پہنچنے میں بھی مجھے بہت دن لگے ہیں اور اگر گزشتہ دنوں میں ہزارہ ٹائون کوئٹہ میں دہشت گردی کی یہ تازہ ترین خوفناک اور انسان کش واردات نہ ہوتی تو شائد میں اب بھی زیارت ریذیڈینسی پر ہونے والے حملے پر قلم نہ اُٹھا سکتا کہ یہ تو جیتے جی آپ اپنا مرثیہ لکھنے جیسی بات ہے۔
ایک زندہ قوم کی نظر سے دیکھا جائے توزیارت ریذیڈینسی صرف ایک عمارت نہیں تھی کہ عمارتیں تو وقت کے ساتھ ساتھ شکستگی کے مراحل سے گزرتی ہی رہتی ہیں اور اس تاریخی عمل میں بادشاہوں کے محلاّت ، مذہبی اور تاریخی ہر طرح کی عمارتیں شامل ہیں لیکن جس طرح سے اس قومی یادگار کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا اس کی مثال کم کم ہی مل سکے گی۔
بلوچستان میں قیامِ پاکستان سے اب تک جو کچھ ہوا ہے اور جو آج کل ہو رہا ہے اس کا تجزیہ کرنے والے تو بہت مل جائیں گے اور دونوں طرف سے جھوٹے سچے دلائل کے انبار بھی لگائے جاسکتے ہیں مگر میرے نزدیک زیارت ریذیڈینسی پر یہ حملہ اسی پرانی داستان کا ایک حصہ اور تسلسل ہونے کے باوجود اپنی الگ اور منفرد حیثیت بھی رکھتا ہے، کہنے کو یہ وہاں کی بہت سی نیشنلسٹ پارٹیوں میں سے ایک خاص جماعت کا انفرادی فعل ہے اور اس کی وجہ سے تمام نیشنلسٹ پارٹیوں کو قصور وار ٹھہرانا یقینا مناسب بھی نہیں ہوگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی پاکستان میں (جہاں قائد کی محبت کا دعویٰ کرنے والے بہت بڑی اکثریت میں پائے جاتے ہیں) اس افسوسناک سانحے پر کس طرح کے ردِّ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
کیا بلوچستان اور مرکزی حکومت کے یہ بیانات کہ اس عمارت کو دوبارہ سے اس کے اصل نقشے کے مطابق تعمیر کیا جائے گا ۔اُس سارے نفسیاتی جذباتی اور قومی نقصان کی تلافی کے لیے کافی ہے جس سے ہماری ''خاموش اکثریت'' گزری ہے۔ تسلیم کہ گزشتہ ادوار میں کئی حکومتوں نے بلوچستان کے مسئلے کو انصاف ، دانش اور وہاں کے لوگوں کی جائز شکایات کے ازالے کے حوالے سے اُس طرح سے نہیں دیکھا جو اس کا حق بنتا تھا اور اس کی وجہ سے وہاں کے سرداری نظام اور نوجوان نسل میں جو منفی ردِّعمل پیدا ہوا اُس کا جوازبھی کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب کیوں اور کیسے نکل آیا کہ کچھ لوگ ا پنی بنیاد ہی سے منحرف ہوجائیں اور نہ صرف ایسی بہیمانہ واردات کا ارتکاب کریں بلکہ اس پر فخر بھی کریں اور حُبّ وطن کے سارے دعویدار اس منظر کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق دیکھتے رہ جائیں۔
اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی لیا جائے کہ یہ اقدام ان بین الاقوامی سازشوں کا حصہ ہے جن کا مقصد پاکستان کو ایک ''نیو ورلڈ آرڈر'' کے تحت ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے اور یہ کہ اس کے لیے متعلقہ تنظیم کو جذباتی استحصال کے ذریعے محض ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ تب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم اور موجود رہتا ہے کہ اس کی مذّمت اور سدِّباب کے لیے قومی سطح پر ہمارا جواب اور ردِّعمل کیا ہے! بظاہر ہزارہ ٹائون اور دیگر مسالک کی آبادی والے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں اور زیارت ریذیڈینسی پر حملہ دو الگ الگ باتیں نظر آتی ہیں لیکن جو لوگ ان معاملات کو سمجھنے والی نظر رکھتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ہی زنجیر کی دو کڑیا ں ہیں یعنی مذہبی جنونی اور سیاسی دہشت گرد(جو اپنے آپ کو انقلابی کہتے ہیں) ایک ہی سکیّ کے دو رُخ ہیں۔
گزشتہ بیس برس میں مجھے متعدد بار بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا ہے اور اس دوران میں کم و بیش ہر انداز فکر کے حامل احباب سے ملاقاتوں کے مواقع بھی ملتے رہے ہیں میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ وہاں ''محبت کا زمزم بہہ رہا ہے'' لیکن اتنا ضرور عرض کرسکتا ہوں کہ وہاں پاکستان سے محبت کرنے اور مسائل کو باہمی مشورے سے بھائیوں کی طرح مل بیٹھ کر حل کرنے کے حامیوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو عام طور پر بیان کی جاتی ہے تمام بین الاقوامی نام نہاد سازشیں ، سرداری نظام ، نوجوان انقلابی ، مسلّح مزاحمت کار، دہشت گرد وغیرہ وغیرہ اپنی جگہ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ بقول شیخ سعدی اس عمارت کی پہلی اور بنیادی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تھی یعنی قیامِ پاکستان کے بعد مرکز میں قائم حکومتوں نے ابتداء سے ہی بلوچ عوام کے بجائے ان کے ایسے نمایندوں کے ذریعے وہاں کا نظم و نسق چلانے کی کوشش کی جو اس سے پہلے انگریزسرکار کے لیے یہی خدمت بجا لایا کرتے تھے۔
چنانچہ عوام کو آج تک صحیح معنوں میں پتہ ہی نہیں چل سکا کہ اب وہ ایک آراد ملک کے باوقار اور ذمے دار باشندے اور شہر ی ہیں، اس تائثر کو مزید فروغ وہاں کی آبادی اور زمین کے پھیلائو کی مخصوص صورتِ حال ، تعلیم اور انسانی حقوق کی شدید کمی کی وجہ سے حاصل ہوا اور یہ اس ملی جلی زوال اور انتشار کی تاریخ ہی کا نتیجہ ہے کہ وہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہوگیا جس کے لیے زیارت ریذیڈینسی کی عمارت پر حملہ ایک انقلابی کاروائی کے مترادف بن گیا یعنی اب یہ گھڑی ماتم کے ساتھ ساتھ اُس خشتِ اول کو صحیح کرکے رکھنے کی بھی ہے جس سے اب تک ہر حکومت نے اغماض برتا ہے آپ ایسا کرکے دیکھئے مجھے یقین ہے کہ نہ صرف حالات پٹڑی پر آجائیں گے بلکہ قائد کی رُوح اُن لوگوں کو بھی معاف کردے گی جو اس افسوسناک عمل میں کسی بھی حوالے سے شامل اور متعلق رہے ہیں۔
یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے
ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا
یہیں کہیں تھا وہ بادل کہ جس کے سائے میں
نجانے کتنی ہی صدیوں کے دُھوپ کھائے ہوئے
ہر ایک دل کو ہر اک جان کو قرار آیا
..................
یہیں کہیں کسی دالان میں رُکی ہوگی
سَمے کے رُخ کو بدلتی وہ خوش خبر آواز
کہ جس نے چاروں طرف روشنی سی کردی تھی
کہ جس کو سُن کے ہُوا تھا یہ گُل سفرآغاز
.....................
یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سِلوٹ
گماں میں رینگتے خدشوں کی اک گواہی تھی
وہ دیکھتا تھا انھی کھڑکیوں کے شیشوں سے
سنہری دھوپ کے آنگن میں جو سیاہی تھی
اس نظم کے تو ابھی اتنے ہی یعنی تین مزید بند بھی ہیں مگر فی الوقت میں خود میں اس آخری بند سے آگے جانے کی ہمت نہیں پارہا کہ یہاں تک پہنچنے میں بھی مجھے بہت دن لگے ہیں اور اگر گزشتہ دنوں میں ہزارہ ٹائون کوئٹہ میں دہشت گردی کی یہ تازہ ترین خوفناک اور انسان کش واردات نہ ہوتی تو شائد میں اب بھی زیارت ریذیڈینسی پر ہونے والے حملے پر قلم نہ اُٹھا سکتا کہ یہ تو جیتے جی آپ اپنا مرثیہ لکھنے جیسی بات ہے۔
ایک زندہ قوم کی نظر سے دیکھا جائے توزیارت ریذیڈینسی صرف ایک عمارت نہیں تھی کہ عمارتیں تو وقت کے ساتھ ساتھ شکستگی کے مراحل سے گزرتی ہی رہتی ہیں اور اس تاریخی عمل میں بادشاہوں کے محلاّت ، مذہبی اور تاریخی ہر طرح کی عمارتیں شامل ہیں لیکن جس طرح سے اس قومی یادگار کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا اس کی مثال کم کم ہی مل سکے گی۔
بلوچستان میں قیامِ پاکستان سے اب تک جو کچھ ہوا ہے اور جو آج کل ہو رہا ہے اس کا تجزیہ کرنے والے تو بہت مل جائیں گے اور دونوں طرف سے جھوٹے سچے دلائل کے انبار بھی لگائے جاسکتے ہیں مگر میرے نزدیک زیارت ریذیڈینسی پر یہ حملہ اسی پرانی داستان کا ایک حصہ اور تسلسل ہونے کے باوجود اپنی الگ اور منفرد حیثیت بھی رکھتا ہے، کہنے کو یہ وہاں کی بہت سی نیشنلسٹ پارٹیوں میں سے ایک خاص جماعت کا انفرادی فعل ہے اور اس کی وجہ سے تمام نیشنلسٹ پارٹیوں کو قصور وار ٹھہرانا یقینا مناسب بھی نہیں ہوگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی پاکستان میں (جہاں قائد کی محبت کا دعویٰ کرنے والے بہت بڑی اکثریت میں پائے جاتے ہیں) اس افسوسناک سانحے پر کس طرح کے ردِّ عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
کیا بلوچستان اور مرکزی حکومت کے یہ بیانات کہ اس عمارت کو دوبارہ سے اس کے اصل نقشے کے مطابق تعمیر کیا جائے گا ۔اُس سارے نفسیاتی جذباتی اور قومی نقصان کی تلافی کے لیے کافی ہے جس سے ہماری ''خاموش اکثریت'' گزری ہے۔ تسلیم کہ گزشتہ ادوار میں کئی حکومتوں نے بلوچستان کے مسئلے کو انصاف ، دانش اور وہاں کے لوگوں کی جائز شکایات کے ازالے کے حوالے سے اُس طرح سے نہیں دیکھا جو اس کا حق بنتا تھا اور اس کی وجہ سے وہاں کے سرداری نظام اور نوجوان نسل میں جو منفی ردِّعمل پیدا ہوا اُس کا جوازبھی کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب کیوں اور کیسے نکل آیا کہ کچھ لوگ ا پنی بنیاد ہی سے منحرف ہوجائیں اور نہ صرف ایسی بہیمانہ واردات کا ارتکاب کریں بلکہ اس پر فخر بھی کریں اور حُبّ وطن کے سارے دعویدار اس منظر کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق دیکھتے رہ جائیں۔
اگر ایک لمحے کے لیے مان بھی لیا جائے کہ یہ اقدام ان بین الاقوامی سازشوں کا حصہ ہے جن کا مقصد پاکستان کو ایک ''نیو ورلڈ آرڈر'' کے تحت ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے اور یہ کہ اس کے لیے متعلقہ تنظیم کو جذباتی استحصال کے ذریعے محض ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ تب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم اور موجود رہتا ہے کہ اس کی مذّمت اور سدِّباب کے لیے قومی سطح پر ہمارا جواب اور ردِّعمل کیا ہے! بظاہر ہزارہ ٹائون اور دیگر مسالک کی آبادی والے علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں اور زیارت ریذیڈینسی پر حملہ دو الگ الگ باتیں نظر آتی ہیں لیکن جو لوگ ان معاملات کو سمجھنے والی نظر رکھتے ہیں ان کے لیے یہ ایک ہی زنجیر کی دو کڑیا ں ہیں یعنی مذہبی جنونی اور سیاسی دہشت گرد(جو اپنے آپ کو انقلابی کہتے ہیں) ایک ہی سکیّ کے دو رُخ ہیں۔
گزشتہ بیس برس میں مجھے متعدد بار بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا ہے اور اس دوران میں کم و بیش ہر انداز فکر کے حامل احباب سے ملاقاتوں کے مواقع بھی ملتے رہے ہیں میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ وہاں ''محبت کا زمزم بہہ رہا ہے'' لیکن اتنا ضرور عرض کرسکتا ہوں کہ وہاں پاکستان سے محبت کرنے اور مسائل کو باہمی مشورے سے بھائیوں کی طرح مل بیٹھ کر حل کرنے کے حامیوں کی تعداد اُس سے کہیں زیادہ ہے جو عام طور پر بیان کی جاتی ہے تمام بین الاقوامی نام نہاد سازشیں ، سرداری نظام ، نوجوان انقلابی ، مسلّح مزاحمت کار، دہشت گرد وغیرہ وغیرہ اپنی جگہ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ بقول شیخ سعدی اس عمارت کی پہلی اور بنیادی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی گئی تھی یعنی قیامِ پاکستان کے بعد مرکز میں قائم حکومتوں نے ابتداء سے ہی بلوچ عوام کے بجائے ان کے ایسے نمایندوں کے ذریعے وہاں کا نظم و نسق چلانے کی کوشش کی جو اس سے پہلے انگریزسرکار کے لیے یہی خدمت بجا لایا کرتے تھے۔
چنانچہ عوام کو آج تک صحیح معنوں میں پتہ ہی نہیں چل سکا کہ اب وہ ایک آراد ملک کے باوقار اور ذمے دار باشندے اور شہر ی ہیں، اس تائثر کو مزید فروغ وہاں کی آبادی اور زمین کے پھیلائو کی مخصوص صورتِ حال ، تعلیم اور انسانی حقوق کی شدید کمی کی وجہ سے حاصل ہوا اور یہ اس ملی جلی زوال اور انتشار کی تاریخ ہی کا نتیجہ ہے کہ وہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہوگیا جس کے لیے زیارت ریذیڈینسی کی عمارت پر حملہ ایک انقلابی کاروائی کے مترادف بن گیا یعنی اب یہ گھڑی ماتم کے ساتھ ساتھ اُس خشتِ اول کو صحیح کرکے رکھنے کی بھی ہے جس سے اب تک ہر حکومت نے اغماض برتا ہے آپ ایسا کرکے دیکھئے مجھے یقین ہے کہ نہ صرف حالات پٹڑی پر آجائیں گے بلکہ قائد کی رُوح اُن لوگوں کو بھی معاف کردے گی جو اس افسوسناک عمل میں کسی بھی حوالے سے شامل اور متعلق رہے ہیں۔