چاہتوں کا امین محمد سلیم اختر

محمد سلیم اختر بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے علم و ادب کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں

محمد سلیم اختر بھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے علم و ادب کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ (تصویر بشکریہ بلاگر)

تبصرہ: شاد پندرانی بلوچستان
کتاب کا نام: یہ دیا بجھنے نہ پائے
مصنف: محمد سلیم اختر
قیمت: 300
ناشر: نواب سنز پبلی کیشنز، اقبال روڈ، کمیٹی چوک، راولپنڈی

اس کائنات میں اللہ تعالی نے بہت سی ایسی چیزیں پیدا کی ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ جیسے پھول خوشبو کے بغیر، آسمان سورج چاند ستاروں کے بغیر اور چاند اپنی چاندنی کے بغیر ادھورا لگتا ہے۔

یہ وہ عناصر ہیں جن کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور جب یہ تمام عناصر آپس میں ملتے ہیں تو عالم پر ایک سرور سا چھا جاتا ہے۔ گلاب کا پھول جب شاخ پر کھلتا ہے تو اپنی مسحورکن خوشبو سے اپنے اطراف کو بھی معطر کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسی طرح رات کے سرمئی آنچل میں جب چاند نمودار ہوتا ہے تواس کی چاندنی پورے عالم کو جگمگا دیتی ہے۔ اسی طرح کتاب قاری کے بغیر ادھوری ہے اور قاری کتاب کے بغیر نامکمل ہے۔

اردو ادب کے افق پر نظر ڈالی جائے تو کئی نامور قلمکار ادب کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں جن کی شاعری، ڈرامے، قصے، افسانے اور ناول وغیرہ عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔

محمد سلیم اختر کا نام بھی اردو ادب کی ایسی ہی نامور ادبی شخصیات کی صف میں شامل ہے جنہوں نے اپنے قلم کے ذریعے معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے سچ کا ساتھ دیا اور ادب کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔

''یہ دیا بجھنے نہ پائے'' محمد سلیم اختر کا تخلیق کردہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے جسے پڑھنے کے بعد قاری کو روشنی کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ ویسے تو ان کے افسانے ماہنامہ سچی کہانیاں کراچی، ماہنامہ ریشم لاہور، ماہناہ ساگر لاہور، اور ماہنامہ دوشیزہ کراچی کے علاوہ دیگر ڈائجسٹوں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔


کہتے ہیں کہ خوشیاں ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتیں۔ انسان کو کبھی نشاط و راحت نصیب ہوتی ہے تو کبھی رنج و سوز کی کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ بقول فلک گجراتی:

گاہے رنج و سوز گاہے نغمہ عیش و نشاط
یعنی اپنی زندگی ہے مجموعہ اضداد کا


انسان کو ان تلخ و شیریں تجربات سے گزرنا ہی پڑتا ہے لیکن بہادر وہی ہوتا ہے جو مشکل حالات میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرکے حق و صداقت کا ساتھ دے، دوسروں کے دکھ درد بانٹنے اور اپنی خوشیاں دوسروں کے نام کردے۔

محمد سلیم اختر بھی زندگی کے تجربات کو پیش نظر رکھ کر اپنے سچے جذبوں اورادبی صلاحیتوں کو بروئے کارلاتے ہوئے علم و ادب کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔

''یہ دیا بجھنے نہ پائے'' کے تمام افسانے عمدہ اور معیاری ہیں جو موصوف کے کمالِ فن کی نشاندہی کرتے ہیں۔

حقیقت پسندی، حالات حاضرہ اورسچائی ان کے افسانوں کا وصف ہیں۔ ان کے افسانوں میں ''روشنی چاہیے زندگی کے لیے'' اور ''لہو کا رنگ ایک ہے'' وہ لازوال افسانے ہیں جن میں معاشرتی کرب کے مناظر کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کے دیگر افسانے بھی انہی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

محمد سلیم اختر کو ادب برائے امن کا علمبردار بھی کہا جائے تو کسی صورت میں غلط نہ ہوگا کیونکہ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی حقائق کو بیان کرکے نہ صرف دکھی اور بھٹکتی ہوئی انسانیت کےلیے راستے کا تعین کیا ہے بلکہ محبت و امن کا درس بھی دیا ہے۔ یہ تمام تر اوصاف ان کے بلند پایہ قلمکار ہونے کا ثبوت ہیں۔

''شمع جلتی رہے گی'' سے ''یہ دیا بجھنے نہ پائے'' تک کا افسانوی سفر، محمد سلیم اختر کے اوج کمال کی روشن دلیل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story