مفاہمتی سیاست کا کھیل نہ کھیلا جائے
نواز حکومت کو بنے ابھی ایک ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہے لیکن اُسے ورثے میں ملی بیمار معیشت، تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر...
نواز حکومت کو بنے ابھی ایک ماہ کا عرصہ ہی گزرا ہے لیکن اُسے ورثے میں ملی بیمار معیشت، تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر، کرپشن زدہ ادارے اور بے لگام دہشت گردی جیسے مسائل اُس کی کارکردگی کے لیے ایک بڑا امتحان بنے ہوئے ہیں۔ اِدھر اپوزیشن اِس انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے کہ کب یہ حکومت ناکام و نامراد ہو کر دھڑن تختہ ہوتی ہے اور وہ خوشی کے شادیانے بجا کر عوام الناس کو یہ باور کر نے میں کامیاب ہو جائے کہ الیکشن مئی 2013ء میں کیا گیا اُن کا فیصلہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ حالانکہ عوام یہ بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت آج جن مسائل سے دوچار ہے وہ اُن کے اپنے پیدا کردہ نہیں ہیں یہ سب سابقہ ارباب ِ اقتدار ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ جنہوں نے کرپشن کے سوا کوئی ہنر مندی گزشتہ پانچ برسوں میں دکھائی ہی نہیں۔
پی آئی اے، اسٹیل ملز، این آئی سی ایل، اوجی ڈی سی، واپڈا اور ریلوے سمیت تمام ادارے اِس طرح تباہ و برباد کر دیے گئے کہ اب اُن کے ملازمین کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ وہ ہماری معیشت پر ایک بڑا بوجھ بن چکے ہیں اُنہیں منافع بخش بنانا تو کیا ممکن ہو اُنہیں درست حالت میں لانا بھی کسی جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں ہے۔ اِن اداروں میں لوٹ مار کے قصے تو سابقہ دور ہی میں مشہور ہونے لگے تھے اور وہ ہماری عدلیہ کے روبرو زیرِ سماعت بھی لائے گئے لیکن حکمرانوں کے اپنے مفادات اُن مقدمات کے راہ میں دیواربن کر کھڑے ہو گئے اور کوئی بھی مقدمہ اپنے حتمی انجام تک نہ پہنچ سکا۔ عدلیہ جس جس شخص کو معطل کرنے کا حکم دیتی حکومت اُنہیں مکمل تحفظ دینے پر آمادہ اور مصر ہو جاتی۔ اِ س کی صرف ایک مثال مشہور ِعالم این آئی سی ایل کیس میں مطلوبہ شخص توقیر صادق کی ہے جسے سابقہ حکمرانوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ابھی تک دبئی سے لایا نہیں جا سکا۔
نواز حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اِن جرائم کے کر تا دھرتاؤں کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتی ہے تو کہا جا تا ہے کہ ہم نے تو اپنے دورِ حکومت میں کسی کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کی تھیں اور یہ نواز حکومت ایک بار پھر سے 90 ء کی دہائی والی حکمت ِ عملی پر عمل پیرا ہو نے لگی ہے اور اگر وہ بھی اِن کرپشن کی وارداتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے خاموشی اختیار کر لے تو پھر دوسری جماعتوں کی جانب سے یہ کہا جانے لگتا ہے کہ دونوں نے مک مکا کر لیا ہے۔ ادھر جناب شیخ رشید ہر صبح بڑی بے چینی سے حکومت کے جانے کے منتظر رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی ایسی خبر آ جائے جو اُن کے دل کو سکون بخش سکے۔ ویسے بھی اُنہوں نے اپنی نجومی طبیعت کے باعث اِس حکومت کو صرف چھ ماہ کا مہمان قرار دے دیا ہے۔ البتہ قوم کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسی ہی پیش گوئیاں وہ زرداری حکومت کے لیے بھی کیا کرتے تھے اور ہر چھ ماہ بعد وہ پھر ایک نئی تاریخ دے دیا کرتے تھے۔ آج کل بھی اُن کا وہی طرزِ تکلم اور اندازِ گفتگو ہر چینل کی زینت بنا ہوا ہے اور ہر شام کسی نہ کسی چینل پر وہ اپنے مخصوص اسٹائل اور دلچسپ جملے بازی سے سامعین کو محظوظ کر رہے ہوتے ہیں۔
ادھر سپریم کورٹ نے ہماری نئی حکومت سے جب آرٹیکل 6 کے تحت سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کی کارروائی کرنے کا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو جواباً نواز حکومت نے وہی کچھ کیا جو ایک جمہوری منتخب حکومت کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن دوسری جانب دیگر جماعتوں کی جانب سے جو پہلے تو آئین و دستور کے تحفظ کی خاطر حکومت کو ہر ممکن مدد اور تعاون کا یقین دلانے کا دعویٰ کر بیٹھی تھیں مگر اب کسی نہ کسی طرح اِس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی تگ و دو کرنے لگی ہیں۔ وہ اِس معاملے کو صرف پرویز مشرف تک نہ رکھنے اور ایک ایسا پینڈورا بکس کھولنے کے لیے کمر بستہ ہو چکی ہیں جس سے کسی نتیجے تک پہنچنا مشکل ہی نہ ہو بلکہ ناممکن ہو جائے۔
اِس کیس میں دوسروں کو شامل کرنے کا مطالبہ دراصل پرویز مشرف کو بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ امر بالکل واضح اور یقینی ہے کہ جوں جوں معاملے کو وسعت اور طول دیا جائے گا آرٹیکل 6 کے تحت صرف پرویز مشرف کو سزا دینا کسی طور ممکن نہ رہے گا اور سارا مقدمہ ایک سعی لاحاصل بن کر خود بخود فائلوں میں دب کر کہیں دفن ہو جائے گا۔ جب ارادوں اور نیتیوں میں خلل اور فتور پیدا ہونے لگتا ہے تو ایسی ہی توجیحات کچھ لوگوں کے ذہنوں میں جنم لینے لگتی ہیں اور وہ دلائل کا انبار لے کر معاملے کو پیچیدہ اور گھمبیر بنانے پر تل جاتے ہیں ۔ اِن میں کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جن کے مفادات اِس معاملے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ اِس کے پیچھے دراصل اپنے آپ کو بچا رہے ہوتے ہیں یا پھر کچھ لوگ حقِ نمک ادا کرنے کی معصومانہ خواہش میں یہ کام ایک مقدس فریضے کے طور پر کر رہے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید اِس دوسری کیٹیگری میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کا نمک ایک عرصے تک کھایا تھا اور وہ ببانگِ دہل اُس کے ہر فعل اور فیصلے میں اسپوکس مین اور صدارتی ترجمان کا کردار بطریقِ احسن نبھاتے رہے ہیں۔ آج اُسی نمک حلالی کا وقت آ چکا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اُسکی ادائیگی چاہتے ہیں۔
اُنہیں پرویز مشرف سے اپنی دلی وابستگی اور محبت جتانے کا اِس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ملے گا جب سابق صدر کے دیگر ساتھی بھی اُن کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جناب مشرف کو کہاں کہاں بچاتے ہیں کیونکہ اُن کے خلاف تو ابھی اور مقدمات بھی سماعت کی منتظر ہیں جن میں بلوچ لیڈر نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ سب سے اہم ہے۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر ویسے تو آئین و دستور کی حفاظت کی بہت بڑی دعویدار دکھائی دیتی ہے لیکن جب اُس کی حفاظت کا اصل وقت آتا ہے تو پہلو تہی کرتے ہوئے نت نئے بہانے تراشنے شروع کر دیتی ہے۔ اُس کا یہی کردار آج کل بہت نمایاں ہے اور وہ ایک جانب تو دستورِ پاکستان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرنے میں پیش پیش ہے تو دوسری جانب کھٹن اور مشکل وقت میں اُس کی حفاظت سے مکمل گریزاں اور انکاری ہے۔ اُس کے اِسی دوغلے پن کی وجہ سے اُس کی جمہوریت نوازی اور جمہوریت پسندی کے دعوؤں پر بھی حرف آنے لگا ہے اور عوام کی نظروں میں اب اُس کا امیج تبدیل ہو نے لگا ہے۔ اب اگر نواز حکومت اِس سلسلے میں کوئی قدم اُٹھاتی ہے تو اُسے محاذ آرائی اور انتقامی کاروائیوں کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اگر وہ آنکھیں بند کر کے کرپشن کی تمام وارداتوں پر دہ ڈالے رکھے تو اُس کا یہ فعل یقینا مفاہمت کے نام پر مفادات کی سیاست کرنے اور ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق کرنے کے مترادف ہو گا جس کی بہرحال یہ قوم اب متحمل نہیں ہو سکتی ۔
پی آئی اے، اسٹیل ملز، این آئی سی ایل، اوجی ڈی سی، واپڈا اور ریلوے سمیت تمام ادارے اِس طرح تباہ و برباد کر دیے گئے کہ اب اُن کے ملازمین کو تنخواہیں دینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ وہ ہماری معیشت پر ایک بڑا بوجھ بن چکے ہیں اُنہیں منافع بخش بنانا تو کیا ممکن ہو اُنہیں درست حالت میں لانا بھی کسی جوئے شیر کے لانے سے کم نہیں ہے۔ اِن اداروں میں لوٹ مار کے قصے تو سابقہ دور ہی میں مشہور ہونے لگے تھے اور وہ ہماری عدلیہ کے روبرو زیرِ سماعت بھی لائے گئے لیکن حکمرانوں کے اپنے مفادات اُن مقدمات کے راہ میں دیواربن کر کھڑے ہو گئے اور کوئی بھی مقدمہ اپنے حتمی انجام تک نہ پہنچ سکا۔ عدلیہ جس جس شخص کو معطل کرنے کا حکم دیتی حکومت اُنہیں مکمل تحفظ دینے پر آمادہ اور مصر ہو جاتی۔ اِ س کی صرف ایک مثال مشہور ِعالم این آئی سی ایل کیس میں مطلوبہ شخص توقیر صادق کی ہے جسے سابقہ حکمرانوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ابھی تک دبئی سے لایا نہیں جا سکا۔
نواز حکومت کی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اِن جرائم کے کر تا دھرتاؤں کے خلاف کوئی قدم اُٹھاتی ہے تو کہا جا تا ہے کہ ہم نے تو اپنے دورِ حکومت میں کسی کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کی تھیں اور یہ نواز حکومت ایک بار پھر سے 90 ء کی دہائی والی حکمت ِ عملی پر عمل پیرا ہو نے لگی ہے اور اگر وہ بھی اِن کرپشن کی وارداتوں پر پردہ ڈالتے ہوئے خاموشی اختیار کر لے تو پھر دوسری جماعتوں کی جانب سے یہ کہا جانے لگتا ہے کہ دونوں نے مک مکا کر لیا ہے۔ ادھر جناب شیخ رشید ہر صبح بڑی بے چینی سے حکومت کے جانے کے منتظر رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی ایسی خبر آ جائے جو اُن کے دل کو سکون بخش سکے۔ ویسے بھی اُنہوں نے اپنی نجومی طبیعت کے باعث اِس حکومت کو صرف چھ ماہ کا مہمان قرار دے دیا ہے۔ البتہ قوم کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ایسی ہی پیش گوئیاں وہ زرداری حکومت کے لیے بھی کیا کرتے تھے اور ہر چھ ماہ بعد وہ پھر ایک نئی تاریخ دے دیا کرتے تھے۔ آج کل بھی اُن کا وہی طرزِ تکلم اور اندازِ گفتگو ہر چینل کی زینت بنا ہوا ہے اور ہر شام کسی نہ کسی چینل پر وہ اپنے مخصوص اسٹائل اور دلچسپ جملے بازی سے سامعین کو محظوظ کر رہے ہوتے ہیں۔
ادھر سپریم کورٹ نے ہماری نئی حکومت سے جب آرٹیکل 6 کے تحت سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کی کارروائی کرنے کا عندیہ معلوم کرنا چاہا تو جواباً نواز حکومت نے وہی کچھ کیا جو ایک جمہوری منتخب حکومت کو کرنا چاہیے تھا۔ لیکن دوسری جانب دیگر جماعتوں کی جانب سے جو پہلے تو آئین و دستور کے تحفظ کی خاطر حکومت کو ہر ممکن مدد اور تعاون کا یقین دلانے کا دعویٰ کر بیٹھی تھیں مگر اب کسی نہ کسی طرح اِس معاملے کو سرد خانے میں ڈالنے کی تگ و دو کرنے لگی ہیں۔ وہ اِس معاملے کو صرف پرویز مشرف تک نہ رکھنے اور ایک ایسا پینڈورا بکس کھولنے کے لیے کمر بستہ ہو چکی ہیں جس سے کسی نتیجے تک پہنچنا مشکل ہی نہ ہو بلکہ ناممکن ہو جائے۔
اِس کیس میں دوسروں کو شامل کرنے کا مطالبہ دراصل پرویز مشرف کو بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ امر بالکل واضح اور یقینی ہے کہ جوں جوں معاملے کو وسعت اور طول دیا جائے گا آرٹیکل 6 کے تحت صرف پرویز مشرف کو سزا دینا کسی طور ممکن نہ رہے گا اور سارا مقدمہ ایک سعی لاحاصل بن کر خود بخود فائلوں میں دب کر کہیں دفن ہو جائے گا۔ جب ارادوں اور نیتیوں میں خلل اور فتور پیدا ہونے لگتا ہے تو ایسی ہی توجیحات کچھ لوگوں کے ذہنوں میں جنم لینے لگتی ہیں اور وہ دلائل کا انبار لے کر معاملے کو پیچیدہ اور گھمبیر بنانے پر تل جاتے ہیں ۔ اِن میں کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جن کے مفادات اِس معاملے سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ اِس کے پیچھے دراصل اپنے آپ کو بچا رہے ہوتے ہیں یا پھر کچھ لوگ حقِ نمک ادا کرنے کی معصومانہ خواہش میں یہ کام ایک مقدس فریضے کے طور پر کر رہے ہوتے ہیں۔ شیخ رشید اِس دوسری کیٹیگری میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کا نمک ایک عرصے تک کھایا تھا اور وہ ببانگِ دہل اُس کے ہر فعل اور فیصلے میں اسپوکس مین اور صدارتی ترجمان کا کردار بطریقِ احسن نبھاتے رہے ہیں۔ آج اُسی نمک حلالی کا وقت آ چکا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اُسکی ادائیگی چاہتے ہیں۔
اُنہیں پرویز مشرف سے اپنی دلی وابستگی اور محبت جتانے کا اِس سے بہتر کوئی اور موقع نہیں ملے گا جب سابق صدر کے دیگر ساتھی بھی اُن کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ جناب مشرف کو کہاں کہاں بچاتے ہیں کیونکہ اُن کے خلاف تو ابھی اور مقدمات بھی سماعت کی منتظر ہیں جن میں بلوچ لیڈر نواب اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ سب سے اہم ہے۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر ویسے تو آئین و دستور کی حفاظت کی بہت بڑی دعویدار دکھائی دیتی ہے لیکن جب اُس کی حفاظت کا اصل وقت آتا ہے تو پہلو تہی کرتے ہوئے نت نئے بہانے تراشنے شروع کر دیتی ہے۔ اُس کا یہی کردار آج کل بہت نمایاں ہے اور وہ ایک جانب تو دستورِ پاکستان سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کرنے میں پیش پیش ہے تو دوسری جانب کھٹن اور مشکل وقت میں اُس کی حفاظت سے مکمل گریزاں اور انکاری ہے۔ اُس کے اِسی دوغلے پن کی وجہ سے اُس کی جمہوریت نوازی اور جمہوریت پسندی کے دعوؤں پر بھی حرف آنے لگا ہے اور عوام کی نظروں میں اب اُس کا امیج تبدیل ہو نے لگا ہے۔ اب اگر نواز حکومت اِس سلسلے میں کوئی قدم اُٹھاتی ہے تو اُسے محاذ آرائی اور انتقامی کاروائیوں کا طعنہ دیا جاتا ہے اور اگر وہ آنکھیں بند کر کے کرپشن کی تمام وارداتوں پر دہ ڈالے رکھے تو اُس کا یہ فعل یقینا مفاہمت کے نام پر مفادات کی سیاست کرنے اور ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق کرنے کے مترادف ہو گا جس کی بہرحال یہ قوم اب متحمل نہیں ہو سکتی ۔