دیہاتوں سے شہروں کی طرف آبادی کی منتقلی
سیدنا فاروق اعظمؓ وہ خلیفہ ہیں جنہوں نے ایک مخصوص تعداد میں آبادی بڑھنے کے بعد نئے شہر بسانے کی پالیسی پر عمل کیا
آج کل ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کا موضوع ایک بار پھر زیر بحث ہے، گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ آڈیٹوریم میں ایک سمپوزیم بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار، وزیر اعظم عمران خان اور مولانا طارق جمیل سمیت متعدد شخصیات نے خطابات بھی کیے تھے۔ یقینا یہ مسئلہ انتہائی اہم سماجی مسئلہ ہے لیکن میری نظر میں اس سے بھی بڑا مسئلہ آبادی کا دیہات سے قصبوں اور وہاں سے چند مخصوص شہروں میں منتقل ہونا ہے اور اس پر شاید ہی کوئی توجہ دے رہا ہو۔
1951ء میں شہری آبادی ملک کی کل آبادی کا 17 فیصد تھی جو 2018ء میں بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جب کہ 1951ء سے 2018ء کے دوران 67 سال میں شہری آبادی میں 14 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اگریہی رفتار رہی تو 2025 تک شہری آبادی ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہوجائے گی۔ اس وقت لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے اور2025ء تک سوا کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ 2030ء تک ملک کی نصف آبادی شہروں میں رہ رہی ہوگی۔ آبادی کی یہ منتقلی صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہو گی بلکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں کی آبادی بڑے شہروں کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھے گی۔
اگر ہرسال ہزاروں لوگ اسی طرح سے دیہات سے شہروں اور قصبوں میں منتقل ہوتے رہیں گے تو آبادی کا توازن یکسر بدل جائے گا ۔ بے شمار لوگ ایسے ہوں گے، جو نئی جگہ میں آباد تو ہوں گے لیکن وہاں باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہوں گے۔ وہ شہروں کے وسائل استعمال کریں گے جیسا کہ روزگار، خوراک، سڑکیں ،پانی ، بجلی،پٹرول، مکان، ڈاکٹر ، اسپتال ،تھانہ کچہری، سنیما، تھیٹر وغیرہ اور ایسے تمام وسائل خواہ وہ سرکاری ہوں یا ذاتی سبھی میں وہ ایک فعال صارف کے طور پر شریک ہوں گے لیکن ان کا اندراج باقاعدہ کہیں نہیں ہوگا تو منصوبہ بندی میں ہمیشہ غلطیاں ہوتی رہیں گی اور معاشرے میں تناؤ اور کشمکش کی فضا موجود رہے گی۔ معاشی اور اقتصادی منصوبہ بندی کے بغیر نہ وسائل کی تقسیم ہوسکتی ہے نہ ان سے جڑے دیگر معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔
درحقیقت نقل مکانی ، ہجرت یا جلاوطنی کے پیچھے جبر و اختیار کی قوت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔میں اپنی ہی مثال یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق قصور کے قریب ایک گاؤں کھڈیاں سے ہے، میرے والدین مجھے اسکول کی بہتر تعلیم کے لیے کھڈیاں سے قصور بھیجا کرتے تھے(جس کا فاصلہ 25کلومیٹر ہے)۔جب کہ کالج کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور کا رُخ کیا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ آج بھی میرے جیسے کئی طالب علم گاؤں سے شہروں میں محض تعلیم کی غرض سے شفٹ ہو رہے ہیں۔ اور ویسے بھی ''ہجرت'' شوق سے نہیں کی جاتی۔ہجرت جہاں سب سے بڑا دکھ ہے تو وہیں یہ تاریخ کا ایک ایسا جبر ہے جس سے انسان کو مفر نہیں۔ ہجرت کا اپنا ایک تقدس بھی ہے اور اس کی ایک رومانویت بھی۔ فارسی کا ایک شعر ہے کہ
دو چیز آدمی را کشد زور زور
یکی آب و دانہ دگر خاک گور
مفہوم کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ دو چیزیں ہیں جو آدمی کو زور زور سے اپنی جانب کھینچتی ہیں، ایک آب و دانہ یعنی رزق روزی جہاں لگی ہوانسان وہاں کھنچا چلا جاتا ہے تو دوسری چیز ہے قبر کی مٹی۔ یہ ایک ایسے دور کا شعر ہے جب بہت ساری جدید اصطلاحات وضع نہیں کی گئی تھیں اور نہ ہر معاملے پر تشویش پائی جاتی تھی۔ اس آبادی کے انخلاء اور انتقال میں معاشی عوامل سرفہرست ہیں البتہ دیگر چھوٹے موٹے سارے اسباب و عوامل سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جاسکتی۔جن میں تعلیم و صحت جیسی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے۔
صوبہ پنجاب کے 191 شہر اور قصبے ہیں۔ صوبے کی 80 فیصد شہری آبادی 50 بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ کے صرف6 بڑے شہروں میں شہری آبادی کا 60 فیصد حصہ رہائش پذیر ہے۔ دیہی علاقوں میں وسائل آمدن کی کمی، صحت و تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے فقدان کے باعث شہری آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔شہری آبادیوں کا پھیلاؤکسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا عکاس ہوتا ہے تاہم ناقص انتظامی حکمت عملی سے شہری آبادیوں میں غربت، بیماریوں اور جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ دیہات سے شہروں کی جانب سے منتقلی کی شرح پر کنٹرول کرنے کے لیے دیہی علاقوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس کے شہروں کو تیز رفتار پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے گا۔
اسلامی ریاست میں سیدنا فاروق اعظمؓ وہ خلیفہ ہیں جنہوں نے ایک مخصوص تعداد میں آبادی کے بڑھنے کے بعد نئے شہر بسانے کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس سے پہلے نئے شہروں کا قیام اتفاقاً یا فوجی ضروریات کے تحت عمل میں آتا تھا۔ یہ نبویؐ تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رفاہِ عامہ کے پیش نظر کئی نئے شہر بسائے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث انتظامی صورت حال خراب نہ ہو اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر اثر انداز نہ ہو۔
ہمارے ملک میں زرعی پالیسی موجود نہیں ہے اور زراعت پر حکومت کی توجہ بھی نہیں ہے۔ آٹھ دس ایکڑ زمین کا مالک کاشتکار اپنے گھر کے اخراجات پور کرنے کے لیے محنت مزدوری پر مجبور ہے، اگر وہ پنجاب کا رہائشی ہے تو وہ لاہور جیسے بڑے شہر کا رخ کرتا ہے۔ سندھ کا رہنے والا کراچی آئے گا۔ حکمرانوں کوچاہیے کہ دیہی علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، صنعتکاروں کو شہروں کی نسبت دیہات میں انڈسٹری لگانے پر رعایت دیں تاکہ مقامی لوگوں کو وہیں پر ہی روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں۔زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے، کسانوں کو زرعی مداخل سستے داموں ملیں اورانھیں ان کی اجناس کا بہتراور بروقت بھاؤ ملے تاکہ زراعت ایک منافع بخش کاروبار بن جائے اور چھوٹے کسان کھیتی باڑی سے اپنا گزر بسر کرسکیں۔ روزگار کے بعد دوسری بڑی وجہ بہتر اور معیاری تعلیم کا حصول ہیت۔
مقتدر لوگوں کو چاہیے کہ دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولز میں سہولیات فراہم کریں اور ان کا معیار تعلیم پرائیویٹ اسکولز کے برابر کریں ، اسی طرح صحت کے حوالے سے بھی دیہی علاقوں میں شہروں جیسی سہولیات فراہم کی جائیں۔ان تمام امور پر توجہ دے کر شہروں کی طرف نقل مکانی کے اس رجحان کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے، یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے اور اس سے شہروں کے مسائل بڑھتے رہیں گے اور حکومت کی ساری منصوبہ بندیاں ناکام ہوجائیں گی۔
1951ء میں شہری آبادی ملک کی کل آبادی کا 17 فیصد تھی جو 2018ء میں بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جب کہ 1951ء سے 2018ء کے دوران 67 سال میں شہری آبادی میں 14 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اگریہی رفتار رہی تو 2025 تک شہری آبادی ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہوجائے گی۔ اس وقت لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے اور2025ء تک سوا کروڑ سے تجاوز کرجائے گی۔ 2030ء تک ملک کی نصف آبادی شہروں میں رہ رہی ہوگی۔ آبادی کی یہ منتقلی صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہو گی بلکہ چھوٹے شہروں اور قصبوں کی آبادی بڑے شہروں کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھے گی۔
اگر ہرسال ہزاروں لوگ اسی طرح سے دیہات سے شہروں اور قصبوں میں منتقل ہوتے رہیں گے تو آبادی کا توازن یکسر بدل جائے گا ۔ بے شمار لوگ ایسے ہوں گے، جو نئی جگہ میں آباد تو ہوں گے لیکن وہاں باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہوں گے۔ وہ شہروں کے وسائل استعمال کریں گے جیسا کہ روزگار، خوراک، سڑکیں ،پانی ، بجلی،پٹرول، مکان، ڈاکٹر ، اسپتال ،تھانہ کچہری، سنیما، تھیٹر وغیرہ اور ایسے تمام وسائل خواہ وہ سرکاری ہوں یا ذاتی سبھی میں وہ ایک فعال صارف کے طور پر شریک ہوں گے لیکن ان کا اندراج باقاعدہ کہیں نہیں ہوگا تو منصوبہ بندی میں ہمیشہ غلطیاں ہوتی رہیں گی اور معاشرے میں تناؤ اور کشمکش کی فضا موجود رہے گی۔ معاشی اور اقتصادی منصوبہ بندی کے بغیر نہ وسائل کی تقسیم ہوسکتی ہے نہ ان سے جڑے دیگر معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔
درحقیقت نقل مکانی ، ہجرت یا جلاوطنی کے پیچھے جبر و اختیار کی قوت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔میں اپنی ہی مثال یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں کہ میرا تعلق قصور کے قریب ایک گاؤں کھڈیاں سے ہے، میرے والدین مجھے اسکول کی بہتر تعلیم کے لیے کھڈیاں سے قصور بھیجا کرتے تھے(جس کا فاصلہ 25کلومیٹر ہے)۔جب کہ کالج کی تعلیم کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور کا رُخ کیا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ آج بھی میرے جیسے کئی طالب علم گاؤں سے شہروں میں محض تعلیم کی غرض سے شفٹ ہو رہے ہیں۔ اور ویسے بھی ''ہجرت'' شوق سے نہیں کی جاتی۔ہجرت جہاں سب سے بڑا دکھ ہے تو وہیں یہ تاریخ کا ایک ایسا جبر ہے جس سے انسان کو مفر نہیں۔ ہجرت کا اپنا ایک تقدس بھی ہے اور اس کی ایک رومانویت بھی۔ فارسی کا ایک شعر ہے کہ
دو چیز آدمی را کشد زور زور
یکی آب و دانہ دگر خاک گور
مفہوم کچھ اس طرح سے بنتا ہے کہ دو چیزیں ہیں جو آدمی کو زور زور سے اپنی جانب کھینچتی ہیں، ایک آب و دانہ یعنی رزق روزی جہاں لگی ہوانسان وہاں کھنچا چلا جاتا ہے تو دوسری چیز ہے قبر کی مٹی۔ یہ ایک ایسے دور کا شعر ہے جب بہت ساری جدید اصطلاحات وضع نہیں کی گئی تھیں اور نہ ہر معاملے پر تشویش پائی جاتی تھی۔ اس آبادی کے انخلاء اور انتقال میں معاشی عوامل سرفہرست ہیں البتہ دیگر چھوٹے موٹے سارے اسباب و عوامل سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جاسکتی۔جن میں تعلیم و صحت جیسی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے۔
صوبہ پنجاب کے 191 شہر اور قصبے ہیں۔ صوبے کی 80 فیصد شہری آبادی 50 بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ کے صرف6 بڑے شہروں میں شہری آبادی کا 60 فیصد حصہ رہائش پذیر ہے۔ دیہی علاقوں میں وسائل آمدن کی کمی، صحت و تعلیم سمیت بنیادی ضروریات کے فقدان کے باعث شہری آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔شہری آبادیوں کا پھیلاؤکسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا عکاس ہوتا ہے تاہم ناقص انتظامی حکمت عملی سے شہری آبادیوں میں غربت، بیماریوں اور جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ دیہات سے شہروں کی جانب سے منتقلی کی شرح پر کنٹرول کرنے کے لیے دیہی علاقوں میں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس کے شہروں کو تیز رفتار پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے گا۔
اسلامی ریاست میں سیدنا فاروق اعظمؓ وہ خلیفہ ہیں جنہوں نے ایک مخصوص تعداد میں آبادی کے بڑھنے کے بعد نئے شہر بسانے کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس سے پہلے نئے شہروں کا قیام اتفاقاً یا فوجی ضروریات کے تحت عمل میں آتا تھا۔ یہ نبویؐ تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رفاہِ عامہ کے پیش نظر کئی نئے شہر بسائے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث انتظامی صورت حال خراب نہ ہو اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر اثر انداز نہ ہو۔
ہمارے ملک میں زرعی پالیسی موجود نہیں ہے اور زراعت پر حکومت کی توجہ بھی نہیں ہے۔ آٹھ دس ایکڑ زمین کا مالک کاشتکار اپنے گھر کے اخراجات پور کرنے کے لیے محنت مزدوری پر مجبور ہے، اگر وہ پنجاب کا رہائشی ہے تو وہ لاہور جیسے بڑے شہر کا رخ کرتا ہے۔ سندھ کا رہنے والا کراچی آئے گا۔ حکمرانوں کوچاہیے کہ دیہی علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، صنعتکاروں کو شہروں کی نسبت دیہات میں انڈسٹری لگانے پر رعایت دیں تاکہ مقامی لوگوں کو وہیں پر ہی روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں۔زراعت پر خصوصی توجہ دی جائے، کسانوں کو زرعی مداخل سستے داموں ملیں اورانھیں ان کی اجناس کا بہتراور بروقت بھاؤ ملے تاکہ زراعت ایک منافع بخش کاروبار بن جائے اور چھوٹے کسان کھیتی باڑی سے اپنا گزر بسر کرسکیں۔ روزگار کے بعد دوسری بڑی وجہ بہتر اور معیاری تعلیم کا حصول ہیت۔
مقتدر لوگوں کو چاہیے کہ دیہی علاقوں کے سرکاری اسکولز میں سہولیات فراہم کریں اور ان کا معیار تعلیم پرائیویٹ اسکولز کے برابر کریں ، اسی طرح صحت کے حوالے سے بھی دیہی علاقوں میں شہروں جیسی سہولیات فراہم کی جائیں۔ان تمام امور پر توجہ دے کر شہروں کی طرف نقل مکانی کے اس رجحان کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے، یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے اور اس سے شہروں کے مسائل بڑھتے رہیں گے اور حکومت کی ساری منصوبہ بندیاں ناکام ہوجائیں گی۔