وزیراعظم عمران خان اور بھارت سے دوستی
عمران خان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی
KARACHI:
کرتار پور راہداری کا راستہ بھارتی سکھوں کے لیے کھلا تو وزیراعظم عمران خان نے بھارتی صحافیوں سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیانات کی یاد تازہ ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس بات چیت میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کی جنگ کے امکان کو رد کیا اور اس حقیقت کو واضح کیا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، یوں جنگ پورے خطے کو تباہ و برباد کردے گی۔
وزیر اعظم نے گزشتہ صدی کی دو عالمی جنگوں کے بعد جرمنی اور فرانس کی دوستی کی مثال دی۔ انھوں نے کہا کہ جرمنی اور فرانس برسوں ایک دوسرے سے جنگوں میں مصروف رہے، ان جنگوں میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ یورپ کا بیشتر حصہ تباہ ہوا مگر پھر دونوں ممالک کی قیادتوں نے ترقی کے لیے امن کی اہمیت کو محسوس کیا، یوں یورپ میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا، یورپی ممالک یورپی یونین میں متحدہ ہوئے۔ اب نہ صرف یورپ اور امریکا کے باشندے یورپی ممالک میں بغیرکسی رکاوٹ کے سفرکرتے ہیں بلکہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے وہ باشندے جن کے پاس شنجنگ ویزہ ہوتا ہے وہ بھی برطانیہ کے علاوہ تمام یورپی شہروں میں بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کرتے ہیں۔
اس دوستی کے یورپی ممالک کو ان گنت فائدے ہوئے ہیں۔ یورپ کی گزشتہ صدی کے پہلے 45 سال تک دو بڑی جنگوں اور جنگ جیسی صورتحال میں گزرے مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور فرانس میں دوستی کا جامع عمل شروع ہوا۔ پہلے چھ یورپی ممالک کے درمیان 1951ء European Coal and Steel Community (ECSC) کا معاہدہ ہوا۔ پھر جرمنی اور فرانس سمیت دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ ان ممالک نے تجارت کے لیے ٹیکس اور دوسری پابندی ختم کیں، یوں ایک ملک سے خام مال دوسرے ملک میں لگائے گئے کارخانے کی پیداوار میں اضافے کا باعث بنا۔ یورپی شہریوں کو اپنے پڑوسی ممالک میں ملازمتوں اور تجارت کے نئے مواقعے حاصل ہوئے۔ پھر اس کے ساتھ تعلیم، ثقافت، فلم، تھیٹر، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون تیز ہوا۔ جرمنی اور فرانس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت آمیز بیانیے کے خاتمے کا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی نچلی سطح تک پائی جاتی تھی۔
ہٹلر کے دور میں جرمنی کی فوج نے فرانس اور دیگر ممالک کے شہریوں کے خلاف بھیانک جرم کیے تھے جس کے زخم بہت گہرے تھے۔ تاریخ کے اس اہم موقعے پر جرمنی اور فرانس کی قیادت کی بصیرت کا امتحان بھی شروع ہو چکا تھا۔ جرمنی نے علامتی طور پر یورپی ممالک میں نازی فوج کے مظالم پر معافی مانگی۔ دونوں ممالک کی قیادتوں نے یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ نفرت کی دیوار کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینے کے لیے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے نصاب میں تبدیلی کی جائے گی۔ دونوں ممالک نے ماہرین تعلیم کا تقرر کیا۔ ان ماہرین نے ایسے سارے مواد کو حذف کیا جو دونوں ممالک کے درمیان نفرت کا باعث بنتا تھا، دونوں ممالک کے ماہرین نے مشترکہ تاریخ تیار کی۔ یہ تاریخ ہزاروں سال کے ان واقعات پر مشتمل تھی جن میں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبتیں اور دوستی کو تقویت ملتی تھی۔ دونوں ممالک کا بیانیہ جب دوستی اور تعاون میں تبدیل ہوا تو ذرایع ابلاغ کا بیانیہ بھی تبدیل ہوگیا۔ فلموں، تھیٹر، ادب، رقص، غرض کہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں نفرت کے بجائے دوستی اور تعاون کا درس دیا گیا۔
اسی طرح پیدا ہونے والے بچوں کے ذہنوں میں نفرت اور جنگ کے بجائے دوستی، محبت اور تعاون کا پیغام ارتقاء پذیر ہونے لگا۔ تمام یورپی ممالک نے جنگ کا پرچار کرنے کو جرم قرار دیا۔ پاکستان اور بھارت 1947ء میں ایک ساتھ آزاد ہوئے ۔ ہندوستان کے بٹوارے کے وقت مذہبی فسادات نے انسانیت کو پامال کیا، کشمیر کے مسئلے پر تضاد گہرا ہوتا چلا گیا۔ اس مسئلے کی بناء پر چھ بڑی اور چھوٹی جنگیں ہوئیں ۔ ہر جنگ کے بعد فائر بندی ہوئی اور دونوں ممالک کی حکومتیں صورتحال کو معمول پر لانے پر مجبور ہوئیں۔ بقول وزیر اعظم عمران خان کے خطے میں ایٹم بم جیسے خطرناک ہتھیار کی موجودگی سے جنگ کا آپشن ختم ہوگیا ۔ اب معاملہ صرف اور صرف بات چیت پر رکا۔ دنیا کی تاریخ کے مطالعے سے بھی یہ سبق حاصل ہوا کہ کشمیر کے مسئلے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔
پرویز مشرف جب صرف فوج کے سربراہ تھے تو انھوں نے کارگل کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی مگر جب وہ مطلق العنان صدر بنے تو انھوں نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ کارگل جیسا مزید کوئی ایڈونچر ممکن نہیں۔ انھوں نے بھارت سے دوستی کے لیے نئی راہیں کھولنے کی اہمیت پر زور دیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے چھ حل پیش کیے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی صحافیوں کو بتایا کہ ان کے بھارت کے دورے کے دوران سابق وزیر اعظم واجپائی نے انھیں بتایا تھا کہ اس وقت بھارت اور پاکستان اس مسئلے کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری جو چند سال قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر پاکستان میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک نہ چلتی تو پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے حل پر اتفاق رائے ہو جاتا۔
وزیر اعظم عمران خان کی حالیہ بات چیت سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان پرویز مشرف چھ متبادل حل پر پھر سے بات چیت شروع کریں، دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت کی پالیسی ختم کریں اور دونوں ممالک سنجیدگی سے تجارت بڑھانے کے لیے اقدامات کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ خارجہ پالیسی سمیت تمام امور پر فوج ان کی ہم نوا ہے۔ انھیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو تجارتی میدان میں طویل عرصے سے زیر التواء پسندیدہ ملک قرار دینے کے معاملے کو طے کرنا چاہیے۔ بھارت اور افغانستان اٹاری واہگہ سے تورخم کے بارڈر تک سامان کی ترسیل کے لیے راہداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس راستے سے بھارت کا سامان جلد افغانستان پہنچ سکے گا۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کو ٹول ٹیکس کی مد میں خطیر آمدنی ہو گی۔ اس مقصد کے لیے تینوں ممالک میں ایک موٹر وے کے قیام پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ تجارت کا حجم بڑھنے کے ساتھ شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جانا ضروری ہے جو یورپی یونین کے ممالک نے اپنایا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت، ثقافت اور فن کے میدانوں میں تعاون کے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ چین اقتصای راہدار ی کے منصوبے میں دیگر ممالک کی شمولیت کے لیے تیار ہے، اگر پاکستان، بھارت اور افغانستان کے تعلقات مزید بہتر ہو جاتے ہیں تو اس منصوبے میں ان ممالک کی شمولیت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم اور صحت کے شعبوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں بھی تعاون سے دوستی بہت زیادہ مضبوط اور پائیدار ہو سکتی ہے۔
دونوں ممالک کے شہری ہزاروں سال سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی مذہبی عبادت گاہیں ایک دوسرے کے ملک میں قائم ہیں۔ دونوں ممالک کے بشمول کشمیر کے شہریوں کو مذہبی عبادت گاہوں پر جانے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اتنے مضبوط رشتوں کے ساتھ نفرت آمیز بیانیے کا خاتمہ ضروری ہے۔ جرمنی اور فرانس کی طرح بھارت اور پاکستان کے ماہرین دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے نفرت آمیز مواد کو حذف کرنے کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جنگ کا پروپیگنڈہ کرنے پر دونوں ممالک میں پابندی عائد ہونی چاہیے۔
عمران خان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی۔ جب وزیر اعظم مودی لاہور آئے اور میاں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی تو نواز شریف کو ''مودی کا یار'' کا الزام دیا گیا۔ مگر یہ سب ماضی کی داستان تھی اور وزیر اعظم ''یوٹرن ''کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے عملی اقدامات پر غور کر رہے ہیں تو اس خطے میں امن کی اہمیت کو سمجھنے والے ہر شخص کو وزیر اعظم عمران خان کے اس مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے، ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو گا اور غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک مشترکہ منصوبہ بندی کرسکیں گے۔
کرتار پور راہداری کا راستہ بھارتی سکھوں کے لیے کھلا تو وزیراعظم عمران خان نے بھارتی صحافیوں سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے بیانات کی یاد تازہ ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس بات چیت میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کی جنگ کے امکان کو رد کیا اور اس حقیقت کو واضح کیا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، یوں جنگ پورے خطے کو تباہ و برباد کردے گی۔
وزیر اعظم نے گزشتہ صدی کی دو عالمی جنگوں کے بعد جرمنی اور فرانس کی دوستی کی مثال دی۔ انھوں نے کہا کہ جرمنی اور فرانس برسوں ایک دوسرے سے جنگوں میں مصروف رہے، ان جنگوں میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ یورپ کا بیشتر حصہ تباہ ہوا مگر پھر دونوں ممالک کی قیادتوں نے ترقی کے لیے امن کی اہمیت کو محسوس کیا، یوں یورپ میں خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا، یورپی ممالک یورپی یونین میں متحدہ ہوئے۔ اب نہ صرف یورپ اور امریکا کے باشندے یورپی ممالک میں بغیرکسی رکاوٹ کے سفرکرتے ہیں بلکہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے وہ باشندے جن کے پاس شنجنگ ویزہ ہوتا ہے وہ بھی برطانیہ کے علاوہ تمام یورپی شہروں میں بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کرتے ہیں۔
اس دوستی کے یورپی ممالک کو ان گنت فائدے ہوئے ہیں۔ یورپ کی گزشتہ صدی کے پہلے 45 سال تک دو بڑی جنگوں اور جنگ جیسی صورتحال میں گزرے مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور فرانس میں دوستی کا جامع عمل شروع ہوا۔ پہلے چھ یورپی ممالک کے درمیان 1951ء European Coal and Steel Community (ECSC) کا معاہدہ ہوا۔ پھر جرمنی اور فرانس سمیت دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ ان ممالک نے تجارت کے لیے ٹیکس اور دوسری پابندی ختم کیں، یوں ایک ملک سے خام مال دوسرے ملک میں لگائے گئے کارخانے کی پیداوار میں اضافے کا باعث بنا۔ یورپی شہریوں کو اپنے پڑوسی ممالک میں ملازمتوں اور تجارت کے نئے مواقعے حاصل ہوئے۔ پھر اس کے ساتھ تعلیم، ثقافت، فلم، تھیٹر، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون تیز ہوا۔ جرمنی اور فرانس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت آمیز بیانیے کے خاتمے کا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی نچلی سطح تک پائی جاتی تھی۔
ہٹلر کے دور میں جرمنی کی فوج نے فرانس اور دیگر ممالک کے شہریوں کے خلاف بھیانک جرم کیے تھے جس کے زخم بہت گہرے تھے۔ تاریخ کے اس اہم موقعے پر جرمنی اور فرانس کی قیادت کی بصیرت کا امتحان بھی شروع ہو چکا تھا۔ جرمنی نے علامتی طور پر یورپی ممالک میں نازی فوج کے مظالم پر معافی مانگی۔ دونوں ممالک کی قیادتوں نے یہ تاریخی فیصلہ کیا کہ نفرت کی دیوار کو ہمیشہ کے لیے مٹا دینے کے لیے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک کے نصاب میں تبدیلی کی جائے گی۔ دونوں ممالک نے ماہرین تعلیم کا تقرر کیا۔ ان ماہرین نے ایسے سارے مواد کو حذف کیا جو دونوں ممالک کے درمیان نفرت کا باعث بنتا تھا، دونوں ممالک کے ماہرین نے مشترکہ تاریخ تیار کی۔ یہ تاریخ ہزاروں سال کے ان واقعات پر مشتمل تھی جن میں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان محبتیں اور دوستی کو تقویت ملتی تھی۔ دونوں ممالک کا بیانیہ جب دوستی اور تعاون میں تبدیل ہوا تو ذرایع ابلاغ کا بیانیہ بھی تبدیل ہوگیا۔ فلموں، تھیٹر، ادب، رقص، غرض کہ فنون لطیفہ کے ہر شعبے میں نفرت کے بجائے دوستی اور تعاون کا درس دیا گیا۔
اسی طرح پیدا ہونے والے بچوں کے ذہنوں میں نفرت اور جنگ کے بجائے دوستی، محبت اور تعاون کا پیغام ارتقاء پذیر ہونے لگا۔ تمام یورپی ممالک نے جنگ کا پرچار کرنے کو جرم قرار دیا۔ پاکستان اور بھارت 1947ء میں ایک ساتھ آزاد ہوئے ۔ ہندوستان کے بٹوارے کے وقت مذہبی فسادات نے انسانیت کو پامال کیا، کشمیر کے مسئلے پر تضاد گہرا ہوتا چلا گیا۔ اس مسئلے کی بناء پر چھ بڑی اور چھوٹی جنگیں ہوئیں ۔ ہر جنگ کے بعد فائر بندی ہوئی اور دونوں ممالک کی حکومتیں صورتحال کو معمول پر لانے پر مجبور ہوئیں۔ بقول وزیر اعظم عمران خان کے خطے میں ایٹم بم جیسے خطرناک ہتھیار کی موجودگی سے جنگ کا آپشن ختم ہوگیا ۔ اب معاملہ صرف اور صرف بات چیت پر رکا۔ دنیا کی تاریخ کے مطالعے سے بھی یہ سبق حاصل ہوا کہ کشمیر کے مسئلے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔
پرویز مشرف جب صرف فوج کے سربراہ تھے تو انھوں نے کارگل کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی مگر جب وہ مطلق العنان صدر بنے تو انھوں نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ کارگل جیسا مزید کوئی ایڈونچر ممکن نہیں۔ انھوں نے بھارت سے دوستی کے لیے نئی راہیں کھولنے کی اہمیت پر زور دیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی روایتی خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کے چھ حل پیش کیے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی صحافیوں کو بتایا کہ ان کے بھارت کے دورے کے دوران سابق وزیر اعظم واجپائی نے انھیں بتایا تھا کہ اس وقت بھارت اور پاکستان اس مسئلے کے حل کے قریب پہنچ گئے تھے۔ سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری جو چند سال قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اگر پاکستان میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک نہ چلتی تو پرویز مشرف اور واجپائی کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے حل پر اتفاق رائے ہو جاتا۔
وزیر اعظم عمران خان کی حالیہ بات چیت سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان پرویز مشرف چھ متبادل حل پر پھر سے بات چیت شروع کریں، دونوں ممالک ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت کی پالیسی ختم کریں اور دونوں ممالک سنجیدگی سے تجارت بڑھانے کے لیے اقدامات کریں۔ وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ خارجہ پالیسی سمیت تمام امور پر فوج ان کی ہم نوا ہے۔ انھیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو تجارتی میدان میں طویل عرصے سے زیر التواء پسندیدہ ملک قرار دینے کے معاملے کو طے کرنا چاہیے۔ بھارت اور افغانستان اٹاری واہگہ سے تورخم کے بارڈر تک سامان کی ترسیل کے لیے راہداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس راستے سے بھارت کا سامان جلد افغانستان پہنچ سکے گا۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کو ٹول ٹیکس کی مد میں خطیر آمدنی ہو گی۔ اس مقصد کے لیے تینوں ممالک میں ایک موٹر وے کے قیام پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ تجارت کا حجم بڑھنے کے ساتھ شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جانا ضروری ہے جو یورپی یونین کے ممالک نے اپنایا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت، ثقافت اور فن کے میدانوں میں تعاون کے وسیع مواقعے موجود ہیں۔ چین اقتصای راہدار ی کے منصوبے میں دیگر ممالک کی شمولیت کے لیے تیار ہے، اگر پاکستان، بھارت اور افغانستان کے تعلقات مزید بہتر ہو جاتے ہیں تو اس منصوبے میں ان ممالک کی شمولیت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی تعلیم اور صحت کے شعبوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں بھی تعاون سے دوستی بہت زیادہ مضبوط اور پائیدار ہو سکتی ہے۔
دونوں ممالک کے شہری ہزاروں سال سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی مذہبی عبادت گاہیں ایک دوسرے کے ملک میں قائم ہیں۔ دونوں ممالک کے بشمول کشمیر کے شہریوں کو مذہبی عبادت گاہوں پر جانے کی آزادی ہونی چاہیے۔ اتنے مضبوط رشتوں کے ساتھ نفرت آمیز بیانیے کا خاتمہ ضروری ہے۔ جرمنی اور فرانس کی طرح بھارت اور پاکستان کے ماہرین دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعاون کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے نفرت آمیز مواد کو حذف کرنے کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جنگ کا پروپیگنڈہ کرنے پر دونوں ممالک میں پابندی عائد ہونی چاہیے۔
عمران خان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی پالیسی کی سخت مخالفت کی تھی۔ جب وزیر اعظم مودی لاہور آئے اور میاں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کی تو نواز شریف کو ''مودی کا یار'' کا الزام دیا گیا۔ مگر یہ سب ماضی کی داستان تھی اور وزیر اعظم ''یوٹرن ''کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کے لیے عملی اقدامات پر غور کر رہے ہیں تو اس خطے میں امن کی اہمیت کو سمجھنے والے ہر شخص کو وزیر اعظم عمران خان کے اس مؤقف کی حمایت کرنی چاہیے، ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو گا اور غربت اور افلاس کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک مشترکہ منصوبہ بندی کرسکیں گے۔