یونیورسل ہیلتھ کوریج ۔۔۔ ہنوزدلّی دور اَست

یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ان انڈیکیٹرز کے حوالے سے ممالک کی کار کردگی کی مانیٹرنگ دوپیمانوں کی مدد سے کی جا سکتی ہے

ملک میں صحت کی سہولیات کی دستیابی، معیار اور ان سے استفادہ کرنے کے حوالے سے موجود تفاوت عدم مساوات کی بہت سی کہانیاں رقم کر رہی ہے

لاہور:
''اللہ پاک آپ کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھے'' یہ دعا یقیناً انسانیت کے ناطے دنیا کے ہر کونے میں ایک دوسرے کو دی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں تو اس دعا کی ضرورت دوچند ہے۔ کیونکہ ہمارے یہاں عوام کی اکثریت کے لئے بیماری کا علاج نام ہے، عدم مساوات کا، معاشی بوجھ کا، سفارش کا، رشوت کا، تذلیل اور عطائیت کے شکار ہونے کا۔ کیونکہ ملک میں صحت کی سہولیات کی دستیابی، معیار اور ان سے استفادہ کرنے کے حوالے سے جغرافیائی، معاشی، سماجی اور پالیسی کی سطح پر موجود تفاوت عدم مساوات کی بہت سی کہانیاں رقم کر رہی ہے۔

اگرچہ یہ ہرفرد کے صحت کے انسانی حق میں شامل ہے کہ جب بھی ضرورت ہو تو اُسے ہسپتال، کلینک، ادویات اور ڈاکٹر کی معاشی طور پر قابلِ دسترس اور قابلِ بھروسہ خدمات تک رسائی اور دستیابی برابری کی بنیاد پر حاصل ہو ۔ لیکن وطن عزیز میں یہ حق فی الحال''ہنوزدلّی دور اَست ''کے مترادف ہے ۔ یعنی یونیورسل ہیلتھ کوریج (صحت کی سہولیات کا عالمگیر احاطہ) کی صورت میں اس حق پر ابھی بہت کام کی ضرورت ہے ۔کیونکہ پائیدار ترقی کے صحت سے متعلق اہداف میں شامل یونیورسل ہیلتھ کوریج کے سروس کوریج انڈکس کے مطابق پاکستان دنیا کے 183 ممالک (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں ) میں 40 کے اسکور کے ساتھ 162 ویں نمبر پر ہے۔

عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کی ٹریکنگ یو نیورسل ہیلتھ کوریج 2017 گلوبل مانیٹرنگ نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا اس انڈکس میں ا سکور جنوبی ایشیاء کے اسکور 53 اور افریقہ کے اسکور46 سے بھی کم ہے۔ جبکہ دنیا کا اجتماعی اسکور 64 ہے۔ اور کوئی بھی ملک اس انڈکس میں صد فیصد اسکور حاصل نہیں کر پایا۔ کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کی آدھی آبادی کو صحت کی ضروری خدمات (essential health services)کی مکمل کوریج حاصل نہیں ہے۔

جبکہ10 کروڑ افراد صحت کی دیکھ بھال (Health Care) کے لئے اپنی جیب سے ادائیگی کرنے کی وجہ سے انتہائی غربت میں دھنسے ہوئے ہیں ۔ اور80 کروڑ افراد اپنے گھریلو بجٹ کا 10فیصد صحت کی دیکھ بھال پر خرچ کرتے ہیں۔ اس لئے ان جیسے مسائل کی طرف دنیا بھرکی توجہ مبذول کرانے کے لئے اِمسال 12 دسمبر کو دنیا بھر میں یونیورسل ہیلتھ کوریج کا پہلا بین الاقوامی دن منایا جا رہا ہے جس کے لئے '' یو نیورسل ہیلتھ کوریج کے لئے متحد: اب اجتماعی عمل کا وقت ہے'' کے عنوان کا انتخاب کیا گیا ہے۔

یو نیورسل ہیلتھ کوریج سے مراد تمام انفرادیوں اور کمیونٹیز کو درکار صحت کی خدمات معاشی مشکلات کا شکار ہوئے بغیر برابری کی بنیاد پر حاصل ہوں جس میں صحت کے فروغ سے لیکر بیماریوں کی روک تھام، علاج، بحالی اور دیکھ بھال کی ضروری اور معیاری خدمات شامل ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ یو نیورسل ہیلتھ کوریج سے قطعاً مراد صحت کی تمام سہولیات کی مفت فراہمی نہیں۔ کیونکہ کوئی بھی ملک مستقل بنیادوں پر یہ خدمات مفت فراہم نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے تحت ا فراد پر صحت کی خدمات حاصل کرنے کے نتیجے میں پڑنے والے معاشی بوجھ کو کم سے کم کرتے ہوئے اِسے لوگوں کی معاشی پہنچ میں لایا جاتا ہے۔

یہ لوگوں پر صحت کی خدمات کی اپنی جیب سے ادائیگیوں کے مضمرات کو کم کرتا ہے۔ اور اُنکے غربت کے شکار ہونے کے خطرے میں کمی لاتا ہے۔ کیونکہ غیر متوقع بیماریاں افراد کو اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کرنے پر مجبور کردیتی ہیں یا اُنھیں اپنے تمام اثاثے فروخت کرنے یا پھر قرض لینے کا باعث بنتی ہیں۔ جس سے اُن کا اور اُن کے بچوں کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ صرف مالیات کے بارے میں ہی نہیں۔ بلکہ یونیورسل ہیلتھ کوریج سے عدم مساوات کی خلیج میں بھی کمی آتی ہے۔

اس کے تحت بلا تفریق صحت کی دیکھ بھال کی ضروری اورمعیاری خدمات کے ساتھ ساتھ محفوظ، موثر ، معیاری اور معاشی طور پر قابل دسترس ضروری ادویات اور ویکسینز تک سب کی رسائی کو یقینی بنایا جاتاہے۔ یوں یونیورسل ہیلتھ کوریج اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت صحت مند زندگی کو یقینی بنانے، تخفیف غربت اور سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کی کسی بھی کو شش کا ایک اہم عنصر ہے جس کے لئے اقوام متحدہ کے صحت سے متعلق پائیدار ترقیاتی گولز(جس کا نمبر 3 ہے)کا ہدف 3.8 یونیورسل ہیلتھ کوریج کے حوالے سے مقرر کیا گیا ہے۔

اس کے دو انڈیکیٹرز ہیں۔ پہلا 3.8.1 صحت کی ضروری خدمات کی کوریج کے بارے میں ہے۔ جبکہ دوسرا 3.8.2 ملک کی آبادی کے اُس حصہ کے بارے میں ہے جو صحت پر بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ یعنی پہلا انڈیکیٹر یونیورسل ہیلتھ کوریج کی آبادی کی کوریج کے پہلو پر مشتمل ہے تو دوسرا یونیورسل ہیلتھ کوریج کے معاشی تحفظ کے پہلو پر مبنی ہے۔



یونیورسل ہیلتھ کوریج کے ان انڈیکیٹرز کے حوالے سے ممالک کی کار کردگی کی مانیٹرنگ دوپیمانوں کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔ اول: آبادی کا تناسب جسے صحت کی ضروری اور معیاری خدمات تک رسائی حاصل ہے۔ دوم: آبادی کا تناسب جو صحت پر بہت زیادہ گھریلو آمدن خرچ کرتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت اس حوالے سے ممالک میں صحت کی خدمات کی سطح اور ان کی کوریج میں برابری کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے صحت کی 16 ضروری خدمات پر مبنی 4 کیٹگریز کو بطور انڈیکیٹرز استعمال کرتا ہے۔ پہلی کیٹگری تولیدی صحت، ماؤں، نوزائیدہ اور دیگر بچوں کے بارے میں ہے۔ اس میں خاندانی منصوبہ بندی، حمل اور زچگی کے دوران دیکھ بھال، بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس اور نمونیا کے بارے میں صحت مند رویہ شامل ہیں۔

دوسری کیٹگری متعدی امراض سے متعلق ہے۔ اس میں تپ دق کا علاج، ایچ آئی وی کا علاج، ہیپاٹائٹیس کا علاج، ملیریا کی روک تھام کے لئے بستروں کے اوپر کیڑوں سے محفوظ رکھنے والی جالی کا استعمال اور موزوں حفظانِ صحت (سینی ٹیشن)شامل ہیں۔ تیسری کیٹگری غیر متعدی امراض پر مشتمل ہے جس کے انڈیکیٹرز میں بلڈ پریشر بڑھنے کی روک تھام اور علاج، خون میں شکر کی مقدار بڑھنے کی روک تھام اور علاج، رحم کے نچلے حصہ کے کینسر کی سکریننگ اور تمباکو نوشی سے پرہیز شامل ہیں۔ اسی طرح چوتھی اور آخری کیٹگری خدمات کی صلاحیت اور رسائی کے بارے میں ہے ۔اس میں بنیادی ہسپتال تک رسائی، صحت کے عملے کی گنجانیت ، ضروری ادویات تک رسائی اور صحت کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق صحت کی حفاظت جیسے انڈیکیٹرز کا استعمال کیا گیا ہے۔

ان انڈیکیٹرز کی مدد سے کسی بھی ملک کی یو نیورسل ہیلتھ کوریج کے سلسلے میں احاطہ شدہ (Covered) آبادی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اگر ہم پاکستان کے تناظر میں ان انڈیکیٹرز کا جائزہ لیں توصورتحال اتنی حوصلہ افزا نہیں۔ عالمی ادارہ صحت اور ورلڈ بینک کی ٹریکنگ یو نیورسل ہیلتھ کوریج 2017 گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ میں پاکستان کے جن جن انڈیکیٹرز کے اعدادوشمار دستیاب ہیں اُن کے تجزیہ کے مطابق پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی طلب کو جدید طریقوں سے پورا کرنے کی شرح 49 فیصد ہے۔

یوں پاکستان دنیا کے 183 ممالک میں (جن کے اعدادوشمار دستیاب ہیں)134 ویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح حمل کے دوران خواتین کے چار بار چیک اپ کے حوالے سے 37 فیصد شرح کے ساتھ ہم دنیا بھر میں 174 ویں نمبر پر ہیں۔ جبکہ بچوں کو خناق، تشنج اور کالی کھانسی کی تیسری خوراک دینے کے حوالے سے درجہ بندی میں وطن عزیز 72 فیصد شرح کے ساتھ 162 ویں نمبر پر ہے۔ بچوں کے نمونیا کی دیکھ بھال پر مبنی رویئے کے حوالے سے پاکستان64 فیصد شرح کے ساتھ دنیا بھر میں 125 ویں نمبر پر ہے۔

تپ دق کے موثر علاج کے تناظر میں ملک کی صورتحال 59 فیصد شرح کے ساتھ اُسے 100 ویں نمبر پر براجمان کئے ہوئے ہے۔ ایچ آئی وی کے علاج کی 5 فیصد شرح کے ساتھ ارض پاک دنیا میں دوسرے کم تر نمبر یعنی 183 ممالک میں 182 ویں نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ موزوں سینی ٹیشن کی حامل 58 فیصد آبادی کی شرح ہمیں دنیا بھر میں 128 ویں نمبر کی حقدار بنا رہی ہے۔ نارمل بلڈ پریشر کی حامل 70 فیصد آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا میں 166ویں نمبر پر موجود ہے۔

نہار منہ خون میں شکر کی اوسط مقدار کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے۔ جبکہ تمباکو نوشی نہ کرنے والی 80 فیصد آبادی کے ساتھ ہم اقوام عالم میں 96 ویں نمبر پر ہیں۔ علاوہ ازیں دس ہزار افراد کے لئے دستیاب ہسپتال کے6 بستروں کی تعداد کے ساتھ ہم دنیا بھر میں 166 ویں، ایک ہزار آبادی کے لئے ڈاکٹرز کی 0.8 (صفر عشاریہ آٹھ) تعداد کے ساتھ 107 ویں، ایک لاکھ نفوس کے لئے 0.3 (صفر عشاریہ تین) ماہر نفسیات کے ہمراہ 131 ویں اور ایک لاکھ لوگوں کے لئے 1.3 سرجنز کی تعداد کے ساتھ دنیا بھر میں ہماری 136 ویں پوزیشن بنتی ہے۔ جبکہ صحت کے بین الاقوامی قوانین کی بنیادی صلاحیت کے انڈکس کے43 اسکور کے ساتھ پاکستان 166 ویں نمبر پر ہے۔

اسی طرح پائیدار ترقی کے ہدف3.8.2 جو کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج کے معاشی تحفظ کے پہلو سے متعلق ہے۔ اس تناظر میں ہم اگر صحت پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے ملک کی صورتحال کا جائزہ لیں تو امریکی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایولوایشن کی فنانسنگ گلوبل ہیلتھ2016، ڈیولپمنٹ اسیسٹنس پبلک اینڈ پرائیویٹ سپینڈنگ فار دی پیرسوٹ آف یونیورسل ہیلتھ کوریج نامی رپورٹ کے اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق صحت پر جی ڈی پی کا تناسب خرچ کرنے کے حوالے سے2014 میں پاکستان2.7 فیصد کے ساتھ دنیا کے 184 ممالک میں 177 ویں نمبر پر تھا۔جبکہ صحت پر ہونے والے کل اخراجات میں لوگوں کی جیب سے ہونے والی ادائیگیوں پر مشتمل تناسب کے حوالے سے دنیا بھر کی درجہ بندی میں ہم 55.4 فیصد کے ساتھ 15 ویں نمبر پر تھے۔


یہ اعدادوشمار اس بات کی واضح عکاسی کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں صحت پر دنیا کے مقابلے میں اپنی جی ڈی پی کا بہت کم تناسب خرچ کیا جاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پاکستانیوں کو صحت کی خدمات کے حصول کے لئے زیادہ تر اپنی جیب سے ہی ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں۔ جس سے ایس ڈی پی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 4 سے6 فیصد آبادی غربت کے شکنجے میں جکڑی جاتی ہے۔کیونکہ اُنھیں صحت کی سہولیات کے حصول کیلئے اپنی گھریلو آمدن کا نمایاں حصہ صرف کرنا پڑتا ہے۔

اس تمام صورتحال کے باعث پاکستان کی پائیدار ترقی کے یو نیورسل ہیلتھ کوریج پر مبنی ہدف کے حصول کی رفتار جمود کا شکار یا مطلوبہ رفتار سے 50 فیصد سے بھی کم رفتارکی حامل ہے۔ یہ کہنا ہے ایس ڈی جے انڈکس اینڈ ڈیش بورڈ رپورٹ2018 کا۔ سیسٹین ایبل ڈیولپمنٹ سلوشن نیٹ ورک کی یہ رپورٹ دنیا بھر کے ممالک کی پائیدار ترقی کے سلسلے میں کارکردگی کے جائزہ پر مبنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی گو لز کے2018 کے انڈکس میں 54.9 فیصد اسکور کے ساتھ دنیا کے156 ممالک میں 126 ویں پوزیشن پر ہے۔



صحت کی عالمگیر کوریج ،صحت کی خدمات کے احاطہ(کوریج) کی وسعت ، مالی تحفظ اور زیادہ وسائل کی دستیابی سے متعلق ہے۔ صحت کی سہولیات کی کوریج میں وسعت دراصل صحت کی سہولیات کے انفراسٹرکچر اور طبی عملے میں اضافہ اور انکی دستیابی کے مرہون ہے۔ اس وقت پاکستان میں اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 کے مطابق پبلک سیکٹر میں موجود صحت کی سہولیات ( ہسپتال، ڈسپنسریز، دیہی مراکز صحت، ٹی بی سینٹرز، بنیادی مراکز صحت اور زچہ بچہ کی صحت کے مراکز ) کی کل تعداد 14261 ہے۔ اور ایک صحت کی سہولت ملک میں اوسطً 14570 افراد کو خدمات فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ ایک طبی سہولت اوسطً 55 مربع کلومیٹر رقبہ کو کور کرتی ہے۔

اسی طرح رجسٹرڈ طبی عملے (ڈاکٹرز، نرسز، مڈوائفس اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز) کی مجموعی تعداد 368244 ہے۔ جو اوسطً فی کس 564 افراد کو صحت کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ملک میں ایک ڈاکٹر اوسطً 999 جبکہ ایک نرس 2002 افراد کی طبی ضروریات کو پوری کر رہے ہیں۔ اور اگر ہم رقبہ کے تناظر میں طبی عملہ کی موجودگی کی صورتحال کو دیکھیں تو ملک کے 2.3 مربع کلومیٹر میں اوسطً ایک ہیلتھ پروفیشنل موجود ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت ملک کے پبلک

سیکٹر کی تمام طرح کی طبی سہولیات میں موجود بستر وں کی تعداد 126019 ہے۔ اورملک کے اوسطً1649 افراد کے لئے طبی سہولت کا ایک بستر موجود ہے۔ اور جغرافیائی اعتبار سے ملک کے 6.3 مربع کلومیٹر رقبہ میں رہنے والے افراد کے لئے اوسطً ایک بستر دستیاب ہے۔

اسی طرح جب ہم یو نیورسل ہیلتھ کوریج کے دوسرے پہلو یعنی مالی تحفظ اور زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کے تناظر میں ملکی صورتحال کا جائزہ لیں تواس پہلو کی وضاحت وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ نیشنل ہیلتھ اکاؤنٹس پاکستان2015-16 کے اعدادوشمارسے یوں ہوتی ہے کہ 2015-16 میں ملک میں جی ڈی پی کا 3.1 فیصد صحت پر خرچ کیا گیا جس کی مالیت 908 ارب روپے تھی۔ جبکہ بنیادی اور زندگی بچانے والی خدمات کے لئے عالمی ادارہ صحت کی مقرر کردہ درکار حد جی ڈی پی کا 6 فیصد حصہ ہے۔

اسی طرح مذکورہ مالی سال کے دوران ملک میں فی کس صحت کے شعبے میں ہونے والے اخراجات کی مالیت 45 ڈالر رہی۔اس کے برعکس سری لنکا میں اخراجات کی یہ مالیت 127 ڈالر اور بھارت میں 75 ڈالر فی کس تھی۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کی کم آمدن کے حامل ممالک کے لئے متعین کردہ یہ حد 86 ڈالر فی کس ہے۔ اسی طرح ملک میں 2015-16 میں ہونے والے صحت کے شعبے کے کل اخراجات کا 58 فیصد لوگوں کی جیب سے ہونے والی ادائیگیوں پر مشتمل تھا۔

جن کی مالیت 523 ارب روپے تھی۔اور یہ ملک میں صحت کے شعبے میں ہونے والے نجی سیکٹر کے کل اخراجات کا 91 فیصد تھے۔ یوں پاکستان کی اکثریت کو صحت کی سہولیات کی ادائیگیاں جیب سے ہی کرنی پڑتی ہیں جو اُن کے لئے نا گہانی اضافی معاشی بوجھ کا باعث بنتی ہیں۔ اس حوالے سے انٹرنیشنل جرنل آف ایڈوانس ریسرچ اینڈ پبلیکیشن میں شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپر ''ہیلتھ کیئر سسٹم آف پاکستان'' کے مطابق ملک میں27 فیصد آبادی صحت کی مکمل دیکھ بھال کی کوریج سے مستفید ہوتی ہے جس میں زیادہ تر سرکاری اور عسکری ملازمین شامل ہیں۔

جبکہ73 فیصد کو اس سلسلے میں اپنی جیب سے ہی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اور ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ملک میں ذاتی جیب سے صحت کی خدمات کے لئے کئے گئے اخراجات کا50 فیصد ادویات کی ادائیگیوں کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کی بہتری کے لئے حکومتی سطح پر وزیر اعظم کا پروگرام برائے صحت ایک نمایاں قدم ہے۔ یہ سماجی تحفظ کا ایک ایسا پروگرام ہے جس کے تحت پنجاب ، بلوچستان اور فاٹا کے3.2 ملین ایسے خاندانوں کو جو دو ڈالر سے کم آمدن کی غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں دو مرحلوں میں سالانہ 3 لاکھ روپے فی خاندان کے حساب سے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں علاج کی بلامعاوضہ سہولت ہیلتھ کارڈز کے ذریعے فراہم کی جائیں گی۔

صحت پر اخراجات کے حوالے سے ہم نے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے درکار حد کی تو وضاحت کردی۔ اسی طرح اگر ہم صحت کی سہولیات کی درکار تعداد کے حوالے سے بین الا قوامی اسٹینڈرڈز کا جائزہ لیں۔ تو ورلڈ بینک کے مطابق ایک ہزار کی آبادی کے لئے ہسپتال کے 5 بستر ہونے چاہئیں۔ اس حوالے سے ملکی صورتحال کافی فکر انگیز ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی پاکستان اسٹیٹیکل ائیر بک 2016 کے اعدادوشمار کے مطابق مذکورہ سال ملک میں موجود پبلک سیکٹرکے 1201 ہسپتالوں میں موجود بستر وں کی کل تعداد 104740 تھی ۔ یوں 2016 میں ملک کی فی ہزار آبادی کے لئے دستیاب بستر کی اوسطً تعداد محض 0.54 (صفر عشاریہ چوون) بنتی تھی۔ جبکہ پانچ بستر فی ہزار افراد کے اسٹینڈرڈ کے تحت ملک کو مذکورہ سال کی کل آبادی (195400000) کیلئے ہسپتال کے بستروں کی درکار مجموعی تعداد 977000 بنتی ہے۔

یوں ہم درکار بستروں کی تعداد کے حوالے سے 89 فیصد کمی کا شکار ہیں۔ اور ہمارے پاس درکار بستروں کا صرف11 فیصد موجود ہے۔ اس کے علاوہ صحت کی عالمگیر کوریج کے حوالے سے ممالک کی کارکردگی جانچنے کے لئے عالمی ادارہ صحت نے جن انڈیکیٹرز کی نشاندہی کی ہے (جن کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے) ان کو حاصل کرنے کے لئے درکار صحت کے عملے کی کم از کم تعداد کی بھی ڈبلیو ایچ او کی گلوبل اسٹریٹیجی آن ہیومن ریسورسز فار ہیلتھ ورک فورس 2030 نامی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صحت کے بارے میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے ایک ہزار کی آبادی کے لئے 4.45 ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس پر مبنی ہیلتھ پروفیشنلز کی تعداد کو ضروری قرار دیا ہے۔

پاکستان میں اس وقت اکنامک سروے2017-18 کے مطابق رجسٹرڈ ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی مجموعی تعداد 349844 ہے۔ اور اگر ہم اس تعداد کا ملک کی موجودہ آبادی 22کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 5 سو سے موازنہ کریں تو اس وقت ملک میں فی ہزار آبادی کے لئے موجود ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی اوسطً تعداد محض 1.68 ہے۔ جبکہ ہمیں ایک ہزار افراد کے لئے 4.45 کے حساب سے پوری ملکی آبادی کے واسطے 924597ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی ضرورت ہے۔ یوں ہم اس وقت ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی درکار تعداد کی 62 فیصد کمی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس درکار تعداد کے مقابلے میں صرف 38 فیصد صحت کا عملہ موجود ہے۔

اگر ہم صوبوں کی سطح پر اس صورتحال کا جائزہ لیں تو پنجاب ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس 2017 ، ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف سندھ 2017 ، ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف خیبر پختونخوا 2017 اور ڈیولپمنٹ اسٹیٹسٹکس آف بلوچستان 2014-15 نامی رپورٹس کے اعداد وشمار کا تجزیہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہسپتال کے پانچ بستر فی ہزار آبادی کے بین الاقوامی معیار کے تناظر میں سب سے تشویشناک صورتحال سندھ کی ہے جہاں یکم جنوری2016 تک فی ہزار آبادی کے لئے سرکاری ہسپتالوں کے موجود بسترکی اوسط تعداد محض صفرعشاریہ چھبیس (0.26) بنتی تھی جس کے بعد بلوچستان کی صورتحال ہے جہاں یہ تعداد صفر عشاریہ انتالیس (0.39 ) تھی۔

پنجاب میں مذکورہ تاریخ تک ایک ہزار آبادی کے لئے پبلک ہسپتالوں میں دستیاب بستر کی اوسط تعداد صفر عشاریہ پینتالیس (0.45) تھی۔ جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ اوسط صفر عشاریہ اُنسٹھ (0.59) تھی۔ یوں اگر ہم سرکاری ہسپتالوں میں پانچ بستر فی ہزار آبادی کے حوالے سے درکار بستروں کی تعداد کا جائزہ لیں تو پنجاب کو سب سے زیادہ بستروں کی ضرورت ہے۔ صوبے کی یکم جنوری2016 تک کی آبادی کے لئے مجموعی طور پر506955 بستروں کی ضرورت تھی۔ سندھ کو 243386 ، خیبر پختونخوا کو 145630 اور بلوچستان کو 53700 بستر درکار تھے۔ اس طرح صوبوں میں دستیاب اور درکار بستروں کی تعدادکا موازنہ کیا جائے تو طلب اور رسد کا جوفرق بنتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اگر صرف سرکاری ہسپتالوں کو ہی مدنظر رکھا جائے تو پھر سندھ کو اپنی آبادی کے لئے درکار بستروں کی تعداد میں 95 فیصد کمی کا سامنا ہے۔ جبکہ بلوچستان 92 فیصد کمی کا شکار ہے۔ پنجاب کو 91 اور خیبر پختونخوا کو 88 فیصد کمی درپیش ہے۔

اسی طرح پائیدار ترقی کے یونیورسل ہیلتھ کوریج کے اہداف کے حصول کے لئے ڈبلیو ایچ او نے ایک ہزار کی آبادی کے لئے 4.45 ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس پر مبنی ہیلتھ پروفیشنلز کی جس تعداد کو ضروری قرار دیا ہے اُس کا اگر صوبائی سطح پر جائزہ لیں تومذکورہ بالا سرکاری رپورٹس کے اعداد وشمار کے تجزیہ کے مطابق سندھ میں فی ہزار آبادی کے لئے موجود ان ہیلتھ پروفیشنل کی یکم جنوری2016 کو اوسط تعداد صفر عشاریہ بائیس (0.22) بنتی تھی جو پورے ملک میں سب سے کم ہے۔

دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے جہاں یہ تعداد اوسطً صفر عشاریہ تیس (0.30 ) ہے۔ بلوچستان میں صفر عشاریہ چوالیس (0.44 ) اور پنجاب میں 31دسمبر 2016ء تک پورے ملک سے بہتر تعداد یعنی1.35 تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب ہی کو سب سے زیادہ طبی عملے کی بھی ضرورت ہے۔ صوبے کی مذکورہ تاریخ تک کی آبادی کے لئے فی ہزار افرادکے حساب سے مجموعی طور پر 458407 ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی ضرورت تھی۔ دوسری نمایاں ضرورت سندھ کو تھی جہاں یکم جنوری 2016 ء تک کی آبادی کے لئے216613 ہیلتھ پروفیشنلزدرکار تھے۔ خیبر پختونخوا کو 129610 اور بلوچستان کو 47793 کی تعداد پر مبنی طبی عملہ کی ضرورت تھی۔ جبکہ ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی موجود تعداد اور انکی ضرورت کے تناظر میں صورتحال کچھ یوں بنتی ہے۔ سندھ کو 95 فیصد ، خیبر پختونخوا کو 93 ، بلوچستان کو 90 اور پنجاب کو 70 فیصد ڈاکٹرز، نرسز اور میڈ وائفس کی درکار تعداد کی کمی کا سامنا ہے۔

یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضہ کر رہی ہے کہ بے شک ہم رب العالمین کے حضور ملک کے تمام افراد خصوصاً سفید پوش اور غریب طبقے کے بیماریوں سے محفوظ رہنے کی دعا ضرور کریں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ یونیورسل ہیلتھ کوریج سے متعلقہ پائیدار ترقی کے اہداف کو بھی پورا کیا جائے تاکہ دعا اور دوا دونوں ملکر اپنا اثر دکھائیں۔
Load Next Story