وزراء کی بہتر کارکردگی وزارت اعلیٰ کی مضبوطی کیلئے ضروری
عثمان بزدار نے اپنی کابینہ کے 35 وزراء،5 مشیران اور 5 معاونین خصوصی کی کارکردگی رپورٹ عمران خان کو ارسال کردی ہے
لاہور:
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان نے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا آغاز کردیا ہے اور اس حوالے سے پہلے مرحلے میں 9 گھنٹے تک جاری رہنے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 26 وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے اور حسب توقع سبھی وزراء تبدیلی کی کسوٹی پر''کھرے''اترے ہیں، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنی کابینہ کے 35 وزراء،5 مشیران اور 5 معاونین خصوصی کی تین ماہ کی کارکردگی رپورٹ عمران خان کو ارسال کردی ہے، معلوم ہوا ہے کہ اس رپورٹ میں کارکردگی کے حوالے سے ''اے''،''بی'' اور ''سی'' کیٹیگری بنائی گئی ہیں۔
حکومتی حلقوں میں زیر گردش اطلاعات کے مطابق 45 رکنی کابینہ میں سے صرف 10 کے لگ بھگ وزراء ہی ''اے''کیٹیگری میں شامل ہو پائے ہیں جن میں سر فہرست سینئر وزیر عبدالعلیم خان ہیں جبکہ میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، مخدوم ہاشم جواں بخت،نعمان لنگڑیال ، فیاض الحسن چوہان،حافظ ممتاز احمدکا نام بھی ''اے'' کیٹیگری میں شامل ہونے کی اطلاعات سنائی دے رہی ہیں۔ وفاقی کابینہ کے پہلے''کومبنگ آپریشن'' میں تو سب بچ گئے ہیں لیکن پنجاب کابینہ کی''تطہیر'' میں شاید ایسا نہ ہو کیونکہ پنجاب کابینہ کے متعدد وزراء کی کارکردگی سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ ''نشان عبرت'' ہے۔ کارکردگی کے حوالے سے میڈیا اور اپوزیشن کی شدید تنقید کا شکار وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ذاتی حیثیت میں بہتر کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اصل مسئلہ اپنی کابینہ کی ناقص کارکردگی کا درپیش ہے اور کابینہ کے کپتان ہونے کی حیثیت سے نکمے وزراء کی کارکردگی بھی ان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔
سینئر وزیرعبدالعلیم خان نے محکمہ بلدیات کی کارکردگی کو غیر معمولی طور پر بہتر بنایا ہے اوروہ سب سے متحرک اور مفید وزیر ثابت ہو رہے ہیں، اسی طرح میاں محمود الرشید نے ہاوسنگ اور اربن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے عمدہ آغاز کیا ہے، وہ خود بھی رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ رہے ہیں لہذا انہیں ہاوسنگ سکیموں اور شہری آبادیوں کے مسائل کا اندازہ ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد محکمہ صحت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں، صحت کا شعبہ ان گنت مسائل اور مافیاز کا شکار ہے لہذا یہاں تبدیلی دھیرے سے آئے گی۔ ملک نعمان لنگڑیال بحیثیت وزیر زارعت کسانوں کے مسائل کم کرنے اور زراعت کی ترقی کیلئے اپنے محکمہ کو مفید بنانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں محکمہ زراعت کیلئے ایک غیر معمولی سیکرٹری کی اشد ضرورت ہے ۔
پنجاب کابینہ میں شامل ہونے والے چند نوجوان وزراء نے پہلے 100 دن میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی مانند اگر دیگر نوجوان بالخصوص اور تجربہ کار وزراء بالعموم اپنے اپنے محکموں میں سنجیدگی اور ٹیم ورک کے ساتھ کام کریں تو ان کی کارکردگی نہ صرف ان کے اپنے لئے بلکہ سردار عثمان بزدار کیلئے بھی مفید ثابت ہو گی اور سردار عثمان بزدار پر کی جانے والی تنقید بھی کم ہو جائے گی۔کابینہ کی بہتر کارکردگی سے وزیر اعلی پنجاب محفوظ اور مضبوط ہو جائیں گے۔ پنجاب کے نوجوان وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کی کارکردگی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ انہیں شدید معاشی مشکلات اور قلت زر کی صورتحال میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے مالی معاملات کو کم سے کم خرابی کے ساتھ آگے بڑھانا پڑ رہا ہے۔ اس وقت تو حکومت کی حالت یہ ہے کہ پاوں ڈھکیں تو سر ننگا ہوتا ہے اور سر پر چادر لیں تو پاوں نکل آتے ہیں۔
نوجوان اور پرجوش وزیر ایکسائز حافظ ممتاز احمد پہلی دفعہ رکن اسمبلی بنے اور انہیں اہم ترین وزارت بھی مل گئی۔ محکمہ ایکسائز پنجاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال پنجاب کے 2 کروڑ سے زائد افراد اپنے ٹیکس اور موٹر وہیکل معاملات کیلئے محکمہ ایکسائز سے رجوع کرتے ہیں۔ حافظ ممتاز احمد نے اپنے اس محکمہ کو عوام دوست اور کرپشن فری بنانے کیلئے اہم اقدامات کیئے ہیں جن کے نتائج سامنے آرہے ہیں، حکومت نے اب انہیں سیکرٹری ایکسائز کے عہدے پر شیر عالم محسود جیسا غیر معمولی ذہین اور متحرک افسر بھی فراہم کردیا ہے۔
لہذا اب حافظ ممتاز احمد اپنے سیکرٹری شیر عالم محسود اور ڈی جی اکرم اشرف گوندل کے ہمراہ پنجاب کے عوام کیلئے مزید سہولیات کی فراہمی کے منصوبے کامیاب کر سکتے ہیں،اس وقت پنجاب کابینہ کے 20 سے زائد ایسے وزراء ہیں جن کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد اور ہنگامی ضرورت ہے۔ محکمہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہر وزیر کیلئے اس میں نئے اقدامات کرنے ،کارکردگی کو بہتر بنانے اور عوام کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے مواقع ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، بس اس سب کیلئے نیت اور ارادہ مضبوط ہونا چاہیے۔
گزشتہ روز خواجہ برادران کی گرفتاری، حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں شامل کیئے جانے اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے خلاف انکوائری شروع ہونے کے واقعات نے ملک کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حمزہ شہباز لندن جانے کیلئے ایئرپورٹ پہنچے تو ایف آئی اے حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔ جہاں تک خواجہ برادران کی گرفتاری کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے سبھی حلقوں کو ان کی گرفتاری کی توقع پہلے سے تھی، خاص طور پر قیصر امین بٹ کی گرفتار ی اور وعدہ معاف گواہ بن جانے کے بعد یہ گرفتاریاں ہونا ہی تھیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت ان کی جماعت گزشتہ کئی برسوں سے مریم اورنگزیب پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ انہوں نے مریم نواز کے میڈیا سیل کیلئے وزارت اطلاعات کے سرکاری وسائل استعمال کیئے۔آنے والے دنوں میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مزید اہم شخصیات کی گرفتاریوں اور نئی انکوائریاں شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں ان دنوں اس''مفروضہ'' پر خوب بات ہو رہی ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہر صورت 18 ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہے اور تحریک انصاف کی غیر مرئی امداد کی وجہ بھی یہی خواہش تھی لیکن ''کیلکولیشن'' کی کچھ غلطیوں اور اس وقت عمران خان کو''فری ہینڈ'' نہ دینے پر اتفاق رائے کی وجہ سے آج اسمبلیوں میں یہ صورتحال ہے کہ حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر 18 ویں ترمیم ختم نہیں کر سکتی۔
لہذا ''مفروضہ'' کے مطابق اگر اپوزیشن کے تمام اہم رہنما کرپشن کیسز میں گرفتار ہو جائیں تو پھر قبل از وقت انتخابات کروا کر تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت ''پیش'' کی جا سکتی ہے یعنی کہ ''سنجیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے''۔ اس مفروضہ کو بالفرض محال تسلیم کر لیا جائے تو دو تہائی اکثریت سے 18 ویں ترمیم تو ختم ہو سکتی ہے لیکن جو معاشی چیلنجز اس وقت درپیش ہیں اور وزراء کی جو کارکردگی ہے وہ تو دو تہائی والی حکومت میں نہیں بدلے گی۔غیر جانبدار حلقوں کی رائے میں جنوری 2019 ء میں بہت کچھ تبدیل ہوگا، جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کے نئے چیف جسٹس بنیں گے اور اس کے ساتھ ہی اعلی عدلیہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئے گی اور ''جوڈیشل ایکٹو ازم'' میں شاید کمی دیکھنے میں آئے گی ایسے میں اعلی عدلیہ سیاسی مقدمات میں کیا تبدیلی لائے گی اس پر سب کی نگاہ ٹکی ہوئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان نے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا آغاز کردیا ہے اور اس حوالے سے پہلے مرحلے میں 9 گھنٹے تک جاری رہنے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 26 وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے اور حسب توقع سبھی وزراء تبدیلی کی کسوٹی پر''کھرے''اترے ہیں، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے اپنی کابینہ کے 35 وزراء،5 مشیران اور 5 معاونین خصوصی کی تین ماہ کی کارکردگی رپورٹ عمران خان کو ارسال کردی ہے، معلوم ہوا ہے کہ اس رپورٹ میں کارکردگی کے حوالے سے ''اے''،''بی'' اور ''سی'' کیٹیگری بنائی گئی ہیں۔
حکومتی حلقوں میں زیر گردش اطلاعات کے مطابق 45 رکنی کابینہ میں سے صرف 10 کے لگ بھگ وزراء ہی ''اے''کیٹیگری میں شامل ہو پائے ہیں جن میں سر فہرست سینئر وزیر عبدالعلیم خان ہیں جبکہ میاں محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، مخدوم ہاشم جواں بخت،نعمان لنگڑیال ، فیاض الحسن چوہان،حافظ ممتاز احمدکا نام بھی ''اے'' کیٹیگری میں شامل ہونے کی اطلاعات سنائی دے رہی ہیں۔ وفاقی کابینہ کے پہلے''کومبنگ آپریشن'' میں تو سب بچ گئے ہیں لیکن پنجاب کابینہ کی''تطہیر'' میں شاید ایسا نہ ہو کیونکہ پنجاب کابینہ کے متعدد وزراء کی کارکردگی سوالیہ نشان ہی نہیں بلکہ ''نشان عبرت'' ہے۔ کارکردگی کے حوالے سے میڈیا اور اپوزیشن کی شدید تنقید کا شکار وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ذاتی حیثیت میں بہتر کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اصل مسئلہ اپنی کابینہ کی ناقص کارکردگی کا درپیش ہے اور کابینہ کے کپتان ہونے کی حیثیت سے نکمے وزراء کی کارکردگی بھی ان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔
سینئر وزیرعبدالعلیم خان نے محکمہ بلدیات کی کارکردگی کو غیر معمولی طور پر بہتر بنایا ہے اوروہ سب سے متحرک اور مفید وزیر ثابت ہو رہے ہیں، اسی طرح میاں محمود الرشید نے ہاوسنگ اور اربن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے عمدہ آغاز کیا ہے، وہ خود بھی رئیل اسٹیٹ کے بزنس سے وابستہ رہے ہیں لہذا انہیں ہاوسنگ سکیموں اور شہری آبادیوں کے مسائل کا اندازہ ہے، ڈاکٹر یاسمین راشد محکمہ صحت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں، صحت کا شعبہ ان گنت مسائل اور مافیاز کا شکار ہے لہذا یہاں تبدیلی دھیرے سے آئے گی۔ ملک نعمان لنگڑیال بحیثیت وزیر زارعت کسانوں کے مسائل کم کرنے اور زراعت کی ترقی کیلئے اپنے محکمہ کو مفید بنانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں محکمہ زراعت کیلئے ایک غیر معمولی سیکرٹری کی اشد ضرورت ہے ۔
پنجاب کابینہ میں شامل ہونے والے چند نوجوان وزراء نے پہلے 100 دن میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی مانند اگر دیگر نوجوان بالخصوص اور تجربہ کار وزراء بالعموم اپنے اپنے محکموں میں سنجیدگی اور ٹیم ورک کے ساتھ کام کریں تو ان کی کارکردگی نہ صرف ان کے اپنے لئے بلکہ سردار عثمان بزدار کیلئے بھی مفید ثابت ہو گی اور سردار عثمان بزدار پر کی جانے والی تنقید بھی کم ہو جائے گی۔کابینہ کی بہتر کارکردگی سے وزیر اعلی پنجاب محفوظ اور مضبوط ہو جائیں گے۔ پنجاب کے نوجوان وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کی کارکردگی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ انہیں شدید معاشی مشکلات اور قلت زر کی صورتحال میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے مالی معاملات کو کم سے کم خرابی کے ساتھ آگے بڑھانا پڑ رہا ہے۔ اس وقت تو حکومت کی حالت یہ ہے کہ پاوں ڈھکیں تو سر ننگا ہوتا ہے اور سر پر چادر لیں تو پاوں نکل آتے ہیں۔
نوجوان اور پرجوش وزیر ایکسائز حافظ ممتاز احمد پہلی دفعہ رکن اسمبلی بنے اور انہیں اہم ترین وزارت بھی مل گئی۔ محکمہ ایکسائز پنجاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال پنجاب کے 2 کروڑ سے زائد افراد اپنے ٹیکس اور موٹر وہیکل معاملات کیلئے محکمہ ایکسائز سے رجوع کرتے ہیں۔ حافظ ممتاز احمد نے اپنے اس محکمہ کو عوام دوست اور کرپشن فری بنانے کیلئے اہم اقدامات کیئے ہیں جن کے نتائج سامنے آرہے ہیں، حکومت نے اب انہیں سیکرٹری ایکسائز کے عہدے پر شیر عالم محسود جیسا غیر معمولی ذہین اور متحرک افسر بھی فراہم کردیا ہے۔
لہذا اب حافظ ممتاز احمد اپنے سیکرٹری شیر عالم محسود اور ڈی جی اکرم اشرف گوندل کے ہمراہ پنجاب کے عوام کیلئے مزید سہولیات کی فراہمی کے منصوبے کامیاب کر سکتے ہیں،اس وقت پنجاب کابینہ کے 20 سے زائد ایسے وزراء ہیں جن کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی اشد اور ہنگامی ضرورت ہے۔ محکمہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، ہر وزیر کیلئے اس میں نئے اقدامات کرنے ،کارکردگی کو بہتر بنانے اور عوام کیلئے سہولیات فراہم کرنے کے مواقع ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، بس اس سب کیلئے نیت اور ارادہ مضبوط ہونا چاہیے۔
گزشتہ روز خواجہ برادران کی گرفتاری، حمزہ شہباز کا نام ای سی ایل میں شامل کیئے جانے اور سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے خلاف انکوائری شروع ہونے کے واقعات نے ملک کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حمزہ شہباز لندن جانے کیلئے ایئرپورٹ پہنچے تو ایف آئی اے حکام نے ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔ جہاں تک خواجہ برادران کی گرفتاری کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے سبھی حلقوں کو ان کی گرفتاری کی توقع پہلے سے تھی، خاص طور پر قیصر امین بٹ کی گرفتار ی اور وعدہ معاف گواہ بن جانے کے بعد یہ گرفتاریاں ہونا ہی تھیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت ان کی جماعت گزشتہ کئی برسوں سے مریم اورنگزیب پر یہ الزام عائد کرتی رہی ہے کہ انہوں نے مریم نواز کے میڈیا سیل کیلئے وزارت اطلاعات کے سرکاری وسائل استعمال کیئے۔آنے والے دنوں میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مزید اہم شخصیات کی گرفتاریوں اور نئی انکوائریاں شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے سیاسی اور سفارتی حلقوں میں ان دنوں اس''مفروضہ'' پر خوب بات ہو رہی ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ ہر صورت 18 ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہے اور تحریک انصاف کی غیر مرئی امداد کی وجہ بھی یہی خواہش تھی لیکن ''کیلکولیشن'' کی کچھ غلطیوں اور اس وقت عمران خان کو''فری ہینڈ'' نہ دینے پر اتفاق رائے کی وجہ سے آج اسمبلیوں میں یہ صورتحال ہے کہ حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر 18 ویں ترمیم ختم نہیں کر سکتی۔
لہذا ''مفروضہ'' کے مطابق اگر اپوزیشن کے تمام اہم رہنما کرپشن کیسز میں گرفتار ہو جائیں تو پھر قبل از وقت انتخابات کروا کر تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت ''پیش'' کی جا سکتی ہے یعنی کہ ''سنجیاں ہوجان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے''۔ اس مفروضہ کو بالفرض محال تسلیم کر لیا جائے تو دو تہائی اکثریت سے 18 ویں ترمیم تو ختم ہو سکتی ہے لیکن جو معاشی چیلنجز اس وقت درپیش ہیں اور وزراء کی جو کارکردگی ہے وہ تو دو تہائی والی حکومت میں نہیں بدلے گی۔غیر جانبدار حلقوں کی رائے میں جنوری 2019 ء میں بہت کچھ تبدیل ہوگا، جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ ملک کے نئے چیف جسٹس بنیں گے اور اس کے ساتھ ہی اعلی عدلیہ کے رویے میں بھی تبدیلی آئے گی اور ''جوڈیشل ایکٹو ازم'' میں شاید کمی دیکھنے میں آئے گی ایسے میں اعلی عدلیہ سیاسی مقدمات میں کیا تبدیلی لائے گی اس پر سب کی نگاہ ٹکی ہوئی ہے۔