خالی ہاتھ
چونکہ وزیراعظم نے آئین کے تحفظ کا حلف اُٹھا رکھا ہے اس لیے وہ ایسے عدالتی حکم ماننے کے پابند نہیں ہیں۔
این آر او عمل درآمد کیس میں سوئس حکام کو خط لکھنے کے حکم پر عمل نہ کرنے کے ''جرم'' میں عدالت عظمیٰ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد اب موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 27 اگست کو ذاتی طور پر طلب کرلیا ہے جب کہ حکومت نے توہینِ عدالت کے قانون پر عدالتی فیصلے اور این آر او عمل درآمد کیس کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کرتے ہوئے نظرثانی کی دائر کردہ درخواستوں میں موقف اختیار کیا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کا عدالتی حکم آئین و قانون کے خلاف ہے جو آئین کے آرٹیکل 248 ایک کی خلاف ورزی ہے اور خط لکھ دیا جائے تو یہ آرٹیکل 248 ٹو کی خلاف ورزی ہوگا۔
اور چونکہ وزیراعظم نے آئین کے تحفظ کا حلف اُٹھا رکھا ہے اس لیے وہ ایسے عدالتی حکم ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ سابق وزیراعظم کو جس طرح 7 رکنی بینچ میں تین بار بلایا گیا، وہ آئین و قانون کی بے توقیری ہے۔ نظرثانی کی درخواست میں حکومت نے یہ موقف بھی اپنایا کہ چونکہ توہینِ عدالت کا آپشن ایک مرتبہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف استعمال ہوچکا ہے، اب یہ موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا۔ عدالتِ عظمیٰ میں حکومتی اپیلوں کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔
عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی کارروائیوں کے دوران وکلا اور معزز ججز صاحبان کے درمیان آئینی و قانونی نکات مکالمہ ایک عام روایت ہے اور مبصرین و تجزیہ نگار معزز ججز کے ریمارکس کے تناظر میں مقدمات کے امکانی فیصلے کی سمت کا تعیّن کرتے ہوئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اپنی آرا کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ این آر او عمل درآمد کیس میں گزشتہ سے پیوستہ سماعت کے موقعے پر محترم جج جناب جسٹس آصف نواز کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ آصف علی زرداری ہمارے بھی صدر ہیں اور اگر ان کو عالمی سطح پر استثنیٰ حاصل ہے تو عدالت اس ضمن میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہے، عدالت وزیراعظم کو گھر بھیجنا نہیں چاہتی اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان جو خلیج حائل ہوگئی ہے اس کو پُر کرنا ناممکن نہیں اور امید ہے کہ 8 اگست کو کوئی قابلِ قبول حل نکل آئے گا۔
معزز جج کے مذکورہ ریمارکس کے تناظر میں سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس امید کا اظہار کیا جارہا تھا کہ اب این آر او عمل درآمد کیس کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرلیا جائے گا اور راجہ پرویز اشرف کو اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی جیسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تاہم 8 اگست کو جب سماعت کا آغاز ہوا تو کارروائی کے اختتام پر عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو 27 اگست کو ذاتی طور پر عدالت میں طلب کرنے کا شوکاز نوٹس جاری کردیا جس سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور اب آئینی و قانونی ماہرین و تجزیہ نگار برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت این آر او عمل درآمد کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی والا عدالتی عمل دہرانے جارہی ہے اور راجہ پرویز اشرف صاحب کو بھی اپنے پیش رو کی طرح توہینِ عدالت کیس میں نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا، نتیجتاً ملک کے دو اہم ترین اداروں کے درمیان تنائو وکشیدگی میں اضافہ ہوگا، معاملات مزید سنگین اور پیچیدہ ہو کر بند گلی تک بھی جا سکتے ہیں جہاں سے غیر جمہوری قوتوں کو آمرانہ اقدام اُٹھانے کا جواز مل جاتا ہے اور پھر سب کی گگھی بندھ جاتی ہے۔
بعض معزز ججز صاحبان تو پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر آمروں کو نظریۂ ضرورت کے تحت سندِ جواز عطا کر دیتے ہیں لیکن عوام اور سیاستداں پھر عشروں تک آمریت کے اندھیروں میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے اس بدقسمت ملک میں یہی کچھ ہوتا آرہا ہے۔ آثار اور حالات کے تیور ہرگز اچھے نہیں ہیں تاہم اسی کسی بھی امکانی صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو سر جوڑ کے بیٹھنا ہو گا۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے ملک میں منصفانہ انتخابات اور نگراں حکومت کے قیام کے لیے اپوزیشن اور دیگر سیاسی قائدین سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے جو خوش آیند بات جب کہ صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونیوالے حالیہ اجلاس میں واضح طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔
کسی ادارے کو یہ اختیار سلب کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ پی پی پی کی قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ صدر زرداری نے یومِ آزادی کے موقعے پر بھی خبردار کیا ہے کہ آئین و پارلیمنٹ پر نئے طرز کے حملوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ پارلیمنٹ عوام کی آواز ہے، اسے کوئی خاموش نہیں کرسکتا۔
آج پھر عدلیہ ملک کے آئینی و قانونی ماہرین، مبصرین و تجزیہ نگاروں اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں عدلیہ کے کردار پر بحث کی جارہی ہے۔ ہر دو فریق اپنے اپنے موقف کو قانون و آئین کے مطابق درست سمجھتے ہوئے اس پر قائم رہنے پر مصر ہیں، ڈور الجھتی جارہی ہے، کسی فریق کو سرا نہیں مل رہا کہ اس گتھی کو حکمت و بصیرت سے سلجھایا جاسکے۔ ایک طرف عدلیہ کی آزادی اس کے آئینی کردار اور حدود پر دلائل کے انبار لگائے جارہے ہیں تو دوسری جانب آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کے حق میں بھی ٹھوس دلائل سامنے آرہے ہیں۔ ملک کے ممتاز ترین اور سکہ بند آئینی و قانونی ماہر چوہدری اعتزاز احسن کہ ''مستند ہے ان کا فرمایا ہوا'' نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ عدلیہ کچھ معاملات میں آئین سے بھی آزاد ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ کی فعالیت یک طرفہ ہے، سب معاملات میں برابر نہیں، پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ غلط تھا۔ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ سربراہِ مملکت پر مقدمہ نہیں چل سکتا تو پھر سپریم کورٹ کس طرح کسی دوسرے ملک میں اپنے صدر پر مقدمہ چلانے کا حکم دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر اور انسانی حقوق کی نقیب محترمہ عاصمہ جہانگیر کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ عدالت نے وزیراعظم کو توہینِ عدالت کیس میں شوکاز نوٹس کسی خاص حکمت عملی کے تحت جاری کیا ہے اور اگر عدلیہ کسی منصوبے کا حصّہ ہو تو نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ مذکورہ وکلا کی آراء اور مجموعی صورت حال کے تناظر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ارباب حل و عقد ماضی سے سبق حاصل کریں، ذاتی پسند و ناپسند کی ملک کے مجموعی مفاد کو مقدم رکھیں اور ادارتی بالادستی کی ''مہم جوئی'' سے گریز کریں وگرنہ سب کو خالی ہاتھ گھر جانا پڑے گا۔
اور چونکہ وزیراعظم نے آئین کے تحفظ کا حلف اُٹھا رکھا ہے اس لیے وہ ایسے عدالتی حکم ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ سابق وزیراعظم کو جس طرح 7 رکنی بینچ میں تین بار بلایا گیا، وہ آئین و قانون کی بے توقیری ہے۔ نظرثانی کی درخواست میں حکومت نے یہ موقف بھی اپنایا کہ چونکہ توہینِ عدالت کا آپشن ایک مرتبہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف استعمال ہوچکا ہے، اب یہ موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا۔ عدالتِ عظمیٰ میں حکومتی اپیلوں کی سماعت شروع ہوچکی ہے۔
عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی کارروائیوں کے دوران وکلا اور معزز ججز صاحبان کے درمیان آئینی و قانونی نکات مکالمہ ایک عام روایت ہے اور مبصرین و تجزیہ نگار معزز ججز کے ریمارکس کے تناظر میں مقدمات کے امکانی فیصلے کی سمت کا تعیّن کرتے ہوئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اپنی آرا کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ این آر او عمل درآمد کیس میں گزشتہ سے پیوستہ سماعت کے موقعے پر محترم جج جناب جسٹس آصف نواز کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ آصف علی زرداری ہمارے بھی صدر ہیں اور اگر ان کو عالمی سطح پر استثنیٰ حاصل ہے تو عدالت اس ضمن میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہے، عدالت وزیراعظم کو گھر بھیجنا نہیں چاہتی اور ریاست کے دونوں ستونوں کے درمیان جو خلیج حائل ہوگئی ہے اس کو پُر کرنا ناممکن نہیں اور امید ہے کہ 8 اگست کو کوئی قابلِ قبول حل نکل آئے گا۔
معزز جج کے مذکورہ ریمارکس کے تناظر میں سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس امید کا اظہار کیا جارہا تھا کہ اب این آر او عمل درآمد کیس کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرلیا جائے گا اور راجہ پرویز اشرف کو اپنے پیش رو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی جیسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تاہم 8 اگست کو جب سماعت کا آغاز ہوا تو کارروائی کے اختتام پر عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو 27 اگست کو ذاتی طور پر عدالت میں طلب کرنے کا شوکاز نوٹس جاری کردیا جس سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور اب آئینی و قانونی ماہرین و تجزیہ نگار برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ عدالت این آر او عمل درآمد کیس میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی والا عدالتی عمل دہرانے جارہی ہے اور راجہ پرویز اشرف صاحب کو بھی اپنے پیش رو کی طرح توہینِ عدالت کیس میں نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا، نتیجتاً ملک کے دو اہم ترین اداروں کے درمیان تنائو وکشیدگی میں اضافہ ہوگا، معاملات مزید سنگین اور پیچیدہ ہو کر بند گلی تک بھی جا سکتے ہیں جہاں سے غیر جمہوری قوتوں کو آمرانہ اقدام اُٹھانے کا جواز مل جاتا ہے اور پھر سب کی گگھی بندھ جاتی ہے۔
بعض معزز ججز صاحبان تو پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر آمروں کو نظریۂ ضرورت کے تحت سندِ جواز عطا کر دیتے ہیں لیکن عوام اور سیاستداں پھر عشروں تک آمریت کے اندھیروں میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں سے اس بدقسمت ملک میں یہی کچھ ہوتا آرہا ہے۔ آثار اور حالات کے تیور ہرگز اچھے نہیں ہیں تاہم اسی کسی بھی امکانی صورتحال سے بچنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو سر جوڑ کے بیٹھنا ہو گا۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے ملک میں منصفانہ انتخابات اور نگراں حکومت کے قیام کے لیے اپوزیشن اور دیگر سیاسی قائدین سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے جو خوش آیند بات جب کہ صدر آصف علی زرداری کی صدارت میں ہونیوالے حالیہ اجلاس میں واضح طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔
کسی ادارے کو یہ اختیار سلب کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔ پی پی پی کی قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کی سخت مزاحمت کی جائے گی۔ صدر زرداری نے یومِ آزادی کے موقعے پر بھی خبردار کیا ہے کہ آئین و پارلیمنٹ پر نئے طرز کے حملوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ پارلیمنٹ عوام کی آواز ہے، اسے کوئی خاموش نہیں کرسکتا۔
آج پھر عدلیہ ملک کے آئینی و قانونی ماہرین، مبصرین و تجزیہ نگاروں اور سیاسی و صحافتی حلقوں میں عدلیہ کے کردار پر بحث کی جارہی ہے۔ ہر دو فریق اپنے اپنے موقف کو قانون و آئین کے مطابق درست سمجھتے ہوئے اس پر قائم رہنے پر مصر ہیں، ڈور الجھتی جارہی ہے، کسی فریق کو سرا نہیں مل رہا کہ اس گتھی کو حکمت و بصیرت سے سلجھایا جاسکے۔ ایک طرف عدلیہ کی آزادی اس کے آئینی کردار اور حدود پر دلائل کے انبار لگائے جارہے ہیں تو دوسری جانب آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کے حق میں بھی ٹھوس دلائل سامنے آرہے ہیں۔ ملک کے ممتاز ترین اور سکہ بند آئینی و قانونی ماہر چوہدری اعتزاز احسن کہ ''مستند ہے ان کا فرمایا ہوا'' نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا ہے کہ عدلیہ کچھ معاملات میں آئین سے بھی آزاد ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ کی فعالیت یک طرفہ ہے، سب معاملات میں برابر نہیں، پارلیمان دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے جسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ غلط تھا۔ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ سربراہِ مملکت پر مقدمہ نہیں چل سکتا تو پھر سپریم کورٹ کس طرح کسی دوسرے ملک میں اپنے صدر پر مقدمہ چلانے کا حکم دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر اور انسانی حقوق کی نقیب محترمہ عاصمہ جہانگیر کا تبصرہ بھی قابلِ غور ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ عدالت نے وزیراعظم کو توہینِ عدالت کیس میں شوکاز نوٹس کسی خاص حکمت عملی کے تحت جاری کیا ہے اور اگر عدلیہ کسی منصوبے کا حصّہ ہو تو نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ مذکورہ وکلا کی آراء اور مجموعی صورت حال کے تناظر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ ارباب حل و عقد ماضی سے سبق حاصل کریں، ذاتی پسند و ناپسند کی ملک کے مجموعی مفاد کو مقدم رکھیں اور ادارتی بالادستی کی ''مہم جوئی'' سے گریز کریں وگرنہ سب کو خالی ہاتھ گھر جانا پڑے گا۔