گناہ ٹیکس کیا ہوتا ہے
سیاسی اختلافات کی بنیاد بھی اصل میں طریقہ کار ہی کا اختلاف ہے کہ ایک جماعت ایک راستے کو بہتر سمجھتی ہے۔
نیکی اور گناہ اور عذاب و ثواب ایسے موضوعات ہیں جن کا تعلق ان دنیاؤں سے بھی ہے جو ابھی پردہ ٔ غیب میں ہیں اور دنیا کی تقریباً نصف آبادی جن پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتی لیکن اس کے باوجود یہ الفاظ اور تصورات ہمہ وقت اپنے ہونے کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ نہ صرف بیشتر دل و دماغ کو چھونے والی باتوں کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں انھیں سے جا نکلتا ہے بلکہ مزاح' بذلہ سنجی witاور پیروڈی کے حوالے سے بھی یہ موضوع ہر معاشرے میں ہٹ چلا آ رہا ہے، اب اس پس منظر میں حال ہی میں سگریٹ پر لگائے جانے والے ''گناہ ٹیکس'' کو دیکھا جائے تو یہ سب کچھ آپس میں خط ملط ہو جاتا ہے۔
مذہبی اصطلاحات کے حوالے سے ''گناہ'' کے کئی روپ بیان کیے گئے ہیں جب کہ ان کی شدت کو واضح کرنے کے لیے ''گناہ کبیرہ'' اور ''گناہ صغیرہ'' سے کام چلایا جاتا ہے، اب تک تو یہی سنا تھا کہ حشر کے روز آدم سے لے کر قیامت کے لمحے تک زندگی پانے والی تمام خلق خدا کے اعمال کو گناہ و ثواب کے پیمانے پر تولا جائے گا اور اسی کے حوالے سے اس کے لیے اگلی اور ہمیشہ رہنے والی دنیا میں جزا اور سزا کا تعین ہو گا لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر مذہب اور عقیدے کے کچھ ٹھیکے داروں نے اس صورت حال سے کھلواڑ کرنے کی ایک سے بڑھ کر ایک کوششیں کی ہیں مثال کے طور پر بارہویں، تیرہویں صدی عیسوی میں یورپ میں رومن کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھنے والے مذہبی سسٹم میں جنت اور اگلی دنیا میں اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کے لیے چرچ کی طرف سے کچھ ''شارٹ کٹ'' نکالے گئے تھے۔ (اگرچہ مارٹن لوتھر کی اس ضمن میں احتجاجی تحریک کے باعث ''پروٹسٹنٹ فرقہ ظہور میں آیا لیکن یہ روش اب تک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔
ہندوؤں کے رشی منی ہوں یا ہم مسلمانوں کے پیر فقیر اب بھی اس دنیا میں کیے جانے والے گناہوں کی معافی یا ان کی سزا میں کمی ان لوگوں کو مختلف طرح کے عجیب و غریب ٹیکس ادا کرنے سے مل جاتی ہے۔ ہمارے یہاں زیادہ تر کاروبار میں گڑ بڑ کرنے والوں کا مذہبی حوالے سے کھل کر خرچ کرنے کے پیچھے بھی اصل میں یہی تسلسل کار فرما ہے۔ سگریٹ سازی اس وقت دنیا کی ایک بڑی صنعت اور سگریٹ نوشی ایک محبوب مشغلہ اور عادت ہے۔ تمباکو نوشی کے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ضمن میں بعض بہت عجیب و غریب اور مضحکہ خیر باتیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ یہ غالباً دنیا کی واحد پراڈکٹ ہے جس کی تشہیر میں یہ بھی لکھنا لازم ہے کہ اس کی وجہ سے آپ مختلف طرح کی موزی بیماریوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ براہ راست فوت بھی ہو سکتے ہیں اور یہ کہ اس کا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے۔ لیکن حال ہی میں اس کے حوالے سے جو ''گناہ ٹیکس'' کا تصور سامنے آیا ہے۔ اس نے تو حد ہی کر دی ہے۔ کسی فلسفی کا قول ہے کہ
''ضمیر کی آواز انسان کو گناہ سے روکتی تو نہیں البتہ اس کا مزا خراب کر دیتی ہے''۔ اب اس''گناہ ٹیکس'' پر آج اور مستقبل کا فلسفی کیا کیا کہے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس نے بھی سگریٹ نوشی کے ساتھ ''گناہ'' اور پھر اس کے بعد ''ٹیکس'' کا ٹانکا لگایا ہے اس کی حس مزاح داد کے قابل ہے اور اگر اس کا سلسلہ اس سوچ سے ہے جس میں ٹیکس ادا کر کے گناہ کو بخشوا لیا جاتا تھا تب بھی یہ اپنی جگہ پر ایک ''جہاں معنی'' رکھتا ہے کہ اس کی مدد سے اکیسویں صدی میں بھی کسی برائی کو گناہ ٹیکس کا گنگا اشنان دے کر اس کی حفاظت اور فروغ کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ انور مسعود نے اس صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے کہ
سرکار کی بے ساختہ رفتار و روش سے
جو سلسلۂ ٹیکس نمودار ہوا ہے
کیا جانیے اس ضمن میں کیا ہوؤے گا آگے
فی الحال تو سگریٹ ہی گنہگار ہوا ہے
پی ٹی آئی حکومت کی سو روزہ کارکردگی پر اس کے حق میں کم اور مخالفت میں زیادہ باتیں کی جا رہی ہیں۔ میں سیاسی معاملات بالخصوص سیاستدانوں کے غیر ذمے دارانہ بیانات اور حکومتوں کے بعض عجیب الخلقت منصوبوں اور اس کے بلا یا کم سوچے سمجھے اقدامات پر بات کرنے کی تضیع اوقات سمجھتا ہوں اور حتیٰ الممکن اس سے پرہیز بھی کرتا ہوں کہ یہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کروانے کا سا کاروبار ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس تنقید سے خیر کا عملی پہلو نکلنے کی توقع یا گنجائش ہو وہاں کبھی کبھی اس امید پر اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں کہ ''شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات''۔
ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کی ترقی اور بھلائی کے لیے جو بھی اچھا سوچنے یا کرنے کی کوشش کرے اس کی مدد اور رہنمائی ہم سب کا فرض ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد بھی اصل میں طریقہ کار ہی کا اختلاف ہے کہ ایک جماعت ایک راستے کو بہتر سمجھتی ہے اور دوسری کسی اور کو مگر مقصد تو سب کا قوم کی فلاح اور بہتری میں ہے اور ہونا چاہیے۔
میں ذاتی طور پر ایک امید پرست اور خوش گمان انسان ہوں اور اس حوالے سے اس بات پر یقین رکھنا ہوں کہ عمران خان اپنی عقل و فہم اور استعداد کے مطابق پاکستان کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے اور اس کے بعض متنازعہ بیانات اور اقدامات کو بھی اس اسپرٹ کے ساتھ دیکھنا چاہیے البتہ اس بات کا خیال ضرور رہنا چاہیے کہ الفاظ اور اصطلاحات کی حرمت اور ان کے استعاراتی مطالب کی نوعیت کو سمجھ کر بات کی جائے اور اگر اس عمل میں کہیں کوئی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو اسے مان کر درست کر لیا جائے اور''گناہ ٹیکس'' قسم کے شوشوں اور ان کو ہوا دینے والوں سے بچا جائے کہ سگریٹ نوشی ایک عجیب یا بری بات تو ہو سکتی ہے مگر اسے گناہ کہنا اور پھر اس پر ٹیکس لگا کر اسے ''جائز'' یا دوسرے لفظوں میں نقصان سے پاک قرار دے دینا ایک بچگانہ اور فضول سی بات ہے کہ ہر باپ اپنی جگہ پر ہی اچھی لگتی ہے چلتے چلتے ''گناہ'' کے حوالے سے یگانہ کا ایک بے نظیر شعر سنتے جایئے کہ اس میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں۔
گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنے کہ پھر ہنسا نہ گیا
مذہبی اصطلاحات کے حوالے سے ''گناہ'' کے کئی روپ بیان کیے گئے ہیں جب کہ ان کی شدت کو واضح کرنے کے لیے ''گناہ کبیرہ'' اور ''گناہ صغیرہ'' سے کام چلایا جاتا ہے، اب تک تو یہی سنا تھا کہ حشر کے روز آدم سے لے کر قیامت کے لمحے تک زندگی پانے والی تمام خلق خدا کے اعمال کو گناہ و ثواب کے پیمانے پر تولا جائے گا اور اسی کے حوالے سے اس کے لیے اگلی اور ہمیشہ رہنے والی دنیا میں جزا اور سزا کا تعین ہو گا لیکن یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر مذہب اور عقیدے کے کچھ ٹھیکے داروں نے اس صورت حال سے کھلواڑ کرنے کی ایک سے بڑھ کر ایک کوششیں کی ہیں مثال کے طور پر بارہویں، تیرہویں صدی عیسوی میں یورپ میں رومن کیتھولک عقیدے سے تعلق رکھنے والے مذہبی سسٹم میں جنت اور اگلی دنیا میں اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کے لیے چرچ کی طرف سے کچھ ''شارٹ کٹ'' نکالے گئے تھے۔ (اگرچہ مارٹن لوتھر کی اس ضمن میں احتجاجی تحریک کے باعث ''پروٹسٹنٹ فرقہ ظہور میں آیا لیکن یہ روش اب تک کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔
ہندوؤں کے رشی منی ہوں یا ہم مسلمانوں کے پیر فقیر اب بھی اس دنیا میں کیے جانے والے گناہوں کی معافی یا ان کی سزا میں کمی ان لوگوں کو مختلف طرح کے عجیب و غریب ٹیکس ادا کرنے سے مل جاتی ہے۔ ہمارے یہاں زیادہ تر کاروبار میں گڑ بڑ کرنے والوں کا مذہبی حوالے سے کھل کر خرچ کرنے کے پیچھے بھی اصل میں یہی تسلسل کار فرما ہے۔ سگریٹ سازی اس وقت دنیا کی ایک بڑی صنعت اور سگریٹ نوشی ایک محبوب مشغلہ اور عادت ہے۔ تمباکو نوشی کے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے اس ضمن میں بعض بہت عجیب و غریب اور مضحکہ خیر باتیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ یہ غالباً دنیا کی واحد پراڈکٹ ہے جس کی تشہیر میں یہ بھی لکھنا لازم ہے کہ اس کی وجہ سے آپ مختلف طرح کی موزی بیماریوں کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ براہ راست فوت بھی ہو سکتے ہیں اور یہ کہ اس کا استعمال انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہے۔ لیکن حال ہی میں اس کے حوالے سے جو ''گناہ ٹیکس'' کا تصور سامنے آیا ہے۔ اس نے تو حد ہی کر دی ہے۔ کسی فلسفی کا قول ہے کہ
''ضمیر کی آواز انسان کو گناہ سے روکتی تو نہیں البتہ اس کا مزا خراب کر دیتی ہے''۔ اب اس''گناہ ٹیکس'' پر آج اور مستقبل کا فلسفی کیا کیا کہے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جس نے بھی سگریٹ نوشی کے ساتھ ''گناہ'' اور پھر اس کے بعد ''ٹیکس'' کا ٹانکا لگایا ہے اس کی حس مزاح داد کے قابل ہے اور اگر اس کا سلسلہ اس سوچ سے ہے جس میں ٹیکس ادا کر کے گناہ کو بخشوا لیا جاتا تھا تب بھی یہ اپنی جگہ پر ایک ''جہاں معنی'' رکھتا ہے کہ اس کی مدد سے اکیسویں صدی میں بھی کسی برائی کو گناہ ٹیکس کا گنگا اشنان دے کر اس کی حفاظت اور فروغ کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ انور مسعود نے اس صورتحال پر کچھ یوں تبصرہ کیا ہے کہ
سرکار کی بے ساختہ رفتار و روش سے
جو سلسلۂ ٹیکس نمودار ہوا ہے
کیا جانیے اس ضمن میں کیا ہوؤے گا آگے
فی الحال تو سگریٹ ہی گنہگار ہوا ہے
پی ٹی آئی حکومت کی سو روزہ کارکردگی پر اس کے حق میں کم اور مخالفت میں زیادہ باتیں کی جا رہی ہیں۔ میں سیاسی معاملات بالخصوص سیاستدانوں کے غیر ذمے دارانہ بیانات اور حکومتوں کے بعض عجیب الخلقت منصوبوں اور اس کے بلا یا کم سوچے سمجھے اقدامات پر بات کرنے کی تضیع اوقات سمجھتا ہوں اور حتیٰ الممکن اس سے پرہیز بھی کرتا ہوں کہ یہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کروانے کا سا کاروبار ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس تنقید سے خیر کا عملی پہلو نکلنے کی توقع یا گنجائش ہو وہاں کبھی کبھی اس امید پر اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں کہ ''شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات''۔
ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کی ترقی اور بھلائی کے لیے جو بھی اچھا سوچنے یا کرنے کی کوشش کرے اس کی مدد اور رہنمائی ہم سب کا فرض ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد بھی اصل میں طریقہ کار ہی کا اختلاف ہے کہ ایک جماعت ایک راستے کو بہتر سمجھتی ہے اور دوسری کسی اور کو مگر مقصد تو سب کا قوم کی فلاح اور بہتری میں ہے اور ہونا چاہیے۔
میں ذاتی طور پر ایک امید پرست اور خوش گمان انسان ہوں اور اس حوالے سے اس بات پر یقین رکھنا ہوں کہ عمران خان اپنی عقل و فہم اور استعداد کے مطابق پاکستان کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے اور اس کے بعض متنازعہ بیانات اور اقدامات کو بھی اس اسپرٹ کے ساتھ دیکھنا چاہیے البتہ اس بات کا خیال ضرور رہنا چاہیے کہ الفاظ اور اصطلاحات کی حرمت اور ان کے استعاراتی مطالب کی نوعیت کو سمجھ کر بات کی جائے اور اگر اس عمل میں کہیں کوئی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو اسے مان کر درست کر لیا جائے اور''گناہ ٹیکس'' قسم کے شوشوں اور ان کو ہوا دینے والوں سے بچا جائے کہ سگریٹ نوشی ایک عجیب یا بری بات تو ہو سکتی ہے مگر اسے گناہ کہنا اور پھر اس پر ٹیکس لگا کر اسے ''جائز'' یا دوسرے لفظوں میں نقصان سے پاک قرار دے دینا ایک بچگانہ اور فضول سی بات ہے کہ ہر باپ اپنی جگہ پر ہی اچھی لگتی ہے چلتے چلتے ''گناہ'' کے حوالے سے یگانہ کا ایک بے نظیر شعر سنتے جایئے کہ اس میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں۔
گناہ زندہ دلی کہیے یا دل آزاری
کسی پہ ہنس لیے اتنے کہ پھر ہنسا نہ گیا