بڑھتی آبادی سماجی مسئلہ ہے

موجودہ دور میں زیادہ آبادی کے بجائے ہنرمند ،تعلیم یافتہ اور صحت مند آبادی کو معاشی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

ali.dhillon@ymail.com

میرا گزشتہ کالم آبادی کی دیہاتوں سے شہروں کو منتقلی پر دوست احباب نے اعتراض لگایا کہ یہ فطری عمل ہے اور یہ فطری عمل بنی نوع انسان کی تخلیق کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ پھر دوست احباب نے اس ''منتقلی'' کو مذہبی رنگ دے دیا اور آبادی بڑھنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کو بھی ''گناہ'' قرار دے دیا۔

حالانکہ میں نے انھیں بارہا مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی کہ بنگلہ دیش جیسا جس کی 1971ء میں آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی، انھوں نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے مساجد کا استعمال کیا، اور آج ہم آبادی میں بنگلہ دیش کے ہم پلہ ہو چکے ہیں۔ اور جب جنرل ایوب خان نے ساٹھ کی دہائی میں آبادی کی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا تو اس پروگرام کی مذہبی حلقوں کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی تھی۔

اس دور میں یہ نظریہ بھی پھیلایا کہ مسلمان ملکوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام شروع کرنے کا مقصد مسلمانوں کو عددی اعتبار سے دنیا میں کم کرنا ہے۔ اس دور میں زیادہ آبادی کو سیاسی اور اقتصادی طاقت اور اثرورسوخ کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اس دور میں ہمسایہ ملک چین کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ چین کے رہنما ماؤزے تنگ اپنے ملک کی افرادی قوت کو طاقت کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنے ملک کی افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے اقتصادی ترقی کے اپنے پروگرام ''آگے کی طرف جہت''کا آغاز کیا تھا۔

جدید چین کی ترقی میں اس کی آبادی یا افرادی قوت نے اہم کردار ادا کیا لیکن ماؤزے تنگ کے بعد جب چین میں قیادت اور سوچ میں تبدیلی آئی تو نئی چینی قیادت نے دینگ سیاؤ پنگ کی قیادت میں آبادی کی منصوبہ بندی پر غور کرنا شروع کیا۔ غوروفکر کے بعد ''ون چائلڈ پالیسی'' کو اپنایا گیا۔ جس سے چین کی بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو قابو کیا گیا۔

موجودہ دور میں زیادہ آبادی کے بجائے ہنرمند ،تعلیم یافتہ اور صحت مند آبادی کو معاشی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ بے تحاشا بڑی آبادی جو تعلیم اور ہنر سے بے بہرہ ہو اور جو صحت مند نہ ہو وہ ملک اور معاشرے کی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے اْلٹا بوجھ بن جاتی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں جب ایوب خان کو پاپولیشن پلاننگ کا پروگرام شروع کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا کہ اس وقت پاکستان کے دونوں حصوں مغربی اور مشرقی پاکستان کی آبادی چھ سات کروڑ کے قریب تھی۔ مذہبی حلقوں نے ایوب خان کے پاپولیشن پلاننگ کے پروگرام کو کامیاب نہیںہونے دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننے کے بعد اپنی آبادی پر قابو پالیا ہے اور وہاں آبادی کے بڑھنے کی رفتار پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔

میرے خیال میں آبادی کے معاملے کو فطری انداز میں دیکھنا چاہیے۔ فطری انداز وہی ہے جو عقلِ عام پر مبنی ہو۔ خاندان کو سماج کی اکائی مانا گیا ہے۔ اگر خاندان مضبوط اور توانا ہو گا تو سماج بھی طاقت ور ہو گا۔ خاندان میاں بیوی کے رشتے سے قائم ہوتا اور بچوں پر محیط ہو جاتا ہے۔ یوں رشتوں کا ایک خوب صورت گل دستہ وجود میں آتا ہے۔ اگر میاں بیوی صحت مند ہوں اور ان کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ بچوں کو بہتر تعلیم دے سکیں، ان کی اچھی تربیت کر سکیں اور ان کی دیگر مادی و اخلاقی ضروریات پوری کر سکیں تو ایسا خاندان خوش حال ہو گا اور ساتھ ہی وہ پورے معاشرے کے لیے باعث خیر بھی۔


اب یہ خاندان کے سربراہ کی ذمے داری ہے کہ وہ خاندان کی فلاح اور بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرے۔ ہمارے سماجی نظام میں یہ حیثیت مرد کو حاصل ہے۔ اس کو دیکھنا ہے کہ بیوی کی صحت کیسی ہے جس کے گرد گھر کی چکی گھوم رہی ہے۔ بچوں کو کیا مناسب تعلیم اور تربیت مل رہی ہے؟ اگر وہ بیمار پڑ جائیں گے تو کیا ان کے علاج معالجے کے لیے اہتما م کیا جا سکتا ہے؟ خاندان کا ایک اچھا سربراہ وہی ہے جو ان سب امور کو سامنے رکھتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قابو پانے اور دہشت گردی کی عالمی لہر نے اقوام عالم کے مسائل میں مزید اضافہ کیا ہے۔ جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور کئی مغربی ممالک نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اخراجات میں اضافی بوجھ برداشت کیا ہے اور کرنا پڑ رہا ہے۔ جنگی صورتحال اور سرحدی اور نظریاتی تنازعات کی وجہ سے آبادی کا وسیع تر حصہ عملی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا یا عضو معطل ہو کر رہ گیا ہے۔ وہیں غذائی ضروریات کے لیے کیے گئے اقدامات کو بھی نقصان پہنچا۔ انسانی اسمگلنگ اور انسانی حقوق کی پامالی سمیت کئی مسائل جنگ زدہ علاقوں میں آفریت بن کر ابھرے۔

ماہرین کے مطابق کرہ ارض پر موجود بنی نوع انسان کو وسائل کے استعمال اور متبادل پر سوچ بچار کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات کی ہنگامی ضرورت ہے۔ خوراک کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک طرف بھوک کی شدت ہے تو دوسری جانب امرا کی کھانے کی میز پر اوسطاً دو افراد کا اضافی کھانا ضایع ہو رہا ہے۔ مختلف تقاریب، ہوٹلوں اور صنعتوں میں اضافی کھانے کے ضیاع کا مشاہدہ عام ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے نہ صرف جامع قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ اس کے متبادل کا انتظام بھی ضروری ہے۔

دریاؤں کے پانی کے اوسط ضیاع کو موثر حکمت عملی سے سمندر میں ضایع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے عوامی شعور و آگاہی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کمزور معیشت کے حامل ممالک پر مضبوط معیشت رکھنے والے ممالک کا اثر بھی وسائل میں ناہمواری کا باعث بنا ہے۔ چند طاقتور ممالک نے اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لیے کمزور ممالک پر معاشی اور تجارتی پابندیوں سے عالمی سطح پر معاشی ناہمواری کو تقویت دی ہے۔ ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے اقوام عالم کو مل کر معاشی ناہمواری کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

یہی بنی نوع انسان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ آبادی کے بڑھنے کی وجوہات پہ ایک نظر ڈالی جائے، سب سے بڑی اور پہلی وجہ گرم ممالک میں رہائش ہے، ایسے ممالک میں انسان چار دیواری کے بغیر بھی زندگی کے دن گزار سکتا ہے، جب کہ سرد علاقوں میں یہ ممکن نہیں، سرد ممالک کے باسیوں کی جدوجہد کا بنیادی مرکز، سرد موسم ہی رہا ہے، یہ والدین اچھی طرح سوچ سمجھ کے فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ہر بچے کو موسم کے خلاف زندگی کی جنگ جاری رکھنے کے لیے چار دیواری میسر کر پائیں گے؟ اگر نہیں تو بہتر ہے کہ کم سے کم بچے پیدا کیے جائیں، جب کہ گرم علاقے کے باسی نے کبھی اس بارے سوچنے کا تکلف نہیں فرمایا کیونکہ ان کے ہاں، چار دیواری زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے اہم ترین عنصر نہیں، '' چار دن کی زندگی فٹ پاتھ یا کسی پیپل کی چھاؤں میں بھی گزاری جا سکتی ہے''۔

اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے یا اس حوالے سے سیاست کرنا چاہتا ہے کہ ہم آبادی کے بڑھتے مسائل پر کنٹرول حاصل کیے بغیر ترقی کر سکیں گے تو یہ ناممکن ہے، ہمیں مستقبل میں ایک بہت بڑے مسئلے کا سامنا ہوگا، اور یقینا یہ مسئلہ جس کا ہر سطح پر ادراک کیا جا رہا ہے، اسے حل کرنے کے لیے ہمیں علمائے کرام کی خدمات لینا ہوں گی، تاکہ وہ اس حوالے سے آگہی پیدا کریں اور عوام میں شعور پیدا کیا جا سکے ورنہ یہ مسئلہ اتنا ہی سنگین ہوتا جائے گا جس قدر آج ہم پانی کے حوالے سے جنگ لڑ رہے ہیں! لہٰذا یہ مسئلہ سماجی ہے، ہر لحاظ سے سماجی ہے ، اسی میں عام عوام کی فلاح چھپی ہے۔
Load Next Story