اِدرَاک
اختتام پر قانون سازی کے حوالے سے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو نتیجہ غیرتسلی بخش ہی رہتا ہے۔
میرے مشاہدے کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکو معاشر ے میں عدم توازن کی کیفیت کا بہت اچھی طرح ادراک ہے ۔ وہ زمینی حقائق کو انتہائی گہرائی سے نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ان کی چشم بینا نے ہونے والی درجہ بندیوں کو اچھی طرح سے جانچ رکھا ہے، جن کی و جہ سے سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر بٹی ہوئی قوم اب نہ صرف مایوسی کا شکار ہے بلکہ محرومیوں کے ساتھ بیشترکا مقدر بنتی چلی جا رہی ہیں، لہذا ان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے معاشرے میں جو تلاطم نظر آرہا ہے، انھوں نے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی بہتری کے احکامات بھی جاری کیے اور چند قدم آگے بڑ ھ کر ان کو ٹھیک کرنے کا الم تک اٹھا لیا، یہ اور بات ہے کہ اب چیف جسٹس کی آئینی ذمے داریوں کی مدت چند ہفتوں بعد تحلیل ہوجائے گی لیکن ان کے اٹھائے گئے نکات اور اقدامات قوم کی بہتری کا سامان کرسکیں گے۔
چند روز پہلے سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہونے والی ایک پر وقار تقریب میں انھوں نے اپنی گفتگوکے دوران بہت سے موضوعات پرکہیں کھل کر اورکہیں اشارتاً بات کی، لیکن اس میں سب سے اہم ترین نکتے یعنی قانون کی بالادستی کے ذکر کے ساتھ ساتھ ''پارلیمنٹ'' کی اہمیت اورحیثیت بھی اجاگرکی اور قانون سازی کے عمل کو بڑھانے پر زوردیتے ہوئے اراکین پارلیمان کو ان کی ذمے داری یاد دلائی اور بوسیدہ قوانین کو نئے زمانے کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے عصری تقاضوںکو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیم کے ذریعے ڈھالنے کا اشارہ بھی دیا کیونکہ ترمیم کی لچک قانون میں موجود ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ بائیکاٹ کم کریں تب ہی کام ہوگا۔
میرا تعلق ایک ایسی سیاسی جماعت سے ہے جو معاشرے کی نچلی سطح سے ابھرکر سامنے آئی اور وطن عزیز میں عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دے کر مسائل کو حل کرنا ہی اس نے اپنا نصب العین رکھا۔ ماضی گواہ ہے کہ ریاستی مشینری کو ایک طرف رکھ کر اس نے اپنے کارکنوں اور عوام کے تعاون کو ساتھ ملا کر جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل، ماہرمالیات، بزنس مین اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے سڑکوں،گلیوں، محلوں اور بازاروں میں جھاڑو لگاکر صفائی کا ایسا قدم اٹھایا تھا جو نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں سندکا درجہ رکھتا ہے۔
جمہوری ادوار میں اسمبلیاں اپنے تمام آئینی سیشن تو مکمل کرلیتی ہے، لیکن اختتام پر قانون سازی کے حوالے سے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو نتیجہ غیرتسلی بخش ہی رہتا ہے،اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ مثلا میں نے خود رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے سابقہ 2007ء ، 2013 ء اور موجودہ 2018ء کی اسمبلی میں بھی یعنی ابتدائی سیشن تک تقریبا23 سے زائد بل اور ترمیمات جمع کروائی ہیں ۔ جس میںلاوارث بچو ں کی رجسٹریشن ، معذور افراد کی آئینی حیثیت کا تعین، دوران تفتیش پولیس تشدد کے لیے اصلاحات، جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے والے کے لیے سزا کا تعین، سرکاری ملازمین کی پینشن کے طریقہ کار میں اصلاحات ،خطاء کے مطابق چوری کی سزا ، جعلی چیک کی بیخ کنی، انسانی اعضاء کی پیوندکاری میں ترمیم کا بل جس سے خرید وفروخت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے جس کے لیے چیف جسٹس خود بھی کوشاں ہیں۔
واضح رہے کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات کے بعد قومی اسمبلی نے اسے منظورکرلیا لیکن ابھی تک اس بل کو سینیٹ نے منظور نہیں کیا، جس کی وجہ سے ہزاروں مریض مستفید ہونے سے محروم ہیںاور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اب اسے سینیٹ سے پاس کروانے کے لیے دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے، لہذا ایسا کرنے سے 2013ء کی اسمبلی جو اسے متفقہ طور پر پاس کرچکی ہے اس کی کیا حیثیت رہ گئی؟
بغیر وارنٹ گرفتاری کرنے والے کی سزا، علما وپیش امام کے لیے سندکی ضرورت، چائلڈٖ میرج (کم عمری کی شادی کے خلاف) معاوضے کی طلبی کے لیے خصوصی عدالتو ں کا قیام ، بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہائی کورٹ کی علا قائی بینچ کا قیام، پارلیمنٹ کی با لادستی قائم رکھنے کے لیے آرٹیکل 239 کی شق نمبر (4) کا خاتمہ ،آئینی ترمیمی بل51 اور 106 میں برابری کی بنیاد پہ حلقہ انتخاب کا ہونا،طلباء کے لیے شہری دفاع کی تربیت لازمی اور نصاب کا حصہ بنانے کا بل ، متروکہ املا ک کا بل جس کے بار ے میں فیصلہ چیف جسٹس جولائی2015 ء کو سپریم کورٹ کی فل بینچ لاہور رجسٹری سے دے چکے ہیں ۔
ہاؤسنگ پالیسی بل جس کے ذریعے ملازمین کو پوری زندگی کی رہائش کی سہولت میسر آسکتی ہے ( یہ بل تو پاس نہیں ہوسکا، لیکن موجودہ وزیراعظم نے اس ہاؤسنگ پالیسی کے بارے میں کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے ) بچوں کے حقوق ، بھتہ طلبی کی سنگین سزا ، تحریر اور تقریرکی آزادی ، رجسٹریشن (مردم شماری) ایکٹ وغیرہ شامل ہیں ۔ان تمام مسودہ قانون کے بارے میں اگر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے توکالم طویل ہوسکتا ہے، لہذا ان میں صرف چندکے بارے میں اتنا بیان کرونگی کہ اعضاء کی پیوندکاری کے بل پرکی گئی ترمیم کی بدولت مریضوں کو مزید زندگی مل سکتی ہے اور ایسا ہی ایک بل 489 F پاکستا ن پینل کوڈ میں جعلی چیک کے حوالے سے قانون سازی مکمل کرکے سینیٹ میں بھیج دیا گیا، لیکن '' ہنوز دلی دور است'' والی بات اس کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے یہ تما م بل آج بھی قومی اسمبلی کے ریکا رڈ کا حصہ ہیں۔
اب میں قارئین کی توجہ اُس اہم بات کی طرف لانے کے ساتھ یہ ضروری سمجھتی ہوں کہ اس پہلو پر غورکیا جائے، جب عوام بہت امیدوں سے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمیں ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور وہ ان کا جائز حق بھی ہے لیکن قانون سازی کے حصول میں رکاوٹیں کس نوعیت کی ہوتی ہیں اور ہماری محنت کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عام پارلیمنٹیرین کتنا بے بس ہے کیونکہ پارلیمنٹ کا نظام ایک ایسے فریم میں فٹ کردیا گیا ہے جہاں وزیر، سیکریٹری کے دباؤ میں تو قائمہ کمیٹیوں کا چئیرمین بیوروکریسی کا تابع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ممبر قومی اسمبلی کے تجویزکردہ مسودہ قانون یا ترامیم کو مسترد کردینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔
چند روز پہلے سپریم کورٹ کے آڈیٹوریم میں ہونے والی ایک پر وقار تقریب میں انھوں نے اپنی گفتگوکے دوران بہت سے موضوعات پرکہیں کھل کر اورکہیں اشارتاً بات کی، لیکن اس میں سب سے اہم ترین نکتے یعنی قانون کی بالادستی کے ذکر کے ساتھ ساتھ ''پارلیمنٹ'' کی اہمیت اورحیثیت بھی اجاگرکی اور قانون سازی کے عمل کو بڑھانے پر زوردیتے ہوئے اراکین پارلیمان کو ان کی ذمے داری یاد دلائی اور بوسیدہ قوانین کو نئے زمانے کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے عصری تقاضوںکو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیم کے ذریعے ڈھالنے کا اشارہ بھی دیا کیونکہ ترمیم کی لچک قانون میں موجود ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ بائیکاٹ کم کریں تب ہی کام ہوگا۔
میرا تعلق ایک ایسی سیاسی جماعت سے ہے جو معاشرے کی نچلی سطح سے ابھرکر سامنے آئی اور وطن عزیز میں عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دے کر مسائل کو حل کرنا ہی اس نے اپنا نصب العین رکھا۔ ماضی گواہ ہے کہ ریاستی مشینری کو ایک طرف رکھ کر اس نے اپنے کارکنوں اور عوام کے تعاون کو ساتھ ملا کر جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل، ماہرمالیات، بزنس مین اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والوں نے سڑکوں،گلیوں، محلوں اور بازاروں میں جھاڑو لگاکر صفائی کا ایسا قدم اٹھایا تھا جو نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں سندکا درجہ رکھتا ہے۔
جمہوری ادوار میں اسمبلیاں اپنے تمام آئینی سیشن تو مکمل کرلیتی ہے، لیکن اختتام پر قانون سازی کے حوالے سے ریکارڈ پر نظر ڈالی جائے تو نتیجہ غیرتسلی بخش ہی رہتا ہے،اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ مثلا میں نے خود رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے سابقہ 2007ء ، 2013 ء اور موجودہ 2018ء کی اسمبلی میں بھی یعنی ابتدائی سیشن تک تقریبا23 سے زائد بل اور ترمیمات جمع کروائی ہیں ۔ جس میںلاوارث بچو ں کی رجسٹریشن ، معذور افراد کی آئینی حیثیت کا تعین، دوران تفتیش پولیس تشدد کے لیے اصلاحات، جھوٹی ایف آئی آر درج کروانے والے کے لیے سزا کا تعین، سرکاری ملازمین کی پینشن کے طریقہ کار میں اصلاحات ،خطاء کے مطابق چوری کی سزا ، جعلی چیک کی بیخ کنی، انسانی اعضاء کی پیوندکاری میں ترمیم کا بل جس سے خرید وفروخت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے جس کے لیے چیف جسٹس خود بھی کوشاں ہیں۔
واضح رہے کہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات کے بعد قومی اسمبلی نے اسے منظورکرلیا لیکن ابھی تک اس بل کو سینیٹ نے منظور نہیں کیا، جس کی وجہ سے ہزاروں مریض مستفید ہونے سے محروم ہیںاور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اب اسے سینیٹ سے پاس کروانے کے لیے دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے، لہذا ایسا کرنے سے 2013ء کی اسمبلی جو اسے متفقہ طور پر پاس کرچکی ہے اس کی کیا حیثیت رہ گئی؟
بغیر وارنٹ گرفتاری کرنے والے کی سزا، علما وپیش امام کے لیے سندکی ضرورت، چائلڈٖ میرج (کم عمری کی شادی کے خلاف) معاوضے کی طلبی کے لیے خصوصی عدالتو ں کا قیام ، بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہائی کورٹ کی علا قائی بینچ کا قیام، پارلیمنٹ کی با لادستی قائم رکھنے کے لیے آرٹیکل 239 کی شق نمبر (4) کا خاتمہ ،آئینی ترمیمی بل51 اور 106 میں برابری کی بنیاد پہ حلقہ انتخاب کا ہونا،طلباء کے لیے شہری دفاع کی تربیت لازمی اور نصاب کا حصہ بنانے کا بل ، متروکہ املا ک کا بل جس کے بار ے میں فیصلہ چیف جسٹس جولائی2015 ء کو سپریم کورٹ کی فل بینچ لاہور رجسٹری سے دے چکے ہیں ۔
ہاؤسنگ پالیسی بل جس کے ذریعے ملازمین کو پوری زندگی کی رہائش کی سہولت میسر آسکتی ہے ( یہ بل تو پاس نہیں ہوسکا، لیکن موجودہ وزیراعظم نے اس ہاؤسنگ پالیسی کے بارے میں کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے ) بچوں کے حقوق ، بھتہ طلبی کی سنگین سزا ، تحریر اور تقریرکی آزادی ، رجسٹریشن (مردم شماری) ایکٹ وغیرہ شامل ہیں ۔ان تمام مسودہ قانون کے بارے میں اگر تفصیل کے ساتھ لکھا جائے توکالم طویل ہوسکتا ہے، لہذا ان میں صرف چندکے بارے میں اتنا بیان کرونگی کہ اعضاء کی پیوندکاری کے بل پرکی گئی ترمیم کی بدولت مریضوں کو مزید زندگی مل سکتی ہے اور ایسا ہی ایک بل 489 F پاکستا ن پینل کوڈ میں جعلی چیک کے حوالے سے قانون سازی مکمل کرکے سینیٹ میں بھیج دیا گیا، لیکن '' ہنوز دلی دور است'' والی بات اس کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے یہ تما م بل آج بھی قومی اسمبلی کے ریکا رڈ کا حصہ ہیں۔
اب میں قارئین کی توجہ اُس اہم بات کی طرف لانے کے ساتھ یہ ضروری سمجھتی ہوں کہ اس پہلو پر غورکیا جائے، جب عوام بہت امیدوں سے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہمیں ایوانوں میں بھیجتے ہیں اور وہ ان کا جائز حق بھی ہے لیکن قانون سازی کے حصول میں رکاوٹیں کس نوعیت کی ہوتی ہیں اور ہماری محنت کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عام پارلیمنٹیرین کتنا بے بس ہے کیونکہ پارلیمنٹ کا نظام ایک ایسے فریم میں فٹ کردیا گیا ہے جہاں وزیر، سیکریٹری کے دباؤ میں تو قائمہ کمیٹیوں کا چئیرمین بیوروکریسی کا تابع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ممبر قومی اسمبلی کے تجویزکردہ مسودہ قانون یا ترامیم کو مسترد کردینا ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔