نذر
کاش! ہم اپنی زندگی کا کچھ حصہ، دن کا کچھ وقت، تنخواہ و آمدنی میں سے کچھ اللہ کی نذر کر سکیں
نذر، محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے جس میں بندہ اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہے۔ جب ساری تدبیریں رائیگاں چلی جائیں اور ساری محنت و کاوش کا نتیجہ صفر نکلے، تو بندہ سرنڈر کر دیتا ہے اور اپنے رب کے حضور نذر لے کر حاضر ہوتا ہے کہ آپ قبول کرلیجیے۔ جو کچھ بن پڑا صرف آپ کےلیے لایا ہوں۔ جو اچھے سے اچھا کر سکا، وہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ مانا کہ یہ آپ کی شان کے شایانِ شان نہیں، مانا کہ اس کی آپ کو ضرورت نہیں، مانا کہ آپ اس سے اور مجھ سے بے نیاز ہیں، اور یہ بھی مانا کہ میں کسی کام کا نہیں، پھر بھی آپ قبول کرلیجیے۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ نذر میں ضرورت ہمیشہ دینے والے کی، نذر کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اسے اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ جسے دی جا رہی ہے، وہ اس کا کیا کرے گا۔ آپ کا کام ہے کہ آپ دے دیجیے۔ وہ چاہیں تو لوٹا دیں، جلا دیں، کسی اور کو دے دیں، استعمال کر لیں یا پھینک دیں۔
پہلے زمانے میں قربانی کے گوشت کو آسمان سے آگ آکر جلا دیتی تھی جس کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ قبول ہو گیا۔ یا جانوروں کو رنگ دیتے تھے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے کہ یہ تو اللہ جی کی نذر ہیں۔ یا پھر جانوروں کے گلے میں جوتا باندھ دیا جاتا اور یہ نشانی ہوتی کہ یہ اب کسی کی نذر ہیں۔
ادب بھی نذر کی ہی ایک قسم ہے۔ بندہ اپنی نفسانی خواہشات اور باطنی بیماریوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے آپ کا صاف ستھرا چہرہ اور بہتر رویہ سامنے رکھتا ہے اس لیے کہ وہ سامنے والے کی عزت کرتا ہے۔
بندہ جس کی عزت کرے، اسے نذر ضرور پیش کرے۔ اپنے والدین کو، استاد کو، دوست کو اور اپنے رب کو۔ اور کچھ نہیں تو روزانہ دو رکعت نفل نماز ہی پڑھ لے، رات کو عشاء کے بعد، کہ اللہ آپ کے حضور نذر پیش کرتا ہوں۔ الحمدللہ، دن ایمان کی سلامتی کے ساتھ گزر گیا اور آپ نے فلاں فلاں احسانات کیے۔ آپ کا کرم، یہ دو رکعتیں آپ کی نذر، قبول فرمائیے۔
کاش! ہم اپنی زندگی کا کچھ حصہ، دن کا کچھ وقت، تنخواہ و آمدنی میں سے کچھ اللہ کی نذر کر سکیں۔
جب بندے پر اپنی کم مائیگی کھلتی ہے اور بندگی کی سمجھ عطا ہوتی ہے تو یقین جانیے کہ ایک رنگ اپنے آپ چڑھتا ہے جو اسے نظر آئے نہ آئے، اہل نظر ضرور دیکھ لیتے ہیں۔
آئیے! ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہماری نذر قبول کرلیں اور توفیق بخشیں ان اعمال کی جو قبولیت سے قریب کر دیں۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یاد رکھنے کی بات ہے کہ نذر میں ضرورت ہمیشہ دینے والے کی، نذر کرنے والے کی ہوتی ہے۔ اسے اس بات سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ جسے دی جا رہی ہے، وہ اس کا کیا کرے گا۔ آپ کا کام ہے کہ آپ دے دیجیے۔ وہ چاہیں تو لوٹا دیں، جلا دیں، کسی اور کو دے دیں، استعمال کر لیں یا پھینک دیں۔
پہلے زمانے میں قربانی کے گوشت کو آسمان سے آگ آکر جلا دیتی تھی جس کا مطلب ہوتا تھا کہ وہ قبول ہو گیا۔ یا جانوروں کو رنگ دیتے تھے تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائے کہ یہ تو اللہ جی کی نذر ہیں۔ یا پھر جانوروں کے گلے میں جوتا باندھ دیا جاتا اور یہ نشانی ہوتی کہ یہ اب کسی کی نذر ہیں۔
ادب بھی نذر کی ہی ایک قسم ہے۔ بندہ اپنی نفسانی خواہشات اور باطنی بیماریوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے آپ کا صاف ستھرا چہرہ اور بہتر رویہ سامنے رکھتا ہے اس لیے کہ وہ سامنے والے کی عزت کرتا ہے۔
بندہ جس کی عزت کرے، اسے نذر ضرور پیش کرے۔ اپنے والدین کو، استاد کو، دوست کو اور اپنے رب کو۔ اور کچھ نہیں تو روزانہ دو رکعت نفل نماز ہی پڑھ لے، رات کو عشاء کے بعد، کہ اللہ آپ کے حضور نذر پیش کرتا ہوں۔ الحمدللہ، دن ایمان کی سلامتی کے ساتھ گزر گیا اور آپ نے فلاں فلاں احسانات کیے۔ آپ کا کرم، یہ دو رکعتیں آپ کی نذر، قبول فرمائیے۔
کاش! ہم اپنی زندگی کا کچھ حصہ، دن کا کچھ وقت، تنخواہ و آمدنی میں سے کچھ اللہ کی نذر کر سکیں۔
جب بندے پر اپنی کم مائیگی کھلتی ہے اور بندگی کی سمجھ عطا ہوتی ہے تو یقین جانیے کہ ایک رنگ اپنے آپ چڑھتا ہے جو اسے نظر آئے نہ آئے، اہل نظر ضرور دیکھ لیتے ہیں۔
آئیے! ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہماری نذر قبول کرلیں اور توفیق بخشیں ان اعمال کی جو قبولیت سے قریب کر دیں۔ آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔