تو اب کچھ کام کی بات کریں
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام ۔ تو اگر اجازت ہو تو کچھ کام کی بات کریں؟
جوہونا تھا وہ تو سب ہو چکا اور جو نہیں ہونا تھا وہ اس سے بھی پہلے ہو چکا ہے، مطلب یہ کہ ہوتا، ہوتی، ہوتے۔ اور گا، گے، گی سب کے سب اپنی اپنی بولیاں بول چکے۔ تو اگر اجازت ہو، اگر جان کی امان ہو اور طبعیت شریف پر بار نہ ہو۔ تو کچھ کام کی بات کریں؟
مسلمانان ہند کو محفوظ و مامون اور ہر طرح کے خزن و ملال سے خالی فردوس گم گشتہ بھی مل چکی، پھر اس میں طرح طرح کے کھیل بھی ہو چکے ہیں، ڈرامے، قوالیاں، مشاعرے۔ مطلب یہ کہ
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام ۔ تو اگر اجازت ہو تو کچھ کام کی بات کریں؟
دھرنے بھی ہو گئے ''ورنے'' چرنے اور جرنے خرنے سب ہو گئے، قوالیاں بھی گائی گئیں، بھنگڑے سنگھڑے اور چنگڑے بھی ڈالے گئے، مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں اور باقی جو کچھ بھی بانٹنے کا تھا بانٹا گیا ہے تو اب کچھ کام کی بات کریں؟ ملک و قوم، ملت و مملکت بلکہ سارے عالم اور پوری کائنات کا واحد چور بھی پکڑا گیا ہے، اسے خوب اچھی طرح جکڑا بھی جاچکا ہے۔ مرغا، مکڑا بھی بنا دیا گیا ہے۔ نشان عبرت بھی بنا دیا گیا ہے اور اسے کیفر کردار تک بھی پہنچایا گیا ہے تو اب کچھ کام کی بات کریں؟ تبدیلیاں تبادلے، تباہ دلیاں بھی ہو گئیں اور نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے اینٹ روڑے بھی لائے جا چکے۔ صرف بھان متی کا انتظار ہے اور اب یہ دو سو چالیس بلکہ چارسو بیس فیصد ، سلفے دی لاٹ ورگے۔ جلوہ گر ہو جائیں گے ۔ تو کیا خیال اب کچھ کام کی بات کریں۔
انصاف کی پ ٹ آئی بھی ہو گئی اور پٹائی کا انصاف بھی ہو گیا۔ باباجی کی آشیر واد سے انصاف کا بول اتنا بالا ہوچکا ہے کہ مجرموں کے دل کا بھالا ہو گیا ۔ پورے ملک میں انصاف ہی انصاف ٹھاٹھیں مار رہا ہے تو کیا انصاف کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں۔ عدل کی کشتی میں بیٹھ کر بابا جی کی ناخدائی میں تھوڑا سامل بیٹھ کر اب کام کی کوئی بات کریں؟ ہاں وہ ہماری آنکھوں کا نور، دل کا سرور حسینہ پر نور و ظہور مثل ''حور'' تو بھی کب کی ستاروں کی ڈولی میں بیٹھ کر اپنے آنگن میں اُتری ہوئی ہے جس کا نام تبدیلی بیگم بنت پٹائی منظورۂ بابا جی ہے تو کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ کچھ کام کی بات کریں؟
سب سے بڑی بات بلکہ تبدیلی بلکہ انقلاب تو یہ ہے کہ وہ مردار مجموعہ ابراو اشرار نابکار نا ہنجار، نمک مردار، بدحین برکردار خرافہ ''کرپشن'' جو کبھی یہاں دندناتی تھی اس کو ''بیج و بنیاد''سے اکھاڑ کر کالے پانی سے بھی پرے پھینکا جاچکا ہے، ایسا کہ اب نہ وہ ہے اور نہ اس کا نام و نشان، اگر کسی کو محض دیکھنے کے لیے ناخن بھر کرپشن کی حاجت پڑے تو بھی نہ ملے۔ کبھی کبھی تو ہم حیران پریشان انگشت بدندان اور ناطقہ سر بگریباں ہو جاتے ہیں کہ اس ڈھیٹ، بے شرم اور چپے چپے پر پھیلی ہوئی کا بوس کو اتنی آسانی سے اور اتنا مکمل طور پر کیسے ختم کر دیا گیا۔
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کبھی اس بلائے عظیم و لحیم، ہر جگہ مستقل مقیم اور ملک کی رگ وپے میں اتری ہوئی ''لیئم'' سے بھی چھٹکارا پایا جا سکتا ہے، لیکن ہم یہ بھول گئے کہ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسی باکرامت باسعادت اور بابرکت ہستیاں پائی جاتی ہیں جو اگر چاہیں تو دن کو رات اور رات کو دن بنا دیں۔ مشرق کو اٹھا کر مغرب کی جگہ رکھ دیں، مشرق کو شمال کر دیں اور شمال کو جنوب کر دیں۔ اتنی بڑی ہستیاں پیراں صاحبان صاحبات بابا جی ہمیشہ حجت ۔ مطلب یہ کہ علماء کرام، مشائخ عظام او حجائے اکرام و انعام بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر پہاڑ کو حکم دیں کہ مت ہل تو مجال ہے کہ قیامت تک ذرہ بھی ہلے۔ سورج، چاند، ستاروں سے کہیں کہ خبردار اگر رکے ہمیشہ چلتے رہنا۔ اندھیرے کو حکم دیں کہ اگر ذرہ بھر بھی روشنی کی تو اندھیرا بنا دیں گے۔ بھینس کو کہیں کہ خبر دار جو کالا دودھ دیا۔ یہاں تک کہ اگر چاہیں تو کسی کا بھی سر دونوں کانوں کے بیچ لا سکتے ہیں۔
چنانچہ ہیاں سے ہواں تک یعنی کناڈا سے مناڈا تک اور کولمبو سے جمبو تک کے بزرگان باسعادت مل کر کرپشن کو سانپ کے پیروں، مچھوں کی آنکھوں، چڑیا کے دودھ ، سنڈے کے انڈے کی طرح نابود کر دیا ہے۔ تو اتنی بڑی کامیابی کے بعد اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو کوئی کام کی بات کریں؟ ہاں وہ کشکول بھی ٹھیک اسی مقام پر دفن کر دیا گیا ہے جہاں اور نگزیب عالمگیر نے آلات موسیقی اور محمود غزنوی نے بت پرسی دفن کی ہوئی تھی۔ بلکہ بعض علماء کے نزدیک وہی جگہ ہے جہاں قارون اپنے خزانوں سمیت پیوند خاک ہو چکا تھا۔ شاید اس توقع پر کہ اگر یہ کشکول اپنی ''رفتار'' تھوڑی سی بڑھا دے۔ یعنی اتنی بھی کافی ہے جتنی آج کل انصاف کی رفتار ہے تو شاید سیدھا قارون کے خزانے تک پہنچ جائے۔ اور کہے کہ سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اب ہر لحاظ سے وہ دن آ چکا ہے جس کا وعدہ تھا، ہر ہر طرف سے دیانت امانت کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ چاروں اطراف میں صادق و امین ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں، لوگ سونا اچھال اچھا کر سفر کرتے ہیں، انصاف ہی انصاف عدل ہی عدل امن ہی امن، دیانت ہی دیانت اور باباجی کی برکت ہی برکت۔ تو ایسے میں اگر نازک مزاج شاہاں کو ناگوار خاطر نہ ہو تو کچھ کام کی بات کریں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری یہ بات کسی کو بھی اچھی نہیں لگے گی۔ آخر ستر سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا اور کام یا کام کی باتوں سے ستر سالہ ''دشمنی'' اتنی آسانی سے کہاں ختم ہونے والی ہے۔ بڑا سخت ''میل'' ہے، جاتے جاتے ہی جائے گا۔ وہ ایک بھکاری اپنے نوجوان بیٹے کو پیٹ رہا تھا ۔
دوسرے بھکاری نے وجہ پوچھی کہ یہ ننگ خاندان ننگ قوم اور ننگ برادری آج اڈے میں ایک ''مسافر'' کے ساتھ سامان بس میں چڑھاتے ہوئے میں نے بشم خود دیکھا ہے اور اگر یہ اسی طرح بگڑتا رہا تو ایک دن باقاعدہ ''کام'' کرنے لگ جائے اور خاندان کے نام کو بٹہ لگائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں بھی ''کام'' کی بات کرنا معیوب ہے لیکن جب بھیک کی برکت، جھوٹ کی مہربانی اور بے شرمی کی انتہا سے فراغت ہی فراغت ہو تو دل بہلانے کے لیے اگر کام کی باتیں کی جاویں تو ایسا بُرا بھی نہیں اور پھر ہم کونسا کام کرنے کو کہہ رہے، باتیں کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس لیے اگر ناگوار خاطر اور بار طبعیت نہ ہو تو کچھ کام کی باتیں کریں؟
مسلمانان ہند کو محفوظ و مامون اور ہر طرح کے خزن و ملال سے خالی فردوس گم گشتہ بھی مل چکی، پھر اس میں طرح طرح کے کھیل بھی ہو چکے ہیں، ڈرامے، قوالیاں، مشاعرے۔ مطلب یہ کہ
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام ۔ تو اگر اجازت ہو تو کچھ کام کی بات کریں؟
دھرنے بھی ہو گئے ''ورنے'' چرنے اور جرنے خرنے سب ہو گئے، قوالیاں بھی گائی گئیں، بھنگڑے سنگھڑے اور چنگڑے بھی ڈالے گئے، مٹھائیاں بھی بانٹی گئیں اور باقی جو کچھ بھی بانٹنے کا تھا بانٹا گیا ہے تو اب کچھ کام کی بات کریں؟ ملک و قوم، ملت و مملکت بلکہ سارے عالم اور پوری کائنات کا واحد چور بھی پکڑا گیا ہے، اسے خوب اچھی طرح جکڑا بھی جاچکا ہے۔ مرغا، مکڑا بھی بنا دیا گیا ہے۔ نشان عبرت بھی بنا دیا گیا ہے اور اسے کیفر کردار تک بھی پہنچایا گیا ہے تو اب کچھ کام کی بات کریں؟ تبدیلیاں تبادلے، تباہ دلیاں بھی ہو گئیں اور نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے اینٹ روڑے بھی لائے جا چکے۔ صرف بھان متی کا انتظار ہے اور اب یہ دو سو چالیس بلکہ چارسو بیس فیصد ، سلفے دی لاٹ ورگے۔ جلوہ گر ہو جائیں گے ۔ تو کیا خیال اب کچھ کام کی بات کریں۔
انصاف کی پ ٹ آئی بھی ہو گئی اور پٹائی کا انصاف بھی ہو گیا۔ باباجی کی آشیر واد سے انصاف کا بول اتنا بالا ہوچکا ہے کہ مجرموں کے دل کا بھالا ہو گیا ۔ پورے ملک میں انصاف ہی انصاف ٹھاٹھیں مار رہا ہے تو کیا انصاف کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں۔ عدل کی کشتی میں بیٹھ کر بابا جی کی ناخدائی میں تھوڑا سامل بیٹھ کر اب کام کی کوئی بات کریں؟ ہاں وہ ہماری آنکھوں کا نور، دل کا سرور حسینہ پر نور و ظہور مثل ''حور'' تو بھی کب کی ستاروں کی ڈولی میں بیٹھ کر اپنے آنگن میں اُتری ہوئی ہے جس کا نام تبدیلی بیگم بنت پٹائی منظورۂ بابا جی ہے تو کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ کچھ کام کی بات کریں؟
سب سے بڑی بات بلکہ تبدیلی بلکہ انقلاب تو یہ ہے کہ وہ مردار مجموعہ ابراو اشرار نابکار نا ہنجار، نمک مردار، بدحین برکردار خرافہ ''کرپشن'' جو کبھی یہاں دندناتی تھی اس کو ''بیج و بنیاد''سے اکھاڑ کر کالے پانی سے بھی پرے پھینکا جاچکا ہے، ایسا کہ اب نہ وہ ہے اور نہ اس کا نام و نشان، اگر کسی کو محض دیکھنے کے لیے ناخن بھر کرپشن کی حاجت پڑے تو بھی نہ ملے۔ کبھی کبھی تو ہم حیران پریشان انگشت بدندان اور ناطقہ سر بگریباں ہو جاتے ہیں کہ اس ڈھیٹ، بے شرم اور چپے چپے پر پھیلی ہوئی کا بوس کو اتنی آسانی سے اور اتنا مکمل طور پر کیسے ختم کر دیا گیا۔
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کبھی اس بلائے عظیم و لحیم، ہر جگہ مستقل مقیم اور ملک کی رگ وپے میں اتری ہوئی ''لیئم'' سے بھی چھٹکارا پایا جا سکتا ہے، لیکن ہم یہ بھول گئے کہ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسی باکرامت باسعادت اور بابرکت ہستیاں پائی جاتی ہیں جو اگر چاہیں تو دن کو رات اور رات کو دن بنا دیں۔ مشرق کو اٹھا کر مغرب کی جگہ رکھ دیں، مشرق کو شمال کر دیں اور شمال کو جنوب کر دیں۔ اتنی بڑی ہستیاں پیراں صاحبان صاحبات بابا جی ہمیشہ حجت ۔ مطلب یہ کہ علماء کرام، مشائخ عظام او حجائے اکرام و انعام بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر پہاڑ کو حکم دیں کہ مت ہل تو مجال ہے کہ قیامت تک ذرہ بھی ہلے۔ سورج، چاند، ستاروں سے کہیں کہ خبردار اگر رکے ہمیشہ چلتے رہنا۔ اندھیرے کو حکم دیں کہ اگر ذرہ بھر بھی روشنی کی تو اندھیرا بنا دیں گے۔ بھینس کو کہیں کہ خبر دار جو کالا دودھ دیا۔ یہاں تک کہ اگر چاہیں تو کسی کا بھی سر دونوں کانوں کے بیچ لا سکتے ہیں۔
چنانچہ ہیاں سے ہواں تک یعنی کناڈا سے مناڈا تک اور کولمبو سے جمبو تک کے بزرگان باسعادت مل کر کرپشن کو سانپ کے پیروں، مچھوں کی آنکھوں، چڑیا کے دودھ ، سنڈے کے انڈے کی طرح نابود کر دیا ہے۔ تو اتنی بڑی کامیابی کے بعد اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو کوئی کام کی بات کریں؟ ہاں وہ کشکول بھی ٹھیک اسی مقام پر دفن کر دیا گیا ہے جہاں اور نگزیب عالمگیر نے آلات موسیقی اور محمود غزنوی نے بت پرسی دفن کی ہوئی تھی۔ بلکہ بعض علماء کے نزدیک وہی جگہ ہے جہاں قارون اپنے خزانوں سمیت پیوند خاک ہو چکا تھا۔ شاید اس توقع پر کہ اگر یہ کشکول اپنی ''رفتار'' تھوڑی سی بڑھا دے۔ یعنی اتنی بھی کافی ہے جتنی آج کل انصاف کی رفتار ہے تو شاید سیدھا قارون کے خزانے تک پہنچ جائے۔ اور کہے کہ سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اب ہر لحاظ سے وہ دن آ چکا ہے جس کا وعدہ تھا، ہر ہر طرف سے دیانت امانت کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ چاروں اطراف میں صادق و امین ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں، لوگ سونا اچھال اچھا کر سفر کرتے ہیں، انصاف ہی انصاف عدل ہی عدل امن ہی امن، دیانت ہی دیانت اور باباجی کی برکت ہی برکت۔ تو ایسے میں اگر نازک مزاج شاہاں کو ناگوار خاطر نہ ہو تو کچھ کام کی بات کریں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری یہ بات کسی کو بھی اچھی نہیں لگے گی۔ آخر ستر سال کا عرصہ کچھ کم نہیں ہوتا اور کام یا کام کی باتوں سے ستر سالہ ''دشمنی'' اتنی آسانی سے کہاں ختم ہونے والی ہے۔ بڑا سخت ''میل'' ہے، جاتے جاتے ہی جائے گا۔ وہ ایک بھکاری اپنے نوجوان بیٹے کو پیٹ رہا تھا ۔
دوسرے بھکاری نے وجہ پوچھی کہ یہ ننگ خاندان ننگ قوم اور ننگ برادری آج اڈے میں ایک ''مسافر'' کے ساتھ سامان بس میں چڑھاتے ہوئے میں نے بشم خود دیکھا ہے اور اگر یہ اسی طرح بگڑتا رہا تو ایک دن باقاعدہ ''کام'' کرنے لگ جائے اور خاندان کے نام کو بٹہ لگائے گا۔ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں بھی ''کام'' کی بات کرنا معیوب ہے لیکن جب بھیک کی برکت، جھوٹ کی مہربانی اور بے شرمی کی انتہا سے فراغت ہی فراغت ہو تو دل بہلانے کے لیے اگر کام کی باتیں کی جاویں تو ایسا بُرا بھی نہیں اور پھر ہم کونسا کام کرنے کو کہہ رہے، باتیں کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس لیے اگر ناگوار خاطر اور بار طبعیت نہ ہو تو کچھ کام کی باتیں کریں؟