تمباکو گناہ نہیں
اب تمباکو کو’’گناہ ٹیکس‘‘ لگاکر گناہ گاروں کے زمرے میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا کے تمباکو کاشتکاروں نے تمباکو کی فصل کو ''گناہ ٹیکس''کے زمرے میں شامل کرنے کے حکومتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی NGOکی خوشنودی کے لیے اٹھائے گئے اقدام کو مسترد اور اس کے خلاف صوبہ بھر میں بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔
پشاور پریس کلب میں مانسہرہ'صوابی'بونیر'چارسدہ اور مردان سمیت دیگر علاقوں کے تمباکو کاشتکاروں کے نمایندوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم تمباکو پر گناہ ٹیکس کے نفاذ کا حکومتی فیصلہ مسترد کرتے ہیں'کیونکہ اس فیصلے سے تمباکو کی فصل سے وابستہ لاکھوں افراد کا کاروبار متاثر ہو گا''۔ ویسے میں سوچ رہا تھا کہ اگر تمباکو نوشی کو گناہ سمجھ کر اس پر گناہ ٹیکس لگاکر اس کو جائز کیا جا سکتا ہے' توحکو مت شراب نوشی'جواء بازی اور قحبہ خانوں پر بھی گناہ ٹیکس لگاکر ان کو بھی جائز کرے تاکہ اربوں روپے کے ٹیکس حکومت کو مل سکیںاور ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہو' خیر یہ تو ایک تجویز ہے 'اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں۔
''تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے'' ان الفاظ کے بعد اب تمباکو کو''گناہ ٹیکس'' لگاکر گناہ گاروں کے زمرے میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ دنیا میں مختلف قسم کی مہلک اشیاء کی تجارت ہوتی ہے لیکن وہاں تو یہ الفاظ نہیں لکھے جاتے مثلاً اسلحہ کی تجارت وغیرہ۔ دنیا میں صرف تمباکو ہی نہیں بہت سی دوسری چیزیں بھی نہ صرف مضر صحت بلکہ جان لیوا ہو سکتی ہیں۔تمباکو کی فصل پر خیبر پختونخوا اور خاص کر ضلع صوابی کے لاکھوں خاندانوں کی معیشت کا دار ومدار ہے۔
صوابی'بونیر 'چارسدہ 'مانسہرہ اور ملاکنڈ وغیرہ میں یہ ایک اہم نقد آور فصل ہے' پورے خیبر پختونخوا کی کل تمباکو کا 75 فی صد صرف ضلع صوابی میں پیدا ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی معیشت کا دار ومدار اسی فصل پر ہوتا ہے' یہاں تک کہ تعلیمی اخراجات'علاج' شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کے لیے بھی اسی فصل کا انتظار کیا جاتا ہے۔پہلے ضلع صوابی میں افیون کی فصل کا شت ہوتی تھی جس پر حکومت نے اس کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے۔
انڈیا اور ترکی کو امریکا نے دوائیوں میں استعمال کے لیے افیون کی فصل کا کوٹہ دیا ہے'گولڈن ٹرائنگل میں تو اب بھی افیون کی کاشت ہورہی ہے ۔ افیون کی کاشت تو پورے ضلع صوابی میں ہوتی تھی لیکن اس پابندی کے بدلے صرف گدون میں گدون امازئی کے نام سے ایک صنعتی بستی قائم کی گئی چلو یہ بھی غنیمت تھا' سرمایہ کاروں کو یہاں صنعتیں لگانے کے لیے مختلف مراعات دی گئیں' چند سال تک یہاں خوب رونق رہی' ہزاروں لوگ یہاں بر سرروزگار رہے'چند سال بعد اچانک حکومت نے یہ مراعات واپس لے لیں، اب یہ صنعتی بستی ایک عظیم صنعتی قبرستان میں بدل چکی ہے' حکومت نے بحالی کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
خیبرپختونخوا کے وہ اضلاع جہاں تمباکو کی کاشت ہوتی ہے بہت پسماندہ ہیں' عوام کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، زرعی اراضی کی ملکیت بہت کم ہے اس لیے دیگر فصلوں سے گھر کا چولھا جلانا مشکل ہوتا ہے' تمباکو واحد نقد آور فصل ہے جس کی اگر صحیح قیمت مل جائے تو غریب کسان کا چولھا کسی نہ کسی طرح سارا سال جلتا رہتا ہے' اس فصل سے صرف کسان کو نہیں بلکہ حکومت اور دوسرے لاکھوںلوگوں کو فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
تمباکو کے کھیت سے لے کر بھٹی تک'بھٹی سے لے کر ڈپو تک' ڈپو سے کارخانوں کے سیکڑوں ہزاروں محنت کشوں اور اہلکاروں تک' کارخانے سے لے کر دکاندار تک اور تمباکو بورڈ کے اہلکاروں اور افسران تک لاکھوں لوگوں کا روزگار اس فصل سے وابستہ ہے۔ مرکزی حکومت کو صرف خیبر پختونخوا کی تمباکو سے سالانہ 80 ارب روپے سے زیادہ سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی حاصل ہوتی ہے' اس کے علاوہ صوبائی حکومت کو تمباکو ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں اربوں روپے حاصل ہوتا ہے' لوکل ٹیکس اس کے علاوہ وصول ہوتا ہے' اگر حساب لگایا جائے تو اس آمدنی میں 75 فی صد صوابی کا حق بنتا ہے۔ تمباکو بورڈ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار جو مراعات ان کمپنیوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ الگ ہیں۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ تمباکو واحد فصل ہے جو حکومت کو اربوں روپے کما کر دیتی ہے۔ پنجاب کی گندم اور سندھ کی کپاس پر حکومت کوئی ایکسائز ڈیوٹی وصول نہیں کرتی' زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم آلو، پیاز، چینی اور دالیں ہندوستان سے برآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
زراعت کے لیے لوازمات میں پانی'بجلی' کھاد' جراثیم و کیڑے مار ادویات بہت مہنگی ہیں'ا س کے علاوہ تمباکو کے پتے کو بھٹی میں پکانے کے لیے لکڑی کی ضرورت ہوتی' جو اب نایاب ہوتی جا رہی ہے' گیس کی فراہمی سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن شاید گیس صوابی کے لیے شجر ممنوعہ ہے' صرف ایک چیز سستی ہے اور وہ ہے کسان اور مزدور کی محنت۔ تمباکو کمپنیاں بھی زیادہ منافع کمانے کے لیے کسان کا استحصال کرتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمباکو ڈیلر اورسگریٹ بنانے والے کارخانہ دار بہت جلد کروڑ پتی بن گئے۔ ان کے علاوہ تمباکو کمپنیاں بھی بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں' اس طرح کسان کی محنت سے پیدا کردہ تمباکو اگر ایک طرف سرمایہ دار کمپنیوں ' ڈیلروں اور مڈل مین کو فائدہ پہنچا رہا ہے تو دوسری طرف لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی اس فصل سے وابستہ ہے۔
کسان' مزدور' سگریٹ فروخت کرنے والے سگریٹ کے کارخانوں اور کمپنیوں کے ڈپوؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں مزدور تمباکو کی منڈیوں میں کام کرتے ہیں'تمباکو کی بعض قسمیں سگریٹ میں استعمال نہیں ہوتیں لیکن نسوار'حقہ اور پان کی شکل میں اس کی کھپت بھی بہت زیادہ ہے اور ان کاروباروں سے بھی لاکھوں لوگ وابستہ ہیں' نسوار بنانے کی ہزاروں دکانیں ہیں' ہمارے ملک کے کسان اور زراعت سے وابستہ لوگ سب سے زیادہ غربت میں وقت گزارتے ہیں' سارا سال محنت کرنے کے بعد اپنی فصل فروخت کرنے لیے جو سفارشیں اور منت سماجت تمباکو کمپنیوں کے اہلکاروں کی کرنی پڑتی ہیں تو وہ منظر دیدنی ہوتا ہے' جون جولائی کی تپتی ہوئی دھوپ میں سارا دن اپنا تمباکو لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔کسانوں کی محنت پر پلنے والے سرمایہ دار اور جاگیردار عالی شان بنگلوں میں رہتے ہیںلیکن کسان کے گھر میں وہ سہولتیں بھی نہیں ہوتیں جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ان کے مکان توگھر کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہوتے۔بقول شاعر
؎میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
کہ جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
اسی لیے اگر دیگر ایسی اشیاء بنائی اور بیچی جاتی ہیں' جو انسانی سماج اور انسانی صحت دونوں کے لیے تباہ کن ہیں تو پھر تمباکو تو اتنا مضر صحت بھی نہیں ہے اور چونکہ اس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے' اس لیے اس فصل اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے اور کسان کو اپنی محنت کا صحیح معاوضہ دینے کے لیے حکومت کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چائیے تھا۔ بدقسمتی سے حکومت نے اس کاروبار کو بہتر بنانے کے لیے تمباکو بورڈ کی تشکیل کی لیکن کسان سب سے زیادہ تمباکو بورڈ سے نالاں ہیں' یہ ادارہ ان کے بقول اب کمپنیوں کا ایجنٹ بن چکا ہے اور کسان دشمن پالیسیاں بنا رہا ہے۔
ڈر ہے کہ حکومت کی دیگر ناکام معاشی پالیسیوں کی طرح روزگار کا یہ ذریعہ بھی ختم نہ ہو جائے' حکومت اور تمباکو بورڈ کو چائیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسان کو مناسب نرخ پر تمباکو فروخت کرنے کی سہولت حاصل ہو' غریبوں کی بھی اس ملک میں عزت ہونی چائیے کیونکہ ان کی محنت سے ہی یہ ملک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جنت ہے۔ اگر محنت کا پاور ہاؤس بند ہو گیا تو ملک کی کوٹھیوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔ حکومت اپنا کام کرنے کے بجائے پہلے سے موجود ٹیکسوں کے اوپر گناہ ٹیکس کا نفاذ؟ ختم کرے۔
پشاور پریس کلب میں مانسہرہ'صوابی'بونیر'چارسدہ اور مردان سمیت دیگر علاقوں کے تمباکو کاشتکاروں کے نمایندوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم تمباکو پر گناہ ٹیکس کے نفاذ کا حکومتی فیصلہ مسترد کرتے ہیں'کیونکہ اس فیصلے سے تمباکو کی فصل سے وابستہ لاکھوں افراد کا کاروبار متاثر ہو گا''۔ ویسے میں سوچ رہا تھا کہ اگر تمباکو نوشی کو گناہ سمجھ کر اس پر گناہ ٹیکس لگاکر اس کو جائز کیا جا سکتا ہے' توحکو مت شراب نوشی'جواء بازی اور قحبہ خانوں پر بھی گناہ ٹیکس لگاکر ان کو بھی جائز کرے تاکہ اربوں روپے کے ٹیکس حکومت کو مل سکیںاور ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہو' خیر یہ تو ایک تجویز ہے 'اب اصل مسئلے کی طرف آتے ہیں۔
''تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے'' ان الفاظ کے بعد اب تمباکو کو''گناہ ٹیکس'' لگاکر گناہ گاروں کے زمرے میں بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ دنیا میں مختلف قسم کی مہلک اشیاء کی تجارت ہوتی ہے لیکن وہاں تو یہ الفاظ نہیں لکھے جاتے مثلاً اسلحہ کی تجارت وغیرہ۔ دنیا میں صرف تمباکو ہی نہیں بہت سی دوسری چیزیں بھی نہ صرف مضر صحت بلکہ جان لیوا ہو سکتی ہیں۔تمباکو کی فصل پر خیبر پختونخوا اور خاص کر ضلع صوابی کے لاکھوں خاندانوں کی معیشت کا دار ومدار ہے۔
صوابی'بونیر 'چارسدہ 'مانسہرہ اور ملاکنڈ وغیرہ میں یہ ایک اہم نقد آور فصل ہے' پورے خیبر پختونخوا کی کل تمباکو کا 75 فی صد صرف ضلع صوابی میں پیدا ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی معیشت کا دار ومدار اسی فصل پر ہوتا ہے' یہاں تک کہ تعلیمی اخراجات'علاج' شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کے لیے بھی اسی فصل کا انتظار کیا جاتا ہے۔پہلے ضلع صوابی میں افیون کی فصل کا شت ہوتی تھی جس پر حکومت نے اس کی کاشت پر پابندی لگا دی ہے۔
انڈیا اور ترکی کو امریکا نے دوائیوں میں استعمال کے لیے افیون کی فصل کا کوٹہ دیا ہے'گولڈن ٹرائنگل میں تو اب بھی افیون کی کاشت ہورہی ہے ۔ افیون کی کاشت تو پورے ضلع صوابی میں ہوتی تھی لیکن اس پابندی کے بدلے صرف گدون میں گدون امازئی کے نام سے ایک صنعتی بستی قائم کی گئی چلو یہ بھی غنیمت تھا' سرمایہ کاروں کو یہاں صنعتیں لگانے کے لیے مختلف مراعات دی گئیں' چند سال تک یہاں خوب رونق رہی' ہزاروں لوگ یہاں بر سرروزگار رہے'چند سال بعد اچانک حکومت نے یہ مراعات واپس لے لیں، اب یہ صنعتی بستی ایک عظیم صنعتی قبرستان میں بدل چکی ہے' حکومت نے بحالی کے لیے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
خیبرپختونخوا کے وہ اضلاع جہاں تمباکو کی کاشت ہوتی ہے بہت پسماندہ ہیں' عوام کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے، زرعی اراضی کی ملکیت بہت کم ہے اس لیے دیگر فصلوں سے گھر کا چولھا جلانا مشکل ہوتا ہے' تمباکو واحد نقد آور فصل ہے جس کی اگر صحیح قیمت مل جائے تو غریب کسان کا چولھا کسی نہ کسی طرح سارا سال جلتا رہتا ہے' اس فصل سے صرف کسان کو نہیں بلکہ حکومت اور دوسرے لاکھوںلوگوں کو فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔
تمباکو کے کھیت سے لے کر بھٹی تک'بھٹی سے لے کر ڈپو تک' ڈپو سے کارخانوں کے سیکڑوں ہزاروں محنت کشوں اور اہلکاروں تک' کارخانے سے لے کر دکاندار تک اور تمباکو بورڈ کے اہلکاروں اور افسران تک لاکھوں لوگوں کا روزگار اس فصل سے وابستہ ہے۔ مرکزی حکومت کو صرف خیبر پختونخوا کی تمباکو سے سالانہ 80 ارب روپے سے زیادہ سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی حاصل ہوتی ہے' اس کے علاوہ صوبائی حکومت کو تمباکو ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں اربوں روپے حاصل ہوتا ہے' لوکل ٹیکس اس کے علاوہ وصول ہوتا ہے' اگر حساب لگایا جائے تو اس آمدنی میں 75 فی صد صوابی کا حق بنتا ہے۔ تمباکو بورڈ اور دیگر سرکاری اداروں کے اہلکار جو مراعات ان کمپنیوں سے حاصل کرتے ہیں، وہ الگ ہیں۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ تمباکو واحد فصل ہے جو حکومت کو اربوں روپے کما کر دیتی ہے۔ پنجاب کی گندم اور سندھ کی کپاس پر حکومت کوئی ایکسائز ڈیوٹی وصول نہیں کرتی' زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم آلو، پیاز، چینی اور دالیں ہندوستان سے برآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
زراعت کے لیے لوازمات میں پانی'بجلی' کھاد' جراثیم و کیڑے مار ادویات بہت مہنگی ہیں'ا س کے علاوہ تمباکو کے پتے کو بھٹی میں پکانے کے لیے لکڑی کی ضرورت ہوتی' جو اب نایاب ہوتی جا رہی ہے' گیس کی فراہمی سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن شاید گیس صوابی کے لیے شجر ممنوعہ ہے' صرف ایک چیز سستی ہے اور وہ ہے کسان اور مزدور کی محنت۔ تمباکو کمپنیاں بھی زیادہ منافع کمانے کے لیے کسان کا استحصال کرتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمباکو ڈیلر اورسگریٹ بنانے والے کارخانہ دار بہت جلد کروڑ پتی بن گئے۔ ان کے علاوہ تمباکو کمپنیاں بھی بہت زیادہ منافع کما رہی ہیں' اس طرح کسان کی محنت سے پیدا کردہ تمباکو اگر ایک طرف سرمایہ دار کمپنیوں ' ڈیلروں اور مڈل مین کو فائدہ پہنچا رہا ہے تو دوسری طرف لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی اس فصل سے وابستہ ہے۔
کسان' مزدور' سگریٹ فروخت کرنے والے سگریٹ کے کارخانوں اور کمپنیوں کے ڈپوؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں مزدور تمباکو کی منڈیوں میں کام کرتے ہیں'تمباکو کی بعض قسمیں سگریٹ میں استعمال نہیں ہوتیں لیکن نسوار'حقہ اور پان کی شکل میں اس کی کھپت بھی بہت زیادہ ہے اور ان کاروباروں سے بھی لاکھوں لوگ وابستہ ہیں' نسوار بنانے کی ہزاروں دکانیں ہیں' ہمارے ملک کے کسان اور زراعت سے وابستہ لوگ سب سے زیادہ غربت میں وقت گزارتے ہیں' سارا سال محنت کرنے کے بعد اپنی فصل فروخت کرنے لیے جو سفارشیں اور منت سماجت تمباکو کمپنیوں کے اہلکاروں کی کرنی پڑتی ہیں تو وہ منظر دیدنی ہوتا ہے' جون جولائی کی تپتی ہوئی دھوپ میں سارا دن اپنا تمباکو لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔کسانوں کی محنت پر پلنے والے سرمایہ دار اور جاگیردار عالی شان بنگلوں میں رہتے ہیںلیکن کسان کے گھر میں وہ سہولتیں بھی نہیں ہوتیں جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ان کے مکان توگھر کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہوتے۔بقول شاعر
؎میرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے
کہ جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے
اسی لیے اگر دیگر ایسی اشیاء بنائی اور بیچی جاتی ہیں' جو انسانی سماج اور انسانی صحت دونوں کے لیے تباہ کن ہیں تو پھر تمباکو تو اتنا مضر صحت بھی نہیں ہے اور چونکہ اس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے' اس لیے اس فصل اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے اور کسان کو اپنی محنت کا صحیح معاوضہ دینے کے لیے حکومت کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چائیے تھا۔ بدقسمتی سے حکومت نے اس کاروبار کو بہتر بنانے کے لیے تمباکو بورڈ کی تشکیل کی لیکن کسان سب سے زیادہ تمباکو بورڈ سے نالاں ہیں' یہ ادارہ ان کے بقول اب کمپنیوں کا ایجنٹ بن چکا ہے اور کسان دشمن پالیسیاں بنا رہا ہے۔
ڈر ہے کہ حکومت کی دیگر ناکام معاشی پالیسیوں کی طرح روزگار کا یہ ذریعہ بھی ختم نہ ہو جائے' حکومت اور تمباکو بورڈ کو چائیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کسان کو مناسب نرخ پر تمباکو فروخت کرنے کی سہولت حاصل ہو' غریبوں کی بھی اس ملک میں عزت ہونی چائیے کیونکہ ان کی محنت سے ہی یہ ملک سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی جنت ہے۔ اگر محنت کا پاور ہاؤس بند ہو گیا تو ملک کی کوٹھیوں میں اندھیرا چھا جائے گا۔ حکومت اپنا کام کرنے کے بجائے پہلے سے موجود ٹیکسوں کے اوپر گناہ ٹیکس کا نفاذ؟ ختم کرے۔