سندھ کے آثارقدیمہ اور ثقافتی ورثہ …پہلا حصہ

یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اس لیے اس بے حسی پر آنسو بہانے کے بجائے اچھا ہے کچھ لکھ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کریں۔

میں جب بھی کسی آثار قدیمہ اور تاریخی مقام کے بارے میں پڑھتا ہوں اور پھر وہاں جاکر دیکھتا ہوں تو بے حد دکھ اور رنج ہوتا ہے اس کا اظہار قلم سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ایک دن کراچی سے لاڑکانہ اور پھر لاڑکانہ سے واپسی پر منچھر جھیل، چار ریزورٹ اور ریسٹ ہاؤس کے علاوہ خدا آباد مسجد موئن جو دڑو ،اور بھٹو خاندان کے افراد کا خاندانی قبرستان دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ دادو شہرکے بعد راستے میں شہید مخدوم بلاول کا بھی مزار دیکھنے گئے جس کے بارے میں آپ بھی پڑھیں اور افسوس کریں۔

آصف علی زرداری جب صدر تھے تو ملک میں پی پی پی کی ہی حکومت تھی جس نے باقی سیاسی پارٹیوں سے مل کر ملکی دستور میں ترمیم کرکے 18 ویں شق کے تحت کئی اہم اداروں کو صوبائی حکومتوں کے حوالے کیا گیا جس میں ملک کے آثار قدیمہ بھی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک یہ آثار قدیمہ مرکزی حکومت کے حوالے تھے ان پر بالکل توجہ نہیں دی جا رہی تھی لیکن اب 18 ویں ترمیم کے بعد کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے مگر 70 سالوں کا رُکا ہوا کام اتنی جلدی ٹھیک نہیں ہوسکتا جس کے لیے ایک لمبا وقت چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی سست ہوکر بیٹھ جائیں۔

اس ضمن میں سندھ حکومت کی طرف سے کافی پیش رفت ہوئی مگر اب وہ پھر سست رفتاری کا شکار ہے۔ جب سے سید سردار علی شاہ نے کلچر ڈپارٹمنٹ سنبھالا ہے کچھ حد تک کام شروع ہوا تھا جو اب رکتا نظر آرہا ہے۔ اس میں سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن جو سندھ کلچر محکمہ کا حصہ ہے اس نے سب سے بڑھ کر پیش رفت دکھائی گئی جس کی خاص وجہ اس کارپوریشن کے ایم ڈی، روشن قناصرو ہیں جنھوں نے آتے ہی کارپوریشن کا بجٹ بڑی حد تک بڑھوایا اور لاتعداد ترقیاتی کام شروع کروائے جس سے ٹور ازم کو اہمیت ملی ہے لیکن ان برسوں میں 70 برسوں کی خاموشی بھی نظر آئی اور پتا نہیں کیوں مرکزی حکومت نے ٹورازم جیسے اہم چیزکو نظرانداز کیوں کیا جس میں سندھ صوبہ سرفہرست ہے۔

چلو اب جو ہوگیا اس پر آنسو بہانے سے کیا فائدہ ، بس ہمیں آگے دیکھنا چاہیے اور محکمہ کلچر کو خاص طور پر آثار قدیمہ اور ٹور ازم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ورنہ ہمارے قیمتی تاریخی اور ثقافتی ورثے اگر تباہ ہوگئے تو ایک دن ہماری پہچان ختم ہوجائے گی۔ ہم جب صدر شاہ لکی جو سیہون شریف سے چند کلومیٹر پہلے مین ہائی وے پر ہے وہاں پہنچے ، دور سے ایک ریسٹ ہاؤس نظر آتا ہے جس میں ایک ڈبل اور دو سنگل روم ہیں جس میں آنے والوں کے لیے ایئرکنڈیشن، ٹی وی، ڈرائنگ روم، وغیرہ کی سہولت موجود ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کا افتتاح مرحوم سید عبداللہ شاہ نے کیا تھا۔ اس ریسٹ ہاؤس میں لوگ کم آتے ہیں اگر آتے ہوں گے تو وہ سرکاری افسران یا پھر وی آئی پی جس سے حکومت کو کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ وہاں پر ملازموں کی تنخواہ ادارہ ہی ادا کرتا ہے۔ سولر سسٹم بھی موجود ہے کیونکہ بجلی کا بحران تو مستقل رہتا ہے۔

اس علاقے میں ایک بڑے قدیم دور کے بزرگ کا مزار ہے جس پر حاضری دینے کے لیے اکثر زائرین کا رش رہتا ہے۔ اس بزرگ کے نام سے ہی شہرکا نام صدر شاہ لکی رکھا گیا ہے۔ مزار کے باہر جھونپڑی نما بہت سی دکانیں بنی ہوئی ہیں جن پر تبرک کی مٹھائی، بچوں کے کھلونے اور مزار پر ڈالنے کے لیے چادریں بک رہی تھیں۔ اس شہر کی آبادی تو کم ہے لیکن اس کے باوجود پرائمری اسکول، پرائیویٹ اسکول، سرکاری صحت کا مرکز، واٹر سپلائی کی سہولت موجود ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ سہولتیں کبھی ملتی ہیں کبھی نہیں لیکن یہاں پر لوگوں سے پیسے وصول کرنے کے لیے پولیس کی چوکی موجود ہے۔ اس مقام پر ایک قدرتی چشمہ بھی ہے جہاں پر چمڑے کی بیماری میں مبتلا لوگ شفا کے لیے آتے ہیں۔

سیہون شریف تو پوری دنیا میں مشہور ہے جہاں پر نہ صرف ملک سے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی عقیدت مند حاضری دینے آتے ہیں جس کی وجہ سے قلندر شہباز کے مزار پر 24 گھنٹے لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے۔ خاص طور پر سالانہ عرس کے موقعے پر تو پورے شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں چیونٹیوں کی طرح لوگ نظر آتے ہیں۔ بہرحال سیہون شہر میں پہنچتے ہی ہم ٹور ازم کی طرف سے بنے ہوئے لعل شہباز ہوٹل پر جانا ہوا جس میں 24 کمرے بنے ہوئے ہیں جس میں ڈبل بیڈ اور سنگل بیڈ روم جس میں رہنے والوں کے لیے ٹی وی، فریج، پنکھے کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ جنریٹر اور سولر سسٹم بھی ہے کیونکہ خاص طور پر گرمیوں میں تو بجلی کا نام ہی سنا جاتا ہے۔


اس ہوٹل میں رہنے والوں کے لیے کھانے پینے کی سہولت دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عام لوگ قلندر کے مزار پر 24 گھنٹے جاری لنگر سے اپنا پیٹ بھر لیتے ہیں اور باقی اچھے کلاس کے رہنے والوں کے لیے ہوٹل سے کھانا آرڈر پر بنوایا جاتا ہے۔ البتہ ہوٹل میں ڈرائنگ روم بہت اچھا ہے جس میں اے سی اور ٹی وی آویزاں ہیں، اچھے قسم کے صوفے بھی ہیں۔ سردیوں کے موسم میں گرم پانی مل جاتا ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس سے ٹور ازم سے کوئی خاص آمدنی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے یہاں کے ملازموں کو ٹورازم کی طرف سے تنخواہ ملتی ہے کیونکہ پورے شہر میں لوگوں نے گھروں کے اندر چھوٹے چھوٹے کمرے بناکر اس میں ایسے لگا کر کرائے پر دے دیے ہیں جہاں پر لوگ رہنا پسند کرتے ہیں۔

ہوٹل تو اچھا ہے مگر واٹر سپلائی کی طرف سے پانی کی ترسیل پوری نہ ہونے سے وہاں کے لان اور پھولوں کے پودے سوکھے نظر آتے ہیں۔ سالانہ عرس کے موقع پر اس ہوٹل کا چارج ڈی سی جامشورو کے حوالے ہوتا ہے جو آنے والے سرکاری لوگوں کے رہنے کا بندوبست اس میں بھی کرتے ہیں۔

اس ہوٹل میں دوپہر کے کھانے کے بعد لاڑکانہ جاتے ہوئے دادو شہر سے پہلے خدا آباد مسجد جو مین روڈ پر ہی ہے، اسے دیکھنے کے لیے چلے گئے یہ مسجد ایک تاریخی خوبصورت مسجدوں میں سے ایک ہے جس کی مرمت کے لیے Endowment فنڈ سے دیے گئے تھے مگر مسجد کے باہر کی دیوار کی مرمت دیکھ کر نہ صرف افسوس ہوا بلکہ غصہ بھی آیا۔ اندر سے بھی ابھی تک ٹوٹی پھوٹی ہے۔ یہ عالم دیکھ کر ہم زیادہ نہیں رکے اور چلے آئے۔ ہماری حکومتیں اور لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وہ اپنے ورثے اور پہچان کو اس بے دردی سے ختم کرتے جا رہے ہیں۔

میں ان ساری چیزوں کی تفصیل میں اس لیے بھی نہیں جا رہا ہوں کیونکہ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اس لیے اس بے حسی پر آنسو بہانے کے بجائے اچھا ہے کچھ لکھ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کریں۔ دادو شہر کراس کرنے کے بعد کچھ کلو میٹر پر شہید مخدوم بلاول کا مزار مین روڈ سے چند فاصلے پر الٹے ہاتھ پر بنا ہوا ہے، جسے بے نظیر بھٹو نے بنوایا تھا اور پرانے روڈ کو شہر سے مرمت کرکے نیا روپ دے کر بہتر کردیا ہے۔ مخدوم بلاول کے مزارکے چاروں طرف ایک قبرستان ہے اور اس سے پہلے الٹے ہاتھ پر ایک قدیم خوبصورت مسجد بھی ہے جسے مرمت کرکے اچھا بنایا جا رہا ہے۔ تقریباً ہر مزار پر سیکیورٹی کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے مگر کئی جگہ پر عورتوں کے لیے لیڈی سرچر نہیں ہیں۔

شام کو لاڑکانہ پہنچنے کے بعد سیدھا سمبارہ ان ہوٹل چلے گئے جس کی عمارت دور سے ہی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ ہوٹل کسی زمانے میں ذوالفقارعلی بھٹو نے بنوایا تھا تاکہ باہر ممالک سے آنے والے ملکوں کے سربراہوں اور ٹورسٹ کو یہاں پر ایک اچھی رہائش مل سکے۔ ذوالفقارعلی بھٹوکے بعد یہ ہوٹل کئی مراحل سے گزرتا رہا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ اسے بیچنے کی تیاریاں شروع ہوگئیں مگر لاڑکانہ شہرکے لوگوں اور ثقافت سے پیارکرنے والوں نے یہ سازش ناکام بنادی اور پھر جب کلچرل ڈپارٹمنٹ کو دی گئی خاص ہدایت کے مطابق اس کی ذمے داری ٹورا زم کے سربراہ روشن قناصرو کو دی گئی جنھوں نے سیکریٹری کلچر جو لاڑکانہ کے کمشنر بھی رہ چکے تھے ، متفقہ طور پر ایک تجربہ کار ملازم امتیاز علی شاہ کے حوالے سمبارہ ان کی مرمت اور بحالی کا کام سونپا اور اس نے سب سے پہلے وہاں سے شادی ہال کا سلسلہ ختم کیا، جدید طرز پر ثقافتی چیزوں کو آویزاں کیا ، 5 اسٹار کی طرز پر کمروں، ڈرائنگ اور ڈائننگ ہال، لان، سوئمنگ پول، فرنیچر کو سجایا جس سے ہوٹل کی Look بالکل بدل گئی۔

یہاں پر کام کرنے والے ملازموں کو باقاعدہ پروفیشنل تربیت دی گئی ہے۔ ادھر جب بھی آئیں لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور تقریباً 48 سنگل اور ڈبل روم ہیں جو گراؤنڈ اور پہلی منزل پر ہیں۔ کپڑے استری کروانے کے لیے، پی آئی اے کا ٹکٹ لینا ہو، کرائے پر گھومنے کے لیے گاڑی کی ضرورت ہو۔ سردی میں گرم پانی، سوئمنگ پول، خوبصورت پھول اور لان آنے والے کو اپنی طرف کھینچتے چلے جاتے ہیں۔ (جاری ہے )
Load Next Story