دنیا میں سبزیوں کی کل پیداوار کا 50 فیصد چین پیدا کرتا ہے
چین نے بغیر مٹی کے فصل اُگانے میں کامیابی حاصل کی ہے‘ جنیاتی فصلوں میں چین امریکہ سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
قسطـ: 9
خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور حیاتِ انسانی کا ایک کثیر حصہ خوراک کے حصول کے لیے تگ ودو میں گزرتا ہے۔خواہ یہ مختلف النوع اجناس کی کاشت کے معاملات ہوں یا پھر کھانے پکانے کا معاملہ ہو ۔چین جا کر ہمارا واسطہ بھی کچھ ایسے ہی معاملات سے پڑا ۔ وہاں جا کر خود کھانا پکانا پڑا حالانکہ اپنے ملک میں کبھی اس کی نوبت نہ آئی تھی۔
ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے پیش رو ساتھی عبد المجیدبلوچ اس فن میںماہر تھے انہوں نے ابتدائی دنوں میں ہمیںخوب پراٹھے اورمختلف قسم کے کھانے کھلائے۔بعدمیں میرے ساتھ جانے والے ساتھی شاہد افراز خان اور طاہر چغتائی نے کھانا پکانے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور ہماری ذمہ داری باہر سے سبزی اور روٹی لانا ٹھہری۔ مقامی سبزی مارکیٹ لاؤ شان پارک کے علاقے میں تھی۔
اس کو ہمارے ہاں کے اتوار بازار کے مساوی سمجھاجا سکتا ہے۔وہاں مختلف سیکشنز ہیں ۔سبزی، پھل کا سیکشن الگ ۔خشک مسالہ جات الگ حصے میں فروخت ہوتے ہیں۔گوشت ایک کورڈ ایریا میں بکتا ہے۔جبکہ وہاں کپڑوں، جوتوں، سینڑی آلات، برتن، اور دیگر اشیائے ضروریہ بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس مارکیٹ میں صبح سویرے جانا پڑتا تھا کیونکہ دوپہر بارہ بجے اس کی رونق ماند پڑجاتی ہے اور دکاندار اپنا اپنا مال سمیٹنا شروع کردیتے ہیں۔وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ چینی لوگ خریداری کے تمام معاملات علی الصبح نمٹانے کے عادی ہیں۔
لاؤ شان پارک کی اس سبزی مارکیٹ میں چین کے کئی سماجی رنگ نظر آئے۔مارکیٹ میں آپ اپنی مرضی سے کسی بھی پھل یا سبزی کا انتخا ب کر سکتے ہیں اور دکاندار اس کا برا نہیں منائے گا۔ یہ ہمارے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔کیونکہ ہمارے ہاں تو اس طرح کا رواج نہیں ہے اور اگر گاہک اپنی مرضی سے کچھ منتخب کرتاہے تو پھر یا تو اس کی اجازت نہیں ملتی یا پھر اس کا نرخ بڑھا دیا جاتا ہے۔
سبزی مارکیٹ میںگھومتے ہوئے کئی اقسام کی تازہ ، صحت بخش سبزیوں اور پھلوں کو دیکھ کر چین کی زراعت کے میدان میں ترقی کا پتہ چلتا ہے۔ وہاں پائی جانے والی سبز مرچ مختلف سائز میں دستیاب ہوتی۔ انتہائی مختصر، درمیانی سطح کی ، طویل اور انتہائی طویل جن کو دیکھ کرحیرت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کئی بے موسمی پھلوں کی وہاں موجودگی ذہن میں اکثر یہ سوال اٹھاتی کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے۔ ہمارے ہاں تو کولڈ سٹوریجز میں سبزیوں اور پھلوں کو رکھ دیا جاتا ہے بعد میں ان کو استعمال کیا جاتا ہے ۔
چین کی اتنی بڑی آبادی کے لیے کیا ایسی سہولت ہو گی کہ بے موسمی اجناس ارزاںاور وافر دستیبا ب ہیں۔ اسی دوران ہمیں دفتر کی جانب سے بیجنگ کے شہرممنوعہ کی سیر پر بھیج دیا گیا۔وہاں پہنچے توکئی غیر ملکیوں کو وہاں پایا۔ان میں پاکستانیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔اور اِ ن پاکستانیوں میں مختلف جامعات میں زیر تعلیم طلباء بھی شامل تھے۔خوش قسمتی سے ان میں زرعی شعبے سے وابستہ طلباء بھی تھے۔ یوں ان سے اس سیر کے دوران اور بعد میں بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور ہمارے کئی سوالات کا انہوں نے جواب دیا جس سے ہمیں چین کی زراعت کے شعبے میںترقی کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔اسی روز ہماری ملاقات ہوزان ایگریکلچر یونیورسٹی میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر محمد اظہر نواز سے ہوئی۔
ان سے بات چیت ہوئی تو چین کی زراعت کے شعبے میں ترقی کا علم ہوا ۔ محمد اظہر نواز نے بتایا کہ چین کی اہم فصلیںچاول، گندم، آلو، مونگ پھلی،چائے کی مختلف اقسام، باجرہ، جو ، کپاس، ٓائل سیڈز، سویا بین ہیں۔انیس سو اٹھتر میں جب زرعی اصلاحات کی گئیں تو اس سے زرعی شعبے میں ترقی کا سفر شروع ہوا ۔ان اصلاحات کے نتیجے میں اس شعبے میں سرمایہ کاری شروع ہوئی تو سرمایہ کاروں کی دلچسپی اورعلاقے کی زرعی ساخت کے پیش نظر بعض علاقے مخصوص فصلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہو گئے۔شمالی اور وسطی چین میں گندم، سویا بین ، جو اور باجرہ پیدا ہوتا ہے۔
چاول جنوبی چین میں زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ چین کے ساحلی علاقے برآمدی فصلات کے لیے مشہور ہیں۔چین کا صوبہ شندونگ سبزیوں کی پیداوار کے لیے شہرت رکھتا ہے ۔یہاں Protected Cultivation بھی ہوتی ہے۔یہاں پیدا ہونے والی سبزیوں کو چین کے دور دراز علاقوں میں بھیجاجاتا ہے۔محمد اظہر نواز کے پاس معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جس کو شیئر کرنے میںانہوں نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ چین کے 35% لوگ ایگریکلچر انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔چین اپنے جی ڈی پی کا2.1% ریسرچ پر خرچ کرتا ہے۔یہ شرح 1.54 ٹریلین یوان یا 296بلین ڈالرز کے مساوی ہے۔
اُس روز ہونے والی مختصر ملاقات میں انہوں نے کچھ چیدہ چیدہ حقائق بتادیے بعد میں بھی ان سے رابطہ رہا۔ پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت ان کا انٹرویو بھی کیا تو معلوم ہوا کہ محمداظہر نواز یونیورسٹی آف سرگودہا کے زرعی کالج میں پڑھاتے ہیں اور چین میں Vegetable Graftingکے حوالے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔سادہ لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ویجیٹبل گرافٹنگ (Vegetable Grafting) بہتر، بیماریوں سے محفوظ اور زیادہ پیداوار کے لیے ایک جدید زرعی طریقہ کار ہے، انہوں نے اسی پر کام کیا۔
اس کا طریقہ کار، اس کا استعمال ، یہ سب کچھ انہوں نے چین سے سیکھا۔ آج کل پا کستان آ کر اس کو یہاں عام کر رہے ہیں ۔انہوں نے یہاں آکر طلباء کو Vegetable Graftingکے حوالے سے تعلیم دی۔ اور تیس سے چالیس طلباء کو Vegetable Graftingکے لیے تیار کیا ہے۔تربوز کی Grafting میں کامیاب رہے۔اب اس تجربے کو دیگرنوعیت کے زرعی ٹیسٹس سے گزارا جار ہا ہے ۔ کھاد کے زیادہ یا کم استعمال، بیماریوں کے حملے اور مدافعت اور اس سے متعلقہ دیگر نوعیت کے ٹرائل جاری ہیں۔ویجیٹبل گرافٹنگ کے ذریعے بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ کھادوں کی افادیت کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔ مزید برآں پانی کی کمی اور زیادتی،درجہ حرارت کی زیادتی اور کمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ویجیٹبل گرافٹنگ سے سبزیوں کی پیداوار کو بڑھانے اور اس کی پیداوار میں کمی کے عوامل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین میں تعلیم کے حصول سے پہلے کئی معاملات میں ان کے concepts واضح نہیں تھے۔طلباء کو پڑھاتے ہوئے ان کے پاس جدید تحقیق کی ٹھوس معلومات کا فقدان تھا۔ مگر چین میں تعلیم اور عملی تحقیق کے عملی تجربے سے انہیں پڑھانے میں آسانی ہے ۔چین میں قیام کے دوران ہم نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ وہاں تربوز بہت کھایا جاتا ہے اور یہ کم و بیش سارا سال ہی دستیاب رہتا ہے۔
ہم تویہاں اس کو صر ف گرمیوں میں کھانے کے عادی ہیںاوربالخصوص پنجا ب کے نہری علاقوں میں رہنے والے تو گرمیوں میں نہر کنارے تربوز بیچنے والوں سے ٹھنڈے ٹھنڈے تربوز کھاتے ہیںیا پھر اگر دوست مل کر نہر میں نہائیں تو ایک تربوز ساتھ لے جاتے ہیں تو تربوز بھی ساتھ ساتھ ہی" ـ نہاتا" رہتاہے۔بعد میں اس کو کھا لیاجاتا ہے۔مگر چین میں سخت سردیوں میںتربوز کی دستیابی بہت حیران کن تھی۔ اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے محمد اظہر نواز سے رجوع کیا تو انہوں نے ہمیں یہ بتا کر مزید حیرت میں ڈال دیا کہ دنیا کا67% تربوز چین اکیلا ہی پیداکرتا ہے۔چین میں یہ روایت ہے کہ ہر تقریب میں سویٹ ڈش کے طور پر تربوز پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ پورا سال وہاں دستیاب رہتا ہے۔اور سخت سردی میں اس کو کھانے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں ویسے ہی مفروضے بنے ہوئے ہیں۔
تربوز کی بات آئی ہے تو بتاتا چلوںکہ چین میں تربوز کی فروخت کا طریقہ کار ہمارے ہاں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ہاں تو گاہک کو پورے کا پورا تربوز ہی خریدنا ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔ مگر چین میں یہ ٹکڑوں میں کاٹ کر بھی فروخت کیا جاتا ہے اگر کوئی گاہک پورا تربوز نہیں خریدنا چاہتا تو اس کو کاٹ کر آدھا یا ایک چوتھائی حصہ بھی دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دکاندار تربوز کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر رکھتے ہیں اور ان کو پلاسٹک سے کور کر دیا جاتا ہے تا کہ یہ صا ف اور محفوظ رہیں۔ویسے یہ طریقہ کار اگر پاکستان میں بھی متعارف ہو جائے تو لوگوں کو بہت فائدہ ہو۔چین میںرہتے ہوئے ایک اور مشاہدہ بھی ہوا کہ یہاں پاکستان کے برعکس قابل کاشت رقبہ کم ہے۔ تو اس قدر کم رقبے سے اتنی پیداوار حاصل کرنا اور ملکی ضروریات کو پوراکرنا بڑے کمال کی بات ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا اس کے متعلق چین کی مختلف زرعی جامعات میں زیر تعلیم پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز نے وقتاً فوقتاً بتایا۔ ایسے ہی ایک پی ایچ ڈی سکالر سجاد رضا بھی ہیں جو کہ نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹ یونیورسٹی میں سائل سائنسز (Soil Sciences)کے شعبے میں تحقیق سے وابستہ ہیں۔ سجاد رضا کا تعلق دیپالپور ، اوکاڑہ سے ہے۔ سجار رضا نے بتایا کہ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کا قابلِ کاشت رقبہ دنیا کا سات فیصد ہے اور یہ دنیا کی بائیس فیصد آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے ا نہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ تصور ہے کہ جتنی زیادہ کھاد ڈالیں گے اتنی ہی پیداوار بڑھے گی۔ایسا ہی نکتہ نظر چین میں بھی پایا جاتا ہے۔۔چین میں دنیا میں سب سے زیادہ کھاد استعمال ہوتی ہے اور اسی تناسب سے اس کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔
سجاد رضا نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی اس حوالے سے لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع 1961-2013 تک پاکستان میں کھا د کے استعمال کو بنایا ہے۔سجادرضا کا بطور ایک زرعی ماہر اور تحقیق کارکہنا ہے کہ پاکستان میں پودا صرف پچیس فیصد(25%) کھاد استعمال کرتا ہے جبکہ پچھتر فیصد(75%) کھاد ضائع ہو جاتی ہے۔چین میںبھی کھاد کے ضیاع کا تناسب ایسا ہی ہے۔اس ضیاع سے دونوں ممالک کے ماحول اور آب و ہوا میں فرق پڑرہا ہے۔کھاد کا زیادہ استعمال ہوا اور پانی کے معیار کو متاثر کر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی کا ایک سبب کھادوں کا بے جا اور زیادہ استعمال بھی ہے چین اور پاکستان دونوں کثیر آبادی والے ممالک ہیں۔دونوں پر بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریا ت کو پورا کرنے کا دباؤ ہے۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بے دریغ اور بے جا کھاد کا استعمال کیا جارہا ہے۔
چین میں زرعی ماہرین کسانوں کو کم کھاد کے استعمال کے حوالے سے آگاہی بھی دیتے رہتے ہیں۔بلکہ اب تو چین نے ایک پالیسی بنا دی ہے کہ دو ہزار بیس تک کھاد کے استعمال کی موجودہ شرح کو برقرار رکھا جائے گا۔اس سے زیادہ اس کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔مثال کے طو ر پراگرایک فیملی اس وقت پانچ سو کلو کھاد استعمال کررہی ہے تو اس کو اس شرح سے زیادہ کھاد استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔سجاد رضا کو تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے چین کے دیہات میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کاکوئی تصور نہیں ہے۔ زرعی زمین حکومت کی جانب سے ایک خاندان کو ملتی ہے اور اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے۔
چین میں زمین کی پیمائش مُو (Mu) کے حساب سے کی جاتی ہے جوکہ تقریباً ایک ایکڑ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ چونکہ چین کے پاس قابلِ کاشت رقبے کی کمی اور آبادی زیادہ ہے تو اس کے لیے وہ نت نئی ریسرچ کررہا ہے اور مختلف قسم کی زرعی اجناس کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے کامیاب تجربات کر رہا ہے۔ ایسے ہی کچھ کامیاب تجربات چین نے ہارٹی کلچر Horticulture کے شعبے میں بھی کیے ہیں ۔ہم ٹھہرے سوشل سائنسز کے طالب علم جو کہ ان ناموں اور ان کے مفاہیم سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے سو اس کے لیے خیبر پختوانخوا کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حسین احمد سے رجوع کیا جو کہ ہارٹی کلچر Horticulture سے وابستہ ہیں اور چین کی ایک زرعی یونیورسٹی سے انہوںنے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر پھل ، پھول اور سبزیوں کے متعلق علم کو ہارٹی کلچر Horticultureکہا جاتا ہے۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ دنیا میں سبزیوں کی کل پیداوار کا 50% چین میں ہوتاہے اورچین صرف اور صرف 1% بر آمد کرتا ہے اور باقی 49% اپنے پاس رکھ کر اپنی ملکی ضروریات پوری کرتا ہے۔چین سبزیاں تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور کمبوڈیا کو برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان میں بھی سی پیک کی وجہ سے سبزیاں درآمد کی جارہی ہیں۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ چین میں کھیرے کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔ کھیرا ایک ایسی سبزی ہے جو کہ بہت حساس ہے۔ اگر اس کی کاشت کے علاقے میں نمک ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو یہ خراب ہو جاتا ہے۔چین نے اس مسئلے پر تحقیق کی ہے اور اس حوالے سے Genetics اور Applied دونوں طرح کی تحقیق کی جار ہی ہے۔ Genetics (Trangenic Plants)میں ایسے
طاقتو ر پودے جو زیادہ نمک کو برداشت کر سکتے ہیں کے جینز کو لے کر اس کو کھیرے کے ساتھ ملا دیا گیا ۔اس سے کھیرے کی قوت برداشت میں اضافہ ہوا اور ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ Applied طریقہ کار میں اس تجربے کو لیب سے باہر آزمایا گیا اور اس کی پلانٹیشن کر کے چیک کیا گیا اور دیکھا گیا کہ کسان کو اس سے کیا فائدہ ہوا ہے۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ چین میں ان دنوں Hydroponics پر کام جاری ہے۔یہ ایک نیا طریقہ کار ہے جس میں پودے کو زمین کے علاوہ دیگر جگہوں پر اگایا جاتا ہے اور پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔
اس میں پودے کی جڑ نیچے پانی میں رہتی ہے اور اس کو ضروری معدنیات پانی میں حل کر کے دیے جاتے ہیں۔اس میں روایتی مٹی استعمال نہیں ہوتی۔اس طریقہ کار کے تحت پودے کو گھر میں ، کمرے کے اندر ، چھت پر اگا کر اس سے پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔چین کی زرعی شعبے میں تحقیقات کے ریسرچ آرٹیکلز امریکہ ، کینیڈا، جرمنی اور آسٹریلیا کے زرعی مجلوں میں شائع ہوتے ہیں اوراس طرح دنیا کو چین میںہونے والی تحقیق سے آگاہی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ چین میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دو ہزار سترہ سے چین نے اس شعبے میں ریسرچ کے لیے بہت زیادہ فنڈز مختص کئے ہیں۔ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں ہر طرح کے موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی، زمین کا سیم و تھور والا ہونا، زمین میں پانی کی زیادتی ہو تو فصلوںکی یہ نئی اقسام ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر سائنسی و تحقیقی کام، نئی اقسام کی فصلوںکی تیاری، ان کی کاشت وپیداوار میں چین دنیا بھر میں لیڈنگ رول ادا کر رہا ہے۔ ایک روز بیجنگ کے ایک سیاحتی مقام کی سیرکے دوران ہماری ملاقات چائنہ ایگریکلچر یونیورسٹی بیجنگ میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر بابر اعجاز سے ہوئی۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بابر اعجاز کپاس کی تحقیق سے وابستہ ہیں ۔ان سے گفتگو زراعت کے امور سے شروع ہوئی اور فنونِ لطیفہ سے ہوتی ہوئی فلسفیانہ امور تک آئی۔ معلوم ہواکہ بابر اعجاز کا ذوقِ جمالیات بہت عمدہ ہے اور شوقیہ فوٹو گرافی بھی کرتے ہیںمگر اپنی ذات کی تشہیر اور خودنمائی سے گریز کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوا کہ زرعی سائنسدان بھی حسا س طبیعت اورگہری مشاہداتی حس کے مالک ہوتے ہیں۔اس پر صرف ادب والوں کا ہی حق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین اور پاکستان کے درمیان کاٹن کے شعبے میں بھی تعاون جاری ہے۔ چین کپاس کی پیداوار میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ چین کپاس کے جینوم(Genome) کی تحقیق میں پہلے نمبر پر ہے۔چین میں کپاس کی پیداوار دوہزار اٹھارہ اور انیس میں3.38 Million ہیکٹر ہے۔
چین اور پاکستان نے مشترکہ طور پر کپاس کی تحقیق کے لیے ایک لیبارٹری بھی قائم کی ہے۔ یہ لیبارٹری China-Pakistan joint Laboratory for Cotton Biotechnology کے نام سے چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز میں قائم ہے۔اپنی یونیورسٹی کے متعلق بتاتے ہوئے بابر اعجاز نے کہا کہ ان کی جامعہ چین کی قدیم ترین جامعات میں سے ہے اور یہ انیس سو پانچ (1905) میں قا ئم ہو ئی تھی۔مختلف انتظامی و ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی یہ موجودہ شکل میں آئی۔اس کا شمار چین کی کلیدی قومی جامعات میں ہوتا ہے۔یہ جامعہ چین کے " پروجیکٹ 211 اور "985 میں شامل ہے۔
پروجیکٹ دوسو گیار ہ قومی کلیدی جامعات اور کالجز کے لیے چین کی وزارت تعلیم کی جانب سے انیس سو پچانوے میں شروع کیا گیا تھا۔چین کے اعلیٰ تعلیم کے معیاری اداروں کی تعداد سترہ سو کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے چھ فیصد پروجیکٹ دو سو گیارہ میں شامل ہیں۔ پروجیکٹ نو سو پچاسی کو چین کے صدر جیانگ زیمن نے شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد چین کے اعلی تعلیم کے اداروں کی ترقی اور بہتری تھا۔اس پراجیکٹ میں چین کی انتالیس جامعات شامل ہیں۔ سی آر آئی میںپیشہ ورانہ ذمہ داریاں اداکرتے ہوئے مختلف پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز سے ملاقات رہی اور ان سے بیش قیمت معلومات ملیں۔ چین کے علاقے نارتھ ویسٹ میں گندم ،مکئی ، چاول کاشت کیا جاتا ہے۔چاول کا تذکرہ چھڑا ہے تو یا دآیا کہ چین میں چاول بہت کھایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں توکہا جاتا ہے کہ زیادہ چاول کھانے سے موٹاپا ہوتا ہے مگر چین میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مگر ایک فرق البتہ یہ ضرور ہے کہ وہاں چاول عمومی طور پر جو کھائے جاتے ہیں وہ ہمارے ہاں کے چاولوں سے مختلف انداز میں پکے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں اُبلے ہو ئے چاول ہوتے ہیںاور اس کی مقدار بھی ایک کپ ہی استعمال کی جاتی ہے۔ہمارے ہاں کے ٹوٹا چاولو ں کی مانند ہوتے ہیں اور وہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو چاپ سٹکس سے کھانا آسان ہوتا ہے۔ چائینز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز ، بیجنگ سے وابستہ پاکستان کے شہر بھکر سے تعلق رکھنے والے سید عدیل ظفر چین میں چاولوں کی تحقیق سے وابستہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چین کی آبادی کا ساٹھ فیصد(60%)چاول کو ایک اہم خوراک کے طور پر کھاتا ہے۔جس کی وجہ سے چین میں چاول کی کھپت بہت زیادہ ہے۔اس لیے سائنسدان اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہائبرڈ فصل کی طرف جا رہے ہیں۔
چین نے دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایک ا ہم کردار ادا کیا ہے۔چین نے دنیا بھر میں اولین سپر ہائبرڈ چاول کی کاشت کے تجربات کیے ہیں۔اس طریقہ کار نے روایتی طریقے سے پیدا ہونے والے چاول کی فصل کی پیداوار کو دُگنا کردیا ہے۔ ہائبرڈ چاول کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے کوششوں کی وجہ سے یوان لانگ پھنگ (Yuan Longping)کو فادر آف ہائبرڈ رائس) (Father of Hybrid Rice کہا جاتا ہے۔ یوان لانگ پھنگ نے اپنی کوشش، لگن، تحقیق اور محنت سے چین کے زرعی شعبے بالخصوص ہائبرڈ رائس کی پیداوار میں انقلاب بپا کردیا ہے۔
یوان لانگ پھنگ انیس سو تیس میں بیجنگ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ساوتھ ویسٹ ایگریکلچر انسٹیوٹ سے انیس سو ترپن میں گریجویشن کی۔انہوں نے انیس سو ساٹھ میں ہائبرڈ رائس کی کا شت کا خیال اس وقت پیش کیا جب زراعت کے لیے غیر موزوں پالیسیز اور قحط کی وجہ سے چین کو زرعی شعبے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ تب سے انہوں نے اپنی ذات کو چاول کی بہتر پیداوار اور چاول کی تحقیق کے لیے وقف کردیا۔انیس سو چونسٹھ میں انہیں اپنے Hybridization کے تجربے کے لیے ایک نیچرل رائس پلانٹ مل ہی گیا جس کو دیگر اقسام پر برتری حاصل تھی۔
انہوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔انیس سو تہتر میں وہ ہائبرڈ رائس کی پیداوار میں کامیاب ہوئے۔اس کی پیداوار روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ تھی۔انیس سو اناسی میں ہائبرڈ رائس کی تیکنیک کو امریکہ منتقل کیا گیا اور یہ چین کا پہلا انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹ (حقوقِ املاکِ دانش) کا معاملہ تھا۔اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کے چاول کے کھیتوں میں پچاس فیصد یوان لانگ پھنگ کے ہائبرڈ نسل کی چاولوں کو ہی کاشت کیا جارہا ہے۔اس سے چین میں چاولوں کی پیداوار کا ساٹھ فیصد حاصل کیا جا رہا ہے۔اس سے چین میں چاولوں کی پیداوار کئی بلین کلوگرام بڑھی ہے۔انیس سو ساٹھ میں ایک مُو (Mu) (چین میںزرعی زمین کی پیمائش کا ایک پیمانہ ) سے چاول کی پیداوار تین سوکلو گرام ہوا کرتی تھی۔ یوان لانگ پھنگ کی کوششوں سے یہ پیداوار اب تین سو من فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ پیداوار 70/80 من ہے ۔ اگر موٹا چاول بھی کاشت کیا جائے تو اس کی پیداوار 100 من تک ہے۔چین میں یہ ڈھائی سو تین سو من تک ہے۔
دنیا بھر کے کئی ممالک میں ہائبرڈ رائس کی کاشت جاری ہے۔ اب تو پاکستان میں بھی چین سے درآمد شدہ ہائبرڈرائس استعمال ہو رہا ہے۔ایک پاکستانی زرعی سائنسدان نے بتایا کہ انہیں ایک زرعی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملاتو وہاں ایک زرعی ماہر نے چاول کی پیداوارکا حجم ایسا بتایا جو بظاہر ناقابل یقین لگتا تھا۔مگر چونکہ بتانے والے ایک تحقیق کار تھے اس لیے یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔زرعی ماہر نے بتایا کہ آزمائشی بنیادوں پر اس کی کاشت جاری ہے۔یہ آزمائشی کاشت پانچ اور دس ایکڑ پر محیط کھیتوں میں کی جارہی ہے۔اس میں مختلف حکومتی ، نجی ادارے شریک ہیں۔ مختلف زرعی شعبوں میں چین کا پاکستان کے ساتھ تعاون جاری ہے ۔
اس کے علاوہ پاکستان کے زرعی گریجویٹس اعلی تعلیم کے لیے چین کی مختلف زرعی جامعات چائنہ ایگریکلچر یونیورسٹی، نانجنگ ایگریکلچر یونیورسٹی، فوجیان ایگریکلچر یونیورسٹی، نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹری یونیورسٹی، لانچو یونیورسٹی ، ہو زانگ ایگریکلچر یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ان طلباء کو چینی حکومت کی جانب سے سکالر شپ دیا جاتا ہے۔یہاں پڑھنے والے پاکستانی طالب علم جدید ٹیکنالوجی، جینیٹک ٹرانسفارمیشن اور نت نئے طریقے سیکھتے ہیںاور اس کو پاکستان میں آکر اپلائی کرتے ہیں۔
پاکستان میں انیس سو ستر تک زرعی تعلیم ، تحقیق اور ایکسٹینشن کے ادارے الگ الگ تھے۔جس کی وجہ سے ان تینوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور کمیونیکیشن کے مسائل رہے۔تعلیم دینے والے اپنے انداز میں تعلیم دیتے رہے۔ تحقیق کار اپنے کام میں مصروف رہے جبکہ ایکسٹینشن والے کسانوں کو آگاہی دیتے رہے۔ چین میں ایسا نہیں ہے وہاںمحمد اظہر نواز کے یونیورسٹی میں چینی استاد باقاعدگی سے فیلڈ کا وزٹ کرتے ہیں اور وہ کسانوں سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔اور انہیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر یا دیگر معلومات فراہم کرتے ہیں۔چین میں زرعی تعلیم، تحقیق اور کسانوں کو آگاہی دینے کا کام ایک ساتھ کیا جاتا ہے۔چین میں زرعی تحقیق کے لیے حکومت کی جانب سے کثیر فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیںاور دنیا میں بائیو ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ کام چین میں ہی ہورہا ہے ۔
زراعت کا ذکر ہو رہا ہے تو کچھ تذکرہ لائیو سٹاک کا بھی ہوجا ئے۔ چین میں گوشت کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ وہاں پورک کھایا جاتا ہے۔ چین کو Biggest Animal Farming Nation بھی کہا جاتا ہے ۔لوگ شوق سے مختلف اقسام کا گوشت کھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں پائے جانے والی Pigs کی آبادی کا نصف چین میں پایا جاتا ہے۔ ا س جانو ر کے تو باقاعدہ فارمز ہیں جہاں اس کو پالا جاتا ہے ۔ چین میں کسانوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ اس جانور کی پرورش سے وابستہ ہے۔ چین کے صوبے سیچوان میں Pigs کی پرورش زیادہ کی جاتی ہے۔
اس کے بعد چھوٹا گوشت ، بڑا گوشت اور چکن کا نمبر آتا ہے۔چین میں گوشت کی مارکیٹ کے علاقے شندونگ Shandong، ہینان Henan، حہ بے Hebei ، انہوئی Anhui، جیلن Jilin، ہیلینانگجیانگ Heilongiang ، لیاؤ ننگ Liaoning ، انر منگولیا Inner Mongolia ، گانسو Gansu شانسیhanxi S سچوان Sichuan چھنگ چھنگ Chongqing ، ینان Yunnaan وغیرہ مشہور ہیں۔چین میں بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی وجہ سے گوشت کی کھپت 111% بڑھ گئی ہے۔
اس کے علاوہ چین میں Sea Food کی تمام اقسام کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔چین میں 4936 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ چین میں سمندری مچھلی کے علاوہ فارمنگ کے ذریعے بھی فش کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چین میں 37 ملین ٹن سے زائد مچھلی فارمز کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے جوکہ دنیا بھر میں مچھلی کی پیداوار کے 60% سے زائدہے۔ وہاں جھینگے کی فارمنگ بہت زیادہ ہے۔مغربی چین کے دیہی علاقوں میں خانہ بدوش قبائل بھیڑ، بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں۔چین میں سرمایہ کاری ، حکومتی پالیسیوں اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے چین کی لائیو سٹاک پاپولیشن 144 ملین سے تجاوز کر چکی ہے ۔اس کی وجہ سے اس کا معاشی جحم ساٹھ گنا بڑھ گیا ہے۔
قدرت چین کو فطرتی خوبصورتی سے نوازنے میں بہت فیاض ہے۔چین بھر میں سر سبز پہاڑ ، سمندر، دریا ، جھیلیں، ندیاں اورطویل پہاڑی سلسلے ہیں۔چین نے اس سب کے تحفظ کا بھی خوب انتظام کیا ہوا ہے۔یہاں جنگلات کا رقبہ دو سو آٹھ ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے۔چین کی زمین کا 21.63% حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔
جنگلات کا کل حجم پندرہ ہزار ایک سو سینتیس ملین کیوبک میٹرز پر مشتمل ہے۔چین میں انیس سو نوے کی دہائی سے جنگلات کے رقبے،حجم میں اضافہ ہوا ہے۔چین کی اسٹیٹ فاریسٹری ایڈمنسٹریشن کے تحت انیس سو ستر سے نیشنل فاریسٹ انوینٹری کو maintain کیا جا رہا ہے۔ ہر پانچ سال بعد اس انوینٹری کا ازسر نو جائزہ لیا جاتا ہے۔دو ہزارتیرہ کے اختتام تک پانچ ایسے سرویز مکمل ہو چکے ہیں۔سروے میں چار لاکھ پندرہ ہزار مستقل سیمپل پلاٹس اور اٹھائیس لاکھ ،چوالیس ہزار چارسو Remote Sensing Plotsکا جائزہ لیا جاتا ہے۔جائزے میں ان کی مقدار، معیار اور فاریسٹ ریسورس کے سٹرکچر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس سروے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد لی جاتی ہے۔جنگلات کے اس وسیع حجم کی وجہ سے چین دنیا کی Wood Workshop کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔فرنیچر کی عالمی تجارت کا ایک تہائی حصہ چین کے پاس ہے۔
چین عالمی حیاتیاتی توازن کو برقرار رکھنے، بائیوڈائیورسٹی کو محفوظ رکھنے، ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے اور پائیدار معاشی، حیاتیاتی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ (جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ،چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس ، بیجنگ
خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور حیاتِ انسانی کا ایک کثیر حصہ خوراک کے حصول کے لیے تگ ودو میں گزرتا ہے۔خواہ یہ مختلف النوع اجناس کی کاشت کے معاملات ہوں یا پھر کھانے پکانے کا معاملہ ہو ۔چین جا کر ہمارا واسطہ بھی کچھ ایسے ہی معاملات سے پڑا ۔ وہاں جا کر خود کھانا پکانا پڑا حالانکہ اپنے ملک میں کبھی اس کی نوبت نہ آئی تھی۔
ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے پیش رو ساتھی عبد المجیدبلوچ اس فن میںماہر تھے انہوں نے ابتدائی دنوں میں ہمیںخوب پراٹھے اورمختلف قسم کے کھانے کھلائے۔بعدمیں میرے ساتھ جانے والے ساتھی شاہد افراز خان اور طاہر چغتائی نے کھانا پکانے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور ہماری ذمہ داری باہر سے سبزی اور روٹی لانا ٹھہری۔ مقامی سبزی مارکیٹ لاؤ شان پارک کے علاقے میں تھی۔
اس کو ہمارے ہاں کے اتوار بازار کے مساوی سمجھاجا سکتا ہے۔وہاں مختلف سیکشنز ہیں ۔سبزی، پھل کا سیکشن الگ ۔خشک مسالہ جات الگ حصے میں فروخت ہوتے ہیں۔گوشت ایک کورڈ ایریا میں بکتا ہے۔جبکہ وہاں کپڑوں، جوتوں، سینڑی آلات، برتن، اور دیگر اشیائے ضروریہ بھی موجود ہوتی ہیں۔ اس مارکیٹ میں صبح سویرے جانا پڑتا تھا کیونکہ دوپہر بارہ بجے اس کی رونق ماند پڑجاتی ہے اور دکاندار اپنا اپنا مال سمیٹنا شروع کردیتے ہیں۔وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ چینی لوگ خریداری کے تمام معاملات علی الصبح نمٹانے کے عادی ہیں۔
لاؤ شان پارک کی اس سبزی مارکیٹ میں چین کے کئی سماجی رنگ نظر آئے۔مارکیٹ میں آپ اپنی مرضی سے کسی بھی پھل یا سبزی کا انتخا ب کر سکتے ہیں اور دکاندار اس کا برا نہیں منائے گا۔ یہ ہمارے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔کیونکہ ہمارے ہاں تو اس طرح کا رواج نہیں ہے اور اگر گاہک اپنی مرضی سے کچھ منتخب کرتاہے تو پھر یا تو اس کی اجازت نہیں ملتی یا پھر اس کا نرخ بڑھا دیا جاتا ہے۔
سبزی مارکیٹ میںگھومتے ہوئے کئی اقسام کی تازہ ، صحت بخش سبزیوں اور پھلوں کو دیکھ کر چین کی زراعت کے میدان میں ترقی کا پتہ چلتا ہے۔ وہاں پائی جانے والی سبز مرچ مختلف سائز میں دستیاب ہوتی۔ انتہائی مختصر، درمیانی سطح کی ، طویل اور انتہائی طویل جن کو دیکھ کرحیرت ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ کئی بے موسمی پھلوں کی وہاں موجودگی ذہن میں اکثر یہ سوال اٹھاتی کہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہے۔ ہمارے ہاں تو کولڈ سٹوریجز میں سبزیوں اور پھلوں کو رکھ دیا جاتا ہے بعد میں ان کو استعمال کیا جاتا ہے ۔
چین کی اتنی بڑی آبادی کے لیے کیا ایسی سہولت ہو گی کہ بے موسمی اجناس ارزاںاور وافر دستیبا ب ہیں۔ اسی دوران ہمیں دفتر کی جانب سے بیجنگ کے شہرممنوعہ کی سیر پر بھیج دیا گیا۔وہاں پہنچے توکئی غیر ملکیوں کو وہاں پایا۔ان میں پاکستانیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔اور اِ ن پاکستانیوں میں مختلف جامعات میں زیر تعلیم طلباء بھی شامل تھے۔خوش قسمتی سے ان میں زرعی شعبے سے وابستہ طلباء بھی تھے۔ یوں ان سے اس سیر کے دوران اور بعد میں بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور ہمارے کئی سوالات کا انہوں نے جواب دیا جس سے ہمیں چین کی زراعت کے شعبے میںترقی کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔اسی روز ہماری ملاقات ہوزان ایگریکلچر یونیورسٹی میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر محمد اظہر نواز سے ہوئی۔
ان سے بات چیت ہوئی تو چین کی زراعت کے شعبے میں ترقی کا علم ہوا ۔ محمد اظہر نواز نے بتایا کہ چین کی اہم فصلیںچاول، گندم، آلو، مونگ پھلی،چائے کی مختلف اقسام، باجرہ، جو ، کپاس، ٓائل سیڈز، سویا بین ہیں۔انیس سو اٹھتر میں جب زرعی اصلاحات کی گئیں تو اس سے زرعی شعبے میں ترقی کا سفر شروع ہوا ۔ان اصلاحات کے نتیجے میں اس شعبے میں سرمایہ کاری شروع ہوئی تو سرمایہ کاروں کی دلچسپی اورعلاقے کی زرعی ساخت کے پیش نظر بعض علاقے مخصوص فصلوں کی پیداوار کے لیے مشہور ہو گئے۔شمالی اور وسطی چین میں گندم، سویا بین ، جو اور باجرہ پیدا ہوتا ہے۔
چاول جنوبی چین میں زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ چین کے ساحلی علاقے برآمدی فصلات کے لیے مشہور ہیں۔چین کا صوبہ شندونگ سبزیوں کی پیداوار کے لیے شہرت رکھتا ہے ۔یہاں Protected Cultivation بھی ہوتی ہے۔یہاں پیدا ہونے والی سبزیوں کو چین کے دور دراز علاقوں میں بھیجاجاتا ہے۔محمد اظہر نواز کے پاس معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جس کو شیئر کرنے میںانہوں نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ چین کے 35% لوگ ایگریکلچر انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔چین اپنے جی ڈی پی کا2.1% ریسرچ پر خرچ کرتا ہے۔یہ شرح 1.54 ٹریلین یوان یا 296بلین ڈالرز کے مساوی ہے۔
اُس روز ہونے والی مختصر ملاقات میں انہوں نے کچھ چیدہ چیدہ حقائق بتادیے بعد میں بھی ان سے رابطہ رہا۔ پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت ان کا انٹرویو بھی کیا تو معلوم ہوا کہ محمداظہر نواز یونیورسٹی آف سرگودہا کے زرعی کالج میں پڑھاتے ہیں اور چین میں Vegetable Graftingکے حوالے سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔سادہ لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ویجیٹبل گرافٹنگ (Vegetable Grafting) بہتر، بیماریوں سے محفوظ اور زیادہ پیداوار کے لیے ایک جدید زرعی طریقہ کار ہے، انہوں نے اسی پر کام کیا۔
اس کا طریقہ کار، اس کا استعمال ، یہ سب کچھ انہوں نے چین سے سیکھا۔ آج کل پا کستان آ کر اس کو یہاں عام کر رہے ہیں ۔انہوں نے یہاں آکر طلباء کو Vegetable Graftingکے حوالے سے تعلیم دی۔ اور تیس سے چالیس طلباء کو Vegetable Graftingکے لیے تیار کیا ہے۔تربوز کی Grafting میں کامیاب رہے۔اب اس تجربے کو دیگرنوعیت کے زرعی ٹیسٹس سے گزارا جار ہا ہے ۔ کھاد کے زیادہ یا کم استعمال، بیماریوں کے حملے اور مدافعت اور اس سے متعلقہ دیگر نوعیت کے ٹرائل جاری ہیں۔ویجیٹبل گرافٹنگ کے ذریعے بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ کھادوں کی افادیت کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔ مزید برآں پانی کی کمی اور زیادتی،درجہ حرارت کی زیادتی اور کمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت کو بھی بہتر کیا جاسکتا ہے۔ویجیٹبل گرافٹنگ سے سبزیوں کی پیداوار کو بڑھانے اور اس کی پیداوار میں کمی کے عوامل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین میں تعلیم کے حصول سے پہلے کئی معاملات میں ان کے concepts واضح نہیں تھے۔طلباء کو پڑھاتے ہوئے ان کے پاس جدید تحقیق کی ٹھوس معلومات کا فقدان تھا۔ مگر چین میں تعلیم اور عملی تحقیق کے عملی تجربے سے انہیں پڑھانے میں آسانی ہے ۔چین میں قیام کے دوران ہم نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ وہاں تربوز بہت کھایا جاتا ہے اور یہ کم و بیش سارا سال ہی دستیاب رہتا ہے۔
ہم تویہاں اس کو صر ف گرمیوں میں کھانے کے عادی ہیںاوربالخصوص پنجا ب کے نہری علاقوں میں رہنے والے تو گرمیوں میں نہر کنارے تربوز بیچنے والوں سے ٹھنڈے ٹھنڈے تربوز کھاتے ہیںیا پھر اگر دوست مل کر نہر میں نہائیں تو ایک تربوز ساتھ لے جاتے ہیں تو تربوز بھی ساتھ ساتھ ہی" ـ نہاتا" رہتاہے۔بعد میں اس کو کھا لیاجاتا ہے۔مگر چین میں سخت سردیوں میںتربوز کی دستیابی بہت حیران کن تھی۔ اس حیرانی کو دور کرنے کے لیے محمد اظہر نواز سے رجوع کیا تو انہوں نے ہمیں یہ بتا کر مزید حیرت میں ڈال دیا کہ دنیا کا67% تربوز چین اکیلا ہی پیداکرتا ہے۔چین میں یہ روایت ہے کہ ہر تقریب میں سویٹ ڈش کے طور پر تربوز پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ پورا سال وہاں دستیاب رہتا ہے۔اور سخت سردی میں اس کو کھانے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں ویسے ہی مفروضے بنے ہوئے ہیں۔
تربوز کی بات آئی ہے تو بتاتا چلوںکہ چین میں تربوز کی فروخت کا طریقہ کار ہمارے ہاں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے ہاں تو گاہک کو پورے کا پورا تربوز ہی خریدنا ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ۔ مگر چین میں یہ ٹکڑوں میں کاٹ کر بھی فروخت کیا جاتا ہے اگر کوئی گاہک پورا تربوز نہیں خریدنا چاہتا تو اس کو کاٹ کر آدھا یا ایک چوتھائی حصہ بھی دیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دکاندار تربوز کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر رکھتے ہیں اور ان کو پلاسٹک سے کور کر دیا جاتا ہے تا کہ یہ صا ف اور محفوظ رہیں۔ویسے یہ طریقہ کار اگر پاکستان میں بھی متعارف ہو جائے تو لوگوں کو بہت فائدہ ہو۔چین میںرہتے ہوئے ایک اور مشاہدہ بھی ہوا کہ یہاں پاکستان کے برعکس قابل کاشت رقبہ کم ہے۔ تو اس قدر کم رقبے سے اتنی پیداوار حاصل کرنا اور ملکی ضروریات کو پوراکرنا بڑے کمال کی بات ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا اس کے متعلق چین کی مختلف زرعی جامعات میں زیر تعلیم پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز نے وقتاً فوقتاً بتایا۔ ایسے ہی ایک پی ایچ ڈی سکالر سجاد رضا بھی ہیں جو کہ نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹ یونیورسٹی میں سائل سائنسز (Soil Sciences)کے شعبے میں تحقیق سے وابستہ ہیں۔ سجاد رضا کا تعلق دیپالپور ، اوکاڑہ سے ہے۔ سجار رضا نے بتایا کہ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کا قابلِ کاشت رقبہ دنیا کا سات فیصد ہے اور یہ دنیا کی بائیس فیصد آبادی کو خوراک مہیا کرتا ہے ا نہوں نے بتایا کہ پاکستان میں یہ تصور ہے کہ جتنی زیادہ کھاد ڈالیں گے اتنی ہی پیداوار بڑھے گی۔ایسا ہی نکتہ نظر چین میں بھی پایا جاتا ہے۔۔چین میں دنیا میں سب سے زیادہ کھاد استعمال ہوتی ہے اور اسی تناسب سے اس کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔
سجاد رضا نے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی اس حوالے سے لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع 1961-2013 تک پاکستان میں کھا د کے استعمال کو بنایا ہے۔سجادرضا کا بطور ایک زرعی ماہر اور تحقیق کارکہنا ہے کہ پاکستان میں پودا صرف پچیس فیصد(25%) کھاد استعمال کرتا ہے جبکہ پچھتر فیصد(75%) کھاد ضائع ہو جاتی ہے۔چین میںبھی کھاد کے ضیاع کا تناسب ایسا ہی ہے۔اس ضیاع سے دونوں ممالک کے ماحول اور آب و ہوا میں فرق پڑرہا ہے۔کھاد کا زیادہ استعمال ہوا اور پانی کے معیار کو متاثر کر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آلودگی کا ایک سبب کھادوں کا بے جا اور زیادہ استعمال بھی ہے چین اور پاکستان دونوں کثیر آبادی والے ممالک ہیں۔دونوں پر بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضروریا ت کو پورا کرنے کا دباؤ ہے۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بے دریغ اور بے جا کھاد کا استعمال کیا جارہا ہے۔
چین میں زرعی ماہرین کسانوں کو کم کھاد کے استعمال کے حوالے سے آگاہی بھی دیتے رہتے ہیں۔بلکہ اب تو چین نے ایک پالیسی بنا دی ہے کہ دو ہزار بیس تک کھاد کے استعمال کی موجودہ شرح کو برقرار رکھا جائے گا۔اس سے زیادہ اس کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔مثال کے طو ر پراگرایک فیملی اس وقت پانچ سو کلو کھاد استعمال کررہی ہے تو اس کو اس شرح سے زیادہ کھاد استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔سجاد رضا کو تعلیمی اور تحقیقی مقاصد کے لیے چین کے دیہات میں بھی جانے کا اتفاق ہوتا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کاکوئی تصور نہیں ہے۔ زرعی زمین حکومت کی جانب سے ایک خاندان کو ملتی ہے اور اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے۔
چین میں زمین کی پیمائش مُو (Mu) کے حساب سے کی جاتی ہے جوکہ تقریباً ایک ایکڑ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ چونکہ چین کے پاس قابلِ کاشت رقبے کی کمی اور آبادی زیادہ ہے تو اس کے لیے وہ نت نئی ریسرچ کررہا ہے اور مختلف قسم کی زرعی اجناس کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے کامیاب تجربات کر رہا ہے۔ ایسے ہی کچھ کامیاب تجربات چین نے ہارٹی کلچر Horticulture کے شعبے میں بھی کیے ہیں ۔ہم ٹھہرے سوشل سائنسز کے طالب علم جو کہ ان ناموں اور ان کے مفاہیم سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے سو اس کے لیے خیبر پختوانخوا کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حسین احمد سے رجوع کیا جو کہ ہارٹی کلچر Horticulture سے وابستہ ہیں اور چین کی ایک زرعی یونیورسٹی سے انہوںنے اسی شعبے میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر پھل ، پھول اور سبزیوں کے متعلق علم کو ہارٹی کلچر Horticultureکہا جاتا ہے۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ دنیا میں سبزیوں کی کل پیداوار کا 50% چین میں ہوتاہے اورچین صرف اور صرف 1% بر آمد کرتا ہے اور باقی 49% اپنے پاس رکھ کر اپنی ملکی ضروریات پوری کرتا ہے۔چین سبزیاں تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور کمبوڈیا کو برآمد کرتا ہے جبکہ پاکستان میں بھی سی پیک کی وجہ سے سبزیاں درآمد کی جارہی ہیں۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ چین میں کھیرے کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔ کھیرا ایک ایسی سبزی ہے جو کہ بہت حساس ہے۔ اگر اس کی کاشت کے علاقے میں نمک ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو یہ خراب ہو جاتا ہے۔چین نے اس مسئلے پر تحقیق کی ہے اور اس حوالے سے Genetics اور Applied دونوں طرح کی تحقیق کی جار ہی ہے۔ Genetics (Trangenic Plants)میں ایسے
طاقتو ر پودے جو زیادہ نمک کو برداشت کر سکتے ہیں کے جینز کو لے کر اس کو کھیرے کے ساتھ ملا دیا گیا ۔اس سے کھیرے کی قوت برداشت میں اضافہ ہوا اور ان کا یہ تجربہ کامیاب رہا۔ Applied طریقہ کار میں اس تجربے کو لیب سے باہر آزمایا گیا اور اس کی پلانٹیشن کر کے چیک کیا گیا اور دیکھا گیا کہ کسان کو اس سے کیا فائدہ ہوا ہے۔ڈاکٹر حسین احمد نے بتایا کہ چین میں ان دنوں Hydroponics پر کام جاری ہے۔یہ ایک نیا طریقہ کار ہے جس میں پودے کو زمین کے علاوہ دیگر جگہوں پر اگایا جاتا ہے اور پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔
اس میں پودے کی جڑ نیچے پانی میں رہتی ہے اور اس کو ضروری معدنیات پانی میں حل کر کے دیے جاتے ہیں۔اس میں روایتی مٹی استعمال نہیں ہوتی۔اس طریقہ کار کے تحت پودے کو گھر میں ، کمرے کے اندر ، چھت پر اگا کر اس سے پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔چین کی زرعی شعبے میں تحقیقات کے ریسرچ آرٹیکلز امریکہ ، کینیڈا، جرمنی اور آسٹریلیا کے زرعی مجلوں میں شائع ہوتے ہیں اوراس طرح دنیا کو چین میںہونے والی تحقیق سے آگاہی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ چین میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر بھی کام ہو رہا ہے۔ دو ہزار سترہ سے چین نے اس شعبے میں ریسرچ کے لیے بہت زیادہ فنڈز مختص کئے ہیں۔ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں ہر طرح کے موسمی حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی، زمین کا سیم و تھور والا ہونا، زمین میں پانی کی زیادتی ہو تو فصلوںکی یہ نئی اقسام ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلوں پر سائنسی و تحقیقی کام، نئی اقسام کی فصلوںکی تیاری، ان کی کاشت وپیداوار میں چین دنیا بھر میں لیڈنگ رول ادا کر رہا ہے۔ ایک روز بیجنگ کے ایک سیاحتی مقام کی سیرکے دوران ہماری ملاقات چائنہ ایگریکلچر یونیورسٹی بیجنگ میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی سکالر بابر اعجاز سے ہوئی۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بابر اعجاز کپاس کی تحقیق سے وابستہ ہیں ۔ان سے گفتگو زراعت کے امور سے شروع ہوئی اور فنونِ لطیفہ سے ہوتی ہوئی فلسفیانہ امور تک آئی۔ معلوم ہواکہ بابر اعجاز کا ذوقِ جمالیات بہت عمدہ ہے اور شوقیہ فوٹو گرافی بھی کرتے ہیںمگر اپنی ذات کی تشہیر اور خودنمائی سے گریز کرتے ہیں۔ یوں معلوم ہوا کہ زرعی سائنسدان بھی حسا س طبیعت اورگہری مشاہداتی حس کے مالک ہوتے ہیں۔اس پر صرف ادب والوں کا ہی حق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین اور پاکستان کے درمیان کاٹن کے شعبے میں بھی تعاون جاری ہے۔ چین کپاس کی پیداوار میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔ چین کپاس کے جینوم(Genome) کی تحقیق میں پہلے نمبر پر ہے۔چین میں کپاس کی پیداوار دوہزار اٹھارہ اور انیس میں3.38 Million ہیکٹر ہے۔
چین اور پاکستان نے مشترکہ طور پر کپاس کی تحقیق کے لیے ایک لیبارٹری بھی قائم کی ہے۔ یہ لیبارٹری China-Pakistan joint Laboratory for Cotton Biotechnology کے نام سے چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز میں قائم ہے۔اپنی یونیورسٹی کے متعلق بتاتے ہوئے بابر اعجاز نے کہا کہ ان کی جامعہ چین کی قدیم ترین جامعات میں سے ہے اور یہ انیس سو پانچ (1905) میں قا ئم ہو ئی تھی۔مختلف انتظامی و ارتقائی مراحل سے گزرتی ہوئی یہ موجودہ شکل میں آئی۔اس کا شمار چین کی کلیدی قومی جامعات میں ہوتا ہے۔یہ جامعہ چین کے " پروجیکٹ 211 اور "985 میں شامل ہے۔
پروجیکٹ دوسو گیار ہ قومی کلیدی جامعات اور کالجز کے لیے چین کی وزارت تعلیم کی جانب سے انیس سو پچانوے میں شروع کیا گیا تھا۔چین کے اعلیٰ تعلیم کے معیاری اداروں کی تعداد سترہ سو کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے چھ فیصد پروجیکٹ دو سو گیارہ میں شامل ہیں۔ پروجیکٹ نو سو پچاسی کو چین کے صدر جیانگ زیمن نے شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد چین کے اعلی تعلیم کے اداروں کی ترقی اور بہتری تھا۔اس پراجیکٹ میں چین کی انتالیس جامعات شامل ہیں۔ سی آر آئی میںپیشہ ورانہ ذمہ داریاں اداکرتے ہوئے مختلف پاکستانی پی ایچ ڈی سکالرز سے ملاقات رہی اور ان سے بیش قیمت معلومات ملیں۔ چین کے علاقے نارتھ ویسٹ میں گندم ،مکئی ، چاول کاشت کیا جاتا ہے۔چاول کا تذکرہ چھڑا ہے تو یا دآیا کہ چین میں چاول بہت کھایا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں توکہا جاتا ہے کہ زیادہ چاول کھانے سے موٹاپا ہوتا ہے مگر چین میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ مگر ایک فرق البتہ یہ ضرور ہے کہ وہاں چاول عمومی طور پر جو کھائے جاتے ہیں وہ ہمارے ہاں کے چاولوں سے مختلف انداز میں پکے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں اُبلے ہو ئے چاول ہوتے ہیںاور اس کی مقدار بھی ایک کپ ہی استعمال کی جاتی ہے۔ہمارے ہاں کے ٹوٹا چاولو ں کی مانند ہوتے ہیں اور وہ آپس میں جڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو چاپ سٹکس سے کھانا آسان ہوتا ہے۔ چائینز اکیڈمی آف ایگریکلچر سائنسز ، بیجنگ سے وابستہ پاکستان کے شہر بھکر سے تعلق رکھنے والے سید عدیل ظفر چین میں چاولوں کی تحقیق سے وابستہ ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ چین کی آبادی کا ساٹھ فیصد(60%)چاول کو ایک اہم خوراک کے طور پر کھاتا ہے۔جس کی وجہ سے چین میں چاول کی کھپت بہت زیادہ ہے۔اس لیے سائنسدان اس کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہائبرڈ فصل کی طرف جا رہے ہیں۔
چین نے دنیا بھر میں چاول کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایک ا ہم کردار ادا کیا ہے۔چین نے دنیا بھر میں اولین سپر ہائبرڈ چاول کی کاشت کے تجربات کیے ہیں۔اس طریقہ کار نے روایتی طریقے سے پیدا ہونے والے چاول کی فصل کی پیداوار کو دُگنا کردیا ہے۔ ہائبرڈ چاول کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے کوششوں کی وجہ سے یوان لانگ پھنگ (Yuan Longping)کو فادر آف ہائبرڈ رائس) (Father of Hybrid Rice کہا جاتا ہے۔ یوان لانگ پھنگ نے اپنی کوشش، لگن، تحقیق اور محنت سے چین کے زرعی شعبے بالخصوص ہائبرڈ رائس کی پیداوار میں انقلاب بپا کردیا ہے۔
یوان لانگ پھنگ انیس سو تیس میں بیجنگ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ساوتھ ویسٹ ایگریکلچر انسٹیوٹ سے انیس سو ترپن میں گریجویشن کی۔انہوں نے انیس سو ساٹھ میں ہائبرڈ رائس کی کا شت کا خیال اس وقت پیش کیا جب زراعت کے لیے غیر موزوں پالیسیز اور قحط کی وجہ سے چین کو زرعی شعبے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ تب سے انہوں نے اپنی ذات کو چاول کی بہتر پیداوار اور چاول کی تحقیق کے لیے وقف کردیا۔انیس سو چونسٹھ میں انہیں اپنے Hybridization کے تجربے کے لیے ایک نیچرل رائس پلانٹ مل ہی گیا جس کو دیگر اقسام پر برتری حاصل تھی۔
انہوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔انیس سو تہتر میں وہ ہائبرڈ رائس کی پیداوار میں کامیاب ہوئے۔اس کی پیداوار روایتی طریقہ کار کے مقابلے میں بیس فیصد زیادہ تھی۔انیس سو اناسی میں ہائبرڈ رائس کی تیکنیک کو امریکہ منتقل کیا گیا اور یہ چین کا پہلا انٹیلیکچول پراپرٹی رائٹ (حقوقِ املاکِ دانش) کا معاملہ تھا۔اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق چین کے چاول کے کھیتوں میں پچاس فیصد یوان لانگ پھنگ کے ہائبرڈ نسل کی چاولوں کو ہی کاشت کیا جارہا ہے۔اس سے چین میں چاولوں کی پیداوار کا ساٹھ فیصد حاصل کیا جا رہا ہے۔اس سے چین میں چاولوں کی پیداوار کئی بلین کلوگرام بڑھی ہے۔انیس سو ساٹھ میں ایک مُو (Mu) (چین میںزرعی زمین کی پیمائش کا ایک پیمانہ ) سے چاول کی پیداوار تین سوکلو گرام ہوا کرتی تھی۔ یوان لانگ پھنگ کی کوششوں سے یہ پیداوار اب تین سو من فی ایکڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ہمارے ہاں یہ پیداوار 70/80 من ہے ۔ اگر موٹا چاول بھی کاشت کیا جائے تو اس کی پیداوار 100 من تک ہے۔چین میں یہ ڈھائی سو تین سو من تک ہے۔
دنیا بھر کے کئی ممالک میں ہائبرڈ رائس کی کاشت جاری ہے۔ اب تو پاکستان میں بھی چین سے درآمد شدہ ہائبرڈرائس استعمال ہو رہا ہے۔ایک پاکستانی زرعی سائنسدان نے بتایا کہ انہیں ایک زرعی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملاتو وہاں ایک زرعی ماہر نے چاول کی پیداوارکا حجم ایسا بتایا جو بظاہر ناقابل یقین لگتا تھا۔مگر چونکہ بتانے والے ایک تحقیق کار تھے اس لیے یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔زرعی ماہر نے بتایا کہ آزمائشی بنیادوں پر اس کی کاشت جاری ہے۔یہ آزمائشی کاشت پانچ اور دس ایکڑ پر محیط کھیتوں میں کی جارہی ہے۔اس میں مختلف حکومتی ، نجی ادارے شریک ہیں۔ مختلف زرعی شعبوں میں چین کا پاکستان کے ساتھ تعاون جاری ہے ۔
اس کے علاوہ پاکستان کے زرعی گریجویٹس اعلی تعلیم کے لیے چین کی مختلف زرعی جامعات چائنہ ایگریکلچر یونیورسٹی، نانجنگ ایگریکلچر یونیورسٹی، فوجیان ایگریکلچر یونیورسٹی، نارتھ ویسٹ ایگریکلچر اینڈ فاریسٹری یونیورسٹی، لانچو یونیورسٹی ، ہو زانگ ایگریکلچر یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں پڑھنے کے لیے جاتے ہیں۔ان طلباء کو چینی حکومت کی جانب سے سکالر شپ دیا جاتا ہے۔یہاں پڑھنے والے پاکستانی طالب علم جدید ٹیکنالوجی، جینیٹک ٹرانسفارمیشن اور نت نئے طریقے سیکھتے ہیںاور اس کو پاکستان میں آکر اپلائی کرتے ہیں۔
پاکستان میں انیس سو ستر تک زرعی تعلیم ، تحقیق اور ایکسٹینشن کے ادارے الگ الگ تھے۔جس کی وجہ سے ان تینوں اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور کمیونیکیشن کے مسائل رہے۔تعلیم دینے والے اپنے انداز میں تعلیم دیتے رہے۔ تحقیق کار اپنے کام میں مصروف رہے جبکہ ایکسٹینشن والے کسانوں کو آگاہی دیتے رہے۔ چین میں ایسا نہیں ہے وہاںمحمد اظہر نواز کے یونیورسٹی میں چینی استاد باقاعدگی سے فیلڈ کا وزٹ کرتے ہیں اور وہ کسانوں سے براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔اور انہیں ٹیکنالوجی ٹرانسفر یا دیگر معلومات فراہم کرتے ہیں۔چین میں زرعی تعلیم، تحقیق اور کسانوں کو آگاہی دینے کا کام ایک ساتھ کیا جاتا ہے۔چین میں زرعی تحقیق کے لیے حکومت کی جانب سے کثیر فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیںاور دنیا میں بائیو ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ کام چین میں ہی ہورہا ہے ۔
زراعت کا ذکر ہو رہا ہے تو کچھ تذکرہ لائیو سٹاک کا بھی ہوجا ئے۔ چین میں گوشت کی کھپت بہت زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ وہاں پورک کھایا جاتا ہے۔ چین کو Biggest Animal Farming Nation بھی کہا جاتا ہے ۔لوگ شوق سے مختلف اقسام کا گوشت کھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں پائے جانے والی Pigs کی آبادی کا نصف چین میں پایا جاتا ہے۔ ا س جانو ر کے تو باقاعدہ فارمز ہیں جہاں اس کو پالا جاتا ہے ۔ چین میں کسانوں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ اس جانور کی پرورش سے وابستہ ہے۔ چین کے صوبے سیچوان میں Pigs کی پرورش زیادہ کی جاتی ہے۔
اس کے بعد چھوٹا گوشت ، بڑا گوشت اور چکن کا نمبر آتا ہے۔چین میں گوشت کی مارکیٹ کے علاقے شندونگ Shandong، ہینان Henan، حہ بے Hebei ، انہوئی Anhui، جیلن Jilin، ہیلینانگجیانگ Heilongiang ، لیاؤ ننگ Liaoning ، انر منگولیا Inner Mongolia ، گانسو Gansu شانسیhanxi S سچوان Sichuan چھنگ چھنگ Chongqing ، ینان Yunnaan وغیرہ مشہور ہیں۔چین میں بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کی وجہ سے گوشت کی کھپت 111% بڑھ گئی ہے۔
اس کے علاوہ چین میں Sea Food کی تمام اقسام کی پیداوار بہت زیادہ ہے۔چین میں 4936 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ چین میں سمندری مچھلی کے علاوہ فارمنگ کے ذریعے بھی فش کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق چین میں 37 ملین ٹن سے زائد مچھلی فارمز کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے جوکہ دنیا بھر میں مچھلی کی پیداوار کے 60% سے زائدہے۔ وہاں جھینگے کی فارمنگ بہت زیادہ ہے۔مغربی چین کے دیہی علاقوں میں خانہ بدوش قبائل بھیڑ، بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں۔چین میں سرمایہ کاری ، حکومتی پالیسیوں اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے چین کی لائیو سٹاک پاپولیشن 144 ملین سے تجاوز کر چکی ہے ۔اس کی وجہ سے اس کا معاشی جحم ساٹھ گنا بڑھ گیا ہے۔
قدرت چین کو فطرتی خوبصورتی سے نوازنے میں بہت فیاض ہے۔چین بھر میں سر سبز پہاڑ ، سمندر، دریا ، جھیلیں، ندیاں اورطویل پہاڑی سلسلے ہیں۔چین نے اس سب کے تحفظ کا بھی خوب انتظام کیا ہوا ہے۔یہاں جنگلات کا رقبہ دو سو آٹھ ملین ہیکٹر پر مشتمل ہے۔چین کی زمین کا 21.63% حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔
جنگلات کا کل حجم پندرہ ہزار ایک سو سینتیس ملین کیوبک میٹرز پر مشتمل ہے۔چین میں انیس سو نوے کی دہائی سے جنگلات کے رقبے،حجم میں اضافہ ہوا ہے۔چین کی اسٹیٹ فاریسٹری ایڈمنسٹریشن کے تحت انیس سو ستر سے نیشنل فاریسٹ انوینٹری کو maintain کیا جا رہا ہے۔ ہر پانچ سال بعد اس انوینٹری کا ازسر نو جائزہ لیا جاتا ہے۔دو ہزارتیرہ کے اختتام تک پانچ ایسے سرویز مکمل ہو چکے ہیں۔سروے میں چار لاکھ پندرہ ہزار مستقل سیمپل پلاٹس اور اٹھائیس لاکھ ،چوالیس ہزار چارسو Remote Sensing Plotsکا جائزہ لیا جاتا ہے۔جائزے میں ان کی مقدار، معیار اور فاریسٹ ریسورس کے سٹرکچر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس سروے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد لی جاتی ہے۔جنگلات کے اس وسیع حجم کی وجہ سے چین دنیا کی Wood Workshop کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔فرنیچر کی عالمی تجارت کا ایک تہائی حصہ چین کے پاس ہے۔
چین عالمی حیاتیاتی توازن کو برقرار رکھنے، بائیوڈائیورسٹی کو محفوظ رکھنے، ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے اور پائیدار معاشی، حیاتیاتی اور سماجی ترقی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ (جاری ہے)
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ،چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس ، بیجنگ